اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

سعید بن عاص

۴۔سعید بن عاص

 خلیفہ ثالث نے ولید کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر کے اس کو کوفہ کا امیر بنایا حالانکہ اسلام میں اس کا کوئی کردار نھیں تھا جہاں تک اس کے (ملعون )باپ عاص کا تعلق ھے وہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سخت دشمن تھا اور آپ کو وہ اذیت دیا کرتا تھا اسی(معلون )کو حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے جنگ بدر میں شرک کی حالت میں فی النار کردیا تھا۔[1]

جہاں تک سعید کا تعلق ھے تو یہ ایک بے راھرو نوجوان تھا اور کسی قسم کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کی اھلیت نہ رکھتا تھا اور اسے گورنر بنا دیا گیا اس نے اپنی گورنری کے پھلے دن سے لوگوں کو بھڑکا یا تو کوفہ کے لوگوں کو اس کی شقاوت اور گفتگو میں تضاد کا پتہ چل گیا وہ کھتا تھا کہ اس باغ(اسلامی حکومت) کی سرداری قریش کے بے راہ رو جوانوں کے لائق ھے۔ اس کودین اوراحکام کے متعلق کسی چیز کا ذرا برابر علم نہ تھا اس نے ایک مرتبہ کوفہ میں کھاکہ تم میں سے چاند کس نے دیکھا ھے( یہ چاند دیکھنا عید الفطر کے موقع پر تھا) لوگوں نے کھاکہ ھم میں سے کسی نے بھی چاند نھیں دیکھا۔

 ہاشم بن عقبہ (جو کہ جنگ صفین میں امیرالمومنین علی ا بن ابی طالب کے علمبردار تھے) نے کھاکہ میں نے چاند دیکھا ھے سعید نے اس سے کھاتم نے اپنی ان اندھی آنکھوں کے ساتھ چاند دیکھ لیا ھے اور پوری قوم نے نھیں دیکھا ؟ہاشم نے کھاتم میری ان آنکھوں کا عیب نکال رھے ھو جب کہ میری یہ آنکھ تو اللہ کی راہ میں خراب ھوئی ھے (ان کی یہ آنکھ غزوہ یرموک میں خراب ھوئی تھی) جناب ہاشم نے اگلے دن روزہ نہ رکھا اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ صبح کھانا تناول کیا جب سعید تک یہ خبر پھنچی تو اس نے اپنے سپاھی بھیجے جنھوں نے ہاشم کو مارا پیٹا اور ان کے گھر کو جلا کر راکھ کردیا۔[2]

قارئین کرام!  حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے اس ظالم،سرکش اور بے راہ رو شخص کی جہالت کو ملاحظہ کریں کہ وہ روایت جسے اصحاب صحاح نے نقل کیا ھے یہ اس سے بھی ناواقف اور جاھل تھا ارشاد ھوا :

صوموا لرؤیتہ و افطروا لرؤیتہ۔چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر افطار کرو۔

بھت سی چیزوں کے متعلق کوفیوں نے اس کی ملامت کی ھے اور خلیفہ سے اس کی شکایت کی لیکن کوئی شنوائی نہ ھوئی اور جب اسے ان شکا یات کا علم ھوا تو اس نے کوفہ والوں کو بھت مارا اور انھیں سخت اذیتیں دیں ۔[3]

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ان فساد امتی علی ید غلمہ سفھاء من قریش ۔

قریش کے بے وقوف جوانوں کے ہاتھوں میری امت میں فساد برپا ھوگا۔[4]

اسی وجہ سے قریش کا چھوکرا سعید بن عاص کوفہ کا والی بن گیا وہ کھتا تھا کہ اس باغ کی سرداری قریش کے چھوکروں کے لائق ھے ۔

         

۵۔عبداللہ بن عامر بن کریز ۔

یہ خلیفہ ثالث کا ماموں زاد بھائی تھا ابو موسی اشعری کو بصرہ اور عثمان بن ابوالعاص کو فارس سے معزول کرنے کے بعد خلیفہ نے اس کو بصرہ اور فارس کا والی بنایایقینا آپ کو اس بات پر تعجب ھوگا۔ لیکن اس سے زیادہ تعجب انگیز بات مندرجہ ذیل ھے کہ شبل بن خالد عثمان کے پاس آیا اس وقت امویوں کے علاوہ کوئی بھی اس کے پاس موجود نھیں تھا ۔شبل نے کھااے خاندان قریش تمھیں کیا ھو گیا ھے تم نے اپنے خاندان کے تمام لوگوں کو نجیب بنا دیا ھے اس خاندان کے تمام غریبوں کو غنی بنادیا ھے اور ھر گمنام کو نامور بنادیا ھے تم لوگوں نے ابوموسی اشعری جیسے بزرگوں کو ان کے عھدوں سے معزول کردیا اور عراق کے حق کو نظرانداز کردیا ھے ۔حضرت عثمان نے کھاایسا کس نے کھاھے اس نے عبداللہ بن عامر کی طرف اشارہ کیا ،جس وقت اسے والی بنایا گیا تھا اس وقت اس کی عمر سولہ سال کی تھی ۔[5]

 ابو عمر نے عبداللہ بن عامرکے حالات زندگی میں اسے چوبیس سال کا اور ابو الیقطان نے چوبیس یا پچیس سال کا نوجوان ذکر کیا ھے ۔[6]

 حضرت عثمان نے ان جیسے لوگوں کو اپنی خلافت میں والی مقرر کیا ، اور وہ ان کے تمام کرتوت جانتا تھا جبکہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان موجود ھے:

من اِستعمل عاملامن المسلمین وھویعلم اٴن فیھم اٴولیٰ بذلک منہ واٴعلم بکتاب اللہ وسنةنبیہ فقد خان اللہ و رسولہ و جمیع المسلمین ۔

جو شخص مسلمانوں میں سے کسی کو عامل مقرر کرے اور وہ یہ جانتا ھو کہ (جسے اس نے والی بنایا ھے)اس سے بھتر افراد موجود ھیں جو اللہ کی کتاب اور اس کے نبی (ص)کی سنت کو زیادہ بھتر جانتے ھیں تو گویا اس (والی مقرر کرنے والے) نے اللہ اس کے رسول اور تمام مسلمانوں سے خیانت کی۔[7]

جب آپ ان والیوں کی صلاحیت پر ذرا گھراھی کے ساتھ غور کریںگے تو آپ کو معلوم ھو جائے گا کہ ان میں ایسے اشخاص بھی ھیں جنھیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور ان پر لعنت کی یا وہ جھوٹوں کے سردار اور فسق و فجور کے پیکر تھے۔

 اور قرآن مجید نے ان کی فصیحت بیان کی ھے اور ان تمام غلام زادوں کی جائے پناہ خلیفہ ثالث تھی اس طرح انھوں نے بے راہ رو چھوکرے مسلمانوں پر حاکم اور والی بنادئےے یہ سب لوگ اسلام اور مسلمانوں کے لئے وبال جان بن گئے اور وہ ھمیشہ دین اور اللہ کے صالح افراد کے ساتھ جنگ کرنے میں مشغول رھتے تھے اور ان لوگوں سے ظاھر ھونے والا فسق وفجور ان کے اسلام سے منحرف ھونے کی واضح وروشن دلیل ھے۔

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 



[1] طبقات ابن سعد:ج۱ص۱۸۵۔

[2] طبقات ابن سعد ج۵ ص۲۱۔

[3] الغدیر ج۸ ص۲۷۰۔    

[4] حاکم کی کتاب المستدرک ج۴ ص۴۷۰۔

[5] الغدیر ج ۸ص ۲۹۰ ۔

[6] الغدیر ج ۸ ص ۲۹۰۔

[7] مجمع الزوائد الھیثمی ج۵ص۲۱۱۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

الکافی
چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)
ساتواں سبق

 
user comment