اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

ترجمے كى تحريك

3_ترجمے كى تحريك:

فتوحات كے عروج كا زمانہ گزرنے كے بعد جب اسلامى حكومت مستحكم ہوگئي اور مسلمان اسلام كے بنيادى علوم كى تدوين سے كچھ حد تك فراغت پاگئے ، بعض عباسى خلفاء كے اہتمام اور حوصلہ افزا سياست كے زير سايہ اور بيت المال كى بے پناہ دولت سے استفادہ كرنے كے باعث اسلامى معاشرہ آہستہ آہستہ ان علوم اور صنعتوں كى طرف متوجہ ہوگيا كہ جو غير مسلم تہذيبوں ميں موجود تھے، اس توجہ كا اصلى سرچشمہ قرآن اور بہت سى احاديث تھيں جو مومنين كو علم و فن كے كسب كرنے پر ترغيب دلاتى تھيں_

دہ چيز جو سب سے زيادہ اس تحريك كے اسباب كو فراہم كرنے كا باعث تھى وہ مسلمانوں كى فتوحات بالخصوص مسلمانوں كا ساسانيوں كى سارى مملكت پر تسلط اور مشرقى روم كے كچھ مناطق پر قبضہ تھا ، ان ميں سے ہر سرزمين ايك قديم تہذيب كى حامل تھي، اس سے بڑھ كر يہ كہ ايك ہزار سال قبل يہاں اسكندر اعظم نے لشكر كشى كى تھى ، جس كى بناء پر ان ميں كچھ حد تك يونانيوں كا مزاج رسوخ كرگيا تھا_

مسلمان فاتحين نے اپنے زير تسلط سرزمينوں سے ايك متحدمملكت تشكيل دى _ دوسرى تہذيبوں كے ساتھ ساتھ يونانيوں كے ساتھ مبادلہ اور ثقافتى تفاہم كا ہر طرح سے ايك نيا تجربہ كيا ،تو بہت ہى كم مدت ميں عالم اسلام كے حكام، دانشوروں اور اہل دانش كا اشتياق اور كام اسقدر بڑھ گيا كہ بعد ميں اس دور كانام ''تحريك ترجمہ ''كا دور پڑگيا ، اگر چہ اس تحريك كا آغاز بنى اميہ كے دور سے ہواليكن اس تحريك كے اصلى اثرات بنى عباس كے دور ميں حاصل ہوئے_


1) آلدوميہ لى ، علوم اسلامى و نقش آن در تحولات علمى جہان _ ترجمہ محمد رضا قدس رضوى ، ص 9 _ 77_

 

37

بنى اميہ كے دور ميں اكثر ترجمے اداروں ، محكموں ، سياست اور تجارت سے مربوط تھے انہيں جديد حكام اور غير عرب زبان لوگوں كے درميان رابط كى ضرورت كى بناء پر ترجمہ كيا گيا تھا، يہانتك كہ اگر كوئي ايسا متن كہ جسے علمى كہا جاسكے ترجمہ ہو ا تو وہ بھى فوجى يا محكمانہ ضرورتوں كى بناء پر تھا، ترجمے كى با قاعدہ تحريك جس نے بہت سے تاريخي، اجتماعى اور علمى آثار چھوڑے ،اولين عباسى خلفا كے دور سے شروع ہوئي _

يہ علمى تحريك دو صديوں سے زيادہ جارى رہى ،بالخصوص دوسرے خليفہ منصور عباسى كى حكومت كے زمانہ ميںغير مسلم اقوام كے علوم كے ترجمہ كے حوالے سے اہم اقدامات دو روشوں يعنى تحت اللفظى اور با محاورہ صورت ميں انجام پائے، اس زمانہ ميں پہلے ترجمے فارسى سے عربى ميں ہوئے ، ان كتابوں كے بيشتر مترجمين نو مسلم زرتشتى تھے، چند ادبى كتابوں مثلا كليلہ اور دمنہ كا ترجمہ ايرانى مصنف عبداللہ بن مقفع (متوفاى 141 قمري) كے ہاتھوں انجام پايا، بعد والے ادوار ميں اسلامى مترجمين ترجمہ كے فنون ميںبہت زيادہ مہارت پيدا كرگئے اس فن ميں اپنے تجربات كى بناء پر انہوں نے سريانى اور يونانى زبانوں سے عربى ميں ترجمہ كيا_

اس دور ميںنسطورى مذہب كے حاذق حكيم اور شيخ المترجمين كے نام سے مشہورحنين بن اسحاق جو يونانى ، سريانى ، عربى او پہلوى زبانوں پر تسلط ركھتے تھے پہلے مترجم تھے جنہوں نے ايك گروہ تشكيل ديا اور ترجمہ كے كام كو منظم كيا ،ان كے فن ترجمہ كے شاگردوں ميں سے انكے فرزند اسحاق اور بھانجے حبيش بن اعسم تھے، حنين بھى ديگر مترجمين كے ترجموں كو اصل كتابوں سے مطابقت ديتے ہوئے اصلاح كيا كرتے تھے_

عباسى خلافت كے دور ميں ترجمہ كى اس تحريك كو چند ادوار ميں تقسيم كيا جاسكتا ہے كہ ان تمام ادوار ميں خليفہ كے ميلان ياديگر عوامل كى بناء پر تراجم كى تعداد اور موضوعات ميں فرق پڑا ،ان ادوار كو خاص طور پانچويں عباسى خليفہ ہارون الرشيد (حكومت 193 _ 170) كے دور سے يوں ترتيب ديا جا سكتا ہے:

(الف) ہارون الرشيد كا دور: اس دور ميں توجہ كا مركزسائنس كى كتابوں كا ترجمہ تھا ، يحيى بن خالد برمكى جو كہ ہارون كے وزير تھے انہوں نے لائق مترجمين كو اكٹھا كرنے كے ليے بہت زيادہ كوشش كى ، ہارون كے

 

38

زمانہ ميں جو شہر جو مسلمانوں كے قبضہ ميں آتے تھے انكے كتابخانے كامل طور پر بغداد ميں منتقل ہوتے تھے، يونانى علوم كے پہلے آثار اور تاليفات مثلا اقليدس اور مجسطى كى اصول ہندسہ پر لكھى ہوئي كتابيں ،بطلميوس كى تصانيف اور ہندوستانى زبان سے طب كے بارے ميں تصنيفات كا عربى ميں ترجمہ اس دور ميں انجام پايا_

ب) مامون كا دور ( حكومت 218 _ 198قمرى ) : ہارون الرشيد كے بعدكچھ عرصے ميں مامون مقام خلافت پر پہنچ گيا ،جس زمانہ ميں حكومت اسكے ہاتھوں آئي اس زمانہ ميں آيات قرآن سے مختلف فہم و تعبير كى بناء پر علم كلام كى مباحث عروج پر تھيں اوراس دور ميں بالخصوص بہت سى فلسفى تصنيفات عربى ميں ترجمہ ہوئيں_

ج) مامون كے بعد كا دور: مامون كے بعد متوكل عباسى (حكومت 247 _ 232قمري) كے دور ميں ترجمہ كا كام اسى طرح چلتا رہا، مثلا حنين بن اسحاق اسى طرح متوكل كے دور ميں بھى ترجمہ كے كام ميں مشغول رہے ، ليكن حكومت اسلامى كے مركز كا معتصم (حكومت 237 _ 218قمري) كے دور ميں بغداد سے سامرا منتقل ہونا مختلف تصانيف كے ترجمہ كى كيفيت ميں تبديلياں لايا، اس تبديلى كى اہم ترين وجہ '' بيت الحكمة'' جو كہ ايك اہم ترين علمى ادارہ تھا اسكى عظمت و اہميت كا كم ہونا تھا_

د) تحريك ترجمہ كا اختتام:بغداد ميں ترجمہ كى تحريك دو سو سال تك بہت زيادہ كام كرنے كے بعد بتدريج زوال پذير ہوگئي اور آخر كار نئے عيسوى ہزارہ كے آغاز ميں اپنے اختتام تك پہنچ گئي، البتہ يہاں تحريك ترجمہ كے ختم ہونے كا يہ مطلب نہيں ہے كہ لوگوں كى توجہ ترجمہ شدہ علوم كى طرف كم ہوگئي يا يونانى زبان سے ترجمہ كرنے والے ماہرين كم ہوگئے تھے بلكہ اس تحريك كے اختتام كى اصلى وجہ ان زبانوں ميں نئے موضوعات كا موجود نہ ہونا تھا ،دوسرے الفاظ ميں يہ تحريك اپنى اجتماعى مركزيت كھو بيٹھى تھى ، جديد مضامين كا پيش نہ ہونا سے مراد يہ نہيں ہے كہ ديگر غير دينى يونانى كتب ترجمہ كيلئے موجود نہ تھى بلكہ اس سے مراديہ ہے كہ ايسى يونانى كتب جو اس تحريك كے بانى حضرا ت، علماء اور دانشور طبقہ كى توجہ اور ضرورت سے متعلق ہوں موجود نہ تھيں ،

 

39

كيونكہ بيشتر علوم و فنون ميں بہت عرصہ پہلے سے اصلى متون اور تصنيفات تشكيل پا چكى تھيں كہ جو ان ترجمہ شدہ كتب كى سطح سے كہيں بلند علمى سطح كى حامل تھيں ،اس تحريك كے بانى اور حامى گذشتہ دور كى نسبت اب ترجمہ كے كام كى طرف توجہ يا اسكى پشت پناہى كرنے كى بجائے خود عربى زبان ميں اصلى مضامين وموضوعات كو پيش كر رہے تھے_

4_ اسلامى تمدن ميں علمى مراكز

اسلام كے نئے تشكيل شدہ نظام كے استحكام اور اسلامى معاشرے كے اندرونى رشد و كمال سے بتدريج تعليمى مراكز وجود ميں آگئے جنہوں نے علوم و فنون كى پيدائشے اور وسعت ميں اہم كردار ادا كيا، پہلا تعليمى ادارہ كہ جو اس عنوان سے وجود ميں آيا اسكا نام بيت الحكمة تھا يہ بغداد ميں تعمير ہوا اور حكومتى خزانہ يا بيت المال كى رقم سے چلتا تھا_

يہ دانشوروں ،محققين اورخصوصاًايسے لائق مترجمين كے اجتماع كا مركز تھا كہ جو يونان كى علمى و فلسفى كتب كو عربى ميں ترجمہ كيا كرتے تھے، بيت الحكمة كہ جو مسلمانوں كا بغداد ميں پہلا كتابخانہ تھا اسكى بنياد ہارون الرشيد نے ڈالى ، اس سے پہلے منصور عباسى كہ جسكے زمانہ ميں ترجمہ كے كام كا آغاز ہوا تھا اس نے حكم ديا تھا كہ ديگر زبانوں سے كتب كو عربى ميںترجمہ كيا جائے بعد ميں يہى كتب بيت الحكمة كى اساس قرار پائيں_

مامون كے زمانہ ميںبيت الحكمة كو وسيع كيا گيا، اس نے كتابوں سے لدے ہوئے سو اونٹ بغداد منگوائے اور بظاہر يہ كتب اس قرار داد كے تحت مسلمانوں كودى گئيںجو مامون اور روم كے بادشاہ مشل دوم كے در ميان طے پائي، نيز مامون نے 3لاكھ دينار ترجمہ كے كام پر خرچ كيے، اس دور ميںبيت الحكمة كے علاوہ ديگر علمى ادارے بھى موجود تھے ان اداروں ميں سے ايك ''دار العلوم'' تھا يہ ايك عمومى لا ئبريرى كى شكل ميں تھا، اسى طرح مصر ميں ايك تعليمى مركز دار العلم فاطميون تھا، يہ ادارہ الحاكم با مراللہ جو كہ مصر ميں فاطمى خليفہ تھے انكے حكم سے 395 ہجرى قمرى قاہرہ ميں تعمير ہوا، اس ادارہ ميں تقريبا دس لاكھ كتب موجود تھيں ،موصل كا

 

40

دار العلم جعفر بن محمد ہمدان موصلى نے تعمير كيا يہ وہ پہلا علمى مركز تھا كہجسميں تمام علوم سے كتابيں جمع كى گئي تھيں موجودہ لبنان كے ايك شہر طرابلس ميںپانچويں صدى ہجرى كے آخر ميں ايك دارالعلم سوا لاكھ جلد كتابوں كے ساتھ موجود تھا_(1)

اسلامى دور كے ديگربہت اہم مشہورعلمى مراكز نظاميہ مدارس تھے، پانچويں صدى كے آخرى پچاس سالوں ميں خواجہ نظام الملك نے بغداد ، نيشابور ، اور ديگر شہروں ميں مدارس كى تعمير كر كے نظاميہ نام كے مدارس كے سلسلے كى بنياد ركھى ، بغداد كا نظاميہ جو كہ 459 قمرى ميں تاسيس ہوا اسميں ابواسحاق شيرازى تدريس كيا كرتے تھے، انكے بعد اس مدرسہ ميں تدريس كى سب سے بڑى كرسى امام محمد غزالى كو نصيب ہوئي ، اسكے بعد عالم اسلام ميں مدارس كا جال بچھ گيا ،سلجوقيوں كى مملكت ميں جو مدارس اور علمى مراكز خواجہ كے حكم سے تعمير ہوئے تو وہ خواجہ نظام الملك كى طرف منسوب ہونے كى وجہ سے نظاميہ كے عنوان سے مشہور ہوئے _

بغداد كے نظاميہ كے علاوہ اور مدارس نظاميہ بھى قابل ذكر ہيں مثلا نيشابور كا نظاميہ خواجہ نظام الملك اور ديگر سلجوقى بادشاہوں كى نيشابور شہر كى طرف خصوصى توجہ كے باعث تاسيس ہوا ،مشہور افراد مثلا امام موفق نيشابورى ، حكيم عمر خيام، حسن صباح ، امام محمد غزالى اور انكے بھائي امام احمد اور امام محمد نيشابورى نے اس مدرسے ميں تربيت پائي ،نيشابور كا يہ نظاميہ مدرسين اورمشہور فقہاء كى تعداد جو كہ وہاں تعليم ديتے تھے ،كے باعث بغداد كے نظاميہ كے بعد دوسرا مقام ركھتا تھا، اسى طرح اصفہان اور بلخ كے مدارس نظاميہ بھى نامور اساتذہ كے حامل تھے_

مجموعى طور پر كہا جاسكتا ہے كہ عالم اسلام ميں علمى و تعليمى مراكزمتعدد اور متنوع تھے، ان مراكز ميں سے وسيع اور غالب ترين علمى مراكز مساجد تھيں كہ جو سارے عالم اسلام ميں پھيلى ہوئي تھيں ،مساجد مسلمانوں كے دينى اجتماع كے سب سے پہلے مراكز ميں شمار ہوتى تھيں_


1)على رفيعى علامہ دشتى ، درآمدى بر دايرة المعارف ،كتابخانہ ہاى جہان ، قم ، ص 43 _ 42_

 

41

حتى كہ مدارس كى عمارتيں بھى مساجد كے نقشہ كے مطابق ہوتى تھيں ايسى معروف مساجد جو اپنى تاسيس كے آغاز ميں يا كچھ عرصہ بعد ان ميں لائبريرياں بھى تشكيل پائيں ، عالم اسلام كے اہم شہروں ميں بہت زيادہ تھيں مثلا مسجد جامع بصرہ ، مسجد جامع فسطاط ، مسجدجامع كبير قيروان ، مسجد جامع اموى دمشق، مسجد جامع زيتونہ جو كہ تيونس ميں ہے، مسجد جامع قرويين فاس اور مسجد جامع الخصيب اصفہان(1)_

عالم اسلام كے ہسپتال كہ جنہيں '' مارستان'' بھى كہا جاتا تھامريضوں كے علاج كے ساتھ ساتھ اطباء كى تحقيق اور مطالعہ كے مراكز بھى شمار ہوتے تھے، اور ان ميں صرف اسى علم پر لائبريرياںبھى تھيں ،مثلا مارستان فسطاط ، مارستان الكبير منصورى قاہرہ ، مارستان نورى بغداد ، رى كا ہسپتال ...

اسى طرح علمى مراكز ميں سے رصد خانے ( علم ہيئت كے مراكز) بھى تھے ،عالم اسلام ميں بہت بڑے متعدد رصد خانے تعمير ہوئے جن كا شمار دنيا كے سب سے بڑے اور اہم ترين رصد خانوں ميں ہوتا تھا،كہ جن ميں علم رياضى اور نجوم كى جديد ترين تحقيقات ہوتى تھيں،رصد خانوں ميں اسلامى دانشوروں كے بہت سے انكشافات اور تحقيقات صديوں بعد بھى يورپ ميں تجزيہ و تحليل كا مركز قرار پائے ،ان رصد خانوں ميں اہميت كے لحاظ سے مثلا مراغہ اور سمرقندكے رصد خانوں كا نام ليا جاسكتا ہے_

ان تمام اسلامى تعليمى اداروں ميں دو علمى مركز بہت زيادہ اہميت كے حامل ميں ان دو ميں ايك ''ربع رشيدي'' ہے كہ بہت سے علماء كى آمد و رفت كا مقام تھا كہ جو وہاں علمى كاموں ميں مصروف تھے ،دوسرا ''شنب غازاني''كہ جو ايل خانوں كے دور ميں تعمير ہوا كہ جس ميں مختلف ا فراد كے درميان متعدد علمى معلومات كا تبادلہ ہوا كرتا تھا_


1) منور جمال رشيد ، قديم اسلامى مدارس، لاہور ، ص 138 _ 114_

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کلمات قصار
تہران میں یوم شہادت امام جعفر صادق (ع) پرچم عزا نصب
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں

 
user comment