اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

تحقیق احادیث سلام پیغمبر اسلام

تحقیق احادیث سلام پیغمبر اسلام

کھلی ہوئی بات ہے کہ اس واقعہ کو اکا بر محدثین نے مختلف شخصیات کے حوالہ سے نقل کیا ہے اور اس طرح یہ واقعہ تاریخی مسلمات میں شامل ہے جس میں کسی شک اور شبہہ کی گنجائش نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں جن شخصیات کا حوالہ دیا گیا ہے۔ ان میں خود اہلبیت علیہم السلام شامل ہیں ( امالی صدوق (ر) 1 ص 429 ، عیون اخبار الرضا 1 ص 240 ، ینابیع المودة 2 ص 59 ، مقتل خوارزمی 1 ص 67 ، تفسیر فرات کوفی ص 339۔

صحابہ کرام میں ابوسعید خدری ہیں۔(درمنثور 6 ص 606 ، المعجمع الکبیر 3 ص 56 / 2671 ، 2674 ، مناقب خوارزمی 60 ص 280 ، شواہد التنزیل 2 ص 46 ، مجمع البیان 7 ص 59)۔

انس بن مالک ہیں اور عبداللہ بن عباس ہیں ۔( درمنثور 6 ص 606 ، احقاق الحق 9 ص 56)۔

اس کے بعد یہ مسئلہ کہ یہ واقعہ کتنی مرتبہ پیش آیاہے۔؟ اس سلسلہ میں تین طرح کی روایات ہیں۔

قسم اول! وہ روایات جن میں روزانہ سرکار دو عالم کا یہ طرز عمل نقل کیا گیا ہے کہ جب نماز صبح کے لئے مسجد کی طرف تشریف لے جاتے تھے تو علی (ع) و فاطمہ (ع) کے دروازہ پر کھڑی ہوکر سلام کرکے ، آیت تطہیر کی تلاوت فرماکر انھیں قیام نماز کی دعوت دیا کرتے تھے۔

قسم دوم ! وہ روایات ہیں جن میں راوی نے متعدد بار اس عمل کے مشاہدہ کا ذکر کیا ہے ۔( در منثور 6 ص 606 ، تفسیر طبری 22 / 6 ، تاریخ کبیر 8 ص 725 امالی طوسی 251 ، 447 ، شواہد التنزیل 2 ص 81 / 700۔

قسم سوم ! وہ روایات ہیں جن میں روزانہ کے معمول کا ذکر نہیں ہے بلکہ معینہ ایام کا ذکر ہے اور یہ بات قسم اول سے مختلف ہے، معینہ ایام کے بارے میں بھی بعض روایات میں 40 دن کا ذکر ہے۔( در منثور 6 ص 606 ، مناقب خوارزمی ص 60 / 28 ، مالی صدوق (ر) 1 ص 429 )۔

بعض روایات میں ایک ماہ کا ذکر ہے۔( اسدالغابہ 5 ص 381 / 5390 مسند ابوداؤد طیالسی ص 274)۔

بعض روایات میں چھ ما ہ کا ذکر ہے۔( تفسیر طبری 22 ص6، درمنثور 6 ص 606 ینابیع المودة 2 ص119 ، ذخائر العقبيٰ ص 24 ، العمدہ ص 45 ۔

بعض روایات میں آٹھ ماہ کا ذکر ہے۔( درمنثور 6 ص 606 کفایة الطالب ص 377)۔

بعض روایات میں 9 ماہ کا ذکر ہے۔( مناقب خوارزمی 60 / 29 مشکل الآثار 1 ص 337 ، العمدة 41 /27 ، ذخائر العقبيٰ ص25 ، کفایة الطالب ص 376۔ کھلی ہوئی بات ہے کہ پہلی اور دوسری قسم میں کسی طرح کا تضاد نہیں ہے اور انھیں دونوں قسموں سے یہ اندازہ ہوتاہے کہ قسم سوم کی تمام روایات اگر اپنی اصلی حالت پر باقی ہیں اور ان میں کسی طرح کی تحریف نہیں ہوئی ہے تو ان کا مقصد بھی افراد کے مشاہدہ کا تذکرہ ہے۔اعداد کا محدود کردینا نہیں ہے جو بات عقل و منطق کے مطابق ہے کہ ہر شخص کا مشاہدہ الگ الگ ہوسکتاہے۔

جس کا مقصد یہ ہے کہ رسول اکرم لفظ اہل البیت (ع) اور لفظ اہل کی وضاحت کے لئے ایک مدت تک روزانہ نماز صبح کے وقت در علی (ع) وفاطمہ (ع) پر آکر انھیں اہل البیت (ع) کہہ کر سلام کیا کرتے تھے اور آیت تطہیر کی تلاوت کرکے نماز کی دعوت دیا کرتے تھے اور دنوں کا اختلاف صرف رایوں کے مشاہدہ کا فرق ہے، اس سے اصل عدد کے انحصار کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

البتہ بعض روایات سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ اس عمل کا آیت تطہیر سے نہیں بلکہ آیت ” و امرا ھلک بالصلوة“ سے تعلق تھا جیسا کہ ابوسعید خدری سے نقل کیا گیا ہے کہ حضور آیت نماز کے نزول کے بعد آٹھ ماہ تک در فاطمہ (ع) پر آکر فرمایا کرتے تھے” الصلٰوة رحمکم اللہ اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرمایا کرتے تھے ۔( در منثورہ ص 613 ، اخراج ابن مردویہ ، ابن عساکر، ابن النجار)۔

جس کے بارے میں علامہ طباطبائی نے فرمایا ہے کہ اس روایات سے ظاہر ہوتاہے کہ آیت ” و امر اھلک بالصلٰوة “ مدینہ میں نازل ہوئی ہے ، حالانکہ یہ کہنے والا کوئی نہیں ہے لہذا واقعہ کا تعلق آیت تطہیر سے ہے آیت نماز سے نہیں ہے… مگر یہ کہ اس واقعہ کی اس طرح تاویل کی جائے کہ آیت مکہ میں نازل ہوئی تھی لیکن حضور نے عمل مدینہ میں کیا ہے جو بات الفاظ روایات سے کسی طرح بھی ہم آہنگ نہیں ہے۔ (تفسیر المیزان 14 ص 242)۔

 

عدد ائمہ اہلبیت (ع)

75 ۔ جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم سے جمعہ کے دن ” رجم ِاسلمی کی شام“ یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ یہ دین یونہی قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا تم پر میرے بارہ خلفاء قائم رہے گا جب تک قیامت نہ آجائے یا تم پر میرے بارہ خلفا ء نہ گذر جائیں جو سب کے سب قریش سے ہوں گے۔( صحیح مسلم 3 / 1453 ، مسند ابن حنبل 7/ 410 / 20869 ، مسند ابویعلی ٰ 6 / 473 / 7429 ۔ آخر الذکر دونوں روایات میں ” یا“ کے بجائے ” اور “ کا ذکر کیا گیا ہے۔

76۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم کو یہ کہتے سناہے کہ امت کے بارہ امیر ہوں گے، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں سن نہیں سکا تو میرے والد نے فرمایا کہ وہ کلمہ یہ تھا کہ سب کے سب قریش سے ہوں گے۔ (صحیح بخاری 6 /2640 / 6796)۔

77۔جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ میں نے رسول اکرم کو یہ فرماتے سناہے کہ یہ امر دین یونہی چلتا رہے گا جب تک بارہ افراد کی حکومت رہے گی اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نے سن سکا تو والد سے دریافت کیا اور انھوں نے بتایا کہ ” کلھم من قریش“ فرمایا تھا۔ ( صحیح مسلم 3 ص 1452 خصال 473 / 27)۔

78۔ جابر بن سمرہ کا بیان ہے کہ حضور نے فرمایا کہ میرے بعد بارہ امیر ہوں گے، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا اور قریب والے سے دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ ” کلھم من قریش“ کہا تھا۔( سنن ترمذی 4 ص501 /2223 ، مسند ابن حنبل 7/ 430 / 20995)۔

79۔جابر بن سمرہ ! میں نے رسول اکرم کی زبان سے سنا کہ اسلام بارہ خلفاء تک باعزّت رہے گا، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سمجھ سکا تو والد سے دریافت کیا اور انھوں نے فرمایا کہ ” کلھم من قریش“ فرمایا تھا۔( صحیح مسلم 3 ص 1453 ، مسند ابن حنبل 7/ 412 / 20882، سنن ابی داؤد 4 / 106 / 4280 )۔

80۔ ابوجحیفہ کا بیان ہے کہ میں اپنے چچا کے ساتھ رسول اکرم کی خدمت میں تھا جب آپ نے فرمایا کہ میرے امت کے امور درست رہیں گے یہاں تک کہ بارہ خلیفہ گذر جائیں، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں نہ سن سکا تو میں نے چچا سے دریافت کیا جو میرے سامنے کھڑے تھے تو انھوں نے بتایا کہ کلھم من قریش فرما یا تھا۔( مستدرک 716 / 6589 ، المعجم الکبیر 22 / 120 / 308 ، تاریخ کبیر 8/ 411 / 5320 ، امالی صدوق(ر) 255 /8)۔

81 ۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ رسول اکرم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ آگاہ ہوجاؤ یہ امر دین تمام نہ ہوگا جب تک بارہ خلیفہ نہ گذر جائیں، اس کے بعد کچھ اور فرمایا جو میں سمجھ نہ سکا تو اپنے والد سے دریافت کیا اور انھوں نے بتایا کہ آپ نے کلھم من قریش فرمایا تھا( تاریخ واسط ص 98 ، خصال ص 1670)۔

82 ۔ جابر بن سمرہ کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ہمراہ رسول اکرم کے پاس تھا جب آپ سے یہ ارشاد سنا کہ میرے بارہ خلیفہ ہوں گے ، اس کے بعد آپ کی آواز دھیمی ہوگئی اور میں نہ سن سکا تو بابا سے دریافت کیا کہ یہ دھیرے سے کیا فرمایا تھا تو انھوں نے بتایا کہ ” کلھم من بني ھاشم“ فرمایا تھا۔( ینابیع المودة 3 ص 290 ، احقاق الحق 13 ص 30)۔

83 ۔ مسروق کا بیان ہے کہ یہ سب عبداللہ بن مسعود کے پاس بیٹھے تھے اور وہ قرآن پڑھا رہے تھا کہ ایک شخص نے دریافت کرلیا ” یا ابا عبدالرحمٰان ! کیا آپ نے کبھی حضور سے دریافت کیا ہے کہ اس ا مت میں کتنے خلفاء حکومت کریں گے ! تو ابن مسعود نے کہا کہ جب سے میں عراق سے آیاہوں آج تک کسی نے یہ سوال نہیں کیا لیکن تم نے پوچھ لیا ہے تو سنو ! میں نے حضور سے دریافت کیا تھا تو انھوں نے فرمایا تھا بارہ ۔ جتنے بني اسرائیل کے نقیب تھے۔( مسند ابن حنبل 2 ص 55 / 3781 ، مستدرک 4 ص 546 / 8529)۔

84 ۔ابوسعید نے امام (ع) باقر کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ میری اولاد میں بارہ نقیب پیدا ہوں گے جو سب کے سب طیّب و طاہر اور خدا کی طرف سے صاحبان فہم او ر محدّث ہوں گے، ان کا آخری حق کے ساتھ قیام کرنے والا ہوگا جو دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا جس طرح ظلم و جور سے بھری ہوگی ۔( کافی 1 ص 534/18)۔

85 ۔ ابن عباس نے ” والسماء ذات البروج“ کی تفسیر میں رسول اکرم سے نقل کیا ہے کہ حضور نے فرمایا کہ سماء میری ذات ہے اور بروج میرے اہلبیت (ع) اور میری عترت کے ائمہ ہیں جن کے اول علی (ع) ہیں اور آخر مہدی ہوں گے اور کل کے کل 12 ہوں گے ۔(ینابیع المودة 3 ص 254)۔

86۔ امام باقر (ع) نے اپنے والد کے والد کے حوالہ سے امام حسین (ع) سے نقل کیا ہے کہ میں اپنے برادر امام حسن (ع) کے ساتھ جد بزرگوار کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ہم دونوں کو زانو پر بٹھالیا اور بوسہ دے کر فرمایا کہ میرے ماں باپ قربان ہوجائیں تم جیسے صالح اماموں پر خدا نے تمھیں میری اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کی نسل میں منتخب قرار دیا ہے اور اے حسین (ع) تمھارے صلب سے نواماموں کا انتخاب کیا ہے جن میں کانواں قائم ہوگا اور سب کے سب فضل و منزلت میں پیش پروردگار ایک جیسے ہوں گے ۔ (کمال ادین 269 / 12 از ابوحمزہ ثمالی )۔

87 ۔ امام (ع) باقر ہی سے نقل کیا گیا ہے کہ آل محمد کے بارہ امام سب کے سب وہ ہوں گے جن سے ملائکہ باتیں کریں گے اور سب اولاد رسول اور اولاد علی (ع) میں ہوں گے، والدین سے مراد رسول اکرم اور حضرت علی (ع) ہی ہیں۔

( کافی 1 ص 525 ، من لا یحضرہ الفقیہ 4/179 /5406 ، خصال ص 466، عیون اخبار الرضا ص 40 امالی صدوق (ر) 97 ، کمال الدین ص 206 ، ارشاد 2 ص 345 ، کفایة الاثر 69 از انس بن مالک ص 143 ، از امام علی (ع) ص 187 از عائشہ ص 193 از جناب فاطمہ (ع) ص 180 از ام سلمہ ص 244 از اامام باقر (ع) ، اعلام الوریٰ ص 361 ، الغیبة طوسی (ر) ص 92 ، احتجاج طبرسی (ر) 1 ص 169 کامل الزیارات ص 52 ، روضة الواعظین ص 115 ، کتاب سلیم بن قیس الہلالی 2 ص 616 ، الیقین ابن طاؤس ص 244 ، فرائد السمطین 2 ص329 ، بشارة المصطفیٰ ص 192 ، اختصاص ص 233 ، جامع الاخبار ص 61 ، احقاق الحق 2 ص 353 4 ص 103794 ۔ 356 ، 5 ص 493 7 ص 477 ، 13 ص 1 ۔74، 19 ص 628 ، 20 ص 538 ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف

 
user comment