اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں بلند کرتے ہیں؟

۱۸۔ دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں بلند کرتے ہیں؟

اکثر اوقات عوام الناس کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب خداوندعالم کے لئے کوئی (خاص) محل و مکان نہیں ہے تو پھر دعا کرتے وقت آسمان کی طرف ہاتھ کیوں اٹھاتے ہیں؟ کیوں آسمان کی طرف آنکھیں متوجہ کی جاتی ہیں؟ نعوذ بالله کیا خداوندعالم آسمان میں ہے؟

(قارئین کرام!)  یہ سوال حضرات ائمہ معصومین علیہم السلام کے زمانہ میں بھی ہوتا تھا، جیسا کہ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے کہ ”ہشام بن حکم“ کہتے ہیں: ایک زندیق حضرت امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور اس نے درج ذیل آیت کے بارے میں سوال کیا:

<اَلرَّحْمٰنُ عَلَی الْعَرْشِ اسْتَویٰ>(1)

وہ رحمن عرش پر اختیار اور اقتدار رکھنے والا ہے“۔

امام علیہ السلام نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: خداوندعالم کو کسی جگہ اور کسی مخلوق کی کوئی ضرورت نہیں ہے، بلکہ تمام مخلوقات اس کی محتاج ہے۔

سوال کرنے والے نے عرض کی: تو پھر کوئی فرق نہیں ہے کہ (دعا کے وقت) چاہے ہاتھ آسمان کی طرف بلند ہوں یا زمین کی طرف؟!

                              

(1) سورہ طٰہ ، آیت ۵

اس وقت امام علیہ السلام نے فرمایا: یہ موضوع خداوندعالم کے علم و احاطہ میں برابر ہے (اور کوئی فرق نہیں ہے) لیکن خداوندعالم نے اپنے انبیاء اور صالح بندوں کو خود حکم دیا کہ اپنے ہاتھوں کو آسمان اور عرش کی طرف اٹھائیں، کیونکہ معدنِ رزق وہیں ہے، جو کچھ قرآن کریم اور احادیث سے ثابت ہے ہم اس کو ثابت مانتے ہیں جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے: اپنے ہاتھوں کو خداوندعالم کی بارگاہ میں بلند کرو، اس بات پر تمام امت کا اتفاق اور اجماع ہے۔(1)

اسی طرح کتاب خصال (شیخ صدوق علیہ الرحمہ) میں حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام سے منقول ہے: ”إذَا فَرغَ اٴحدکُم مِنَ الصَّلوٰةِ فَلیرفعُ یدیہِ إلیٰ السَّمَاءِ، ولینصَّب فِي الدعاءِ“ ”جب تم نماز سے فارغ ہوجاوٴ تو اپنے ہاتھوں کو آسمان کی طرف بلند کرو اور دعا میں مشغول ہوجاؤ“۔

اس وقت ایک شخص نے عرض کیا: یا امیر المومنین! کیا خداوندعالم سب جگہ موجود نہیں ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا: جی ہاں! سب جگہ موجود ہے۔

اس شخص نے عرض کیا: تو پھر بندے آسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کوکیوں اٹھائیں؟

اس موقع پر امام علیہ السلام نے درج ذیل آیہٴ شریفہ کی تلاوت فرمائی:

<وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ وَمَا تُوْعَدُوْنَ>(۲)

اور آسمان میں تمہارا رزق ہے اور جن باتوں کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے (سبب کچھ موجودہے)“۔ (۳)

                             

(1) بحار الانوار ، جلد ۳، صفحہ ۳۳۰ توحید صدوق ، صفحہ ۲۴۸، حدیث۱، باب۳۶ ”باب الرد علی الثنویة والزنادقة

(۲) سورہ ذاریات ، آیت  ۲۲

(۳) بحارا لانوار ، جلد ۹۰، صفحہ ۳۰۸، حدیث۷، مذکورہ حدیث تفسیر نور الثقلین ، جلد ۵، صفحہ ۱۲۴ و۱۲۵ میں بھی ذکر ہوئی ہے

ان روایات کے مطابق چونکہ انسان کا اکثر رزق آسمان سے ہے، ( بارش؛ جس سے بنجر زمین زراعت کے لائق ہوجاتی ہے، آسمان سے نازل ہوتی ہے، سورج کی روشنی جو کہ زندگی اور حیات کا مرکز ہے، آسمان سے آتی ہے ، ہوا بھی آسمان میں ہے جو کہ زندگی کے لئے تیسرا اہم سبب ہے) اور آسمان رزق اور برکات الٰہی کا معدن و مرکز ہے، لہٰذا دعا کے وقت آسمان کی طرف توجہ کی جاتی ہے اور رزق و روزی کے مالک و خالق سے اپنی مشکلات کے حل کی دعا کی جاتی ہے۔

بعض روایات میں اس کام کے لئے ایک دوسرا فلسفہ بھی بیان کیا گیا ہے، اور وہ ہے خداوندعالم کی بارگاہ میں خضوع و تذلل کرنا، کیونکہ ہم کسی شخص یا کسی شئے کے سامنے تواضع کے اظہار کے وقت اور تسلیم ہوتے وقت اپنے ہاتھوں کو بلند کرتے ہیں۔(1)

(1) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۲۷۰

 

عدل الٰہی

 

۱۹۔ کیا انسانوں میں پیدائشی فرق ؛ خدا وندعالم کی عدالت سے ہم آہنگ ہے؟

جیسا کہ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں :  <وَلٰا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللهُ بِہِ بَعْضَکُمْ عَلَی بَعْضٍ ․․․> (1)

اور خبر دار جو خدا نے بعض افراد کو بعض سے کچھ زیادہ دیا ہے اس کی تمنا اور آرزو نہ کرنا“۔

اس آیہٴ --شریفہ کے پیش نظر بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی استعداد اور قابلیت زیادہ اور بعض لوگوں کی استعداد کم کیوں ہے؟ اسی طرح بعض لوگ دوسروں سے زیادہ خوبصورت اور بعض کم خوبصورت ہیں، نیز بعض لوگ بہت زیادہ طاقتور اور بعض معمولی طاقت رکھتے ہیں، کیا یہ فرق خداوندعالم کی عدالت کے منافی نہیںہے؟

اس سوال کے ذیل میں ہم چند نکات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:

۱۔ بعض لوگوں میں جسمانی یا روحانی فرق کا ایک حصہ طبقاتی نظام، اجتماعی ظلم و ستم یا ذاتی سستی اور کاہلی کا نتیجہ ہوتا ہے جس کا نظام خلقت سے کوئی سروکار نہیں، مثال کے طور پر بہت سے

                               

(1) سورہ نساء ، آیت  نمبر ۳۲

مالدار لوگوں کی اولاد غریب لوگوں کی اولاد کی نسبت جسمی لحاظ سے طاقتور، خوبصورتی کے لحاظ سے بہتر اور استعداد و قابلیت کے لحاظ سے بہت آگے ہوتی ہے، کیونکہ ان کے یہاں غذائی اشیاء کافی مقدار میں ہوتی ہیں اور صفائی کا بھی خیال رکھا جاتا ہے، جبکہ غریب لوگوں کے یہاں یہ چیزیں نہیں ہوتیں، یا بہت سے لوگ سستی اور کاہلی سے کام لیتے ہیں اور اپنی جسمانی طاقت کھوبیٹھتے ہیں، لہٰذا اس طرح کے فرق کو ”جعلی اور بے دلیل“ کہا جائے گا جو طبقاتی نظام کے خاتمہ اور معاشرہ میں عدل و انصاف کا ماحول پیدا  ہونے سے خود بخود ختم ہوجائے گا ، قرآن کریم نے اس طرح کے فرق کو کبھی بھی صحیح نہیں مانا ہے۔

۲۔ اس فرق کا ایک حصہ انسانی خلقت کا لازمہ اور ایک طبیعی چیز ہے یعنی اگر کسی معاشرہ میں مکمل طور پر عدل و انصاف پایا جاتا ہو تو بھی تمام لوگ ایک کارخانہ کی مصنوعات کی طرح ایک جیسے نہیں ہوسکتے، طبیعی طور پر ایک دوسرے میں فرق ہونا چاہئے ، لیکن یہ بات معلوم ہونا چاہئے کہ معمولاً خداداد صلاحتیں اور روحی و جسمی استعداد اس طرح تقسیم ہوئی ہیں کہ ہر انسان میں استعدادکا ایک حصہ پایا جاتا ہے یعنی بہت ہی کم لوگ ایسے ملیں گے کہ یہ تمام چیزیں ان میں جمع ہوں، ایک انسان، جسمانی طاقت سے سرفرازہے تو دوسرا علم حساب میں بہترین استعداد کا مالک ہے، کسی انسان میں شعرکہنے کی صلاحیت ہوتی ہے تو دوسرے میں تجارت کا سلیقہ پایاجاتا ہے، بعض میں زراعتی امور انجام دینے کی طاقت پائی جاتی ہے، اور بعض دوسرے لوگوں میں دوسری مخصوص صلاحتیں ہوتی ہیں، اہم بات یہ ہے کہ معاشرہ یا انسان اپنی صلاحیت کوبروئے کار لائے اور صحیح ماحول میں  اس کی پرورش کرے تاکہ ہر انسان اپنی صلاحیت کو ظاہر کرسکے اور اس سے حتی الامکان سرفرازہوسکے۔

۳۔ اس نکتہ پر بھی توجہ کرنی چاہئے کہ ایک معاشرہ کے لئے انسانی بدن کی طرح مختلف چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے یعنی اگر ایک بدن کے تمام اعضا اور خلیے (Cells)ظریف اور لطیف ہوں گے جیسے آنکھ، کان اور مغز وغیرہ کے خلیے تو انسان میں دوام پیدا نہیں ہوسکے گا، یا اگر انسانی جسم کے تمام اعضا نرم نہ ہوں بلکہ ہڈیوں کے خلیوں کی طرح سخت ہوں تو وہ مختلف کاموں کے لئے بے کار ہیں(اور اس صورت میں انسان زیادہ دن زندہ نہیں رہ سکتا) بلکہ انسان کے جسم کے لئے مختلف خُلیوں کی ضرورت ہوتی ہے، ایک عضو میں سننے کی صلاحیت ہوتی ہے تو دوسرے میں دیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے زبان سے گفتگو کی جاتی ہے، پیروں سے ادھر ادھر جانا ہوتا ہے، لہٰذا جس طرح انسان کے لئے مختلف اعضا و جوارح کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح ایک ”عمدہ معاشرہ“ کے لئے مختلف صلاحیتوں اور استعداد کی ضرورت ہوتی ہے جن میں سے بعض لوگ بدنی طور پر کام کریں اوربعض لوگ علمی اور غور و فکر کا کام انجام دیں، لیکن یہ نہیں کہ معاشرہ میں کچھ لوگ غربت اور پریشانی کی زندگی بسر کریں، یا ان کی خدمات کو اہمیت نہ دی جائے یا ان کو ذلت کی نگاہ سے دیکھا جائے ، جس طرح سے انسانی اعضا و جوارح اپنے تمام تر فرق کے باوجود ہر قسم کی غذا اور دوسری ضرروتوں سے فیضیاب ہوتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں یوں کہا جائے کہ انسان میں روحی اور جسمی طبیعی اختلاف خداوندعالم کی حکمت کے عین مطابق ہے اور خداوندعالم کی عدالت، حکمت سے کبھی جدا نہیں ہوتی ، مثال کے طور پر اگر انسان کے تمام اعضا ایک ہی طرح کے خلق کئے جاتے تو اس کی حکمت کے منافی تھااور یہ عدالت نہ ہوتی، جبکہ عدالت کے معنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر قرار دینے کے ہیں، اسی طرح اگر معاشرہ کے تمام لوگ ایک روز ایک ہی بات سوچیں اور ایک دوسرے کی استعداد برابر ہوجائے تو اسی ایک دن میں معاشرہ کی حالت درہم و برہم ہوجائے گی! (1)

 

 (1) تفسیر نمونہ ، جلد ۳، صفحہ ۵ ۳۶

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment