اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

آیت تطہیر کے نزول کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کا جائزہ لیا جائے تو صاف طور پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ آیت جناب ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے اور اس کا خود حضرت عائشہ نے بھی اقرار کیا ہے جیسا کہ ابوعبداللہ الحدبی سے نقل کیا گیا ہے کہ میں حضرت عائشہ کے پاس حاضر ہوا اور میں نے سوال کیا کہ آیت ” انما یرید اللہ “ کہاں نازل ہوئی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ بیت ام سلمہ میں ! ( تفسیر فرات کوفی 334 / 455)

دوسری روایت میں جناب ام سلمہ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ اگر خود عائشہ سے دریافت کروگے تو وہ بھی یہی کہیں گی کہ ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے۔ ( تفسیر فرات الکوفی 334)

شیخ مفید ابوعبداللہ محمد بن محمد بن النعمان فرماتے ہیں کہ اصحاب حدیث نے روایت کی ہے کہ اس آیت کے بارے میں عمر سے دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا کہ عائشہ سے دریافت کرو اور عائشہ نے فرمایا کہ میری بہن ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے لہذا انھیں اس کے بارے میں مجھ سے زیادہ علم ہے۔ ( الفصول المختارہ ص 53 ، 54)

مذکورہ بالا اور عبداللہ بن جعفر کی روایت سے واضح ہوتاہے کہ جناب ام سلمہ کے علاوہ عائشہ اور زینب جیسے افراد اس واقعہ کے عینی شاہد بھی ہیں اور انھوں نے ام سلمہ کی طرح چادر میں داخلہ کی درخواست بھی کی ہے اور حضور نے انکار فرمادیا ہے لہذا بعض محدثین کا یہ احتمال دینا کہ یہ واقعہ متعدد بار مختلف مقامات پر پیش آیاہے ، ایک بعید از قیاس مسئلہ ہے۔

 

 

اصحاب پیغمبر اور مفہوم اہلبیت (ع)

1 ۔ ابوسعید خدری (ع)

19 ۔ عطیہ نے ابوسعید الخدری سے رسول اکرم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ یہ آیت پانچ افراد کے بارے میں نازل ہوئی ہے، میں ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) ،حسین (ع) ۔(تفسیر طبری 12 / 6، در منثور 6 ص 604 ، العمدة 39 ص21)۔

20۔ عطیہ نے ابوسعید خدری سے آیت تطہیر کے بارے میں روایت نقل کی ہے کہ رسول اکرم نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن (ع) اور حسین (ع) کو جمع کرکے سب پر ایک چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، خدایا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ۔

اس وقت ام سلمہ دروازہ پر تھیں اور انھوں نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں اہلبیت (ع) میں نہیں ہوں ؟ تو آپ نے فرمایا کہ تم خیر پر ہو، یا تمہارا انجام بخیر ہے، ( تاریخ بغداد 10 ص 278 ، شواہد التنزیل 2 ص 38 / 657 ۔ 2 ص 139 / 774 ، تنبیہ الخواطر 1 ص 23)۔

21 ۔ ابوایوب الصیرفی کہتے ہیں کہ میں نے عطیہ کوفی کو یہ بیان کرتے ہوئے سناہے کہ میں نے ابوسعید خدری سے دریافت کیا تو انھوں نے بتایا کہ یہ آیت رسول اکرم ، علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن اور حسین (ع) کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔( امالی طوسی (ر) 248 / 438 ۔ المعجم الکبیر 3 ص 56 / 2673، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 75 / 108 ، اسباب نزول قرآن 368 / 696 )۔

 

2 ۔ ابوبرزہ اسلمی

22 ۔ ابوبرزہ کا بیان ہے کہ میں نے ، 17 مہینہ تک رسول اکرم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ اپنے گھر سے نکل کر فاطمہ (ع) کے دروازہ پر آتے تھے اور فرماتے تھے، نماز ! خدا تم پر رحمت نازل کرے اور یہ کہہ کر آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے ( مجمع الزوائد 9 ص 267 / 14986 )۔

3 ۔ ابوالحمراء

23 ۔ ابوداؤد نے ابوالحمراء سے نقل کیا ہے کہ میں نے پیغمبر اسلام کے دور میں سات مہینہ تک مدینہ میں حفاظتی فرض انجام دیا ہے اور میں دیکھتا تھا کہ حضور طلوع فجر کے وقت علی (ع) و فاطمہ (ع) کے دروازہ پر آکر فرماتے تھے ، الصلٰوة الصلٰوة ، اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔ ( تفسیر طبری 22 ص 6)۔

4 ۔ ابولیلیٰ انصاری

24 ۔ عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ نے اپنے والد کے حوالہ سے پیغمبر اسلام کا یہ ارشا د نقل کیا ہے کہ آپ نے علی (ع) مرتضیٰ سے فرمایا کہ میں سب سے پہلے جنّت میں داخل ہوگا اور اس کے بعد تم اور حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) … خدا یا یہ سب میرے اہل ہیں لہذا ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاک و پاکیزہ رکھنا ، خدایا ان کی نگرانی اور حفاظت فرمانا، تو ان کا ہوجا ، ان کی نصرت اور امداد فرما… انھیں عزت عطا فرما اور یہ ذلیل نہ ہونے پائیں اور مجھے انھیں میں زندہ رکھنا کہ تو ہر شے پر قادر ہے۔ ( امالی طوسی (ر) ص 352 / 272 ، مناقب خوارزمی 62 / 31)۔

 

5 ۔ انس بن مالک

25 ۔ انس بن مالک کا بیان ہے کہ رسول اکرم 6 ماہ تک فاطمہ (ع) کے درواز ہ سے نماز صبح کے وقت گذرتے تھے، الصلٰوة یا اہل البیت … اور اس کے بعد آیت تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے( سنن ترمذی 5 ص 352 / 3206 ، مسند احمد بن حنبل 4 ص 516 / 13730 ، فضائل الصحابہ ابن حنبل 2/761 / 1340 ، مستدرک 3 / 172 / 4748 ، المعجم الکبیر 3 / 65 / 2671 ، المصنف 7/427 ، تفسیر طبری 22 ص 6 اس کتاب میں اذاخرج کے بجائے کلما خرج ہے کہ جب بھی نماز کے لئے نکلتے تھے)۔

6 ۔ براء بن عازب

26 ۔ براء بن عازب کا بیان ہے کہ علی (ع) و فاطمہ (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) رسول اکرم کے دروازہ پر آئے تو آپ نے سب کو اپنی چادر اوڑھادی اور فرمایا کہ خدایا یہ میری عترت ہے ( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 2 / 437 / 944 ، شواہد التنزیل 2 / 26 / 645)۔

7۔ ثوبان

27۔ سلیمان المبنہی نے غلام پیغمبر اسلام ثوبان سے نقل کیا ہے کہ حضور جب بھی سفر فرماتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ (ع) سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ (ع) سے ملاقات کرتے تھے، ایک مرتبہ ایک غزوہ سے واپس آئے تو دروازہ پر ایک پردہ دیکھا اور حسن (ع) حسین (ع) کے ہاتھوں میں چاندی کے کڑے … تو گھر میں داخل نہیں ہوئے، جناب فاطمہ (ع) فوراً سمجھ گئیں اور پردہ کو اتار دیا اور بچوں کے کڑے بھی اتارلئے اور توڑ دیے، بچے روتے ہوئے پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے ، آپ نے دونوں سے لے لیا اور مجھ سے فرمایا کہ اسے لے جاکر مدینہ کے فلاں گھر والوں کو دیدو کہ میں اپنے اہلبیت (ع) کے بارے میں یہ پسند نہیں کرتا کہ یہ ان نعمتوں سے زندگانی دنیا میں استفادہ کریں، پھر فرمایا ثوبان جاؤ فاطمہ (ع) کے لئے ایک عصب (…) کا ہار اور بچوں کے لئے دو عاج ( ہاتھی دانت) کے کڑے خرید کر لے آؤ ( سنن ابی داؤد 4/ 87 / 4213 ، مسند احمد بن حنبل 8/ 320 / 22426، السنن الکبری ٰ 1 / 41 / 91 ، احقاق الحق 10 /234 ، 291)۔

واضح رہے کہ روایت کے جملہ تفصیلات کی ذمہ داری راوی پر ہے، مصنف کا مقصد صرف لفظ اہلبیت (ع) کا استعمال ہے،

جوادی ۔

28۔ ابوہریرہ اور ثوبان دونوں نے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم اپنے سفر کی ابتدا اور انتہا بیتِ فاطمہ (ع) پر فرمایا کرتے تھے ، چنانچہ ایک مرتبہ آپ نے اپنے پدر بزرگوار اور شوہر نامدار کی خاطر ایک خیبری چادر کا پردہ ڈال دیا جسے دیکھ کر حضور آگے بڑھ گئے اور آپ کے چہر ہ پر ناراضگی کے اثرات ظاہر ہوئے اور منبر کے پاس آکر بیٹھ گئے، فاطمہ (ع) کو جیسے ہی معلوم ہوا انھوں نے ہار ۔ بُندے اور کڑے سب اتار دیے اور پردہ بھی اتارکر بابا کی خدمت میں بھیج دیا اور عرض کی کہ اسے راہ خدا میں تقسیم کردیں، آپ نے یہ دیکھ کر تین بار فرمایا، یہ کارنامہ ہے۔ فاطمہ (ع) پر ان کا باپ قربان ۔ آل محمد کو دنیا سے کیا تعلق ہے، یہ سب آخرت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور دنیا دوسرے افراد کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ ( مناقب ابن شہر آشوب 3 ص 343)۔

نوٹ: تفصیلات کے اعتبار کے لئے حضرت ابوہریرہ کا نام ہی کافی ہے ۔

جوادی

 

8 ۔ جابر بن عبداللہ انصاری

29۔ ابن ابی عتیق نے جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے علی (ع) ۔ فاطمہ (ع) اور ان کے دونوں فرزندوں کو بلاکر ایک چادر اوڑھادی اور فرمایا ، خدا یا یہ میرے اہل ہیں، یہ میرے اہل ہیں، (شواہد التنزیل 2/ 28 / 647 ، مجمع البیان 8/ 560 ، احقاق الحق 2 ص 55 نقل از عوالم العلوم)۔

30 ۔ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے ہیں کہ میں ام سلمہ کے گھر میں رسول اکرم کی خدمت میں حاضر تھا کہ آیت تطہیر نازل ہوگئی اور آپ نے حسن (ع) حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو طلب کرکے اپنے سامنے بٹھایا اور علی (ع) کو پس پشت بٹھایا اور فرمایا ، خدایا یہ میرے اہلبیت ہیں ، ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں مکمل طور پر پاکیزہ رکھنا۔

ام سلمہ نے عرض کی یا رسول اللہ کیا میں بھی ان میں شامل ہوں ؟ فرمایا تمھارا انجام بخیر ہے۔

تو میں نے عرض کی ، حضور ا! اللہ نے اس عترت طاہرہ اور ذریّت طیبہ کو یہ شرف عنایت فرمایاہے کہ ان سے ہر رجس کو دور رکھاہے ، تو آپ نے فرمایا ، جابر ایسا کیوں نہ ہوتا، یہ میری عترت ہیں اور ان کا گوشت اور خون میرا گوشت اور خون ہے ، یہ میرا بھائی سید الاولیاء ہے۔

اور یہ میرے فرزند بہترین فرزند ہیں اور یہ میری بیٹي تمام عورتوں کی سردار ہے اور یاد رکھو کہ مہدی بھی ہمیں میں سے ہوگا ( کفایة الاثر ص 66)۔

9 ۔ زید بن ارقم

31 ۔ یزید بن حیان نے زید بن ارقم سے حدیث ثقلین کے ذیل میں نقل کیا ہے کہ میں نے دریافت کیا کہ آخر یہ اہلبیت (ع) کون ہیں ، کیا یہ ازواج ہیں تو انھوں نے فرمایا کہ ہرگز نہیں، عورت تو مرد کے ساتھ ایک عرصہ تک رہتی ہے ، اس کے بعد اگر طلاق دیدی تو اپنے گھر اور اپنی قوم کی طرف پلٹ جاتی ہے ” اور رشتہ ختم ہوجاتاہے“… اہلبیت (ع) وہ قرابتدار ہیں جن پر صدقہ حرام کردیا گیا ہے ( صحیح مسلم 4 ص 37 /1874)۔

10 ۔ زینب بنت ابی سلمہ

32۔ ابن لہیعہ کہتے ہیں کہ مجھ سے عمرو بن شعیب نے نقل کیا ہے کہ وہ زینب بنت ابی سلمہ کے یہاں وارد ہوئے تو انھوں نے یہ قصہ بیان کیا کہ رسول اکرم ام سلم ہکے گھر میں تھے کہ حسن (ع) و حسین (ع) اور فاطمہ (ع) آگئیں، آپ نے حسن (ع) کو ایک طرف بٹھایا اور حسین کو دوسری طرف ، فاطمہ (ع) کو سامنے جگہ دی اور پھر فرمایا کہ رحمت و برکات الہی تم اہلبیت (ع) کے لئے ہے، وہ پروردگار حمید بھی ہے اور مجید بھی ہے(المعجم الکبیر 24 ص 281 / 713 ) ۔

11 ۔ سعد بن ابی وقاص

33۔ عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے فرمایا کہ یہ میرے اہل ہیں( صحیح مسلم 4 / 32 / 1871 سنن ترمذی 5 / 225 / 2999 ، مسند ابن حنبل 1 / 391 / 1608 ، مستدرک 3/ 163 / 4719 ، السنن الکبریٰ 7 ص 101 / 13392 ، الدرالمنثور 2 ص 233 ، تاریخ دمشق حالات اما م علی (ع) 1 ص 207 / 271 ، امالی طوسی (ر) ص 307 / 616)۔

34 ۔ عامر بن سعد نے سعد سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم پر وحی نازل ہوئی تو آپ نے علی (ع) ، فاطمہ (ع) اور ان کے فرزندوں کو چادر میں لے کر فرمایا کہ خدایا یہی میرے اہل اور اہلبیت (ع) ہیں (مستدرک 3 ص 159 / 4708 السنن الکبریٰ 7 ص 101 / 13391، تفسیر طبری 33 / 8 ، الدرالمنثور 6 ص 605)۔

35۔ سعید بن جبیر نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ میں منزل ذی طویٰ میں معاویہ کے پاس موجود تھا جب سعد بن وقاص نے وارد ہوکر سلام کیا اور معاویہ نے قوم سے خطاب کرکے کہا کہ یہ سعد بن ابی وقاص ہیں جو علی (ع) کے دوستوں میں ہیں اور قوم نے یہ سن کر سر جھکالیا اور علی (ع) کو بُرا بھلا کہنا شروع کردیا ، سعد رونے لگے تو معاویہ نے پوچھا کہ آخر رونے کا سبب کیا ہے؟ سعد نے کہا کہ میں کیونکر نہ رؤوں ، رسول اکرم کے ایک صحابی کو گالیاں دی جارہی ہیں اور میری مجبوری ہے کہ میں روک بھی نہیں سکتاہوں !

جبکہ علی (ع) میں ایسے صفات تھے کہ اگر میرے پاس ایک بھی صفت ہوتی تو دنیا اور مافیہا سے بہتر سمجھتا!۔

یہ کہہ کر اوصاف علی (ع) کو شمار کرنا شروع کردیا … اور کہا کہ پانچویں صفت یہ ہے کہ جب آیت تطہیر نازل ہوئی تو پیغمبر اکرم نے علی (ع) حسن (ع) ، حسین (ع) اور فاطمہ (ع) کو بلاکر فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہل ہیں ان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ( امالی طوسی (ر) ص 598 / 1243)۔

36 ۔ سعد بن ابی وقاص کا بیان ہے کہ جب معاویہ نے انھیں امیر بنایا تو یہ سوال کیا کہ آخر تم ابوتراب کو گالیاں کیوں نہیں دیتے ہو؟ تو انھوں نے کہا کہ جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد رہیں گی جنھیں رسول اکرم نے فرمایاہے ۔ میں انھیں بر انہیں کہہ سکتاہوں اور اگر ان میں سے ایک بھی مجھے حاصل ہوجاتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ قیمتی ہوتی … ان میں سے ایک بات یہ ہے کہ جب آیت مباہلہ نازل ہوئی تو حضور نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو جمع کرکے فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہل ہیں۔ (سنن ترمذی 5 ص 638 / 3724 ، خصائص امیرالمؤمنین (ع) للنسائی 44 / 9 شواہد التنزیل 332 / 36 ، تفسیر عیاشی 1 ص 177 / 69)۔

12 ۔ صبیح مولیٰ ام سلمہ

37۔ ابراہیم بن عبدالرحمن بن صبیح مولی ٰ ام سلمہ نے اپنے جد صبیح سے نقل کیا ہے کہ میں رسول اکرم کے دروازہ پر حاضر تھا جب علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) آئے اور ایک طرف بیٹھ گئے، حضرت باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ تم سب خیر پر ہو، اس کے بعد آپ نے اپنی خیبری چادر ان سب کو اوڑھا دی اور فرمایا کہ جو تم سے جنگ کرے میری اس سے جنگ ہے اور جو تم سے صلح کرے میری اس سے صلح ہے ( المعجم الاوسط 3 / 407 / 2854، اسد الغابہ 3 / 7 /2481)۔

13۔ عبداللہ بن جعفر

38۔ اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اکرم نے رحمت کو نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا میرے پاس بلاؤ میرے پاس بلاؤ … صفیہ نے کہا یا رسول اللہ کس کو بلانا ہے؟ فرمایا میرے اہلبیت (ع) علی (ع) ، فاطمہ (ع) ، حسن، حسین (ع)۔

چنانچہ سب کو بلاگیا اور آپ نے سب کو اپنی چادر اوڑھادی اور ہاتھ اٹھاکر فرمایا خدایا یہ میری آل ہے لہذا محمد و آل محمد پر رحمت نازل فرما اور اس کے بعد آیت تطہیر نازل ہوگئی (مستدرک 3 ص 160 / 4709 ۔ شواہد التنزیل 2 ص 55 / 675 ، اس روایت میں صفیہ کے بجائے زینب کا ذکر ہے)۔

39۔ اسماعیل بن عبداللہ بن جعفر طیار نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ نے جبریل کو آسمان سے نازل ہوتے دیکھا تو فرمایا کہ میرے پاس کون بلادے گا ، میرے پاس کون بلادے گا …؟ زینب (ع) نے کہا کہ میں حاضر ہوں کسے بلانا ہے ؟ فرمایا علی (ع) ، فاطمہ (ع) حسن (ع) اور حسین (ع) کو بلاؤ ۔!

پھر آپ نے حسن (ع) کو داہنی طرف ، حسین (ع) کو بائیں طرف اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھاکر سب پر ایک چادر ڈال دی اور فرمایا خدایا ہر نبی کے اہل ہوتے ہیں اور میرے اہل یہ افراد ہیں جس کے بعد آیت تطہیر نازل ہوگئی اور زینب (ع) نے گزارش کی کہ میں چادر میں داخل نہیں ہوسکتی ہوں تو آپ نے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہو انش تم خیر پر ہو ۔ (شواہد التنزیل 2 ص53 / 673 ، فرائد السمطین 2/ 18 / 362 ، العمدة 04 / 24 ، احقاق الحق 9 ص 52 )۔

14 ۔ عبدالبہ بن عباس

40۔ عمرو بن میمون کا بیان ہے کہ میں ابن عباس کے پاس بیٹھا تھا کہ نو افراد کی جماعت وارد ہوگئی اور ان لوگوں نے کہا کہ یا آپ ہمارے ساتھ چلیں یا یہیں تنہائی کا انتظام کریں؟ ابن عباس نے کہا کہ میں ہی تم لوگوں کے ساتھ چل رہاہوں۔ اس زمانہ میں ان کی بینائی ٹھیک تھی اور نابینا نہیں ہوئے تھے، چنانچہ ساتھ گئے اور ان لوگوں نے آپس میں گفتگو شروع کردی، مجھے گفتگو کی تفصیل تو نہیں معلوم ہے، البتہ ابن عباس دامن جھاڑتے ہوئے اور اف اور تف کہتے ہوئے واپس آئے، افسوس یہ لوگ اس کے بارے میں برائیاں کررہے ہیں جس کے پاس دس ایسے فضائل ہیں جو کسی کو حاصل نہیں ہیں۔

یہ اس کے بارے میں کہہ رہے ہیں جس کے بارے میں رسول اکرم نے فرمایا تھا کہ عنقریب اس شخص کو بھیجوں گا جسے خدا کبھی رسوا نہیں ہونے دے گا اور وہ خدا و رسول کا چاہنے والا ہوگا … یہاں تک کہ یہ واقعہ بھی بیان کیا کہ حضور نے اپنی چادر علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) پر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی ۔( مستدرک 3 / 143 / 4652 ، مسند ابن حنبل 1 / 708 / 3062 ، خصائص نسائی 70 / 23 ، تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) / 189 / 250 ۔

41 ۔ عمرو بن میمون نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم نے حسن (ع) و حسین (ع) اور علی (ع) و فاطمہ (ع) کو بلاکر ان پر چادر ڈال دی اور فرمایا کہ خدایا یہ میرے اہلبیت اور اقرباء ہیں، ان سے رجس کو دو رکھنا اور انھیں حق طہارت کی منزل پر رکھنا ۔( تاریخ دمشق حالات امام علی (ع) 1 ص 184 / 249 ، شواہد التنزیل 2 / 50 / 670 ، احقاق الحق 15 ص 628 ۔ 631)۔

42 ۔ سعید بن جبیر ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا کہ خدا یا اگر تیرے کسی بھی نبی کے ورثہ اور اہلبیت (ع) ہیں تو علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) میرے اہلبیت (ع) اور میرے سرمایہ ہیں لہذاان سے ہر رجس کو دور رکھنا اور انھیں کمال طہارت کی منزل پر رکھنا۔

43۔ سعید بن المسیب نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ ایک دن رسول اکرم تشریف فرماتھے اور آپ کے پاس علی (ع) اور فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) بھی تھے کہ آپ نے دعا فرمائی خدایا تجھے معلوم ہے کہ یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں اور مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں لہذا ان کے دوست سے محبت کرنا اور ان کے دشمن سے دشمنی رکھنا ، جو ان سے موالات رکھے تو اس سے محبت کرنا جو ان سے دشمنی کرتے تو اس سے دشمنی کرنا ، ان کے مددگاروں کی مدد کرنا اور انھیں ہر رجس سے پاک رکھنا ، یہ گناہ سے محفوظ رہیں اور روح القدس کے ذریعہ ان کی تائید کرتے رہا۔

اس کے بعد آپ نے آسمان کی طرف ہاتھ بلندکیا اور فرمایا خدایا میں تجھے گواہ کرکے کہہ رہاہوں کہ میں ان کے دوستوں کا دوست اور ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں، ان سے صلح رکھنے والے کی مجھ سے صلح ہے اور ان سے جنگ کرنے والے سے میری جنگ ہے، میں ان کے دشمنوں کا دشمن ہوں اور ان کے دوستوں کا دوست ہوں۔ (امالی صدوق (ر) 393 / 18 ، بشارة المصطفیٰ ص 177)۔

44 ۔ ابن عباس حضرت علی (ع) و فاطمہ (ع) کے عقد کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے دونوں کو سینہ سے لگاکر فرمایا کہ خدایا یہ دونوں مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں… خدایا جس طرح تو نے مجھ سے رجس کو دور رکھاہے اور مجھے پاکیزہ بنایاہے، اسی طرح انھیں بھی طیب و طاہر رکھنا ۔( معجم کبیر 24 ص 134 / 362 ۔22/ 412 / 1022 ، المصنف عبدالرزاق 5/ 489 / 9782)۔

15 ۔ عمر بن ابی سلمہ

45 ۔ عطاء بن ابی ریاح نے عمر بن ابی سلمہ (پروردہٴ رسالتمآب) سے نقل کیا ہے کہ آیت تطہیر رسول اکرم پر ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی ہے، جب آپ نے فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کیا اور سب پر ایک چادر اوڑھادی اور علی (ع) پس پشت بیٹھے تھے انھیں بھی چادر شامل کرلیا اور فرمایا خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں، ان سے رجس کو دور رکھنا اور پاک و پاکیزہ رکھنا ۔

جس کے بعد ام سلمہ نے فرمایا کہ یا نبی اللہ کیا میں بھی انھیں میں سے ہوں؟ تو آپ نے فرمایا کہ تمھاری اپنی ایک جگہ ہے اور تمھارا انجام بخیر ہونے والا ہے(سنن ترمذی) 5/663 / 3787 اسدالغابہ 2/ 17 ، تاریخ دمشق حالات امام حسین (ع) 71 / 104 ، تفسیر طبری 22 /8 احقاق الحق 3 ص 528 2 ص 510)۔

16 ۔ عمر بن الخطاب

46 ۔ عیسی بن عبداللہ بن مالک نے عمر بن الخطاب سے نقل کیا ہے کہ میں نے رسول اکرم کو یہ کہتے سنا ہے کہ میں آگے آگے جارہاہوں اور تم سب میرے پاس حوض کوثر پر وارد ہونے والے ہو، یہ ایسا حوض ہے جس کی وسعت صنعاء سے بصریٰ کے برابر ہے اور اس میں ستاروں کے عدد کے برابر چاندی کے پیالے ہوں گے اور جب تم لوگ وارد ہوگے تو میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کروں گا لہذا اس کا خیال رکھنا کہ میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے، یاد رکھو سبب اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا خدا کے پاس ہے اور ایک تمھارے پاس ہے، اس سے وابستہ رہنا اور اس میں کسی طرح کی تبدیلی نہ کرنا اور دوسرا ثقل میری عترت اور میری اہلبیت (ع) ہیں، خدائے لطیف و خبیر نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں حوض کوثر تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے ۔

میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ آپ کی عترت کون ہے ؟ تو آپ نے فرمایا میرے اہلبیت(ع) اولاد علی (ع) و فاطمہ (ع) ہیں، جن میں سے نو حسین (ع) کے صلب سے ہوں گے ، یہ سب ائمہ ابرار ہوں گے اور یہی میری عترت ہے جو میرا گوشت اور میرا خون ہے۔ (کفایة الاثر ص 91 ، تفسیر برہان ، 1/9 نقل از ابن بابویہ در کتاب النصوص علی الائمة)۔

17۔ واثلہ بن الاسقع

47۔ابو عمار نے واثلہ بن الاسقع سے نقل کیا ہے کہ میں علی (ع) کے پاس آیا اور انھیں نہ پاسکا تو فاطمہ (ع) نے فرمایا کہ وہ رسول اکرم کے پاس انھیں مدعو کرنے گئے ہیں۔ اتنے میں دیکھا کہ حضور کے ساتھ آرہے ہیں، دونوں حضرات گھر میں داخل ہوئے اور میں بھی ساتھ میں داخل ہوگیا ، آپ نے حسن (ع) و حسین (ع) کو طلب کرکے اپنے زانو پر بٹھایا اور فاطمہ (ع) اور ان کے شوہر کو اپنے سامنے بٹھایا اور سب پر ایک چادر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت کرکے فرمایا کہ یہی میرے اہلبیت (ع) ہیں، خدایا میرے اہلبیت (ع) زیادہ حقدار ہیں۔( مستدرک 3 / 159 / 4706 ۔ 451 / 3559)۔

48 ۔ شدادابوعمار ناقل ہیں کہ میں واثلہ بن الاسقع کے پاس وارد ہوا جبکہ ایک قوم وہاں موجود تھی، اچانک علی (ع) کا ذکر آگیا اور سب نے انھیں بُرابھلا کہا تو میں نے بھی کہہ دیا ، اس کے بعد جب تما م لوگ چلے گئے تو واثلہ نے پوچھا کہ تم نے کیوں گا لیاں دیں۔ میں نے کہا کہ سب دے رہے تھے تو میں نے بھی دیدیں۔ واثلہ نے کہا کیا میں تمھیں بتاؤں کہ میں نے رسول اکرم کے یہاں کیا منظر دیکھا ہے؟ میں نے اشتیاق ظاہر کیا … تو فرمایا کہ میں فاطمہ (ع) کے گھر علی (ع) کی تلاش میں گیا تو فرمایا کہ رسول اکرم کے پاس گئے ہیں، میں انتظار کرتارہا یہاں تک کہ حضور مع علی (ع) و حسن (ع) و حسین (ع) کے تشریف لائے اور آپ دونوں بچوں کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے، اس کے بعد آپ نے علی (ع) و فاطمہ (ع) کو سامنے بٹھایا اور حسن (ع) و حسین (ع) کو زانو پر اور سب پر ایک چادر ڈال کر آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی اور دعاکی کہ خدایا یہ سب میرے اہلبیت (ع) ہیں اور میرے اہلبیت زیادہ حقدار ۔ (فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 ص 577 ، مسند احمد بن حنبل 6 / 45 ، المصنف ابن ابی شیبہ، العمدة 40 / 25 ، معجم کبیر 3 / 49 / 2670 ، 2669)۔

49 ۔ شداء بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے واثلہ بن الاسقع سے اس وقت سنا جب امام حسین (ع) کا سرلایا گیا اور انھوں نے اپنے غیظ و غضب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ خداکی قسم میں ہمیشہ علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) سے محبت کرتا رہوں گا کہ میں نے ام سلمہ کے مکان میں حضور سے بہت سی باتیں سنی ہیں، اس کے بعد اس کی تفصیل اس طرح بیان کی کہ میں ایک دن حضرت کے پاس حاضر ہوا جب آپ ام سلمہ کے گھر میں تھے اتنے میں حسن (ع) آگئے آپ نے انھیں داہنے زانو پر بٹھایا اور بوسہ دیا ، پھر حسین (ع) آگئے اور انھیں بائیں زانو پر بٹھاکر بوسہ دیا ، پھر فاطمہ آگئیں انھیں سامنے بٹھایا اور پھر علی (ع) کو طلب کیا اور اس کے بعد سب پر ایک خیبری چادر ڈال دی اور آیت تطہیر کی تلاوت فرمائی … تو میں نے واثلہ سے پوچھا کہ یہ رجس کیا ہے ؟ فرمایا ۔ خدا کے بارے میں شک ۔( فضائل الصحابہ ابن حنبل 2 / 672 / 1149 ، اسدالغابہ 2 / 27 ، العمدة 34 / 15 )۔

50 ۔ ابوعمار الشداد واثلہ بن الاسقع سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم نے علی (ع) کو داہنے بٹھایا اور فاطمہ (ع) کو بائیں، حسن (ع) و حسین (ع) کو سامنے بٹھایا اور سب پر ایک چادر اوڑھاکر دعا کی کہ خدایا یہ میرے اہلبیت (ع) ہیں اور اہلبیت (ع) کی بازگشت تیری طرف ہے نہ کہ جہنم کی طرف ( مسند ابویعلی 6 / 479 / 7448 ، نثر الدرا/ 236 ، السنن الکبریٰ 2 /217 / 2870)۔

51۔ ابوالازہر واثلہ بن الاسقع سے نقل کرتے ہیں کہ جب رسول اکرم نے علی (ع) و فاطمہ (ع) اور حسن (ع) و حسین (ع) کو چادر کے نیچے جمع کرلیا تو دعا کی کہ خدایا تو نے اپنی صلوات و رحمت و مغفرت و رضا کو ابراہیم اور آل ابراہیم کے لئے قرار دیا ہے اور یہ سب مجھ سے ہیں ان سے ہوں لہذا اپنی صلوات و رحمت و مغفرت و رضا کو میرے اور ان کے لئے بھی قرار دیدے۔

(مناقب خوارزمی 63 / 32 ، کنز العمال 13 / 603 / 37544 ، 12 / 101 /34186)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام
سنت رسول ۔ اہل سنت او راہل تشیع کی نظر میں

 
user comment