اس كے بعد آپ نے حضرت على (ع) كا ہاتھ اونچا كيا چنانچہ وہ تمام لوگ جو اس وقت وہاں جمع تھے انہوں نے حضرت على (ع) كو پيغمبر اكرم (ص) كے دوش بدوش ديكھا اور آپ (ص) نے فرمايا : جس كا مولا و سرپرست ميںہوں على (ع) اس كا مولا و سرپرست ہے _(42) چنانچہ يہ جملہ آپ نے تين مرتبہ دہرايا_ اس كے بعد مزيد فرمايا : ''اے پروردگار تو اسے دوست ركھ جو على (ع) كو دوست ركھے اور اسے دشمن ركھ جو على (ع) كو دشمن ركھے _ خداوندا ياران على (ع) كى مدد فرما اور اس كے دشمنوں كو ذليل و خواركر_(43) يہ تھيں وہ سرافرازياں جو حضرت على (ع) نے زندگى كے اس اولين مرحلے ميں حاصل كيں كہ جس كى مدت دس سال سے زيادہ نہ تھى _ اگرچہ ديگر كتب ميں آپ كى سوانح حيات مفصل طور پر بيان كى گئي ہے مگر يہاں اختصار سے كام ليتے ہوئے انہى پر اكتفا كرتے ہيں _ |
سوالات1_ حضرت على (ع) كى زندگى كے مختلف ادوار كے بارے ميں لكھيئے؟ 2_ بعثت سے قبل حضرت على (ع) كى زندگى ميں كون سا اہم ترين واقعہ پيش آيا؟آپ كے اقوال كے روشنى ميں اس كى مختصر اً وضاحت كيجئے؟ 3_ حضرت على (ع) كے امتيازات وافتخارات ميں سے ان دو كى كيفيت بيان كيجئے جو بعثت كے بعد اور رسول خدا (ص) كى ہجرت سے قبل رونما ہوئے_ 4_ جنگ بدر ميں حضرت على (ع) كا كيا كردار رہا اختصار سے لكھ يے_ 5_ پيغمبر اكرم (ص) نے غزوہ احزاب كے موقع پر حضرت على (ع) كے بارے ميں كيا فرمايا تھا؟ 6_ حضرت على (ع) نے مختلف جنگوں (بالخصوص جنگ بدر ) ميں دلاورى كے جو جوہر دكھائے اورمشركين كو قتل كيا وہ آپ كى سياسى زندگى پر كس طرح اثر انداز ہوئے اور كب منظر عام پر آئے ان كى كوئي مثال لكھيئے 7_ حديث ''يوم الدار'' كى مختصر وضاحت كيجئے اور بتايئے مذكورہ حديث پيغمبر (ص) كے بعد امام (ع) كى جانشينى پر كس طرح دلالت كرتى ہے؟ |
حوالہ جات1_ عام الفيل وہ سال كہلاتا ہے جس ميں ابرہہ ہاتھيوں پر سوار لشكر كے ساتھ كعبہ كو نيست و نابود كرنے كى غرض سے آيا تھا_ 2_ حضرت عمران كے چار فرزند تھے جن كے نام طالب ، عقيل ، جعفر اور على تھے وہ ابوطالب كى كنيت سے مشہور تھے_ بعض مورخين نے حضرت على (ع) كے والد كا نام عبدمناف بھى بيان كيا ہے (تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج1 ص 11) 3_حضرت على (ع) كى ولادت كو اہل سنت كے محدثين و مورخين نے بھى اپنى كتابوں ميں خانہ كعبہ ميں تحرير كيا ہے منجملہ ان كے مسعودى نے مروج الذہب (ج 2 ص 349 ) حاكم نے مستدرك (ج 3 ص 483) اور آلوسى نے شرح قصيدہ _ عبدالباقى افندى ص 15 مزيد تفصيل كيلئے اہل سنت كے دانشوروں كے نظريات كو جاننے كيلئے ملاحظہ ہو كتاب ''الغدير'' ج 4 ص 23_ 21 4_ سيرت ابن ہشام ج 1 /262 ، كامل ابن اثير ج 2/ 58 كشف الغمہ ج 1 / 79 ، تاريخ طبرى ج 2 / 312 البتہ مورخين كى رائے ميں حضرت على (ع) كے پيغمبر اكرم (ص) كے گھر منتقل ہونے كا سبب وہ قحط سالى تھى جس سے شہر مكہ دوچار ہواتھا اور ابوطالب كى زندگى چونكہ تنگ دستى ميں گزر رہى تھى اس لئے حضرت محمد (ص) كى تجويز پر آپ كے قبيلے كے لوگ ان كے ہر فرزند كو اپنے ساتھ لے گئے اور حضرت على (ع) كو آنحضرت (ص) اپنے ساتھ لے آئے ليكن شہيد مطہرى نے نقل مكانى كى اس وجہ كو مسترد كيا ہے اور اسے مورخين كے ذہن كى اختراع قرار ديا ہے_ جس كا سبب رسول اكرم (ص) كے اس اقدام كى اہميت اور قدر وقيمت كو كم كرنا مقصود ہے اس سلسلے ميں موصوف كا مطمع نظر متن كتاب ميںملاحظہ ہو _ 5_ تاريخ طبرى ج 2/ 313 شرح ابن ابى الحديد ج 13/199 _ كشف الغمہ ج 1 / 117 كامل ابن اثير ج 2 /58 وسيرة ابن ہشام ج 1 / 263 6_ نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ (192) ولقد كنت اتبعہ اتباع الفصيل اثر امہ يرفع لى كل يوم من اخلاقہ علماً يا مرنى بالاقتداء بہ 7_ سورہ واقعہ آيہ السابقون السابقون اولئك المقربون _ جنہوں نے اسلام قبول كرنے ميں سبقت |
كى وہى افراد خدا كى رضا ورحمت كے حصول ميں سبقت ركھتے ہيں _ 8_ سورہ حديد آيہ 10 ( لاَيَستَوى منكُم مَن أَنفَقَ من قَبل الفَتح وَقَاتَلَ أُولَئكَ أَعظَمُ دَرَجَةً من الَّذينَ أَنفَقُوا من بَعدُ وَقَاتَلُوا )''تم ميں سے جو لوگ خرچ اور جہاد كريں گے وہ كبھى ان لوگوں كے برابر نہيں ہوسكتے جنہوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد كيا ان كا درجہ بعد ميں خرچ اور جہاد كرنے والوں سے بڑھ كر ہے''_ 9_ سيرت ابن ہشام ج 1 / 246 ، كشف الغمہ ج 1/113 ، تاريخ طبرى ج 2/ 310 _ سنن ابن ماجہ ج 1/ 57 10 _''اولكم ورداً على الحوض اولكم اسلاماً على بن ابى طالب _ مستدرك حاكم ج 3/ 136 ، كشف الغمہ ج 1 / 105 _ تاريخ بغداد ج 2/ 81 شرح ابن ابى الحديد ج 3 / 385 وغيرہ مزيد اطلاع كيلئے ملاحظہ ہو الغدير ج 3/ 220 11_ نہج البلاغہ خطبہ 192 _''ولم يجمع بيت واحد يومئذ فى الاسلام غير رسول اللہ وخديجة انا ثالثہما ا رى نورالوحى والرسالة واشم ريح النبوة''_ 12_ نہج البلاغہ خ 131 _ اللہم انى اول من اناب وسمع واجاب 13_ روايات سے مزيد آگہى كے لئے ملاحظہ ہو تفسير برہان ج 1 / 206 ، تفسير الميزان ج 2/ 99، مطبوعہ جامعہ مدرسين بحار ج 19 صفحات (56_ 78_ 87) 14_ بقرہ آيہ 207 15_ قبا مدينہ سے دو فرسخ كے فاصلے پر واقع ہے يہاں قبيلہ بنى عمروبن عوف آباد تھا( معجم البلدان) ج 4 / 301 16_ اعيان الشيعہ ج 1/ 377 (دس جلدي) منقول از سيرت حلبى واسد الغابہ 17_ والذى بعثنى بالحق ... الخ ... انت اخى فى الدنيا و الاخرة _ مستدرك حاكم ج 3/ 14 18_ ''غزوہ'' اصطلاح ميں اس جنگ كو كہتے ہيں جس ميں پيغمبر اكرم (ص) بذات خود موجود رہتے تھے _ ايسى جنگوں كى تعداد چھبيس يا ستائيس ہيں اورجن جنگوں ميں رسول خدا (ص) موجود نہ تھے انہيں اصطلاحاً ''سريہ'' كہاجاتا ہے جن كى تعداد پينتيس سے چھياسٹھ تك كے درميان بتائي گئي ہے_ 19_ الصحيح من سيرة النبى ج 3/192 ، بحار ج 19/ 225 _ 254 _290 |
21_ الصحيح من سيرة النبى ج 3 / 203 _202_ مناقب ج 2/ 68 نيز ملاحظہ ہو بحار ج 19/ 279_ 276_ 291 22_ بحار ج 20/50 _ 51 ،الصحيح من سيرة النبى (ص) ج 4 / 218_ 213_ 23_ ملاحظہ ہو تاريخ طبرى ج 2/ 514 كامل ابن اثير ج 2/ 154 وشرح ابن ابى الحديد ج 14/ 250 اس واقعے كا ذكر تمام مذكورہ كتب ميں مختصر سے فرق كے ساتھ موجود ہے _ 24_ بحار ج 20 / 70 خصال صدوق (مترجم) ج 2 / 127_ 25_ بحار ج 20/ 54 تفسير على ابن ابراہيم سے منقول_ 26_ 127 _ بحارج 20 / 216_ 215 _ 27_ بحار ج 20 / 205_ 28_ ''ا رونيہ ترونى رجلاً يحب اللہ ورسولہ ويحبہ اللہ ورسولہ ( ارشاد مفيد / 66)_ 29_ ارشاد مفيد / 67 / 65 بحار ج 21 / 16_ 14_ 30 _ شرح ابن ابى الحديد ج 9/ 23_ الصحيح ج 3/ 220_ 31_ مقتل خوارزمى 2 /59 _ لستُ من خندف ان لم انتقم من بنى احمد ما كان فعل لعبت ہاشم بالملك فلا خبر جاء و لا وحى نزل قد اخذنا من على ثارناوقتلنا الفارس الليث البطل 32_ سورہ شعرا ء 214 _ 33_ تاريخ طبرى ج 2/ 321 و 320 كامل ابن اثير ج 2/ 63 _ 62 مجمع البيان ج 8/ 7 الغدير ج 2 / 278 ''فا يكم يؤازرنى على ہذاالامر على ان يكون اخى ووصى وخليفتى فيكم ...؟ ان ہذا اخى و وصيى وخليفتى فيكم فاسمعوا لہ واطيعوہ''_ 34_اما ترضى ان تكون منى بمنزلة ہارون من موسى الا انہ لا نبى بعدى _ غاية المرام كے صفحہ 152 سے 107پر ايك سو ستر (170 ) محدثين كے طريق سے ''حديث منزلت'' كو نقل كيا گيا ہے ان ميں سے سو طريق اہل سنت والجماعت كے ہيں_ صاحب المراجعات نے بھى ( 139_ 141) پر مذكورہ حديث كو صحيح |
مسلم ، بخارى ، سنن ابن ماجہ ومستدرك حاكم اور اہل سنت كے ديگر مصادر سے نقل كيا ہے_ 35_ سورہ طہ 29_ 30_ 36_ _37_ 38 _ سورہ طہ آيات 31_32_ 36_ 39_سورہ احزاب آيت 142_ 40_ رہبرى امت مصنفہ جعفر سبحانى سے ماخوذ صفحات 168 _ 167_ 41_ فرمان خداوندى سورہ مائدہ آيت 67 '' يَاأَيُّہَا الرَّسُولُ بَلّغ مَا أُنزلَ إلَيكَ من رَبّكَ وَإن لَم تَفعَل فَمَا بَلَّغتَ رسَالَتَہُ وَالله ُ يَعصمُكَ من النَّاس''_ 42_ من كنت مولاہ فہذا على مولاہ _اللہم وال من والاہ و عاد من عاداہ وانصر من نصرہ واخذل من خذلہ _ ملاحظہ ہو الغدير ج 1/ 11_9 |
|
دوسر ا سبقرسول اكرم (ص) كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك وفات پيغمبر (ص) كو جھٹلانا غير متوقع حادثہ پيغمبر (ص) كى جانشينى كا مسئلہ شيعوں كى نظر ميں لاتعلقي امت كى پريشانى كا خطرہ لوگوں كا دور جاہليت كى جانب واپس چلے جانے كا خطرہ منافقين كا خطرہ شورى وصى اور جانشين كا تقرر سقيفہ ميں رونما ہونے والے حالات اس خطبے كے اہم نكات انصار كا رد عمل على (ع) كى بيعت كے بارے ميں تجويز سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت على (ع) كا رد عمل على (ع) نے كيوں عجلت نہيں كي؟ سوالات حوالہ جات |
|
پيغمبر اكرم (ص) كے دوش مبارك پر ايك عالمى تحريك كى قيادت تھى يہ بات بھى واضح و روشن ہے كہ اس تحريك كے پروان چڑھنے اور سياسى ، ثقافتى نيز اجتماعى سطح پر گہرى تبديلى لانے كيلئے رسول خدا (ص) كا زمانہ رسالت (بعثت سے رحلت تك) كافى نہ تھا اگرچہ اسلام كے اس عظےم رہبر و پيشوا نے اس مختصر و محدود عرصے ميں ہى انسان كى تكميل اور اسلامى معاشرے كى تشكيل كے لئے بہت عظيم واساسى اقدامات كئے ليكن اس عالمى تحريك كو آپ (ص) كے بعد بھى جارى و سارى رہناتھا_ اس بات كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت اچانك واقع نہيں ہوئي بلكہ آپ (ص) نے اس كے وقوع پذير ہونے سے كچھ عرصہ قبل محسوس كرليا تھا كہ جلد ہى اس دنيا سے كوچ كر جائيں گے _ چنانچہ آپ نے ''حجةالوداع'' كے موقع پر كھلے لفظوں ميں اس كا اعلان بھى كرديا تھا اس كے بعد آپ كے پاس اسلام كے مستقبل سے متعلق سوچنے كے لئے وقت كافى تھا اور آپ كوئي اصولى روش وتدبير اختيار كركے ان عوامل كى پيش بندى كرسكتے تھے جن سے انقلاب خداوندى كى راہ ميں آئندہ كسى خطرے كے آنے كا امكان ہوسكتا تھا_ان حالات و واقعات كے بارے ميں غيبى عوامل كى مدداور سرچشمہ وحى سے ارتباط كو عليحدہ كركے بھى غور كياجاسكتا ہے ايسى صورت اور ان واقعات كى روشنى ميں رسول اكرم (ص) كے سامنے اسلام كے مستقبل سے متعلق تين ہى ممكن راہيں ہوسكتى تھيں: لا تعلقي شوري اپنے وصى اور جانشين كے بارے ميں وصيت اب ہم تاريخى حقائق اور ان سياسى واجتماعى حالات كو مد نظر ركھتے ہوئے جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر حكم فرما تھے مذكورہ بالا تينوں راہوں كا اجمالى جائزہ ليں گے_ |
بارے ميں جب مہاجرين كى يہ حجت و دليل آپ كو بتائي گئي كہ انہوں نے اس بات پر احتجاج كيا كہ خليفہ خاندان قريش اور شجر نبوت كى شاخ ہو تو اس پر آپ (ع) نے فرمايا كہ انہوں نے تكيہ تو درخت پر ہى كيا ليكن اس كے پھل كو تباہ كر ڈالا _ (20) حضرت على (ع) كا دوسرا رد عمل پيغمبر اكرم(ص) كے جسد مبارك كى تدفين كے بعد ظاہر ہوا _ حضرت على (ع) مسجد مےں تشريف فرما تھے اس وقت بنى ہاشم كے افراد بھى كافى تعداد ميں وہاں موجود تھے بعض وہ لوگ جو ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر چكے تھے آپ كے اور افراد بنى ہاشم كے گرد جمع ہو گئے اور كہنے لگے كہ طائفہ انصار نيز ديگر افراد نے ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لى ہے آپ بھى بيعت كر ليجئے ورنہ تلوار آپ كا فيصلہ كرے گى _ حضرت على (ع) نے فرمايا كہ ميں ان سے زيادہ بيعت كے لئے اہل وقابل ہوں تم لوگ ميرے ہاتھ پر بيعت كرو تم نے رسول خدا(ص) سے قربت كے باعث خلافت انصار سے لے لى اور انہوں نے بھى يہ حق تسليم كر ليا خلافت كے لئے ميرے پاس بھى دلائل موجود ہيں مےں پيغمبر اكرم(ص) كے زمانہ حيات ميں ہى نہےں بلكہ رحلت كے وقت بھى ان كے سب سے زيادہ قريب و نزديك تھا ميں وصى ' وزير اور علم رسول(ص) كا حامل ہوں ... ميں كتاب خدا اور سنت رسول(ص) كے بارے مےں سب سے زيادہ واقف و باخبر ہوں امور كے نتائج كے بارے ميں تم سے زيادہ جانتا ہوں ، ثبات و پائداراى مےں تم سے سب سے بہتر محكم و ثابت قدم ہوں اس كے بعد اب تنازع كس بات پر ہے؟(21) اس پر عمر نے كہا : آپ مانيں يا نہ مانيں ہم آپ كو بيعت كئے بغير جانے نہيں ديں گے حضرت على (ع) نے انھيں فيصلہ كن انداز ميں جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ دودھ اچھى طرح دوہ لو اس مےں تمہارا بھى حصہ ہے آج خلافت كے كمر بند كو ابو بكر كيلئے مضبوط باندھ لو كل وہ تمہيں ہى لوٹا ديںگے _ (22) اس وقت وہاں عبيدہ بھى موجود تھے انہوں نے حضرت على (ع) سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ اے ميرے چچا زاد بھائي رسول خدا(ص) سے آپ كى قرابت داري، اسلام ميں آپ كے سابق |
تو شايد يہ منظر سامنے نہ آيا ہوتا اس بات كى وضاحت كے لئے يہاں اس بات كا واضح كردينا ضرورى ہے كہ آپ كى خلافت كا مسئلہ دو حالتوں سے خالى نہ تھا يا تو رسول اكرم (ص) نے آپ كو خداوند تعالى كے حكم سے اس مقام كے لئے منتخب كرليا تھا ( اس پر شيعہ عقائد كے لوگوں كا اتفاق ہے) ايسى صورت ميں عوام كا بيعت كرنا يا نہ كرنا اس حقيقت كو بدل نہيں سكتا اور اگر بالفرض خلافت كے معاملے ميں امت كو اس كے فيصلے پر آزاد چھوڑديا تھا تو پھر كيوں حضرت على (ع) لوگوں كے حق انتخاب كو سلب كرتے_ وہ امت كو اس حال پر چھوڑديتے كہ وہ جسے بھى چاہيں اپنا خليفہ مقرر كريں_ اس سے بھى زيادہ اہم بات يہ ہے كہ پيغمبر اكرم (ص) كا جسد مبارك ابھى زمين كے اوپر ہى تھا ، حضرت على (ع) پيغمبر (ص) كے وصى كے لئے ايسى صورت ميں يہ كيسے ممكن تھا كہ وہ جسد اطہر پيغمبر اكرم (ص) كو زمين پر ركھے رہنے ديں اور خود اپنے كام كے چكر ميں نكل جائيں_ حضرت على (ع) نے پہلے اپنا فرض ادا كيا پھر لوگوںكے سامنے تشريف لائے _ دوسرے بھى يہ بات جانتے تھے كہ اگر ايسے ميں حضرت علي(ع) تشريف لے آتے تو وہ ہرگز اپنے مقصد و ارادے ميں كامياب نہ ہوتے_ چنانچہ دوسروں نے امر خلافت كے سلسلے ميں عجلت كى اور حضرت على (ع) كو اس وقت اطلاع دى جب كام تمام ہوچكاتھا_(25) |
سوالات1_ پيغمبر اكرم (ص) كى رحلت كے بعد كيا واقعہ پيش آيا اور وہ كس طرح رفع ہوا؟ 2_ زمانہ مستقبل ميں اسلام كى قيادت ورہبرى كے سلسلے ميں پيغمبر اكرم (ص) كى نظر ميں كونسى ممكن راہيں تھيں سب كى كيفيت بتايئے اور ہر ايك كا مقصد بيان كيجئے؟ 3_ اگر پيغمبر اكرم (ص) كى جانب سے كوئي شخص جانشين كى حيثيت سے منتخب نہ كيا گيا ہوتا تو مستقبل ميں اسلام كے لئے كيا خطرات لاحق ہوسكتے تھے مختصر طور پر لكھيئے؟ 4_ خلافت كے سلسلے ميں جس شورى كى تشكيل كى گئي تھى اسكى نفى كے لئے دو تاريخى شواہد و دلائل بيان كيجئے؟ 5_ امر خلافت ميں پيغمبر اكرم (ص) نے وصايت كو پيش نظر ركھا تھا اس ميں تاريخ و احاديث كى بنياد پر دو دليل پيش كيجئے؟ 6_ سقيفہ كا واقعہ كس طرح پيش آيا ، مہاجرين ميں سے وہاں كون لوگ موجود تھے وہ وہاں كس لئے پہنچے اور اس كا كيا نتيجہ برآمد ہوا؟ 7_ بيعت كے سلسلے ميں حضرت على (ع) پر اپنے چچا عباس اور ابوسفيان كى تجاويز كا كيوں اثر نہ ہوا؟ 8_ واقعہ سقيفہ كے بارے ميں حضرت على (ع) كا كيا رد عمل تھا؟ |
حوالہ جات1_ حضرت على (ع) كى زندگى كے دوواقعات جو رسول خدا (ص) كے زمانہ حيات ميں پيش آئے وہ مختصر طور پر تاريخ عصر نبوت ميں بيان كرديئے گئے ہيں _ 2_ آل عمران 144 _ وَمَا مُحَمَّدٌ إلاَّ رَسُولٌ قَد خَلَت من قَبلہ الرُّسُلُ أَفَإين مَاتَ أَو قُتلَ انقَلَبتُم عَلَى أَعقَابكُم (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول ہيں ان سے پہلے اور رسول گذر چكے ہيں اگر وہ مرجائيں يا قتل كرديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پائوں پلٹ جاؤ گے_ 3_ تاريخ طبرى ج 3/200 كامل ابن اثير ج 2/ 323، شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 128_ 4_ سقيفہ كے لغوى معنى سايبان ہيں _ سقيفہ مدينہ ميں مسجد النبى (ص) سے 600 قدم كے فاصلے پر باب السلام كے راستے ميں واقع ہے _ يہ جگہ بنى ساعدہ بن كعب خزرمى سے متعلق تھى _ لوگ اس سايبان كے نيچے اپنے معاملات كا فيصلہ كرنے كے لئے جمع ہوتے تھے بعد ميں يہ جگہ سقيفہ بنى ساعدہ كے نام سے مشہور ہوگئي_ (معجم البلدان ج 3/ 228)_ 5_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج 6/ 51، المراجعات / 260 _ 259 منقول از صحيح بخارى و مسلم ، تاريخ ابى الفدا ج 1/151 ائتونى بدواة وصحيفة اكتب لكم كتاباً لا تضلون بعدہ _ 6_ وامرہم شورى بينہم ( سورہ شورى آيت 38)_ 7_ حضرت ابوطالب (ع) و حضرت خديجہ (س) كى وفات كے بعد پيغمبر اكرم(ص) اور قبيلہ بنى عامر كے درميان سخت رنجش پيدا ہوگئي جس كے باعث قريش پہلے كى نسبت اب زيادہ آپ پر دبائو ڈالنے لگے نيز حملات كرنے كى كوشش كرنے لگے تھے_ 8_ سيرة ابن ہشام ج 2 / 66 ''الامر الى اللہ يضعہ حيث يشائ'' 9_ گذشتہ فصل ميں حديث ثقلين كے علاوہ ديگر احاديث كا مختصر جائزہ لياجاچكا ہے اسى وجہ سے يہاں اس كے دوبارہ نقل كرنے سے گريز كيا گيا ہے_ 10 _ تاريخ اس امر كى گواہ ہے كہ خلفاء وقت نے جب كبھى ضرورت محسوس كى حضرت على (ع) سے رجوع كيا اور آپ سے درخواست كى ان كى مشكلات حل كرنے ميں انكى مدد فرمائيں _ ان واقعات كى كيفيت آيندہ ابواب ميں بيان كى جائے گا_ |
يہ حصہ كتاب تشيع مولود طبيعى اسلام ترجمہ التشيع والاسلام_ شہيد باقر الصدر سے ماخوذ ہے ص28_ 11_ الامامة والسياسة ج 1/ 14_ 31_ 12_ يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ ابوبكر كى تقرير كے بعد عمر نے بھى اپنے خيالات كا اظہار كيا اور كہا كہ ميں نے راستہ طے كرنے كے دوران كسى منصوبے يا لائحہ عمل كے بارے ميں غور و فكر نہيں كيا ہے سوائے اس كے جو ابوبكر نے بيان كيا ہے مجھے اس سے كلى اتفاق ہے اور جو كچھ انہوں نے اپنى زبان سے كہاہے بلكہ اس سے بھى سنے بہتر ما من شى كنت زرتہ فى الطريق الا انا بہ او باحسن منہ _ تاريخ طبرى ج 3/ 219 ، كامل ابن اثير ج 2/ 327 _ 13_ طرح ہاى رسالت (ج 1 / 257 _ 255 ) كا خلاصہ_ 14_ الامامة والسياسة ( ج 1/ 21_16 ) كامل ابن اثير ج 2/ 329_ 228 ) تاريخ طبرى (ج 3/ 220_ 218)_ 15_ ان پانچ رائے ميں سے تين تو ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ كى تھيں اور انصار ميں سے دو رائے بشير ابن سعد واسيد بن حضير كى تھيں _ ان پانچ افراد كے علاوہ باقى لوگ اپنے سرداران قبائل كے تابع تھے_ چنانچہ ہر قبيلے كا سردار جو رائے ديتا اس قبيلے كے تمام افراد اس كى پيروى كرتے اور اپنى مرضى سے كوئي رائے نہ ديتے_ 16_ كامل ابن اثير ج 2/ 326 _ تاريخ طبرى ج 3/ 209 ارشاد مفيد 102_ 17_ تاريخ طبرى ج 4/ 230 _ شرح ابن ابى الحديد ج 1/ 192_ 18_ انى لارى عجاجةلا يطفئہا الالدم_ شرح ابن ابى الحديد ج 12/ 44_ كامل ج 2/ 325 _ تاريخ طبرى ج 3/ 209_ 19_ شرح ابن ابى الحديد ج 3/209_ 20_ احتجوا بالشجرة واضاعوا الثمرة_ نہج البلاغہ خ 66_ 21_ احتجاج طبرى ج 1/95 الامامة والسياسة ج 1 / 18_ 22_ احلب حلباً ہناك شطرہ وشد لہ اليوم ليرد عليك غداً_ 23_ الامامة والسياسة ج 1 / 18 شرح ابن ابى الحديد ج 6/ 12_11_ احتجاج طبرسى ج 1/ 96 _ 24_ الامامة والسياسة ج 19/ 18 _ احتجاج طبرسى ج 1/ 96 _ 25_ ماخوذ از كتاب ''خلافت و ولايت'' /63_ |