اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

غدیر کا ھدف امام کا معین کرنا-2

۳۔ تحقق امامت کے مراحل :

کچھ لوگ یہ سمجھتے ھیں چونکہ خدا وند عالم نے امام کو چنا اور معیّن فرمایا تھا اور رسول اسلام(ص) نے بھی اس امر کی تبلیغ کر دی تھی تو بس یہ کافی ھے ۔ ائمّہ معصومین علیھم السّلام (حضرت امیرالمؤمنین(ع) سے لے کر حضرت مھدی ’عجل فرجہ الشریف ‘ تک ) انسانوں کے امام ، رھبر اور پیشوا خدا کی طرف سے منصوب کےے گئے ھیں ۔اٴُمّت مسلمہ کے حقیقی اور واقعی رھبر تو ائمّہ ھیں ؛ چاھے لوگ انکو منتخب کریں یا نہ کریں ،چاھے ظاھری امامت کے حامل ھوں یانہ ھوں سیاسی قدرت کواسلامی معاشرے میں اسلامی آئین و قوانین کا إجراء کر یں یا نہ کریں یہ نظریہ اور طرز تفکّر ”  شخصی اعتقاد ‘ ‘کے لحاظ سے تو صحیح ھے حضرت علی(ع) اور دیگر ائمہ معصومین علیھم السّلام جھان کی خلقت کے شروع ھونے سے بھی پھلے منتخب ھو چکے تھے اور انکے بابرکت اور نورانی اسماء دیگر آسمانی کتابوں بھی ذکر کےے گئے ھیں۔ چاھے لوگ ان بزرگواروں اور رھبران حق کو پہچانے یا نہ پہچانے کوئی فرق نھیں پڑتا۔

جب حضرت علی(ع)  کو غربت و فقر کی ھی زندگی گزارنی ھے اور سیاسی طاقت اپنے ھاتھ میں نھیں لینی ھے تو اس سے کیا فرق پڑتا ھے کہ لوگ انکو پہچانے یا نہ اور ا ن کے مقام و منزلت سے واقف ھوں یا نہ؟کیونکہ امام علی(ع) کو خدا وندعالم نے منتخب کیا ھے اور وہ تمام لیاقتیں و اوصاف جو ایک امام بر حق میں ھونا ضروری ھیں ان سب کے حامل ھیں ، اس بات پر یقین اور اعتقاد بھی محکم ترین عقائد میں سے ایک ھے ۔ لیکن اس عقیدے کا اجتماعی فائدہ کیا ھے ؟مقام إجراء میں اس کی کیا حیثیت ھے؟ 

اس کی مثا  ل بالکل ایسی ھی ھے جیسے ایک ما ھر طبیب اور قابل ولائق ڈاکٹر ایک شھر میں گوشہ نشینی اختیار کر لے اور غریبانہ ، تنھا اور گمنام زندگی گزارے جبکہ مختلف امرا ض میں مبتلا  ہزاروں مریض اس طبیب کے علاج و درمان سے محروم رھیں معا لجے کے لیے اس کا انتخاب نہ کریں ، اس کے پا س نہ جا ئیں اور اس کے علم ودانش سے استفادہ نہ کر یں ۔

سب سے اھم بات تو یہ ھے کہ امام اسلامی حکومت کی سیاست میں عمل دخل رکھتا ھو سیاسی قدرت اس کے ھا تھ میں ھو اور احکام دین کا اجرا ھو ، اجتماعی عدالت کاتحقق اور اس میں توسیع ھو،

 وہ کون ھے جسے احکام الھی کی تفسیر کرنی چاھے ،

 وہ کو ن ھے جسے اسلامی اقتدار کو اسلامی معاشرے پر حاکم بنانا چاھیے ،

وہ کون ھے جسے حدود الھی کو پا س کرتے ھوے اسلامی معاشرے پر قانون لاگو کرنا چاھیے    وہ کون ھے جو قصاص کرے ، شرعی حد جاری کرے ،وجوھات شرعی کی جمع اوری کرے اور صلح وجنگ میں رھنمائی کرے، خدا اور اسکے فرشتے تو مسلمانوں کی سیاسی اور اجرائی قدرت کو عملاً اپنے ھاتھ میں نھیں لیتے ، لہذا خدا کے منتخب بندوں کو ھونا چاھیے جومعاشرے میں یہ سارے امور خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں لیکن کو ن اور کیسے ؟۔

 یھیں پر لوگوں کا انتخاب اپنا کردار ادا کرتا ھے لوگوں کا قبو ل کرنا امام کی سیاسی اور اجرائی قدرت کیے لیے موثر ھو تا ھے لھذا اس بنا پر امامت کا تحقق پانا چند مراحل میں بہت اھم اور ضروری ھے جیسے۔

 اوّل ۔ انتخاب الٰھی :

 کیونکہ لوگ انسان شناس نھیں ھیں اور دوسروں کے باطنی رموزو اسرارسے واقفیت نھیں رکھتے ، لہٰذا امام بر حق کا انتخاب خدا وند عالم کو کرنا چاھےے جو کہ خالق انسان بھی ھے اور اسکی باطنی کیفیت سے بھی آگاہ ھے ۔ < اَلله ُ اٴَعْلَمُ حَیْثَ یَجْعَلَ  رِّسٰا لَتَہُ >

 (خدا وند عالم بہتر جانتا ھے کہ رسالت و امامت کو کس خاندان میں قرار دے ۔ خدا وند عالم نے ھی تمام قوموں کے لیے پیغمبروں اور اماموں کا انتخاب کیا ھے اور انکا تعارّف کرایا ھے ۔

 دوّم۔ پیغمبرا ن خدا کا اعلان  :

 خدا وند عالم کے انتخاب کر لینے کے بعد آسمانی رھنماؤں اور اٴَئمّہ معصو مین علیھم السّلام کا تعارف پیغمبر ان خدا کے توسّط سے ھونا چاھےے ،انکی اخلاقی خصوصیات کا ذکر ھونا چاھيے ،انکی اجرائی اور سربراھی طاقت کو لوگوں کے درمیان بیان ھونا چاھےے،تاکہ یہ بر گزیدہ ھستیاں پیغمبر خاتم  (ص)کے بعد سے تا قیام قیامت امت کی رھنمائی کر سکیں اور احکام خدا وند کو معاشرے میں عام کر سکیں۔

چنانچہ جناب امیر المؤمنین(ع) نے ارشاد فرمایا:

” وَخَلَّفَ فیْکُمْ مٰاخَلَّفَتِ الْاٴَنْبِیٰاء ُفیْ اٴُمَمِھٰا،إِذْلَمْ یَتْرُکُوْھُم ھَمَلاً، بِغَیْرٍ طَریْقٍ وَاضِحٍ  وَلَا عَلَمٍ قٰائِمٍ۔

رسول گرامی اسلام  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے تمھارے درمیان ایسے ھی جانشین مقرر کئے جیسے کے گذشتہ پیغمبروں نے اپنی اپنی امت کے لیے مقرّر کےے کیونکہ وہ اپنی امت کو سر گردان اور لاوارث چھوڑ کر نھیں گئے ، واضح و روشن راستہ  نیز محکم  نشانیاں بتائے بغیرلوگوں کے درمیان سے نھیں گئے ۔[4]

لیکن اب بھی منتخب اٴَئمّہ کی ولایت عمل و اجراء کے لحاظ سے نامکمّل ھے کیونکہ اگر خدا وند عالم معصوم رھنماؤں کا انتخاب بھی کرلے اور اسکا رسول  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)انکا ابلاغ بھی کر دے لیکن مقام عمل اور میدان زندگی میں لوگ انکو قبول نہ کرتے ھوں تو ولایت کا وقوع معاشرے میں نا تمام و نا مکمّل ھے ۔ اس لےے ایک تیسرے عامل ( لوگوں کا انتخاب ) کا وجود لازمی و ضروری ھے۔

 سوّم۔ لوگوں کی بیعت عام:

 اگر لوگ انتخاب الٰھی اور پیغمبر خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ابلاغ کے بعد راستے کو پہچان لیں ، اپنے اما م بر حق کو چن لیں ، کارھائے امامت میں ممد و معاون ھوں ، اپنے امام کا دل وجان سے انتخاب کریں،اسلامی اقدار کے تحقق کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دیں اور شھادت کی آرزو کے ساتھ امام کے حکم جھاد کو بجا لانے میں دریغ نہ کریں ، عقیدے و یقین میں بھی اور زندگی کے میدان عمل میں بھی امام پر ایمان رکھتے ھوں تب ھی امامت کا تحقق اور ایک واقعی وجودقائم ھوتا ھے ۔امام کو احکام الٰھی کے اجراء کی قدرت و طاقت ملتی ھے اور انسانوں کی میدان زندگی میں دین خدا کو وجود ملتا ھے ۔

 جیسا کہ امام(ع) نے فرمایا !

” اٴَمٰاوَالَّذِیْ فَلَقَ الْحَبَّةَ،وَبَرَاٴَالنَّسَمَةَ،لَوْلاَحُضُوْرُالحٰاضِر وَقِیٰامُ الْحُجَّة بِوُجُوْ دِا لنّٰاصِرِ،وَمٰا اٴَخَذَالله ُعَلیَ الْعُلَمٰاءِ اٴَلا یُقٰا رُّوْا عَلیٰ کِظَّة ظٰالِمٍ، وَلاَ سَغَبِ مَظْلُوْمٍ،لَاٴَ لْقَیْتُ حَبْلَہٰا عَلیٰ غٰارِبِہٰا،وَلَسَقَیْتُ آخِرَھٰا بِکَاٴْسِ اٴَوَّلِھٰا،وَلَاٴَلْفَیْتُمْ دُنْیٰاکُمْ ھٰذِہ اٴَ زْھَدَعِنْدِیْ مِنْ عَفْطَةِ عَنْزٍ!۔[5][6]

اس خدا کی قسم! کہ جس نے دانے میں شگاف ڈالا اور جان کو خلق کیا ، اگر بیعت کرنے والوں کی بڑی تعداد حاضر نہ ھوتی اور چاھنے والے مجھ پر حجّت تمام نہ کرتے اور  خدا وند عالم نے علماء سے عھد و پیمان نہ لیا ھوتا کہ وہ ظالموں کی ھوس اور شکم پری، اور مظلوموں کی گرسنگی پر خاموشی اختیار نہ کریں تو میں آج بھی خلافت کی رسّی انکے گلے میں ڈال کر ھا نک دیتا اور خلافت کے آخر کو اول ھی کے کاسہ سے سیراب کرتا اور تم دیکھ لیتے کہ تمھاری دنیا میری نظر میں بکری کی چھینک سے بھی زیادہ بے قیمت ھے ۔ [7]

اگرانتخاب الھی  وابلاغ ر سا لت کے بعدلوگ ائمہ معصومین کو قبول نہ کریں اور امام برحق کو تنھا چھوڑ دیں یا قتل کر دیں تو اس صورت میں امامت اور ولایت کا تحقق نھیں ھو گا اور امام سیاسی طور پر لوگوں میں حاضر نھیں ھو سکتے اور کوئی بھی ان کے امر باالمعروف اور نھی عن المنکر پر عمل نھیں کرے گا اور اگرفرمان صادرفرمائیں گے تو کوئی اطاعت نھیں کرے گا۔

 حضرت  علی(ع) نے فرما یا  :

دَعُونِِِِِِِِِي وَالَتمِسُوا غَیرِی ،فَاِنََّا  مُستَقبِلُون اَمراً  لَہُ  وُجُوہُ  وَاَلوَانُ، لَاتَقُومُ لَہ القُلُوبُ،وَلَاتَثبُتُ عَلَیہِ العُقُولُ وَاِن الافَاقَ قَد اَغَامَت،وَالمحَجَّةَ قَدتَنَکَّرَت وَاعلَمُوا اَنَّي اِن اَجَبتُکُم رَکِبتُ بِکُم مَااَعلَمُ وَلَم اُصغِ اِ لَی قَولِ اَلقَائَل     وَعَتبِ اَلعَا تِب وَاِن تَرَکتُمُونِي فَاَنَاکَاَحَدِکُم،وَلَعَلِّي اَسمَعُکُم وَاَطوَعُکُم لِمَن وَلَّیتُمُوہُ اَمرَکُم،وَ اَنَا لَکُم وَزِیراً ،خَیرُلَکُم مِنِّی اَمِیراً :[8]

 جب لوگوں نے قتل عثمان کے بعد آپ کی بیعت کا  ارداہ کیا تو آپ نے فرما یا مجھے چھوڑ  دو جاؤ کسی اور کو تلاش کر لو [9] ھمارے سامنے وہ معاملہ ھے جس کے بہت سے رنگ اور رخ ھیں جن کی نہ دلوں میں تاب ھے اور نہ عقلیں انھیں برداشت کر سکتی ھیں دیکھو اٌفق کس قدر ابر آلودھے اور راستے  کس قدر انجانے ھیں ، یاد رکھو اگر میں نے تمھاری بیعت کی دعوت کو قبول کر لیا تو تمھیں اپنے علم ھی کے راستے پر چلاوں گا اور کسی کی کوئی بات او ر سرزنش نھیں سنوں گا لیکن اگر تم نے مجھے چھوڑ دیا تو تمھارے ھی ایک فرد کی طرح زندگی گزاروں گا بلکہ شاید تم سب سے زیادہ تمھارے حاکم کے احکام کا خیال رکھوں میں تمھارے لیے وزیر کی حیثیت سے ا میر کی بہ نسبت ز یادہ  بہتر رھوں گا ۔[10] نا پختہ اور سست عقائد کے مالک کوفیوں کی سرزنش کرتے ھوئے ایک تقریر میں حضرت امیر المؤمنین(ع) نے واضح طور پر اساسی اور بنیادی اصل کی طرف اشارہ فرمایا ! کہ اگر لوگ امام کی اطاعت نہ کریں تو امام عملاً ایک جامعہ اسلامی میں جامعہ ساز فعالیّت نھیں انجام دے سکتا۔  

۱۔  تاریخ طبری  ،  ج  ۶  ص  ۳۰۶  :  طبری  ( متوفّیٰ   ۳۱۰    ھ )

۲۔  النّھایة  ( ۳۵  ھ  کے حوادث سی مربوط  )  :  ابن اٴَثیر  ( متوفّیٰ  ۶۰۶ھ )

۳۔  کتاب جمل  ،  ص  ۴۸  :  شیخ مفید  (رہ)  ( متوفّیٰ  ۴۱۳    ھ )

۴۔  تذکرة الخواص  ،  ص  ۵۷  :  ابن جوزی  ( متوفّیٰ  ۵۶۷    ھ )

۵۔  شرح قطب راوندی  ،  ج  ۱  ص  ۴۱۸  :  ابن راوندی  ( متوفّیٰ  ۵۷۳    ھ )

۶۔  نسخہٴ خطّی  ۴۹۹    ھ  ،  ص  ۷۳  :  مؤلفہ ابن مؤدب پانچویں صدی کا عالم دین

۷۔  نسخہٴ خطّی نہج البلاغہ  ،  ص  ۷۰  :  مؤلّفہ   ۴۲۱    ھ

 ۸۔تجارب  الامم:،  ج  ۱   ص  ۵۰۸  :  ابن  مسکویہ  ( متوفّی   ۴۲۱  ھ)

۹۔  بحارالانوار  ،  ج  ۳۲  ص۳۵۔   مرحوم  مجلسی(رہ)  ( متوفی   ۱۱۱۰   ھ )     

 حرف مترجم :  امیر المؤ منین(ع) کے اس ارشاد سے تین باتوں کی مکمّل وضاحت ھوتی ھے۔ (خطبہ ۹۲ نہج البلاغہ)

۱۔  آپ (ع)کو خلافت کے سلسلے میں کوئی حرص اور طمع نھیں تھی اور نہ ھی آپ (ع) اس سلسلے میں کسی قسم کی تگ و دو کرنےکے قائل تھے ۔ الٰھی عھدہ عھدیدار کے پاس آتا ھے عھدیدار خود اسکی تلاش میں نھیں جاتا۔

 ۲۔ آپ (ع) کسی قیمت پر اسلام کی تباھی برداشت نھیں کر سکتے تھے آپ کی نظر میں خلافت کا لفظ اپنے اندر مشکلات اور مصائب لےے تھا اور قوم کی طرف سے بغاوت کا خطرہ نگاہ کے سامنے تھا لیکن اسکے باوجود اگر ملت کی اصلاح اور اسلام کی بقا ء کا دارومدار اس خلافت کو قبول کرنے میں ھے تو آپ اس راہ میں ھر قسم کی قربانی دینے کے لےے آمادہ و تیارھیں ۔

۳۔ آ پ (ع) کی نگاہ میں امت کے لیے ایک درمیانی راستہ وھی تھا جس پر آج تک چل رھی تھی کہ اپنی مرضی سے ایک امیر چن لے اور وقتاً فوقتاً ضرورت پڑنے پر آپ (ع) سے مشورہ کرتی رھے آپ (ع) مشورہ دینے سے بھر حال گریز نھیں کرتے ھیں جس کامسلسل تجربہ ھو چکا ھے ۔ اور اس مشاورت کو آپ نے وزارت سے تعبیر کیا ھے ۔ وزارت فقط اسلامی مفاد تک بوجھ بانٹنے کے لےے حسین ترین تعبیر ھے ۔ ورنہ جس حکومت کی امارت قابل قبول نھیں اسکی وزارت بھی قابل قبول نہ ھوگی ۔

” یٰااٴَشْبٰاہَ الرِّجٰالِ وَلاَرِجٰالَ!حُلُوْمُ الْاٴَطْفٰالِ،وَعُقُوْلُ رَبَّات الْحِجٰالِ لَوَدِدْتُ اٴَ نِّیْ  لَمْ اٴَ رَکُمْ  وَلَمْ اٴَعْرِفکُمْ مَعْرِفَةً وَاللهجَرَّتْ نَدَماً وَاٴَ عَقَبَت سَدَ ماً قَا تَلَکُمُ الله ُ! لَقَدْ مَلَاٴْتُمْ  قَلْبی قَیْحاً وَشَحَنْتُمْ صَدْری غَیْظاً وَجَرَعْتُمُوْنیْ نُغَبَ التَّہْمٰام اٴَنْفٰاساً وَاٴَفْسَدْتُمْ عَلَیَّ  رٰاٴْیِیْ بِالْعِصْیٰان وَالْخِذْلاَنِ حَتّیٰ لَقَد   قٰالَتْ قُرَیْش إِنَّ اٴبْنَ اٴَبیْ طٰالِبٍ رَجُل ٌشُجٰاع ٌ،  وَلٰکِنْ لاَعِلْمَ لَہُ بِالْحَرْبِ لِلّٰہِ اٴَبُوْھُمْ وَھَلْ اٴَحَدٌمِنْھُمْ اٴَشَدُّلَھٰامِرٰاسا وَاٴَ قْدَمُ فیْھٰامَقٰاماً مِنِّیْ لَقَدْنَھَضْتُ فِیْھٰاوَمٰابَلَغْتُ الْعِشْرِیْنَ وَھٰااٴَنَذَا قَدْذَرَّفْتَ عَلَی السِّتِّیْنَ وَلٰکِنْ لاَ رَاٴْیَ لِمَنْ لاَ یُطٰاعُ ۔[11]

 ترجمہ ( اے مرد وں کی شکل وصورت والو،  اور ،  واقعا،  نا مردو ، تمھاری فکریں بچوں جیسی اور تمھاری عقلیں حجلہ نشین دلھنوں جیسی ھیں میری خواہش تھی کاش میں تمھیں نہ دیکھتا  اور تم سے متعارف نہ ھوتا، جس کا نتیجہ صرف ندا مت اور رنج و ا فسوس ھے الله تمھیں غارت کرے تم نے میرے دل کو پیپ سے بھر دیا،  اور میرے سینہ کو رنج وغم سے چھلکا دیا ھے ، تم نے ھر سانس میں ھم و غم کے گھونٹ پلائے ، اور اپنی نافرمانی ا ور سر کشی سے میری رائے کو بھی بیکار و بے ا ثر بنا دیا ھے ،یھاں تک کہ اب قریش والے یہ کھنے لگے ھیں کہ فرزند ابو طالب بھادر تو ھیں لیکن انھیں فنون جنگ کا علم نھیں ھے ،

ا لله ان کا بھلا کرے ، کیا  اٌن میں کوئی بھی ایسا ھے ، جو مجھ سے زیادہ جنگ کا تجربہ رکھتا ھو  ، اور مجھ سے پھلے سے کوئی مقام رکھتا ھو ، میں نے جھاد کے لیے اس وقت قیام کیا ھے جب  میری  عمر ۲۰ سال بھی نھیں تھی اور اب تو(۶۰) سال ھو چکی ھے لیکن کیاکیا جائے جس کی ا طاعت نھیں کی جاتی اس کی رائے بھی کوئی رائے نھیں ھوتی ۔

اب اس مقام پر یعنی انتخاب الھی اور ابلاغ  پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بعد لوگوں کی عمومی بیعت اور ملت کا انتخاب احکام الھی کے اجرا ء میں اپنا اھم کردار ادا کرتا ھے اور حکومت امام  کے لیے عملی راہ فراھم کر تی ھے ۔ غدیر خم کے ر وزیہ تینوں مراحل باخوبی اور تمام تر ز یبائیّوں کے ساتھ ا پنے ا نجام کو پھنچے یھاں تک کہ حکومت کے پیاسوں کے د لوںمیں دشمنی کی آگ بھڑک ا ٹھی ا نھوں نے جو کچھ بھی چاھا انجام دیا ، اور تاریخ میں ھمیشہ کے لیے اپنے آپ کو  بد نام کر لیا۔کیونکہ :

الف:  خدا وند عالم کے انتخاب کا تحقق فرشتہ وحی  کے توسّط سے آیات کی صورت میں<بلّغ ما اُنزِل اِلیک>اور< الیوم اکملت لکم دینکم> کے نزول کے ساتھ ھوا۔

ب: وحی الھی کا ابلاغ اس عظیم و کم نظیر اجتماع میں پیغمبر اکرم  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے توسط سے انجام پایا:

ج: مردوں اور عو ر توں پر مشتمل عمومی بیعت تا دم صبح جاری رھی اور بخیر و خوبی انجام پذ یر ھوئی کیونکہ امامت کو اس کا صحیح وارث اور مقام مل گیا اور لوگوں کی عمومی بیعت بھی انتخاب الٰھی کے لےے حامی واقع ھوئی ؛ لوگوں کا انتخاب ، انتخاب الٰھی اور رسول ِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی  ابلاغ و اعلان نے ایک ساتھ مل کر امامت کو پائدار اور زندہ و جاوید کیا ؛ تو اس وجہ سے منافقین اور حاسدین غضبناک ھوگئے ، یھاں تک کہ ایک شخص نے موت کی آرزو کی اور آسمان سے ایک پتھر نے آکر  ا س کو نیست ونابود کر دیا۔

بعض گروہ آپ  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے قتل کے درپے ھوگئے لیکن خدائی امداد نے انھیں ناکام اور رسوا کردیا اور بعض دوسروں نے وہ شرمناک اور قابل مذمّت تحریر لکھی کہ جس کے ذریعہ  لوگوں کو گمراہ کرنا چاہتے تھے ؛ لیکن آخر کار  ان کے پاس سکوت اختیار کرنے ،بغض و نفاق اور شیطانی انتظار کے علاوہ کوئی اورچارہ نہ تھا یھاں تک کہ جناب رسول ِ خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعدتمام بغض اور کینہ توزیوں کو یکجا کرکے جو بھی چاھا ایک مسلّحانہ بغاوت (فوجی بغاوت) کی صورت میں انجام دیا۔

 لہٰذا یہ غدیر کا دن صرف” امام کے تعیّن “ کا دن نہ تھا کیونکہ مسلمانوں کا امام غدیر کے عظیم واقعہ سے پھلے ھی معیّن ھو چکا تھا اور حضرت امیر المؤمنین(ع) کے بعد آنے والے اٴَئمہ علیھم السّلام کا ناموں کے ساتھ تعارف کروایا جاچکا تھا ؛ کسی کو امامت اور اٴَئمہ  علیھم السّلام کے ناموں میں کوئی شک و شبہ نھیں تھا۔ غدیر کے دن ( مسلمانوں کی عمومی بیعت) اور خود جناب رسول خدا  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حضرت علی(ع) کے ساتھ بیعت نے حقیقت کا روپ اختیار کیا  اور منکرین ولایت کے لیے تمام راستے بند کر د یئے تاکہ آفتاب ولایت کا انکار نہ کر سکیں ۔           

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

خیر و فضیلت کی طرف میلان
قرآن دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
نھج البلاغہ خطبہ ۱(خلقت انسان)
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
۹ ربیع الاول امام زمانہ(ع) کی امامت کا یوم آغاز
امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
ماہ رمضان کی فضیلت
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات

 
user comment