اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

شریف حسین كی حكومت

شریف حسین كی حكومت

6 محرم الحرام 1353ھ مطابق 3 دسمبر1918ء بروز پنجشنبہ مكہ میں شریف حسین كی عرب كے بادشاہ كے عنوان سے بیعت كی جانے لگی، اور اس كے تین دن بعدانھوں نے اپنے تینوں بیٹوں كو درج ذیلعہدوںپر معین كیا:

امیر علی، رئیس الوزراء ۔

امیر فیصل، وزیر داخلہ ۔

امیر عبد اللہ، وزیر خارجہ ۔

شریف حسین نے اپنی مرضی كے مطابق چند سال تك حكومت كی لیكن درج ذیل دلیلوں كی وجہ سے اس كی حكومت كی بنیاد متزلزل هوگئی:

1۔ انگلینڈ اور فرانس كی حكومتوں نے شریف حسین كی بادشاھت كو تسلیم نہ كیا بلكہ ایك مدت كے بعد اس كی حكومت كو فقط حجاز پر قابل قبول سمجھا۔

2۔ اس كے مد مقابل دشمن بھت قوی تھا مثلاً ابن سعود جو اپنی تمام تر طاقت حجاز كی حكومتچھیننے میں صرف كررھا تھا، جبكہ شریف اس كو كوئی اھمیت نھیں دے رھا تھا۔

3۔ ایك عربی حكومت بنانے كے سلسلے میں اس نے عرب كے شیوخ اور امراء سے كسی طرح كی كوئی گفتگو نھیں كی تھی اور خود ھی سب كچھ انجام دیدیا، اور ظاھر ھے اس صورت میں ان میں سے كوئی بھی اس كی اطاعت نھیں كرتا تھا۔

شریف حسین نے وزیروں كو معین كرنے میں جلد بازی سے كام لیا، جیسا كہ پھلے بھی انقلاب كے شروع میں جلدی بازی سے كام لیا تھا اور اس كے تمام مقدمات مكمل هونے سے پھلے كام شروع كردیا اور عثمانی فوج كے ساتھ جنگ شروع كردی۔

شریف حسین اور مسئلہ خلافت

شریف حسین نے 1342ھ تك تقریباً اپنی مرضی كے مطابق حكومت كی اور اس مدت میں اس كے دو بیٹوں نے بھی حكومت كی، جن میں سے ایك ملك فیصل جس كو عراق كی حكومت ملی اور امیر عبد اللہ جس كو مشرقی اردن كی حكومت پر مقرر كیا گیا ۔

چنانچہ اسی سال (یعنی 1342ھ میں) شریف حسین نے خلافت بھی حاصل كرلی، اس طرح كہ مشرقی اردن میں اپنے بیٹے امیر عبد اللہ كے پاس سفر كیا وھاں كے مختلف قبیلوں كے لوگ اس كے دیدار كے لئے آتے رھے اور اس كو خلافت كے لئے انتخاب كرنے كا نظریہ پیش كرتے رھے، جس كے نتیجہ میں ان قبیلوں كے نمائندوں كا ایك جلسہ هوا، اور شریف حسین كو مسلمانوں كا خلیفہ منصوب كردیا گیا، اور مشرقی اردن كی حكومت نے یہ اعلان كردیا :” شریف حسین كی خلیفة المسلمین كے عنوان سے بیعت كی جائے، یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب مصطفی كمال” جدید تركی كابانی“(جو عثمانی خلیفہ بھی تھا) كو تركیہ سے نكال دیا گیا اور خلافت كے خاتمہ كا اعلان كردیا گیا۔

ابھی شریف حسین(جس كو ملك العرب كھا جاتا تھا) كے ساتھ امیر المومنین كا لقب اضافہ نھیں هوا تھا كہ تخت خلافت پر مسند نشین هونے كی غرض سے مكہ پلٹ آئے۔

اس سلسلہ میں سید عبد الرزاق حسنی كھتے ھیں جس وقت تركوں نے خلافت كے عہدہ كو ختم كردیا، اور عثمانی خاندان كو تركی سے باھر نكالدیا،اس وقت ملك حسین كو خلافت كے لئے منتخب كرنے كی باتیں هونے لگی، اور جس وقت وہ اپنے دوسرے بیٹے امیر عبد اللہ كے پاس جدید اردن كی جانچ پڑتال كے لئے گیا اس وقت نوری سعید وزیر دفاع عراق كی سرپرستی میں ایك ھیئت اس كے دیدار كے لئے گئی۔

عراق كے لوگوں نے شریف كے بیٹے ملك فیصل جو جلد ھی عراق كے سلطان بنے تھے ٹیلیگرام كے ذریعہ شریف حسین كی خلافت كے بارے میں اپنے اعتماد كا اظھار كردیا، اس نے بھی عراقیوں كے حسن ظن كا شكریہ كا ٹیلیگرام كے ذریعہ كیا، ادھر ملك فیصل نے بھی 12 شعبان1342ھ ایك اعلان میں ان تمام لوگوں كا شكریہ ادا كیا جنھوں نے اس كے باپ ملك حسین كو خلفة المسلمین اور امیر المومنین كی حیثیت سے مباركباد اور تہنیت كے پیغام دئے تھے۔

ابن سعود كا حجاز پر حملہ كرنا

شریف حسین كی بادشاھت تقریباً آٹھ سال تك باقی رھی، لیكن مختلف وجوھات كی بناپر جن میں سے بعض كو ھم نے بیان بھی كیا ھے، اس حكومت كی چولیں ھلنے لگیں اس مدت میں ابن سعود نے بھی كوئی روك ٹوك نھیں كی، جس كی وجہ سے یہ سمجھا جارھا تھا كہ وہ گوشہ نشین هوگیا ھے، لیكن ابن سعود دوراندریشی كررھا تھا اور حجاز پر حملہ كرنے كے لئے بھترین فرصت كا منتظر تھا۔

ابن سعود كی سب سے زیادہ توجہ دو چیزوں كی طرف تھی ایك یہ كہ اگر اس نے حجاز پر حملہ كیا تو كیا انگلینڈ كی حكومت خاموش رھے گی اور دوسری طرف اس كے دوبیٹے ملك فیصل عراقی حاكم اور ملك عبد اللہ اردن كا حاكم ھر حال میں اپنے باپ كی مدد كریں گے۔

انگلینڈ كے بارے میں جیسا كہ تاریخ مكہ كے موٴلف لكھتے ھیں كہ”اس كی استعماری چال اس بات كا تقاضا كرتی تھی كہ ”عقبہ بندرگاہ“ حجاز سے جدا هوجائے اور مشرقی اردن سے ساتھ ملحق هو جائے جو امیر عبد اللہ بن شریف حسین كی حكومت كے زیر اثر ھے۔

لیكن اس سلسلہ میں شریف حسین انگریزوں كی سخت مخالفت كرتا تھا جس كی بناپر انھوں نے بھی اس كے ھمیشگی دشمن ابن سعود كے مقابلہ میں تنھا چھوڑ دیا، آخر كار ابن سعود نے حجاز پر حملہ كرنے كا منصوبہ بنالیا، اور اسی پروگرام كے تحت ماہ ذیقعدہ 1342ھ كے شروع میں اس نے اپنے باپ عبد الرحمن كی سرپرستی میں ریاض میں علماء اور روٴسا كی ایك انجمن تشكیل دی۔

عبد الرحمن نے سب سے پھلے گفتگو كا آغاز كیا كہ ھمارے پاس كچھ خطوط آئے ھیں جن میں ھم سے حج بجالانے كی درخواست كی گئی ھے، اور میں نے ان خطوط كو اپنے بیٹے عبد العزیز كے حوالے كردیا ھے اور وھی تمھارا امام ھےجو بھی چاھتے هو اس سے كهو۔

اس كے بعد ابن سعود نے خطاب كیا اور كھا تمھارے خطوط ھمارے پاس پهونچے اور میں تمھاری شكایتوں سے آگاہ هوا، ھر چیز كا ایك جگہ پر خاتمہ هوجاتا ھے، اور ھر كام بموقع انجام دیا جانا چاہئے، ابن سعود كی تقریر كے بعد آپس میں گفتگو هوئی جس كے نتیجہ میںحاضرین نے حجاز پر حملہ كرنا طے كیا، كیونكہ تین سال سے شریف حسین نے نجدیوں كو حج كرنے كی اجازت نھیں دی تھی۔

چنانچہ ابن سعود نے اپنے منصوبے كے تحت” سلطان بن بجاد“كی سرداری میں حملہ كے لئے ایك لشكرمكہ كی طرف روانہ كیا اس لشكر نے كئی حملوں كے بعد ماہ صفر 1343ھ میں طائف كو فتح كرلیا۔

صلاح الدین مختار كے بقول شریف حسین (شریف حسین كو سلطنت پر پهونچنے كے بعد ملك حسین كھا جانے لگا) نے جب اپنی حالت كمزور دیكھی، جدّہ میں برٹین كے سفیر سے مدد چاھی، چنانچہ اس سفیر نے وعدہ دیا كہ وہ اس كی درخواست كو انگلینڈ پهونچائے گا۔

شریف حسین جدّہ سے مكہ واپس چلا گیا اور انگلینڈ كی مدد كا انتظار كرتا رھا، ادھر انگلینڈ كی حكومت نے اپنے سفیر كو جواب دیا كہ ابن سعود اور شریف میں جنگ ایك مذھبی جنگ ھے او رھم اس میں مداخلت نھیں كرنا چاھتے، لیكن اگر حالات ان كے درمیان صلح كرانے كی اجازت دیں تو ھم اس چیز كے لئے تیار ھیں۔

ملك علی كو سلطنت ملنا

اس وقت مكہ میں ”حزب وطنی“ كے نام سے ایك انجمن بنائی گئی جس كا اصل مقصد حجاز كو افرا تفری كے ماحول سے نكالكر امن وامان قائم كرنا، چنانچہ اس انجمن نے یہ طے كیا كہ ملك حسین حكومت سے ہٹ جائے اور اس كی جگہ اس كا بیٹا ملك علی حجاز كا بادشاہ بنے۔

چنانچہ” حزب وطنی“ انجمن نے چھار ربیع الاول 1343ھ میں تقریباً ایك سو چالیس علماء، اھم شخصیات اور تاجروں كے دستخط كراكے ملك حسین كو ٹیلیگرام كیا اور اپنی رائے كا اظھار كیا۔ ملك حسین نے مجبوراً اس پیشكش كو قبول كرلیا، اس كے دوسرے دن حزب وطنی انجمن نے ملك علی جو جدّہ میں تھا ٹیلیگرام بھیج كر مكہ بلالیا چنانچہ ملك علی نے 5ربیع الاول كو حكومت كی باگ ڈور اپنے ھاتھوں میں لے لی، لیكن اس تبدیلی كا بھی كوئی اثر نھیں هوا، كیونكہ ابن سعود ملك علی كو بھی اسی نگاہ سے دیكھتا تھا جس نگاہ سے اس كے باپ ملك حسین كو دیكھتا تھالہٰذا سر زمین حجاز كے حالات اسی طرح خراب رھے۔

شریف حسین كا انجام

شریف حسین حكومت چھوڑ كر مكہ سے جدّہ كی طرف روانہ هوئے اور دس ربیع الاول كو جدّہ پهونچ گئے ماہ ربیع الاول كی 16 ویں شب میں اپنے غلاموں كے ساتھ كشتی سے عقبہ بندرگاہ كے لئے روانہ هوئے، اور اپنے مقصد پر پهونچنے كے بعد بھی ملك علی كی ترقی اور پیشرفت كے لئے كوشش كرتے رھے، اس كی حكومت كو سر سبز دیكھنا چاھتے تھے۔

اسی مدت میں انگلینڈ كی حكومت نے اپنے امیر البحر كے ذریعہ ملك حسین كو اخطاریہ (اَلٹی میٹم) دیا كہ تین ہفتوں كی مدت میں عقبہ بندرگاہ كو چھوڑ دےں، اور جھاں جانا چاھیں وھاںچلے جائیں۔

شروع میں انھوں نے اس دھمكی كو نھیں مانا لیكن كچھ مدت گذرنے كے بعد اور كچھ واقعات كی بناپر جن كو ھم بیان نھیں كرسكتے مجبور هوگیا اور كشتی پر سوار هوكر جزیرہ ”قبرس“ كے لئے روانہ هوگیا۔

شریف حسین اس قدر انگلینڈ كی حكومت سے بدظن هوگئے تھے كہ اپنے مخصوص باورچی كے علاوہ كسی دوسرے كے ھاتھ كا كھانا نھیں كھاتے تھے تاكہ كوئی ان كو (انگلینڈ كی حكومت كے اشارہ پر) زھر نہ دیدے۔

شریف حسین1931ء تك قبرس میں رھے اور اسی سال بیمار هوئے اور جب ان كی بیماری بڑھتی گئی،وہ عَمّان (اپنے بیٹے امیر عبد اللہ كی حكومت كے پائے تخت) چلے گئے، اور اسی سال وھیں پر انتقال كیا اور بیت المقدس میں” قدس شریف قبرستان“ میں دفن كردئے گئے۔

ابن سعود مكہ میں

اس وقت مدینہ، جدّہ اور بندرگاہ ینبع كے علاوہ تمام سر زمین ابن سعود كے اختیار میں تھی، اور دونوں طرف سے نمائندوں كی آمد ورفت هوتی رھی تاكہ آپس میں صلح اوردوستی هوجائے لیكن كوئی نتیجہ نھیں نكلا۔ ابن سعود 10ربیع الثانی 1343ھ كو ریاض سے عمرہ كے لئے مكہ كی طرف روانہ هوا، اور دوسرے حكّام منجملہ امام یحيٰ یمن كے بادشاہ كو خط لكھا كہ اپنی طرف سے مكہ میںكچھ نمائندے بھیجےں تاكہ عالم اسلام كے تمام نمائندے ایك جگہ جمع هوكر یہ طے كریں كہ مسجد الحرام اور خانہ كعبہ كو سیاسی معاملات سے كس طرح دور ركھا جائے۔

ابن سعود كے ساتھ بھت سے سپاھی، علمائے نجد، اور محمد بن عبد الوھاب كے خاندان والے نیز دوسرے قبیلوں كے سردار بھی تھے، چوبیس روز كی مدت میں مكہ كے قریب پهونچے اور جس وقت عرفات پھاڑ كے علاقہ میں پهونچے تو ”ابن لُوٴی“ نے جو مكہ میں اس كے لشكر كا سردار تھا تقریباً ایك ہزار اخوان لوگوں كے ساتھ اس كے استقبال كوگیا۔

ابن سعود گھوڑے سے نیچے اترا، اور مسجد الحرام كی طرف چلا، وھاں پهونچ كر طواف كیا اور جس وقت وہ مكہ میں پهونچا تو ماہ جمادی الاول كی ساتویں تاریخ تھی۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

بھشت سے آدم کے ھبوط ( سقوط) کا کیا معنی ھے؟
متعہ
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم

 
user comment