اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری پر وھابیوں کے اعتراضات

حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری پر وھابیوں کے اعتراضات

جیسا کہ پھلے عرض کیاجاچکا اور محمد بن عبدالوھاب کی کتاب ” الرّد علی الرافضہ “ سے بیان ھوا کہ وھابی حضرات سید الشھداء حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری اور مجالس بر پا کرنے کی وجہ سے شیعوں پر بدعت ،ضلالت وگمراھی کے فتوے لگاتے ھیں ، اور جس قدر بھی گالیاں او رنازیبا الفاظ ان کے بس میں ھے اور ان کی جاھل فکر میں سماتے ھےں ، شیعوں پر اسکی بوچھار کردیتے ھیں مجھے نھیں معلوم کہ جوشخص یہ کہتا ھے کہ امام حسین (ع) کی عزاداری نھیں کرناچاہئیے غم نھیں منانا چاہئے اور ان پر گریہ وبکا نھیںکرناچاہئے یا واقعہ عاشورا کی یاد تازہ نھیں کرنا چاہئے کیا ایسے شخص مین عزّت و شرافت ، غیرت و انسانیت اور عاطفت ومحبت جیسی چیزوں کی بو بھی پائی جاتی ھے یانھیں؟ وہ لوگ  جو سید الشھداء (ع) ( جنھوں نے اپنی تمام ھستی کو الله کی رضا او رخوشنودی کے لئے قربان کردیا اور اس راہ میں کسی چیز سے دریغ نہ کیا ) کی سوگواری او رعزاداری کو بدعت و ضلالت وگمراھی اور قبیح فعل کے عنوان سے موسوم کرتے ھیں ،کیا ایسے لوگ روز قیامت پر ایمان بھی رکھتے ھیں یانھیں ؟ یا شرافت و انسانیت ، دین اور دینداری سے کوئی تعلق یا وابستگی بھی رکھتے ھیں یا نھیں ؟ وہ امام جن کی مظلومانہ شھادت کی خبر رسالت مآب(ص) نے سنائی اور تمام ائمہ معصومین (ع) نے ان کی یاد اور ان کی تحریک اورقیام کے پیغام کو زندہ رکھنے کی انتھک کوشش کی، وہ امام جو رسولخدا(ص) کا پارہ تن نھایت عزیز اور جگر گوشہ تھا اور اھلسنت حضرات کی صحیح احادیث کے مطابق ” جوانان جنّت کا سیدوسردار“ کیا اسکی مظلومیت پر آنسوں بھانا مناسب اور اچھا نھیںھے ؟!کیا ان کی تحریک اور ایثار وفداکاری سے الھام لے کر ان کی راہ اور ان کے پیغام کو زندہ نھیں رکھنا چاہئے ؟ اور اس طرح سے آنے والی نسلوں کو درس دیا جا سکے اور ھمیشہ ظلم سے برسر پیکار ھونے کا درس نیز کفرو باطل پرستی کے خلاف مؤمنوں کو جدو جھد کا درس دیا جاسکے۔ھم یھاں پر تفصیلی بحث کرنے کا ارادہ نھیں رکھتے صرف صاحب الغدیر مرحوم علامہ امینی (رہ) کے بیان کو نقل کرنے پرھی اکتفاء کرتے ھیں تا کہ واضح ھو جائے کہ سید الشھداء کی سوگواری اور عزاداری نہ صرف یہ کہ بدعت نھیں بلکہ عبادتوں میں اھم عبادت اور دینی وظائف میں اھم ترین وظیفہ ھے ۔

سالانہ عزاداری

عظیم الشان کتاب الغدیر کے مصنف مرحوم علامہ امینی (رہ) کی دوسری تصنیف بنام ” راہ وروش پیغمبر(ص) مااست “ ( اصل کتاب کا فارسی ترجمہ ) میں مذکورہ عنوان کے ذیل میں امام حسین (ع) کی عزاداری کو بر پا کرنے کے متعلق یوںر قمطراز ھیں :

”شاید یہ کھا جاسکے کہ امیر و بادشاہ کی وفات اور ولادت کے موقعوں پر یادمنانا قومی اور دینی بڑی تحریکوں کی عید اور دنیا کے اجتماعی حادثات اور وہ اھم واقعات جو مختلف قوموں میں رونما ھوتے ھیں ( مھم تاریخی واقعات وحادثات کے گذرے ھوئے سالوں کے اعداد و شمار کو ملحوظ خاطر رکھتے  ھوئے ) اور ان کے سالگرہ کے موقع پر جشن و سرور کی محفل سجانا یا وفات کے موقع پر سوگواری و عزاداری برپا کرنا دیرینہ رسوم اور شعائر میں شمار ھوتا ھے جسکی بشری طبیعت اور اسکی شایستہ اور مناسب فکروں نے گذشتہ قوموں اور ملتوں نے بنیاد ڈالی اور زمان جاھلیت سے پھلے اور اسکے بعد بھی زمانہ حاضر تک ویسے ھی جاری اور ساری ھے ۔

یھود و نصاریٰ اور اسلا م سے پھلے عرب قوم کی بڑی عیدیں جنھیں تاریخ نے اپنے دامن میں مخفوظ رکھا،اور گویا یہ ایک انسانی انس و محبت چاہت و خواہش کی ایسی سنّت ھے جو محبت و عاطفت جیسے اسباب سے وجود میں آئی ھے، اور یہ ایسی شاخ وبرگ ھے جو احترام اقتدار اور حسن و سلوک کے ضوابط سے دنیا کے عظیم لوگ اور بے نظیر، نامور افراد و بزرگان امت سے پھوٹتے ھیں اور ان کا مقصد واقعات کو زندہ رکھنا اور ایسے افراد کو زندہ اور جاوید رکھنا ھے ، چونکہ اسمیں تاریخی اجتماعی اور سماجی فائدے پوشیدہ ھیں نیز آئندہ نسل کے لئے سالھا سال اخلاق کامل کے طور پر ثابت ھوسکیں، اور اسمیں کوئی شک نھیں جوان نسل کے لئے پند و نصیحت ، عبرت اور دستور العمل مفیداور مؤثر چیز ھے اور اسمیں وہ تجربات اور آزمائشیں ھیں جو قوموں کی بیداری کاسبب ھیں ،اور یہ ” کسی خاص گروہ یا کسی قوم و نسل سے مخصوص نھیں ، ھاں البتہ تاریخی ایام ،اھم حادثات اور ان ناگوار واقعات سے جو ان ایام میں رو نما ھوئے ھیں ، ایک طرح کی نورانیّت او ر سرور کسب کرلیتے ھیں کہ پورے سال میں یہ ایّام کرامت و عظمت کا نشان ھوجاتے ھیں اور ان حادثات اور واقعات کی خوبی اور بدی سے نیک نامی یا نحوست کسب کرکے ان حادثات کا رنگ اپنا لیتے ھیں۔

تاریخ نے ابھی تک کسی ایسے دن کا پتہ نھیں بتایا جو واقعہ کربلا (روز عاشورا) سے زیادہ درد ناک اور دلخراش دن ھو جس پر ھر شریف اور غیرتمند انسان لرز اٹھتا ھے۔

اس دردناک واقعہ کربلاوالے وہ عالی اور بلند درس دے گئے ھیں جو توحید اور عبادت کی درسگاھوں میں حکمت عملی کی انتھائی اور آخر ی منزلوں میں شمار ھوتے ھیں چنانچہ قیام عاشورا نے جو آزادی اور بلند ھمّتی نیز راہ خدا میں فداکاری اور جانبازی بے حد خوبصورت اور زیباترین تصویرپیش کی ھے وہ ایک کامل واضح اور روشن ترین نمونہ عمل ھے ،عاشورا تباھی اور مشکلات کو بر طرف کرنے نیز ان کی زھریلی جڑوں کو نابودکرنے کی طرف انسانیت کے صحیح راستوں میںسے ایک مثبت قدم ھے ۔

عاشورا رذائل اور پست چیزوں سے بیزار رھنے اور ان سے دور رھنے کی راہ میں ایک مثبت اورمؤثر قدم ھے ۔

عاشورا ظالموں کی شان و شوکت کو خاک میں ملانے کے لئے اور شرک ونفاق کے پرچم کو سرنگون اور نیست و نابود کرنے ، ظالموں کے ظلم و تجاوز سے نپٹنے اور تمام بشریت کو نفس کی اسیری سے رھائی اور آزادی کے لئے ایک محکم بنیادی اور مؤثر ذریعہ ھے ۔

توحید، سچائی اور حقیقت کاکلمہ انسان کے بلند مقام اور سعادت مند زندگی کے پھیلانے کے لئے عاشوراء ھی مثبت ترین عمل ھے :

”  وَتَمَّت کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدقاً وَ عَدلاً لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِہِ “

لہٰذا وہ دن جو تاریخ کی پیشانی پر امّت محمدی(ص) کے لئے زندہ ، تازہ ، درخشان اور ھمیشہ کے لئے باقی رھنے کا سب سے زیادہ بہتر او رحقدار دن ھے وہ حسین(ع) جو رسول(ص) کے جگر گوشہ اور پیغمبر(ص) کے گوشت و پوست کا حصہ اور نور چشم کا ھی دن ھوسکتا ھے ( اور کوئی نھیں ) ان کے پھول کی خوشبو دنیا کی زندگانی ھے۔

حق تو یہ ھے کہ اس دن (عاشورا)کو خدا کے دنوں میں سے سب سے بڑا دن (وہ جو سب سے پھلے خدا سے منسوب ھے ) رسولخدا(ص)  کا دن پیغمبر(ص) کی عید قربان کا دن اور آنحضرت (ع)کے ذبح عظیم کے عنوان سے سمجھنا جاننا اور پہچاننا چاہئے ۔

اس بناپر اگر ھم ”ابو المُویّد موفق خوارزمی حنفی“ متوفی  ۵۶۸ھ ، کی روایت کو حسن قبولیت کا درجہ دیں تو ھم نے کوئی عجیب یا نیا کام انجام نھیں دیا ۔

وہ اپنی مشھور ومعروف کتاب” مقتل الامام السبط الشھید “کے صفحہ ۶۳ا پر ایک روایت اس طرح نقل کرتے ھیں :

امام حسین (ع) کی ولادت کے ایک سال بعد سرخ چھرے والافرشتہ رسول(ص) پر نازل  ھوا  اور اپنے پروں کو پھیلا ئے ھوئے اس طرح گویا ھوا کہ اے محمد(ص) آپ کے فرزندحسین(ع) کو انھیں مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو مصائب قابیل کی طرف سے ھابیل کو پیش آئے اور خداوند عالم نے جو جزا ھابیل کو عطا کی وھی آپ کے فرزندکوبھی عطا کرے گا اور جو سزا اور عذاب قابیل کودیا گیا وھی عذاب ان کے قاتل کو ھو گا،پھر اسکے بعد مزید اضافہ کرتے ھیں کہ کوئی فرشتہ آسمان میں نہ تھا مگر یہ کہ رسولخدا(ص) پر نازل ھوکر تسلیّاںدیتا تھا اور اس جزاء اور انعام سے آگاہ کرتاتھا جو آنحضرت کو الله کی جانب سے ملنے والاھے اور امام حسین (ع) کی تربت کو آنحضرت(ع) کی خدمت میں پیش کرتے تھے :

آنحضرت(ص) الله کی بارگاہ میں عرض کرتے تھے پروردگارا اس شخص کو ذلیل و رسوا کر جو میرے حسین(ع) کی مدد نہ کرے اور قتل کر،اسے جو میرے حسین (ع)کو شھید کرے اور اسکی آرزوٴں ا ور خواہشوں کو خاک میں ملادے ۔

اور جب امام حسین (ع) کی ولادت کو دوسال گذر گئے تو رسولخدا(ص) کو کوئی سفردرپیش ھوا اور آپ سفر پر تشریف لے گئے ابھی کچھ راستہ طے کیا تھاکہ اچانک آنحضرت(ص) بیٹھ گئے اور روتے  ھوئے کلمہ استرجاء اپنی زبان پر جاری کیا :

” اِنَّاللهِ وَ اِنَّااِلَیہِ رَاجِعُونَ “

جب اصحاب نے گریہ کاسبب پوچھا تو آنحضرت نے ارشاد فرمایا:

ابھی ابھی جبرئیل (ع) آئے ھیں اور مجھے نھرے فرات کے کنارے ایک سرزمین کے متعلق خبر دے رھے ھیں جس کا نام کربلا ھے میرا بیٹا حسین (ع)وھاں پر شھید کیا جائیگا۔

اصحاب نے پوچھا :کون سنگدل ھے جو آپ کے شہزادے کو شھید کرےگا ؟ فرمایا یزید نامی شخص کہ خداوند عالم اس منحوس وجود کی نسل ابتر اور قطع کردے گویا میں اس وقت اپنے لال کے خیمہ گاہ اور دفن ھونے کی جگہ کودیکھ رھا ھوں ایسی حالت میں کہ میر ے لال کے سر کو ھدیہ اور تحفہ کے طور پر لے جایا جارھا ھے ۔

خدا کی قسم کوئی بھی میرے لال کے سر بریدہ کو دیکھ خوش نھیں ھوگا مگر یہ کہ خدا اسکو نفاق کی بیماری میں مبتلا کردے گا اور اسکے قلب و زبان میں اختلاف ھو جائیگا (یعنی زبانی ایمان کا دعویٰ کریگا، لیکن اس کے دل میں ایمان نھیںھوگا )

ابو الموٴید مزید بیان کرتے ھیں کہ جس وقت رسالت مآب(ص) سفر سے واپس تشریف لائے تو غمگین حالت میں منبر پر تشریف لے گئے جبکہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) آپ کے سامنے تشریف فرماتھے آنحضرت(ص)نے خطبہ ارشاد فرما یا ،و عظ و نصیحتیں کیں او رخطبہ سے فارغ ھو نے کے بعد اپنا داھنا دست مبارک حسین (ع) کے سر پررکھا اورسر کو آسمان کی طرف بلند کرتے ھو ئے بارگاہ الٰھی میں عرض کیا :  ” پروردگار میں تیرا بندہ او رتیرا پیغمبر محمد ھوں اور یہ دو بچے میری پاک و پاکیزہ عترت اورمیری ذریت اورنسل کے منتخب او ربرگزیدہ بندہ ھیں ( جن کو اپنے بعد چھوڑ کر جا رھا ھوں )

میرے معبود جبرئیل (ع)نے مجھے خبردی کہ یہ میرا لال حسین (ع)بے یار و مددگار قتل کیا جائیگا۔

پروردگا راس کی شھادت کو میری امت کی اصلاح کا سبب قرار دے اورمیرے لال حسین(ع) کو شھیدوں کا سید و سردار قرا ردے اسلئے کہ تو ھر چیز پر قادر ھے، پر ور دگا راسکے قاتل او رجو اسکی مدد نہ کرے اسکی نسل کو منحوس اوربے برکت قرار دے ۔

یھاں پر پھو نچ کر ابو الموٴید بیان کرتے ھیں کہ مسجد میں جب لوگوں نے رسول مقبول(ص) کایہ کلام سنا تو سب چیخ مارمارکر اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے جب حضرت(ص)نے لوگوں کا یہ حال دیکھا تو ارشاد فرمایا :رو تو رھے ھو کیا میرے لال کی مدد بھی کروگے ؟ پروردگار تو ھی اسکا والی و ناصر اور مددگار ھے ۔اسکے بعد ابو المؤید آنحضرت(ص) کے اس خطبہ کو بیان کرتے ھیں جو آنحضرت(ص) نے سفرسے لوٹنے کے بعد اور وفات سے چند روز قبل ارشاد فرمایا تھا، وہ ابن عباس ۻکے حوالہ سے نقل کرتے ھیں اور شاید یہ خطبہ حجّة الوداع سے واپسی پر دیا  تھا  بھر حال اس خطبہ کا مضمون بھی اس مضمون سے ملتا جلتا ھے جو ابھی ھم نے بیان کیا ۔

عجب نھیں کسی کے ذھن میں یہ گمان آئے ( اور تیز اور باھوش لوگوں کا گمان بھی یقین ھی کے مانند ھوتا ھے) کہ رسول خدا(ص) کا اپنی بیویوں ( امھات المؤمنین) کے گھروںمیںعزاداری اور سوگواری کا باربار برپا کرنا اپنے پارہ جگر حسین کی ولادت کے سالگرہ کے موقع پریا شھادت کے دن آنے کی بناپر تھا یادونوں مناسبتوں کی بناپر رھاھو:

” سُنَّةُ اللهِ فِی الَّذِینَ خَلَوا مِن قَبلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحوِیلاً۔[1]        [2]

”خدا کی (یھی) عادت (جاری) رھی اور تم خدا کی عادت میں ھرگز تغیر وتبدل نہ پاؤ گے“

امام حسین (ع) کی شھادت کے مسئلہ سے متعلق رسالت مآب(ص)کے اس قدراحترام اور اہتمام کے باوجود کیا پھربھی وھابی فرقہ جو خود کو محمدی(ص) اور سنّت رسول(ص) کا پیرو سمجھتاھے ، امام حسین(ع) کی سوگواری اور عزاداری، ان کی مظلومیت اور ان کے اھلبیت (ع) کی اسیری اور ان کے اصحاب کی مظلومانہ شھادت پر آنسوبھانے کی مخالفت کرسکتا ھے ؟ حالانکہ ( عزاداری و سوگواری امام حسین (ع) ) ایک عظیم کام اور بہت بڑا شرعی ، عاطفی اور انسانی فریضہ ھے ، عزاداری کے ذریعہ امام حسین (ع) کی یاد کو زندہ رکھناان کی راہ میںمذھب و مکتب کو زندہ رکھنے کے مترادف ھے ، اور یھی رسول(ص) کا راستہ ھے ، اور رسولخدا(ص)  کے راستے اور طریقے اور سنّت کو زندہ رکھنا، کیا وھابیوں کی نظرمیں شرک ، کفر اور جرم ھے ؟ یا رسول(ص) کی راہ و روش کو جاری رکھنا ھر مسلمان پرفرض اورواجب ھے ؟ قارئین محترم : خود اس بارے میں غور فرمائیں اور دقّت نظر سے کام لیں ۔

 


[1] سورہ احزاب آیت ۶۲۔

[2] راہ ما راہ وروش پیامبر مااست“ مولفہ مرحوم علامہ امینی (رہ) ، مترجم جناب محمد باقر شریف موسوی ھمدانی ص ۷۷، مطبع دار العلم قم المقدس ،ایران۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...

 
user comment