اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

سر زمين شام و عراق كى فتح

چوتھا سبق

رسول اكرم(ص) كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك 3

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت على (ع) ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت على (ع) كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں علي(ع) كا رويہ

حضرت على (ع) كى شركت اور اس كى وجہ

 

76

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت على (ع) كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت على (ع) كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران على (ع) كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

 

77

رسول اكرم(ص) كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك 3

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل ( يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا ) كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

 

78

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت على (ع) كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _ (5)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں '' (6) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (80) سے كم ہى ہے (7)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (72) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے (8)

حضرت على (ع) ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت على (ع) سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت على (ع) كتاب خدا ،حديث رسول (ع) اور اسلام

 

79

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خدا(ص) كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسول(ص) سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت على (ع) سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخدا(ص) كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _ (9)

2 _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت على (ع) كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں_(10)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خدا(ص) كا مسلمانوں كے لئے ہے ... بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

 

80

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_(11)

حضرت على (ع) نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور ( على (ع) كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت ( كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(12)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيںيہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں_

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(14 ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(12) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

 

81

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ 14 ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ 17 ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ 19 ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں'' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خدا (ص) كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيںہوتا

 

82

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم (ص) كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرم (ص) اور شير خدا على (ع) جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت على (ع) كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت على (ع) خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت على (ع) نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

 

83

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميںبھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت على (ع) كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے على (ع) كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_ (13)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت على (ع) نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(14)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(15) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت على (ع) كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا ''لو لا على (ع) لھلك عمر'' _''اگر على (ع) نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(16)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت على (ع) كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيت (ع) كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

 

84

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

1_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(17)

2_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

3_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيںخليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(18)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(19)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرم (ص) كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپ (ص) كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبر (ص) كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

 

85

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(20) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(21)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشےہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(22) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(23)رسول اكرم (ص) كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خدا (ص) كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرم (ص) كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

 

86

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں_(24)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں_

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ 23 ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرم (ص) اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت على (ع) _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

 

87

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے ... اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں_ (25)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت على (ع) كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت على (ع) اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت على (ع) كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسول(ص) اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت على (ع) نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرم (ص) اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(26)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت على (ع) كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت على (ع) نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

 

88

مقابل لايا گيا ہے_(27)

جب شورى كے نتيجے كا اعلان كيا گيا تو اس وقت بھى آپ نے فرمايا تھا عمر نے اپنى موت كے بعد خلافت كو ايك جماعت ميں محدود كرديا اور مجھے بھى اس جماعت كا ايك ركن قرار ديا ہے بھلا ميرا اس شورى سے كيا تعلق ہے ان ميں سے سب سے پہلے ہى كے مقابلہ ميں ميرے استحقاق ميں كب شك تھا كہ جواب اس قسم كے لوگوں ميں شامل كرليا گيا ہوں؟ وہ پرندہ كى طرح كبھى زمين پر چلتے تھے اور كبھى اڑنے لگتے تھے مجبوراً ميں نے بھى نشيب وفراز ميں ان سے ہم آہنگى كى ان ميں سے ايك (سعد بن ابى وقاص) تو كينہ توزى كى وجہ سے حضرت عثمان كى طرف چلاگيا اور دوسرا (عبدالرحمن بن عوف) دامادى اور بعض ناگفتہ باتوں كى وجہ سے ادھر جھك گيا_(28)

حضرت على (ع) نے اپنے اس بيان كے ذريعے اس مجلس مشاورت كے حقيقى چہرے كو بے نقاب كرديا اور يہ بات واضح كردى كہ آپ كا شمار كسى طرح بھى اس شورى كے اراكين ميں نہےں ہے اس كے علاوہ عثمان كے حق ميں رائے دہى ان كے رائے غير جانبدار نہ تھى بلكہ اس ميں كينہ توزى اور قرابت دارى جيسى ذاتى اغراض شامل تھيں اور جس وقت خلافت كيلئے فيصلہ كيا جارہا تھا اس وقت يہ عوامل كار فرما تھے_

حضرت على (ع) كى شركت اور اس كى وجہ

جيسا كہ اس سے قبل اشارہ كياجاچكا ہے كہ عمر نے جس شورى كى تشكيل كى تھى اس كى ہيئت شروع سے ہى يہ بتا رہى تھى كہ اس كے ذريعے حضرت علي(ع) كو اميرالمومنين (ع) منتخب نہيں كياجائے گا اب يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ جب حضرت على (ع) نے جب پہلے ہى يہ انداز لگاليا تھا تو آپ نے اس شورى ميں شركت ہى كيوں فرمائي؟

اس سوال كا جواب دينے كے لئے ضرورى ہے كہ ان نكات كى جانب توجہ دلائي جائے جن ميں بعض آپ ہى كے اقوال ہيں_

 

89

1_ ابن عباس نے آپ سے كہا تھا كہ اس شورى ميں شركت نہ كيجئے تواس پر آپ نے يہ فرمايا كہ مجھے اختلاف پسند نہيں _ (29)

2_ قطب راوندى كے قول كے مطابق ابن عباس كے سوال كے جواب ميں ہى آپ نے يہ فرمايا تھا كہ ميں جانتا تھا كہ شورى كى تشكيل كس نہج پر ہوئي ہے اس كے باعث خلافت ہمارى خاندان سے چلى جائے گى ليكن ميں نے ان كى اس شورى ميں شركت كى جس كى وجہ يہ تھى كہ عمر نے مجھے خلافت كا اہل و شايستہ جانا ليكن اس سے قبل انہوں نے ہى كہا تھاكہ رسول خدا (ص) نے فرمايا ہے كہ نبوت اور امامت ايك گھر ميں جمع نہ ہوں اب ميں اس شورى ميں شامل كرليا گياہوں تو چاہتاہوں لوگوں كے سامنے كہ ان (عمر ) كے فعل كى ان كى بيان كردہ روايت كى مخالفت كو واضح كردوں_(30)

مذكورہ شورى ميں حضرت على (ع) كى عدم شركت كے باعث فيصلہ كرنے كا اختيار عبدالرحمن كو ہوتا ايسى صورت ميں اگر حضرت على (ع) مخالفت كرتے تو اس ہدايت كے مطابق جو عمر نے كى تھى تو آپ كو قتل كروايا جاتا اس اعتبار سے صحيح اور منطقى راہ وہى تھى جسے آپ نے پيش نظر ركھا_

عثمان كى خلافت

خليفہ دوم كى وفات كے بعد عثمان نے زمام امور اپنے ہاتھوں ميں سنبھالى ، انہوں نے روز اول سے وہى راہ اختيار كى جس كا عمر كو خدشہ تھا_ چنانچہ بتدريج اپنے قرابت داروں( بنى اميہ) كو اہم مناصب پرمقرر كرنا شروع كيا_

اپنے ماموں زاد بھائي عبداللہ ابن عامر كو جس كى عمر ابھى پچيس سال ہى كى تھى بصرے كا والى مقرر كرديا اور اپنے ماموں وليد ابن عقبہ جيسے بدكار شخض كو كوفہ كا گورنر مقرر كيا يہ شخص بحالت مستى مسجد ميں داخل ہوا اور فجر كى نماز ميں چار ركعت پڑھادى نماز پڑھانے كے بعد اس نے اپنے مقتديوں سے كہا كہ اگر آپ چاہيں تو ميں مزيد چند ركعت پڑھاسكتاہوں_

 

90

معاويہ كو عمر نے دمشق اور اردن كا گورنر مقرر كيا تھا ليكن عثمان نے ان ميں حمص ، فلسطين اور جزيرہ كے علاقوں كا بھى اضافہ كرديا اور اس كے لئے ايسے مواقع فراہم كرديئے جس سے اس كے تسلط واقتدار ميں اضافہ ہوسكے_

اسى طرح انہوں نے اپنے رضاعى بھائي عبداللہ بن سعد كو مصر كا گورنر مقرر كيا_ مروان بن حكم كو پيغمبر اكرم (ص) نے شہر بدر كرديا تھا مگر عثمان نے اسے اپنے حواريوں ميں شامل كركے اسے اپنا مشير مقرر كرديا_

مختصر يہ كہ ان كى خلافت كے دوران قليل عرصے ميں ہى بصرہ، كوفہ ، شام اور مصر جيسے چار عظےم صوبے جنہيں فوجى اجتماعى اور اقتصادى اعتبار سے خاص اہميت حاصل تھى ، بنى اميہ كے زير تسلط آگئے اور وہ عرب خاندان جو صحابہ رسول (ص) كى نسلوں سے تھے نيز ديگر افراد قبائل حكومت كے عہدوں سے محروم كرديئے گئے_

اموى دستے نے بھى اس موقع كو غنيمت جانا اور شروع سے ہى اپنى وضع وحالت كو استحكام دينے سے كوئي دقيقہ فرو گذاشت نہ كيا_

ابوسفيان نے عثمان كے دور خلافت كى ابتدا ميں ہى اپنے قبيلے كے لوگوں سے كہنا شروع كرديا تھا كہ اے بنى اميہ حكومت كو گيند كى مانند ايك ہاتھ سے دوسرے ہاتھ كى جانب اچھالتے رہو ... ميرى ہميشہ يہى آرزو رہى ہے كہ حكومت تمہارے ہى ہاتھوں ميں رہے اور تمہارے بچوں كو ورثے ميں ملے_ (31) ابوسفيان كى نصےحت كے مطابق بنى اميہ اس پر كاربند ہوگئے كہ امور حكومت ميں داخل ہوكر اپنے ان رسوخ كو وسيع كريں اور خلافت كو سلطنت ميں تبديل كرديں تاكہ اسے اموى خاندان كى ميراث بنانے ميں كامياب ہوسكيں_

مسلمانوں كا بيت المال

وہ كثير دولت جو تازہ مفتوحہ علاقوں سے بطور خراج اور مال غنيمت خلافت اسلاميہ كے مركز كى

 

91

جانب كشاں كشاں چلى آرہى تھى ، ايسا طرہ امتياز بن گئي تھى جس نے خليفہ سوم كى حيثيت كو ديگر خلفاء سے عليحدہ كرديا تھا_ چنانچہ خليفہ نے خود ہى يہ امتياز حاصل كرليا تھا كہ اگر چاہيں تو وہ اس مال و دولت ميں تصرف كرسكتے ہيں_

قرابت دار،ہم قوم افراد ،قريش كے امرا اور بعض اراكين مجلس ومشاورت اس مال و دولت سے بخشش و بخشايش كے ذريعے فيضياب ہورہے تھے_ اسلامى خلافت كى وسيع و عريض سرزمين پر صوبہ دار اور حكام بھى اسى راہ و روش پر عمل كر رہے تھے_( 33) چنانچہ مسعودى لكھتا ہے كہ : جس وقت عثمان كا قتل ہوا اس وقت ان كے پاس ايك لاكھ پچاس ہزار سونے كے دينار تھے اور دس لاكھ درہم تھے_ ''وادى القري'' ، ''حنين '' اور ديگر مقامات پر جو باغات تھے ان كى قيمت كا تخمينہ ايك لاكھ سونے كے دينار لگايا گيا تھا _ اونٹوں كے گلے اور گھوڑوں كے غول ان سے عليحدہ تھے _(34) حاكم بصرہ بيت المال سے جو سونے اور چاندى كے سكے نكال كر عثمان كے پاس لايا تھا انہوں نے انہيں كيل سے ناپ ناپ كر پيمانے سے خاندان بنى اميہ كى خواتين اور ان كے بچوں كے درميان تقسيم كئے تھے_(35)

عبداللہ بن شرح كو پيغمبر اكرم (ص) نے شہر بدر كرديا تھا _ فتح افريقہ كے بعد جب وہ واپس آيا اور وہاں سے مال غنيمت اپنے ساتھ لايا تو اس كى قيمت پچيس لاكھ بيس ہزار دينار تھى _ عثمان نے يہ سارا مال اسے ہى بخش ديا_(36)

ايك روز اس نے حكم ديا كہ بيت المال سے دو لاكھ درہم سفيان اور ايك لاكھ درہم مروان كو عطا كرديئے جائيں _ (37) اس كے علاوہ ديگر ايسے بہت سے مواقع پر جن كے ذكر كى يہاں گنجائشے نہيں ، موصوف نے دل كھول كر داد و دہش سے كام ليا_

حضرت على (ع) كے پندو نصايح

جس وقت لوگ اور بزرگ صحابى عثمان كى راہ و روش اور ان كے كارندوں كى زيادتيوں سے

 

92

تنگ آگئے تو وہ حضرت على (ع) كے پاس پہنچے اور شكايات كے ضمن ميں يہ درخواست كى كہ وہ ان كے نمايندے كى حيثيت سے عثمان كے پاس جائيں اور كہيں كہ وہ لوگوں كو اپنے كارندوں كے شر سے نجات دلائيں _اميرالمومنين حضرت على (ع) عثمان كے پاس تشريف لے گئے اور آپ نے نصيحت فرمائي _ دوران گفتگو ان سے كہاكہ : ... عثمان خدا سے ڈرو اور اپنے اوپر رحم كرو ... خدا كے بہترين بندوں ميں وہ عادل پيشوا ہے جو خود ہدايت يافتہ ہو اور دوسروں كو بھى ہدايت كرے ... مروان سے تم اتنے نہ دبو كہ وہ تمہيں اس پختہ عمر اور پيرانہ سالى ميں جہاں چاہے ليئے پھرے_(38) بعض صحابہ رسول اكرم (ص) نے جب عثمان كى كاركردگى اور ان كے كارندوں كى زيادتيوں پر اعتراض كيا تو عثمان كا عتاب نازل ہوا _ پيغمبر اكرم (ص) كے جن بزرگ صحابہ سے انہوں نے ناروا سلوك كيا ان ميں سے تين قابل ذكرہيں_

حضرت ابوذر (ع) نيك صالح بزرگ تھے ان كا شمار پيغمبر اكرم (ص) كے عظےم الشان صحابہ ميں ہوتا تھا _ عثمان نے انہيں شہر بدر كركے ''ربذہ'' (39) چلے جانے كا حكم ديا يہى نہيں بلكہ يہ حكم جارى كرديا كہ رخصت كرنے كى غرض سے ان كے ساتھ كوئي شخص نہ جائے_ چنانچہ جس وقت وہ روانہ ہوئے تو انہيں رخصت كرنے كے لئے حضرت على (ع) آپ كے دو فرزند اور حضرت عقيل و حضرت عمار ياسر كے علاوہ اور كوئي شخص نہ تھا _(40)

عمار ياسر اور عبداللہ بن مسعود بزرگ صحابہ رسول(ص) پر بھى وہى حالت گذر گئي جس سے حضرت ابوذر(ع) دوچار ہوئے تھے_ عبداللہ كے بارے ميں ان كے غلاموں كو حكم ديا گيا كہ وہ انہيں خوب زدو كوب كريں _چنانچہ انہوں نے موصوف كو اس برى طرح زمين پر پٹخا اور اتنا مارا كہ ان كى پسلياں ٹوٹ گئيں _ بيت المال سے جو انہيں وظيفہ دياجاتا تھا وہ بھى منقطع كرديا گيا اور لوگوں كو منع كرديا گيا كہ كوئي ان كى عيادت كو نہ جائے_ (41)

حضرت عمار نے جب يہ اعتراض كيا كہ بيت المال كو پانى كى طرح بہايا جارہا ہے اور حكومت كے عہدے نالايق افراد كو ديئے جارہے ہيں تو ان پر بھى خليفہ اور انكے خدمتگاروں كا عتاب نازل ہوا جن كے باعث وہ مرض فتق ميں مبتلا ہوگئے _ (42)

 

93

خليفہ سوم كا قتل

بنى اميہ كو كارگاہ خلافت اور ولايت كے صدر ومقامات پر بروئے كار اور بر سر اقتدار لانا ، ان كا موقع سے ناجائز فائدہ اٹھانا اور ان بزرگ ہستيوں كى جانب نكتہ چينى كيا جانا جن كا شمار بزرگ صحابہ رسول (ص) ميں ہوتاتھا ايسے عوامل تھے جن كے باعث لوگ عثمان كے خلاف طيش وغضب ميں آگئے اور انفرادى اعتراضات، عوامى غم وغصہ كا سبب بن گئے_

عوامى غم وغصہ كا مقابلہ كرنے كى غرض سے عثمان نے حاكم شام معاويہ اور بصرہ كے گورنر عبداللہ بن سعد كو خط لكھا اور مخالفين كى سركوبى كے لئے ان سے مدد چاہي_ (43)

مسلمين كو جب اس بات كى اطلاع ہوئي كہ خليفہ نے اپنى راہ و روش پر تجديد نظر كى بجائے ان كى سركوبى كے اقدامات شروع كرديئے ہيں تو انہوں نے فيصلہ كيا كہ اس قضيے كا فيصلہ ہى كرديں_ چنانچہ اس غرض سے كثير تعداد ميںلوگ مصر سے اور كچھ لوگ كوفہ سے مدينہ پہنچے ، مزيد مہاجرين و انصار بھى ان كے ساتھ شامل ہوگئے اور سب نے دل بناكر عثمان كے گھر كا محاصرہ كرليا_

اگرچہ عوام كے نمايندگان اور خليفہ كے درميان بہت زيادہ كشمكش نيز كئي مرتبہ طولانى گفتگو ہوئي اس موقع پر حضرت على (ع) نے خليفہ كو پند ونصائح بھى كئے اور عثمان نے ان پر كاربند رہنے كا وعدہ كيا مگر انہوں نے نہ صرف انہيں عملى جامہ نہ پہنايا بلكہ جنگ و مقابلے پر اتر آئے اور اس بات پر اصرار كركے كہہ ''وہ پيراہن جو خداوند متعال نے مجھے پہنايا ہے ميں اسے ہرگز نہ اتاروںگا'' (44) خلافت سے برطرف ہونے كے احتمال كو مسترد كرديا_

عثمان كے گھر كا محاصرہ چاليس دن تك جارى رہا اس دوران گھر كے اندر سے تير چلتے رہے جس ميں رسول خدا (ص) كے ايك ضعيف العمر صحابى بھى شہيد ہوگئے _ عوام نے مطالبہ كيا كہ قاتل كو ان كے حوالے كياجائے مگر انہوں نے يہ بات نہ مانى چنانچہ لوگوں نے ان كے گھر پر ہجوم بپا كرديا جس كے باعث عثمان قتل ہوگئے_(45)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تہذيبي انقلاب کي اہميت
حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)

 
user comment