اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

اسلامى تمدن كى تشكيل

31

1) اسلام ميں علم و دانش كا مقام

جو كچھ آيات اورروايات ميں علم و دانش اور معرفت كى فضيلت كے حوالے سے ذكر ہوا ہے اگر اسے بغير كسى تفسير اور تشريح كے جمع كريں تو بڑى كتابوں كى شكل ميں سامنے آئيگا، اگر اس حد تك اسلام كے اولياء علم اور تعليم پر تاكيد نہ فرماتے ہوتے تو كبھى بھى اسلامى تمدن عظمت كے اس بلند مقام پر فائز نہ ہوتا_

خود كلمہ '' علم '' اپنے مشتقات كے علاوہ تقريبا اسّى بار قرآن مجيد ميں مختلف موارد ميں استعمال ہوا ہے ،كلمہ ''عقل'' اگر چہ قرآن مجيد ميں نہيں آيا ليكن '' اولى الالباب'' كى تركيب كہ جسكا معنى صاحبان عقل ہے قرآن ميں موجود ہے ، اسى طرح '' حكمت ، برہان ، فكر ، فقہ و غيرہ جيسے كلمات كئي بار قرآن مجيد ميں استعمال ہوئے ہيں، اللہ تعالى نے مومنين كو اس حوالے سے كہ وہ اندھى تقليد كى بناء پر اس پر ايمان لائيں نہى فرمائي ہے ، حتى كہ ايك آيت ميں (روم 65) علم اور ايمان كا اكھٹا ذكر كيا ہے _

مزيد يہ كہ صرف ان كلمات پر اكتفاء نہيں ہوا بلكہ تعليم و تربيت كے حوالے سے بہت سى آيات قرآن ميں موجود ہيں ، مثلا آل عمران كى آيت 190، انعام آيت 97، يونس كى آيت 5 ... يہاں تك كہ وہ آيات كہ جو گذشتہ لوگوں كے قصے بيان كرتى ہيں اور ان واقعات كو بيان كرنے سے انكا ہدف عبرت دلانا ہے ان ميں بھى تاريخى موضوعات ، تاريخ نويسى پر حوصلہ افزائي ، آثار تاريخى كا مشاہدہ اور حقائق بينى جيسے احساسات كو واضح اور آشكار طور پر درك كيا جاسكتا ہے_(سورہ انعام 11)

پيغمبر اكرم(ص) اور ائمہ اطہار عليہم السلام سے منقول احاديث اور اقوال ميں بھى عظمت علم اور فضيلت علماء كے حوالے سے بہت كچھ ذكر ہوا ہے، پيغمبر اسلام (ص) كى يہ تاكيد كہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر حصول علم واجب اور

 

32

فرض ہے يا يہ كہ ايك گھنٹے كى فكر ايك سالہ عبادت سے بہتر ہے ، يہ سب اسلام ميں تعليم و تعلم كے حوالے سے تاكيد كى مثاليں ہيں_

آئمہ عليہم السلام كى حيات مباركہ كے ادوار ميں بالخصوص امام جعفر صادق (ع) كا سنہرى دور كہ جب علم و تعليم عروج پر تھى آب اپنے اصحاب كو علم كے حصول پر شوق دلاتے تھے ،يہ كہ قيامت كے دن دانشوروں كے قلم شہداء كے خون پر بھارى پڑ جائيں گے اس قسم كى رغبت اور شوق دلانے كى مثالوں ميں سے ہے، البتہ اس نكتہ پر توجہ ركھنى چاہيے كہ حصول علم كى اسلام ميں كچھ شرائط ہيں : اسلام علم اور اخلاق ميں كسى فاصلے كا قائل نہيں ہے بلكہ ان دونوں كے با ہم پيوستہ رہنے پر تاكيد كرتا ہے، اسلام ميں اہل علم و دانش ذمہ دار فرد ہے اور اخلاق سے بے بہرہ استاد سوائے گمراہى كے كوئي اور راہنمايى نہيں كرتا ، يہ موضوع بذات خود اسلام كے امتيازات ميں سے ہے كہ وہ تعليم و تربيت كے حوالے سے ايك عليحدہ اور خاص مكتب كا مقام ركھتا ہے_(1)

اسلامى تہذيب و تمدن ميں تاريخ كتابت پر ايك نظر

تاريخ كے مختلف اوراق سے جو معلومات حاصل ہوئي ميں وہ يہ كہ زمانہ جاہليت ميں اہل عرب اگر چہ لكھنے كے فن سے مطلع تھے ليكن ان كى صحرائي زندگى ايسى نہ تھى كہ فن كتابت انكے لئے ضرورى ہو،اس دور ميں زبانى ياد كرنے اور حفظ كرنے كے كلچر كا غلبہ تھا، جزيرہ عرب كے بعضى مناطق مثلا حجاز سے ايك لكھا ہوا پتھر ملا ہے كہ جو اس منطقہ كے قديم زمانے سے تعلق ركھتا ہے ماہرين اس نتيجہ پرپہنچے ہيں كہ اس علاقے ميں پہلے خط نبطى كى ايك قسم رائج تھي_

قرآن مجيد ميں كتابت كے حوالے سے خاص الفاظ كا موجود ہونا بتاتاہے كہ ظہور اسلام كے زمانہ ميں اہل عرب كتابت كى مختلف اقسام كا كچھ علم ركھتے تھے، ان الفاظ ميں سے ايك لفظ '' كتاب'' ہے اگر چہ يہ


1) محمد رضا حكيمى ، اور ديگران '' الحياة'' تہران ، ج 1_

 

33

واضح نہيں ہے كہ اس سے مقصود وہ چيز ہے كہ جسے ہم كتاب كہتے ہيں ، بہرحال كسى لكھى ہوئي اور مكتوب چيز كااشارہ دے رہاہے، اسى طرح لفظ صحيفہ جمع كى صورت ميں يعنى '' صحف'' قرآن ميں ذكر ہوا ہے ، يہاں يقينا مراد مكتوب اورلكھى ہوئي چيز ہے، با وجود اس كے كہ اہل عرب حفظ اور زبانى ياد كرنے پر بہت زيادہ رغبت ركھتے تھے قرآں مجيد كا كتابت پر تاكيد و اصرار بہت دلچسپ اور اہم ہے اور اس بات پر اشارہ ہے كہ مسلمان ان اولين ايام ميں ہى جانتے تھے كہ كتاب آسمانى كى آيات ميں كوئي لفظ تبديل نہيں ہونا چاہيے_(1)

جلد اورر چمڑا ان چيزوں ميں سے ايك تھى كہ جس پر قرآن لكھا جاتا تھا اس زمانہ ميں اہم مسائل تحرير كرنے كے ليے جلد يا چمڑااستعمال كرنے كى وجہ اسكى پائيدارى تھى ليكن اسكا حصول امير لوگوں كيلئے بھى دشوار تھا، اسى لئے اہل عرب كچھ اور مناسب چيزوں كو كتابت كيلئے استعمال كرتے تھے ، مثلا كھجور كے درخت كى خشك كى ہوئي چھال يا اسكى كوئي خشك شاخ ،مسلمانوں كى اردگرد كى تہذيبوں سے آشنائي انكى كتابت كے وسائل سے آگاہى ميں بھى بہت اثرات كى حامل تھى ،مسلمان، مصر وشام كى سرزمينوں كو فتح كرنے كے بعد قرطاس يا پيپورس سے آشنا ہوئے ، اسكے بعد انہيں كتابت كيلئے ديگر چيزوں پر ترجيح ديتے تھے ليكن پيپورس (كاغذ كى طرح ايك چيز) بھى انكے لئے بہت مہنگا ثابت ہوا_

لہذا تحرير كے ليے مناسب انتخاب '' كاغذ'' تھا مسلمان شروع ميں ماوراالنہر كے علاقے فتح كرنے كے زمانے ميں كاغذ سے آشنا ہوئے تھے، سمرقند كہ جہاں بہت سے چينى كاغذ سازى كى صنعت ميں مشغول تھے وہاں سے يہ صنعت ديگر اسلامى سرزمينوں ميں منتقل ہوئي ، كاغذكے خام مال كو مختلف مقدار ميں استعمال كرنے كى وجہ سے پہلى صدى ہجرى ميں مختلف انواع اقسام كے كاغذ تيار ہوئے تھے، يہ كاغذ اپنى نوعيت ، استحكام ، ضخامت ، چمك اور رنگ ميں ايك دوسرے سے مختلف ہوتے تھے_

اس سے معلوم ہوتاہے كہ مسلمانوں نے چينى لوگوں سے كاغذ سازى كى روش كو سيكھنے پر اكتفاء نہيں كيا بلكہ اس صنعت كو ترقى دى اور كمال تك پہنچايا ، بتدريج تمام اسلامى شہروں اور سرزمينوں ميں مثلا عراق ، مصر ،


1) يحيى وہب الجبورى ، الخط و الكتابة فى الحضارة العربيہ ، بيروت ، ص 249 كے بعد تك_

 

34

ايران اور اندلس ميں كاغذ سازى شروع ہوگئي ، دوسرى صدى ہجرى كے اختتام ميں ہارون الرشيد كے علم دوست وزير فضل بن يحيى برمكى كى كوششوں سے كاغذ سازى كى صنعت بغداد ميں شروع ہوئي اور اس صنعت نے بہت سرعت كے ساتھ كھال اور چمڑا كى جگہ لے لي_

يانچويں صدى ہجرى ميں يہ صنعت عراق سے شام كى طرف منتقل ہوئي اور وہاں اس نے حيران كن انقلاب بپا كرديا، اسطرح ناصر خسرو اپنے سفرنامہ ميں لبنان كے شہر طرابلس كے حوالے سے لكھتا ہے كہ اس شہر ميں سمرقندى اور اق كى طرح خوبصورت اوراق تيار ہوتے تھے اور ان سے كيفيت ميں بہتر ہوتے تھے، گويا اس طرح مسلمانوں نے ثقافتى روابط كے اہم ذرائع ميں سے ايك يعنى كاغذ كى ترقى اور پھيلاؤ ميں اہم كردار ادا كيا ، يہ صنعت مصر اور اندلس كے ذريعے يورپ منتقل ہوئي اور سب سے پہلا كاغذ سازى كا كارخانہ اٹلى ميں تقريبا تيرھويں صدى عيسوى ميں تعمير ہوا اور اس نے كام شروع كيا_(1)

2_ علوم كا منتقل ہونا اور اہل علم و دانش كى دنيائے اسلام ميںشموليت

عالم اسلام ميں علوم عقلى كى پيدائشے كا اصلى منبع يونان اور اسكى علمى محفل تھى ، اگر چہ اكثر علوم بالواسطہ يونانى زبان سے سريانى اور لاتينى زبان ميں ترجمہ كى شكل ميں مسلمانوں كے پاس پہنچے ليكن ان علوم كا ايك حصہ اسكندريہ (مصر ميں) اور وہاں كے علمى مركز سے يعنى مدرسہ اسكندريہ كے ذريعے مسلمانوں كے پاس پہنچا(2) وہ علوم جو مسلمانوں نے يونانيوں سے حاصل كيے يہ ہيں : رياضى ، نجوم، طب اور علوم طبيعى _

اسلامى دانشوروں كى تاليفات بتاتى ہيں كہ كس حد تك مسلمانوں نے بقراط ، جالينوس ، افلاطون ، فيثاغوريث اور ارسطو كى كتابوں سے فائدہ اٹھايا، ايك اہم نكتہ يہ ہے كہ پہلے پہل مسلمان ان علوم سے يوناني


1) دايرة المعارف فارسي، غلام حسين مصاحب، ج2 ص 2144_

2) سيد حسن تقى زادہ ، تاريخ علوم در اسلام ، تہران 1379 شمسى ص 31،30_

 

35

كتابوں كے ترجمہ كے كى بجائے ان اطباء كے ذريعے آگاہ ہوئے كہ جو مسلمانوں كى فتح كے زمانہ ميں ان يونانى سرزمينوں ميں رہتے تھے، دمشق كو مركز خلافت كے طور پر انتخاب كرنا باعث بنا كہ يونانى دانشوروں سے رابطہ كئي گناآسان ہوگيا ، كچھ علوم ہندوستان سے عالم اسلام ميں وارد ہوئے ، عباسى دور كے اوائل ميں يہ علمى رابط برقرار ہوا ، علوم طب ، نجوم وغيرہ ميں ہندى كتابوں سے ترجمہ كيا گيا، اسى طرح چند ہندى ماہرين كہ جن ميں ايك صف اول كا ستارہ شناس بھى تھا خليفہ عباسى منصور كے پاس آئے ، تو منصور نے اس ستارہ شناس سے چاہا كہ ان علوم كا كچھ حصہ اسكے دربار كے علماء كو سكھائے ، اسطرح ہندى علوم وسيع پيمانے پر علوم اسلامى كى محفلوں ميں وارد ہوئے_

دنيا كا ايك اور علمى مركز كہ جہاں سے مختلف علوم اسلامى تمدن ميں داخل ہوئے وہ ايران بالخصوص ايران كا شہر گُندى شاپور(شوستر شہر اور دزفول شہر كے درميان) تھا، گُندى شاپور ميں خسرو انوشيروان كى حكومت كے زمانے سے مدرسہ اور ايك ہسپتال تعمير ہوا تھا كہ جہاں مختلف ممالك سے طبيب اور ماہرين مشغول تھے_ گندى شاپور كى ترقى كى ايك وجہ نسطوريوںكا وہاں آنا تھا، جب نسطوريوںكو مدرسہ ادسا ء سے نكالا گيا تو وہ ايران كى طرف آئے اور گندى شاپور شہر ميں مقيم ہوئے ، وہ يونانى كتابوں كا سريانى ترجمہ بھى اپنے ساتھ لائے تھے ، اشراقى (ايك فلسفى مكتب ) حكماء كہ جو اہل يونان تھے '' ايتھنز '' سے انہيں در بدر كيا گيا تو وہ بھى يہاں آكرفلسفہ كى تعليم ميں مشغول ہوگئے اور انوشيروان كے حكم سے انہوں نے افلاطون اور ارسطو كى بعض كتابوں كا پھلوى زبان (قديم فارسي) ميں ترجمہ كيا_

مسلمانوں كے ہاتھوں ايران كى فتح كے بعد ان كتابوں كا فارسى سے عربى زبان ميں ترجمہ ايك قدرتى امر تھا، عباسى خلافت كے زمانے ميں كچھ كتابوں كا پھلوى سے عربى ميں ترجمہ كيا گيا بعد ميں يہ كتابيں اسلامى نجوم كے علم كى تكميل كے حوالے سے اہم ترين منبع شمار ہوتى ہيں_

علوم طبيعى كے ميدان ميں ايك اہم ترين علم '' علم الادوية''تھا جو يونان سے اسلامى دنيا ميں داخل ہوا، ايشياى كوچك كے ايك ماہر و دانشور ديسقوريدس كى كتاب '' حشائشے يا الھيولى فى الطب '' كى نام سے عربى 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پیام عرفانی قیام امام حسین علیہ السلام
امام جعفر صادق (ع) کی حدیثیں امام زمانہ (عج) کی شان ...
امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں

 
user comment