اردو
Saturday 20th of April 2024
1
نفر 0

بیعت عقبہ اولی

بیعت عقبہ اولی

          اسی ۱۲ بعثت کے موسم حج میں ان چھ آدمیوں میں سے جوسال گذشتہ مسلمان ہوکرمدینہ واپس گئے تھے پانچ آدمیوں کے ساتھ سات آدمی مدینہ والوں میں سےاورآکرمشرف بااسلام ہوئے حضرت کی حمایت کاعہدکیایہ بیعت بھی اسی مکان عقبہ میں ہوئی جومکہ سے تھوڑے فاصلہ پرشمال کی جانب واقع ہے، مورخ ابوالفداء لکھتاہے کہ اس عہدپربعیت ہوئی کہ خداکاکوئی شریک نہ کرو چوری نہ کرو،زنانہ کرو، اپنی اولادکوقتل نہ کرو، جب وہ بیعت کرچکے توحضرت نے مصعب بن عمیربن ہاشم بن عبدمناف ابن عبدالعلاء کوتعلیم قرآن اورطریقہ اسلام بتانے کے لیے مامورفرمایا الخ(تاریخ ابوالفداء ج ۲ ص ۵۲) ۔

بیعت عقبہ ثانیہ ۱۳ بعثت

             ۱۳ بعثت کے ماہ ذی الحجہ میں مصعب بن عمیر، ۷۳ مرداوردوعورتوں کومدینہ سے لے کرمکہ آئے اورانہوں نے مقام عقبہ پررسول کریم کی خدمت میں ان لوگوں کوپیش کیاوہ مسلمان ہوچکے تھے انہوں نے بھی حضرت کی حمایت کاعہدکیااورآپ کے دست مبارک پربیعت کی، ان میں اوس اورخزرج دونوں کے افراد شامل تھے۔

ہجرت مدینہ

             ۱۴ بعثت مطابق ۲۲۶ میں حکم رسول کے مطابق مسلمان چوری چھپے مدینہ کی طرف جانے لگے اوروہاں پہنچ کرانہوں نے اچھی منزل حاصل کرلی قریش کوجب معلوم ہواکہ مدینہ میں اسلام زورپکڑرہاہے تو”دارالندوہ“ میں جمع ہوکریہ سوچنے لگے کہ اب کیاکرنا چاہئے کسی نے کہاکہ محمدکویہیں قتل کردیاجائے تاکہ ان کادین ہی ختم ہوجائے کسی نے کہاکہ جلاوطن کردیاجائے ابوجہل نے رائے دی کہ مختلف قبائل کے لوگ جمع ہوکربیک ساعت ان پرحملہ کرکے انہیں قتل کردیں تاکہ قریش خون بہانہ لے سکیں اسی رائے پربات ٹہرگئی، سب نے مل کرآنحضرت کے مکان کامحاصرہ کرلیاپروردگارکی ہدایت کے مطابق جوحضرت جبرئیل کے ذریعہ پہنچی آپ نے حضرت علی کواپنے بسترپرلٹادیااورایک مٹی دھول لے کرگھرسے باہرنکلے اوران کی آنکھوں میں جھونکتے ہوئے اس طرح نکل گئے جیسے کفرسے ایمان نکل جائے علامہ شبلی لکھتے ہیں کہ یہ سخت خطرہ کاموقعہ تھا جناب امیرکومعلوم ہوچکاتھا کہ قریش آپ کے قتل کاارادہ کرچکے ہیں اورآج رسول اللہ کابسترخواب گاہ قتل کی زمین ہے لیکن فاتح خیبرکے لیئے قتل گاہ فرش گل تھا (سیرةالنبی ومحسن اعظم ص ۱۶۵) ۔

          صبح ہوتے ہوتے دشمن دروازہ توڑکرداخل خانہ ہوئے توعلی کوسوتاہواپایا پوچھامحمدکہاں ہیں؟ جواب دیاجہاں ہیں خداکی امان ہیں طبری میں ہے کہ علی تلوارسونت کرکھڑے ہوگئے اورسب گھرسے نکل بھاگے احیاء العلوم غزالی میں ہے کہ علی کی حفاظت کے لئے خدانے جبرئیل اورمیکائیل کوبھیج دیاتھا یہ دونوں ساری رات علی کی خواب گاہ کاپہرہ دیتے رہے حضرت علی کافرماناہے کہ مجھے شب ہجرت جیسی نیند ساری عمرنہ آئی تھی ۔ تفاسیرمیں ہے کہ اس موقع کے لئے آیت ” ومن الناس من یشری نفسہ مرضات اللہ“ نازل ہوئی ہے الغرض آنحضرت کے روانہ ہوتے ہی حضرت ابوبکرنے ان کاپیچھاکیا آپ نے رات کے اندھیرے میں یہ سمجھ کر کوئی دشمن آرہاہے اپنے قدم تیزکردئیے پاؤں میں ٹھوکرلگی خون جاری ہوگیاپھرآپ نے محسوس کیا کہ ابن ابی قحافہ آرہے ہیں آپ کھڑے ہوگئے پاؤں صحیح بخاری ج ۱ حصہ ۳ ص ۶۹ میں ہے کہ رسول خدانے ابوبکربن ابی قحافہ سے یہ قیمت ناقہ خریدا۔ اورمدارج النبوت میں ہے کہ حضرت ابوبکرنے دوسودرہم کی خریدی ہوئی اونٹنی آنحضرت کے ہاتھ نوسودرہم کی فروخت کی اس کے بعدیہ دونوں غارثورتک پہنچے یہ غارمدینہ کی طرف مکہ سے ایک گھنٹہ کی راہ پرڈھائی یاتین میل جنوب کی طرف واقع ہے اس پہاڑکی چوٹی تقریباایک میل بلندہے سمندروں وہاں سے دکھائی دیتاہے(تلخیص سیرت النبی ص ۱۶۹ وزرقانی)۔

          یہ حضرات غارمیں داخل ہوگئے خدانے ایساکیاکہ غارکے منہ پرببول کادرخت اگادیامکڑی نے جالاتناکبوترنے انڈادیا،اورغارمیں داخلہ کاشبہ نہ رہا، جب دشمن اس غارپرپہنچے تووہ یہی سب کچھ دیکھ کرواپس ہوگئے (عجائب القصص صفحہ ۲۵۷ میں ہے کہ اسی موقع پرحضرت نے کبوترکوخانہ کعبہ پرآکربسنے کی اجازت دی۔ اس سے قبل دیگر پرندوں کی طرح کبوتربھی اوپرسے گذرنہیں سکتاتھا۔

          مختصریہ کہ یکم ربیع الاول    ۱۴ ء بعثت یوم پنجشنبہ بوقت شب قریش نے آنحضرت کے گھرکامحاصرہ کیاتھاصبح سے کچھ پہلے ۲/ ربیع الاول یوم جمعہ کوغارثورمیں پہنچے یوم یکشنبہ ۴/ ربیع الاول تک غارمیں رہے حضرت علی آپ لوگوں کے لئے رات میں کھاناپہنچاتے رہے اوریہ چاروں اشخاص معمولی راستہ چھوڑکربحیرئہ قلزم کے کنارے مدینہ کی طرف روانہ ہوئے کفارمکہ نے انعام مقررکردیاتھاکہ جوشخص آپ کوزندہ پکڑکرلائے گایاآپ کاسرکاٹ کرلائے گاتوسواونٹ انعام میں دئیے جائیں گے اس پرسراقہ بن مالک آپ کی کھوج لکاتاہواغارتک پہنچااسے دیکھ کرحضرت ابوبکررونے لگے ۔ توحضرت نے فرمایاروتے کیوں ہو” خدا ہمارے ساتھ ہے “ سراقہ قریب پہنچاہی تھاکہ اس کاگھوڑابابزانوزمین میں دھنس گیااس وقت حضرت روانگی کے لیے برآمدہوچکے تھے اس نے معافی مانگی حضرت نے معافی دیدی گھوڑازمین سے نکل آیاوہ جان بچاکربھاگا اورکافروں سے کہہ دیاکہ میں نے بہت تلاش کیامگرمحمدکاسراغ نہیں ملتا اب دوہی صورتیں ہین ۔”یازمین میں سماگئے یاآسمان پراڑگئے۔“

تحویل کعبہ

          ماہ شعبان ۲ ہجری میں بیت المقدس کی طرف سے قبلہ کارخ کعبہ کی طرف موڑدیاگیا قبلہ چونکہ عالم نمازمیں بدلاگیااس لئے آنحضرت کاساتھ حضرت علی کے علاوہ اورکسی نے نہیں دیا کیونکہ وہ آنحضرت کے ہرفعل وقول کوحکم خداسمجھتے تھے اسی لیے آپ مقام فخرمیں فرمایاکرتے تھے انامصلی القبلتین میں ہی وہ ہوہ جس نے ایک نمازبیک وقت دوقبلوں کی طرف پڑھی۔

تبلیغی خطوط

          حضرت کوابھی صلح حدبیہ کے ذریعہ سے سکون نصیب ہواہی تھا کہ آپ نے    ۷ ہجری میں ایک مہربنوائی جس پر”محمد رسول اللہ“ کندہ کرایا اس کے بعد شاہان عالم کوخطوط لکھے ان دنوں عرب کے اردگردچاربڑی سلطنتیں قائم تھیں  :  ۱ ۔   حکومت ایران جس کااثروسط ایشیاسے عراق تک پھیلاہواتھا۔ 

۲ ۔  حکومت روم جس میں ایشیائے کوچک ،فلسطین،شام اوریورپ کے بعض حصے شامل تھے۔  ۳ ۔  مصر۔    ۴ ۔  حکومت حبش جومصری حکومت کے جنوب سے لے کر بحیرئہ قلزم کے مغربی علاقوں پرتھا۔ حضرت نے بادشاہ حبش نجاشی ، شاہ روم قیصرہرقل، گورنرمصرجریح ابن میناقبطی عرف مقوقش ، بادشاہ ایران خسروپرویزاورگورنریمن باذان، والی دمشق حارث وغیرہ کے نام خطوط روانہ فرمائے۔

          آپ کے خطوط کامختلف بادشاہوں پرمختلف اثرہوا، نجاشی نے اسلام قبول کرلیا، شاہ ایران نے آپ کاخط پڑھ کرغیظ وغضب کے تحت خط کے ٹکڑے اڑا دے قاصد کونکال دیا ، اورگورنریمن نے لکھاکہ مدینہ کے دیوانہ (آنحضرت) کوگرفتارکرکے میرے پاس بھیجدے اس نے دوسپاہی مدینہ بھیجے تاکہ حضورکوگرفتار کریں حضرت نے فرمایا، جاؤتم کیاگرفتارکروگے تمہیں خبربھی تمہارابادشاہ انتقال کرگیا، سپاہی جویمن پہنچے توسناکہ شاہ ایران داعی اجل کولبیک کہہ چکاہے آپ کی اس خبردہی سے بہت سے کافرمسلمان ہوگئے۔ قیصرروم نے آپ کے خط کی تعظیم کی گورنرمصرنے آپ کے قاصدکی بڑی مدارات کی اوربہت سے تحفوں سمیت اسے واپس کردیا۔ ان تحفوں میں ماریہ قبطیہ(زوجہ آنحضرت)اوران کی ہمشیرہ شیریں (زوجہ حسان بن ثابت) ایک دلدل نامی جانوربرائے حضرت علی، یعفورنامی درازگوش مابورنامی خواجہ سراشامل تھے۔

 

 

 

اصحاب کاتاریخی اجتماع اورتبلیغ رسالت کی آخری منزل

حضرت علی کی خلافت کااعلان

          یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ خلاق عالم نے انتخاب خلافت کواپنے لیے مخصوص رکھاہے اوراس میں لوگوں کادسترس نہیں ہونے دیا۔ فرماتاہے : ربک یخلق مایشاء ویختارماکان لہم الخیرة سبحان اللہ تعالی عمایشرکون ۔

 تمہارارب ہی پیداکرتاہے اورجس کوچاہتاہے (نبوت وخلافت) کے لیے منتخب کرتاہے یادرہے کہ انسان کونہ انتخاب کاکوئی حق ہے اورنہ وہ اس میں خداکے شریک ہوسکتے ہیں (پ ۲۰ رکوع ۱۰) یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنے تمام خلفاء آدم سے خاتم تک خود مقررکئے ہیں اوران کااعلان اپنے نبیوں کے ذریعہ سے کرایاہے۔(روضة الصفا، تاریخ کامل، تاریخ ابن الوری، عرائس ثعلبی وغیرہ) اوراس میںتمام انبیاء کے کردارکی موافقت کااتنالحاظ رکھاہے کہ تاریخ اعلان تک میں فرق نہیں آنے دیا۔ علامہ مجلسی وعلامہ بہائی لکھتے ہیں کہ تمام انبیاء نے خلافت کااعلان ۱۸/ ذی الحجہ کوکیاہے(جامع عباسی واختیارات مجلسی) مورخین کااتفاق ہے کے آنحضرت صلعم نے حجة الوداع کے موقع پر ۱۸/ ذی الحجہ کوبمقام غدیرخم حکم خداسے حضرت علی کے جانشین ہونے کااعلان فرمایاہے۔

حجة الوداع

          حضرت رسول کریم صلعم ۲۵/ ذی قعدہ    ۱۰ ء ہجری کوحج آخرکے ارادہ سے روانہ ہوکر ۴/ ذی الحجہ کومکہ معظمہ پہنچے آپ کے ہمراہ آپ کی تمام بیبیاں اورحضرت سیدہ سلام اللہ علیہاتھیں روانگی کے وقت ہزاروں صحابہ کی تعدادایک لاکھ چوبیس ہزارہوگئی حضرت علی یمن سے مکہ پہنچے حضورصلعم نے فرمایاکہ تم قربانی اورمناسک حج میں میرے شریک ہو۔ اس حج کے موقع پرلوگوں نے اپنی آنکھوں سے آنحضرت صلعم کومناسک حج اداکرتے ہوئے دیکھااورمعرکة الاراء خطبے سنے جن میں بعض باتیں یہ تھیں ۔

          ۱ ۔ جاہلیت کے زمانہ کے دستورکچل ڈالنے کے قابل ہیں۔   ۲ ۔  عربی کوعجمی اورعجمی کوعربی پرکوئی فضیلت نہیں۔  ۳ ۔  مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں۔  ۴ ۔  غلاموں کاخیال ضروری ہے۔  ۵ ۔  جاہلیت کے تمام خون معاف کردئیے گئے۔  ۶ ۔جاہلیت کے تمام واجب الاداسود باطل کردئیے گئے۔

          غرضکہ حج سے فراغت کے بعدآپ مدینہ کے ارادہ سے ۱۴/ ذی الحجہ کوروانہ ہوئے ایک لاکھ چوبیس ہزاراصحاب آپ کے ہمراہ تھے جحفہ کے قریب مقام غدیر پرپہنچتے ہی آیہ بلغ کانزول ہوا آپ نے پالان اشترکامنبربنایااوربلاکوحکم دیاکہ ”حی علی خیرالعمل“ کہہ کرآوازیں دیں مجمع سمٹ کرنقطہ اعتدال پرآگیا آپ نے ایک فصیح وبلیغ خطبہ فرمایاجس میں حمدوثناکے بعداپنی افضلیت کاافرارلیااورفرمایاکہ میں تم میں دوگرانقدرچیزیں چھوڑے جاتاہوں ایک قرآن اوردوسرے میرے اہلبیت ۔

          اس کے بعد علی کواپنے نزدیک بلاکردونوں ہاتھوں سے اٹھایااوراتنابلندکیاکہ سفیدی زیربغل ظاہرہوگئی پھرفرمایا”من کنت مولاہ فہذاعلی مولاہ جس کامیں مولاہ ہوں اس کے یہ علی مولاہیں خدایاعلی جدھرمڑیں حق کواسی طرف موڑدینا پھرعلی کے سرپرسیاہ عمامہ باندھالوگوں نے مبارکبادیاں دینی شروع کیں سب آپ کی جانشینی سے مسرورہوئے حضرت عمرنے بھی نمایاں الفاظ میں مبارکباددی جبرئیل نے بھی بزبان قرآن اکمال دین اوراتمام نعمت کامژدہ سنایا۔

 سیرہ حلبیہ میں ہے کہ یہ جانشینی ۱۸/ ذی الحجہ کوواقع ہوئی ہے نورالابصارصفحہ ۷۸ میں ہے کہ ایک شخص حارث بن نعمان فہری نے حضرت کے عمل غدیرخم پراعتراض کیاتواسی وقت آسمان سے اس پرایک پتھرگراوروہ مرگیا۔

          واضح ہوکہ اس واقعہ غدیرکوامام المحدثین حافظ ابن عبدہ نے ایک سوصحابہ سے اس حدیث غدیرکی روایت کی ہے امام جزری وشافعی نے اسی صحابیوں سے امام احمدبن حنبل نے تیس صحابیوں سے اورطبری نے پچھترصحابیوں سے روایت کی ہے علاوہ اس کے تمام اکابراسلام مثلاذہبی صنعائی اورعلی القاری وغیرہ اسے مشہوراورمتواترمانتے ہیں ( منہج الوصول صدیق حسن ص ۱۳ تفسیرثعلبی فتح البیان صدیق حسن جلد ۱ ص ۴۸) ۔

واقعہ مباہلہ

          نجران یمن میں ایک مقام ہے وہاں عیسائی رہتے تھے اورہاں ایک بڑاکلیساتھا آنحضرت صلعم نے انہیں بھی دعوت اسلام بھیجی ، انھوں نے تحقیق حالات کے لئے ایک وفدزیرقیادت عبدالمسیح عاقب مدینہ بھیجا وہ وفدمسجدنبوی کے صحن میں آکرٹہرا حضرت سے مباحثہ ہوامگروہ قائل نہ ہوئے حکم خدانازل ہوا ” فقل تعالوا ندع انباء نا “ الخ ائے پیغمبران سے کہدوکہ دونوں اپنے بیٹوں اپنی عورتوں اوراپنے نفسوں کولاکرمباہلہ کریں ۔ چنانچہ فیصلہ ہوگیا اور ۲۴/ ذی الحجہ ۱۰ کوپنجتن پاک جھوٹوں پرلعنت کرنے کے لئے نکلے نصاری کے سردارنے جونہی ان کی شکلیں دیکھیں کانپنے لگا اورمباہلہ سے بازآیا۔ خراج دینامنظور کیا جزیہ دے کررعایابنناقبول کرلیا(معراج العرفان ص ۱۳۵ ، تفسیربیضاوی ص ۷۴) ۔

سرورکائنات کے آخری لمحات زندگی

          حجة الوداع سے واپسی کے بعد آپ کی وہ علالت جوبروایت مشکواة خیبرمیں دئے ہوئے زہرکے کروٹ لینے سے ابھراکرتی تھی مستمرہوگئی آپ علیل رہنے لگے بیماری کی خبرکے عام ہوتے ہی جھوٹے مدعی نبوت پیداہونے لگے جن میں مسیلمہ کذاب ،اسودعنسی، طلیحہ، سجاح زیادہ نمایاں تھے لیکن خدانے انہیں ذلیل کیا اسی دوران میں آپ کواطلاع ملی کہ حکومت روم مسلمانوں کوتباہ کرنے کامنصوبہ تیارکررہی ہے آپ نے اس خطرہ کے پیش نظرکہ کہیں وہ حملہ نہ کردیں اسامہ بن زیدکی سرکردگی میں ایک لشکربھیجنے کافیصلہ کیا اورحکم دیاکہ علی کے علاوہ اعیان مہاجروانصارمیں سے کوئی بھی مدینہ میں نہ رہے اوراس روانگی پراتنا زور دیاکہ یہ تک فرمایا”لعن اللہ من تخلف عنہا“ جواس جنگ میں نہ جائے گااس پرخداکی لعنت ہوگی اس کے بعدآنحضرت نے اسامہ کواپنے ہاتھوں سے تیار کرکے روانہ کیا انہوں نے تین میل کے فاصلہ پرمقام جرف میں کیمپ لگایااوراعیان صحابہ کاانتظارکرنے لگے لیکن وہ لوگ نہ آئے ۔ مدارج النبوت جلد ۲ ص ۴۸۸ وتاریخ کامل جلد ۲ ص ۱۲۰ وطبری جلد ۳ ص ۱۸۸ میں ہے کہ نہ جانے والوں میں حضرت ابوبکروحضرت عمربھی تھے ۔ مدارج النبوت جلد ۲ ص ۴۹۴ میں ہے کہ آخرصفرمیں جب کہ آپ کوشدیددردسرتھا آپ رات کے وقت اہل بقیع کے لئے دعاکی خاطر تشریف لے گئے حضرت عائشہ نے سمجھاکہ میری باری میں کسی اوربیوی کے وہاں چلے گئے ہیں ۔ اس پروہ تلاش کے لیے نکلیں توآپ کوبقیع میں محودعاپایا۔

          اسی سلسہ میں آپ نے فرمایاکیااچھاہوتا ائے عائشہ کہ تم مجھ سے پہلے مرجاتیں اورمیں تمہاری اچھی طرح تجہیزوتکفین کرتا انہوں نے جواب دیاکہ آپ چاہتے ہیں میں مرجاؤں توآپ دوسری شادی کرلیں۔ اسی کتاب کے ص ۴۹۵ میں ہے کہ آنحضرت کی تیمارداری آپ کے اہل بیت کرتے تھے۔

ایک روایت میں ہے کہ اہل بیت کوتیمارداری میں پیچھے رکھنے کی کوشش کی جاتی تھی۔

واقعہ قرطاس

حجة الوداع سے واپسی پربمقام غدیرخم اپنی جانشینی کااعلان کرچکے تھے اب آخری وقت میں آپ نے یہ ضروری سمجھتے ہوئے کہ اسے دستاویزی شکل دیدوں اصحاب سے کہاکہ مجھے قلم ودوات اورکاغذ دیدو تاکہ میں تمہارے لیے ایک ایسا نوشتہ لکھ دوں جوتمہیں گمراہی سے ہمیشہ ہمیشہ بچانے کے لیے کافی ہو یہ سن کر اصحاب میں باہمی چہ می گوئیاں ہونے لگیں لوگوں کے رحجانات قلم ودوات دے دینے کی طرف دیکھ کر حضرت عمرنے کہا ”ان الرجل لیھجرحسبناکتاب اللہ“ یہ مرد ہذیان بک رہاہے ہمارے لیے کتاب خداکافی ہے صحیح بخاری پ ۳۰ ص ۸۴۲ علامہ شبلی لکھتے ہیں روایت میں ہجرکالفظ ہے جس کے معنی ہذیان کے ہیں ۔۔۔۔

 حضرت عمرنے آنحضرت کے اس ارشادکو ہذیان سے تعبیرکیاتھا(الفاروق ص ۶۱) لغت میں ہذیان کے معنی بیہودہ گفتن یعنی بکواس کے ہیں(صراح جلد ۲ ص ۱۲۳)

          شمس العلماء مولوی نذیراحمددہلوی لکھتے ہیں ”جن کے دل میں تمنائے خلافت چٹکیاں لے رہی تھی انہوں نے تودھینگامستی سے منصوبہ ہی چٹکیوں میں اڑادیا اورمزاحمت کی یہ تاویل کی کہ ہمارے ہدایت کے لیے قرآن بس کرتاہے اورچونکہ اس وقت پیغمبرصاحب کے حواس برجانہیں ہیں۔

          کاغذ،قلم ودوات کالانا کچھ ضروری نہیں خداجانے کیاکیالکھوادیں گے ۔ (امہات الامة صفحہ ۹۲) اس واقعہ سے آنحضرت کوسخت صدمہ ہوا اورآپ نے جھنجلاکر فرمایاقومواعنی میرے پاس سے ہٹ اٹھ کرچلے جاؤ نبی کے روبروشوروغل انسانی ادب نہیں ہے علامہ طریحی لکھتے ہیں کہ خانہ کعبہ میں پانچ افراد نے حضرت ابوبکر،حضرت عمر،ابوعبیدہ ،عبدالرحمن ،سالم غلام حذیفہ نے متفقہ عہدوپیمان کیاتھا کہ ”لانودہذہ الامرفی بنی ہاشم“ پیغمبرکے بعدخلافت بنی ہاشم میں نہ جانے دیں گے (مجمع البحرین) میں کہتاہوں کہ کون یقین کرسکتاہے کہ جیش اسامہ میں رسول سے سرتابی کرنے والوں جس میں لعنت تک کی گئی ہے اورواقعہ قرطاس میں حکم کوبکواس بتلانے والوں کورسول خدانے نمازکی امامت کاحکم دیدیاہوگا میرے نزدیک امامت نمازکی حدیث ناقابل قبول ہے۔

وصیت اوراحتضار

          حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ آخری وقت آپ نے فرمایامیرے حبیب کوبلاؤ میں نے اپنے باپ ابوبکرپھرعمرکوبلایا انہوں نے پھریہی فرمایاتومیں نے علی کوبلا بھیجا آپ نے علی کوچادرمیں لے لیااورآخر تک سینے سے لپٹائے رہے (ریاض النضرة ص ۱۸۰ مؤرخین لکھتے ہیں کہ جناب سیدہ اورحسنین کوطلب فرمایا اورحضرت علی کوبلاکروصیت کی اکرہاجیش اسامہ کے لیے میں نے فلاں یہودی سے قرض لیاتھا اسے اداکردینا اوراے علی تمہیں میرے بعدسخت صدمات پہنچیں گے تم صبرکرنا اوردیکھوجب اہل دنیادنیاپرستی کریں توتم دین اختیارکئے رہنا(روضة الاحباب جلد ۱ ص ۵۵۹ ،مدارج النبوة جلد ۲ ص ۱۱۵ ، تاریخ بغداد ج ۱ ص ۲۱۹) ۔

رسول کریم کی شہادت

          حضرت علی علیہ السلام سے وصیت فرمانے کے بعد آپ کی حالت متغیر ہوگئی حضرت فاطمہ جن کے زانو پرسرمبارک رسال مآب تھا فرماتی ہیں کہ ہم لوگ انتہائی پریشانی میں تھے کہ ناگاہ ایک شخص نے اذن حضوری چاہا میں نے داخلہ سے منع کردیا، اورکہااے شخص یہ وقت ملاقات نہیں ہے اس وقت واپس چلاجا اس نے کہامیری واپسی ناممکن ہے مجھے اجازت دیجئے کہ میں حاضرہوجاؤں آنحضرت کوجوقدرے افاقہ ہواتو آپ نے فرمایااے فاطمہ اجازت دے دو یہ ملک الموت ہیں فاطمہ نے اجازت دیدی اوروہ داخل خانہ ہوئے پیغمرکی خدمت میں پہنچ کرعرض کی مولایہ پہلادروازہ ہے جس پرمیں نے اجازت مانگی ہے اوراب آپ کے بعدکسی کے دروازے پراجازت طلب نہ کروں گا (عجائب القصص علامہ عبدالواحد ص ۲۸۲ ،روضة الصفا جلد ۲ ص ۲۱۶ ، انوارالقلوب ص ۱۸۸) ۔

          الغرض ملک الموت نے اپناکام شروع کیااورحضوررسول کریم نے بتاریخ ۲۸/ صفر    ۱۱ ء ہجری یوم دوشنبہ بوقت دوپہرظاہری خلعت حیات اتاردیا(مودة القربی ص ۴۹ م ۱۴ طبع بمبئی ۳۱۰ ہجری اہلبیت کرام میں رونے کاکہرام مچ گیاحضرت ابوبکراس وقت اپنے گھرمحلہ سخ گئے ہوئے تھے جومدینہ سے ایک میل کے فاصلہ پرتھا حضرت عمرنے واقعہ وفات کونشرہونے سے روکااورجب حضرت ابوبکرآگئے تودونوں سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے جومدینہ سے تین میل کے فاصلہ پرتھا اورباطل پرمشوروں کے لیے بنایاگیاتھا (غیاث اللغات) اورانہیں کے ساتھ ابوعبیدہ بھی چلے گئے جوغسال تھے غرض کہ اکثرصحابہ رسول خداکی لاش چھوڑ کر ہنگامہ خلافت میں جاشریک ہوئے اورحضرت علی نے غسل وکفن کابندوبست کیاحضرت علی غسل دینے میں ،فضل ابن عباس حضرت کاپیراہن اونچاکرنے میں، عباس اورقثم کروٹ بدلوانے میں اوراسامہ وشقران پانی ڈالنے میں مصروف ہوگئے اورانہیںچھ آدمیوں نے نمازجنازہ پڑھی اوراسی حجرہ میں آپ کے جسم اطہرکودفن کردیاگیا جہاں آپ نے وفات پائی تھی ابوطلحہ نے قبرکھودی ۔

          حضرت ابوبکروحضرت عمرآپ کے غسل وکفن اورنمازمیں شریک نہ ہوسکے کیونکہ جب یہ حضرات سقیفہ سے واپس آئے توآنحضرت کی لاش مطہر سپردخاک کی جاچکی تھی (کنزالعمال جلد ۳ ص ۱۴۰ ،ارجح المطالب ص ۶۷۰ ، المرتضی ص ۳۹ ، فتح الباری جلد ۶ ص ۴) ۔

          وفات کے وقت آپ کی عمر ۶۳ سال کی تھی (تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۵۲) ۔

وفات اورشہادت کااثر

          سرورکائنات کی وفات کااثریوں توتمام لوگوں پرہوا ،اصحاب بھی روئے اورحضرت عائشہ نے بھی ماتم کیا (مسنداحمدبن حنبل جلد ۶ ص ۲۷۴ ، تاریخ کامل جلد ۲ ص ۱۲۲ ،تاریخ طبری جلد ۳ ص ۱۹۷) لیکن جوصدمہ حضرت فاطمہ کوپہنچا اس میں وہ منفردتھیں تاریخ سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کی وفات سے عالم علوی اورعالم سفلی بھی متاثرہوئے اوران میں جوچیزیں ہیں ان میں بھی اثرات ہویداہوئے علامہ زمخشری کابیان ہے کہ ایک دن آنحضرت نے ام معبدکے وہاں قیام فرمایا آپ کے وضوکے پانی سے ایک درخت اگا،جوبہترین پھل لاتارہا، ایک دن میں نے دیکھاکہ اس کے پتے جھڑ ہوئے ہیں اورمیوے گرے ہوئے ہیں میں حیران ہوئی کہ ناگاہ خبروفات سرورعالم پہنچی پھرتیس سال بعددیکھاگیاکہ اس میں تمام کانٹے اگ آئے تھے بعدمیں معلوم ہواکہ حضرت علی نے شہادت پائی پھرمدت مدیدکے بعداس کی جڑسے خون تازہ ابلتاہوادیکھاگیا بعدمیں معلوم ہواکہ حضرت امام حسین نے شہادت پائی ہے اس کے بعد وہ خشک ہوگیا (عجائب القصص ص ۲۵۹ بحوالہ ربیع الابرارزمخشری)۔

آنحضرت کی شہادت کاسبب

          یہ ظاہرہے کہ حضرات چہاردہ معصومین علیہم السلام میں سے کوئی بھی ایسانہیں جودردجہ شہادت پرفائزنہ ہواہو۔ حضرت رسول کریم سے لے کر حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام تک سب ہی شہیدہوئے ہیں کوئی زہرسے شہیدہوا، کوئی تلوارسے شہیدہوا ان میں ایک خاتون تھیں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ وہ ضرب شدیدسے شہیدہوئیں ان چودہ معصوموں میں تقریبا تمام کی شہادت کاسبب واضح ہے لیکن حضرت محمدمصطفی صلعم کی شہادت کے سبب سے اکثرحضرات ناواقف ہیں اس پرروشنی ڈالتاہوں۔

          حجة الاسلام امام ابوحامد محمدالغزالی کی کتاب سرالعالمین کے ص ۷ طبع بمبئی  ۱۳۱۴ ئھ اورکتاب مشکواة شریف کے باب ۳ ص ۵۸ سے واضح ہے کہ آپ کی شہادت زہرکے ذریعہ ہوئی ہے اوربخاری شریف کی ج ۳ طبع مصر ۱۳۱۴ ء کے باب اللدودص ۱۲۷ کتاب الطب سے مستفاد اورمستنبط ہوتاہے کہ ”آنحضرت کو دوامیں ملا کرزہردیاگیاتھا۔

          میرے نزدیک رسول کریم کے بسترعلالت پرہونے کے وقت کے واقعات وحالات کے پیش نظردوامیں زہرملاکردیاجانا متوقع نہیں ہے علامہ محسن فیض  ”کتاب الوافی“ کی جلد ۱ کے ۱۶۶ میں بحوالہ تہذیب الاحکام تحریرفرماتے ہیں کہ حضور مدینہ می ں زہرسے شہیدہوئے ہیں ۔ الخ۔

          مجھے ایسامعلوم ہوتاہے کہ خیبرمیں میں زہرخورانی کی تشہیراخفائے جرم کے لیے کی گئی ہے۔

ازواج

          چندکنیزوں کے علاوہ جنہیں ماریہ اورریحانہ بھی شامل تھیں آپ کے گیارہ بیویاں تھیں جن میں سے حضرت خدیجة اورزینب بنت خزیمہ نے آپ کی زندگی میں وفات پائی تھی اورنوبیویوں نے آپ کی وفات کے بعدانتقال فرمایا آنحضرت کی بیویوں کے نام درج ذیل ہیں:

          ۱ ۔ خدیجة الکبری ۲ ۔ سودہ   ۳ ۔  عائشہ  ۴ ۔  حفصہ   ۵ ۔  زینب بنت خزیمہ ۶ ۔  ام سلمہ  ۷ ۔  زینب بنت جحش   ۸ ۔  جزیریہ بنت حارث   ۹ ۔  ام حبیبہ ۱۰ ۔ صفیہ   ۱۱ ۔میمونہ

اولاد

          آپ کے تین بیٹے تھے اورایک بیٹی تھی جناب ابراہیم کے علاوہ جوماریہ قبطیہ کے بطن سے تھے سب بچے حضرت خدیجة کے بطن سے تھے حضورکی اولادکے نام حسب ذیل ہیں:

          ۱ ۔  حضرت قاسم طیب :  آپ بعثت سے قبل مکہ میں پیداہوئے اوردوسال کی عمرمیں وفات پاگئے۔

          ۲ ۔  جناب عبداللہ  :  جوطاہرکے نام سے مشہورتھے بعثت سے قبل مکہ میں پیداہوئے اوربچپن ہی میں انتقال کرگئے۔

          ۳ ۔  جناب ابراہیم  : ۸ ہجری میں پیداہوئے اور ۱۰ ہجری میں انتقال کرگئے۔

          ۴ ۔  حضرت فاطمةالزہرا  :آپ پیغمبراسلام کی اکلوتی بیٹی تھیں آپ کے شوہرحضرت علی اوربیٹے حضرت امام حسن اورامام حسین تھے آں جناب کی نسل سے گیارہ امام پیداہوئے اوران ہی کے ذریعہ سے رسول خداکی نسل بڑھی اورآپ کی اولادکاسیادت کاشرف نصیب ہوااوروہ قیامت تک ”سید“ کہی جائے گی۔

          حضرت رسول کریم ارشاد فرماتے ہیں کہ قیامت میں میرے سلسہ نسب کے علاوہ سارے سلسلے ٹوٹ جائیں گے اورکسی کارشتہ کسی کے کام نہ آئے گا (صواعق محرقہ ص ۹۳)

          علامہ حسین واعظ کاشفی لکھتے ہیں کہ تمام انبیاء کی اولادہمیشہ قابل تعظیم سمجھی جاتی رہی ہے ،ہمارے نبی اس سلسلہ میں سب سے زیادہ حق دارہیں (روضة الشہداء ص ۴۰۴)  امام المسلمین علامہ جلال الدین فرماتے ہیں کہ حضرات حسنین کی اولادکے لیے سیادت مخصوص ہے مردہویاعورت جوبھی ان کی نسل سے ہے وہ قیامت تک ”سید“ رہے گا ”ویحبب علی اجمع الخلق تعظیمہم ابدا“ اورساری کائنات پرواجب ہے کہ ہمیشہ ہمیشہ ان کی تعظیم کرتی رہے (لوامع التنزیل ج ۳ ص ۴،۳ ،اسعاف الراغبین برحاشیئہ نوالابصارشبلنجی ص ۱۱۴ طبع مصر)۔

 

1
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت علی المرتضیٰ۔۔۔۔ شمعِ رسالت کا بے مثل پروانہ
پیغمبر كی شرافت و بلند ھمتی اور اخلاق حسنہ
یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام

 
user comment

مصطفى الغوثي chitalwala
ما شاء الله جميل ... ولكن عليكم أن تكتبوا بعد إسم الصحابة " رضي الله تعالى عنه"
پاسخ
0     0
5 مرداد 1390 ساعت 02:13 صبح