اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

كیا "حی علیٰ خیر العمل" اذان كا جزء ھے؟

كیا "حی علیٰ خیر العمل" اذان كا جزء ھے؟

ترویج اذان: اھل سنت كی نظر میں

1) ابو داؤود راوی ھیں كہ مجھ سے عباد بن موسیٰ ختلی اور زیاد بن ایوب نے روایت كی ھے (جب كہ ان دونوں میں سےعباد كی روایت زیادہ مكمل ھے)یہ دونوں كھتے ھیں كہ ھم سے ھشیم نےابو بشیر سے روایت نقل كی ھے كہ زیاد راوی ھیں كہ ھم سے ابو عمیر بن انس نے اور ان سے انصار كے ایك گروہ نے روایت كی ھے، كہ نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو یہ فكر ھوئی كہ نماز كے وقت لوگوں كو كیسے جمع كیا جائے۔ بعض لوگوں نے مشورہ دیا كہ نماز كے وقت ایك پرچم بلند كردیا جائے۔ جب لوگ اس كو دیكھیں گے تو ایك دوسرے كو نماز كے لئے متوجہ كردیں گے۔ آپ كو یہ مشورہ پسند نھیں آیا۔ بعض صحابہ نے كھا كہ سنكھ بجایا جائے۔ آپ كو یہ بات بھی پسند نھیں آئی، اور فرمایا كہ یہ یھودیوں كا طریقۂ كار ھے۔ كچھ لوگوں نے عرض كیا: گھنٹیاں بجائی جائیں۔ آپ نے فرمایا كہ یہ نصاریٰ كی روش ھے۔

اس كے بعد عبد اللہ بن زید (بن عبداللہ) اپنے گھر چلے گئے در حالیكہ ان كو وھی فكر لاحق تھی جو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو تھی۔ پس ان كو خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی؟۔

راوی كھتا ھے كہ وہ اگلے دن صبح كو رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس آئے اور عرض كی كہ یا رسول اللہ! میں خواب و بیداری كے عالم میں تھا كہ كوئی میرے پاس آیا اور مجھے اذان سكھائی۔ راوی كھتا ھے كہ عمر بن خطاب، ان سے پھلے خواب میں اذان دیكھ چكے تھے لیكن بیس دن تك انھوں نے كسی كو اس كی خبر نھیں كی، اس كے بعد رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كو بتایا، تو آپ (ص) نے فرمایا كہ تم نے پھلے كیوں نھیں بتایا؟ تو كھنے لگے كہ عبد اللہ بن زید نے مجھ سے پھلے آپ كو بتا دیا لھذا مجھے ذكر كرنے میں شرم محسوس ھوئی۔ اس كے بعد رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! كھڑے ھوجاؤ اور جو تم سے عبد اللہ بن زید كھیں اس كو انجام دو۔ اس طرح بلال (رض) نے اذان دی۔ ابو بشیر كھتے ھیں: مجھے ابو عمیر نے خبر دی ھے كہ انصار یہ گمان كرتے تھے كہ اس دن اگر عبد اللہ بن زید مریض نہ ھوتے تو نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انھیں كو مؤذن بناتے۔

2) محمد بن منصور طوسی نے یعقوب سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے محمد بن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن ابراھیم بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن زید بن عبداللہ سے روایت نقل كی ھے كہ مجھ سے عبداللہ بن زید نے كھا كہ جب رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناقوس (گھنٹی) بجانے كا حكم دیا اور فرمایا كہ نماز كے وقت ناقوس بجایا كرو تاكہ لوگ جمع ھوجائیں تو میں نے خواب میں دیكھا كہ ایك شخص ھاتھ میں ناقوس لئے ھوئے میرے گرد چكر لگا رھا ھے، میں نے اس سے كھا: اے بندۂ خدا! یہ ناقوس بیچتے ھو؟ اس نے كھا كہ تم اس كا كیا كرو گے؟ میں نے كھا كہ اس كے ذریعہ لوگوں كو نماز كے لئے مطلع كروں گا۔ وہ كھنے لگا: كیا میں اس سے اچھی چیز بتاؤں؟ میں نے كھا: ھاں، بتاؤ۔ اس نے كھا كہ (نماز كے وقت لوگوں كو جمع كرنے كے لئے) یہ كلمات كھا كرو:

"اللہ اكبر، اللہ اكبر، اللہ اكبر، اللہ اكبر، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی علی الفلاح، اللہ اكبر، اللہ اكبر، لا الٰہ الا اللہ، "

راوی كھتا ھے كہ پھر وہ تھوڑی دیر كے لئے خاموش ھوا اور كھا: جب نماز كے لئے كھڑے ھوجاؤ تو یہ كھو:

" اللہ اكبر، اللہ اكبر، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان لا الٰہ الا اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، اشھد ان محمداً رسول اللہ، حی علی الصلاة، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح، حی الفلاح، قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة، اللہ اكبر، اللہ اكبر، لا الٰہ الا اللہ۔ "

جب صبح ھوئی تو میں رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گیا اور اپنا خواب سنایا۔

آپ (ص) نے فرمایا: "انشاء اللہ یہ خواب سچا ھے۔ بلال كے ساتھ جاؤ اور جو كچھ خواب میں دیكھا ھے وہ ان كو سكھاؤ تاكہ وہ اس كے ذریعہ لوگوں كو نماز كے لئے بلائیں۔ كیونكہ وہ تم سے زیادہ خوش لحن ھیں۔" میں بلال كے ساتھ گیا، اور ان كو بتاتا گیا وہ اذان دیتے گئے۔ عمر بن خطاب اپنے گھر میں بیٹھے ھوئے تھے، جیسے ھی انھوں نے اس آواز كو سنا، دوڑے ھوئے آئے۔ وہ اتنی عجلت میں تھے كہ ان كی ردا زمین پر گھسٹ رھی تھی، وہ آئے اور رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے كھا: "اس خدا كی قسم جس نے آپ كو حق كے ساتھ مبعوث كیا ھے، میں نے بھی یھی خواب دیكھا ھے، جو عبد اللہ بن زید نے دیكھا تھا۔"

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: فللّٰہ الحمد (تمام تعریفیں خدا سے مخصوص ھیں۔) 4

ھی روایت ابن ماجہ نے مندرجہ ذیل دو سندوں سے ذكر كی ھے۔

3) ھم سے ابو عبید محمد بن میمون مدنی نے، ان سے محمد بن سلمہ الحرانی نے، ان سے محمد بن ابراھیم تیمی نے، انھوں نے محمد بن عبداللہ بن زید سے اور انھوں نے اپنے والد سے روایت كی ھے كہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز كے وقت لوگوں كو اكٹھا كرنے كے لئے ناقوس كے بارے میں حكم دینے كے لئے سوچ رھے تھے، اور اسی كی طرف مائل تھے كہ عبد اللہ بن زید كو خواب میں اذان سكھائی گئی…… الخ۔

4) ھم سے محمد بن خالد بن عبد اللہ واسطی نے، ان سے ان كے والد نے، ان سے عبد الرحمان بن اسحاق نے، ان سے زھری نے، ان سے سالم نے، ان سے ان كے والد نے روایت كی ھے كہ رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے مشورہ كیا كہ نماز كے لئے لوگوں كو جمع كرنے كے لئے كیا كیا جائے؟ كچھ لوگوں نے "سنكھ" كی پیشكش كی۔ آپ كو یہ رائے پسند نہ آئی۔ كیو نكہ سنكھ یھودیوں سے مخصوص ھے۔ بعض نے "ناقوس" كا تذكرہ كیا۔ مگر ناقوس نصاریٰ كی روش ھونے كی وجہ سے آپ كو یہ مشورہ بھی مناسب نھیں لگا۔ اسی رات عمر بن خطاب اور انصار كے ایك شخص عبد اللہ بن زید كو خواب میں اذان كی تعلیم دی گئی۔

زھری كا بیان ھے كہ صبح كی اذان میں بلال نے "الصلاة خیر من النوم" كا اضافہ كردیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر اپنی رضا مندی كا اظھار بھی فرما دیا۔

ترمذی نے یہ روایت مندرجہ ذیل سند كے ذریعہ نقل كی ھے:

5) ھم سے سعد بن یحییٰ بن سعید اموی نے، ان سے ان كے والد نے، انھوں نے محمد بن اسحاق سے، انھوں نے محمد بن حارث تیمی سے، انھوں نے محمد بن عبد اللہ بن زید سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت كی ھے كہ جب صبح ھوئی تو ھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كے پاس گئے، اور خواب كے بارے میں آپ سے بتایا…… الخ۔

6) ترمذی كھتے ھیں: اس حدیث كو ابراھیم بن سعد نے محمد بن اسحاق سے، زیادہ بھتر اور كامل طور پر نقل كیا ھے۔ اس كے بعد ترمذی كھتے ھیں: عبد اللہ ابن زید سے مراد ابن عبدر بہ ھیں، اور ھمارے نزدیك اس نے رسول اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو بھی روایت نقل كی ھیں، ان میں سے صرف یھی ایك حدیث، جو اذان كے بارے میں ھے، صحیح ھے۔

یہ روایتیں ھم نے "صحاح ستہ" اور بعض مخصوص "سبب صحاح" جیسے سنن دارمی یا دارقطنی، سے نقل كی ھیں، كیونكہ ان كتابوں كو جو اھمیت حاصل ھے وہ كسی دوسری سنن كو حاصل نھیں۔ مثلاً سنن دارمی یا دارقطنی یا وہ روایتیں جو ابن سعد نے اپنی طبقات یا بیھقی نے اپنی سنن میں نقل كی ھیں۔ ان كتابوں كی خاص اھمیت اور منزلت كی وجہ سے ھم نے ان كو دوسری مشھور سنن سے جدا ركھا ھے۔

اب ھم حقیقت كو واضح كرنے كے لئے ان روایات كے بارے میں متن اور سند كے اعتبار سے گفتگو كریں گے، اس كے بعد اس سلسلہ كی باقی روایات كا تذكرہ كریں گے۔

ھمارے نزدیك یہ تمام روایات كئی وجھوں سے اپنے مدعا پر دلیل بننے كی صلاحیت نھیں ركھتی۔

پھلی وجہ: ان روایات كا منصب رسالت سے سازگار نہ ھونا

خداوند عالم نے اپنے رسول كو مبعوث كیا تاكہ وہ لوگوں كے ساتھ نماز كو اس كے وقت میں قائم كریں اور اس كا لازمہ یہ ھے كہ خداوند عالم اس كو انجام دینے كی كیفیت سے بھی آگاہ كرے۔

لھٰذا نبی اكرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كا اس سلسلہ میں بھت دنوں (یا ایك روایت كے مطابق بیس دن) تك حیران و پریشان رھنا كیا معنیٰ ركھتا ھے، كہ وہ اس ذمہ داری كو ادا كرنے كے طریقے سے نا واقف ھوں جو ان كے كاندھوں پر آچكی ھے؟؟ اور اپنے مقصود كو حاصل كرنے كے لئے ھر كس و ناكس سے مدد مانگتے پھریں۔ جب كہ نص قرآنی (كان فضل اللہ علیك عظیماً) 5 كے مطابق سب پر آپ كی فوقیت مسلم ھے۔ یھاں پر فضل سے مراد علمی برتری ھے جو سیاق آیت (و علّمك ما لم تكن تعلم) 6 سے واضح ھے۔ اور پھر نماز و روزہ عبادتی امور ھیں، جنگ و جدال كی طرح نھیں كہ جن كے بارے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے بعض اصحاب سے مشورہ فرمایا كرتے تھے۔ اور یہ مشورہ بھی اس لئے نھیں ھوتا تھا كہ آپ بھتر طریقہ نھیں جانتے تھے، بلكہ یہ لوگوں كو متوجہ كرنے اور ان كی تشویق كے لئے ھوتا تھا۔ جیسا كہ خداوند عالم كا ارشاد ھے (ولو كنت فظّاً غلیظ القلب لا نفضوا من حولك فاعف عنھم واستغفرلھم وشاورھم فی الامر فاذا عزمت فتوكل علی اللہ) 7 "اے رسول…… اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ لوگ تمھارے پاس سے بھاگ كھڑے ھوتے۔ لھذا اب انھیں معاف كردو، اور ان كے لئے استغفار كرو اور جنگی امور میں ان سے مشورہ كرو اور جب ارادہ كرلو تو اللہ پر بھروسہ كرو۔"

كیا یہ شرم كی بات نھیں كہ دینی امور میں عوام كے خواب و خیالات كو مصدر قرار دیا جائے؟ اور وہ بھی اذان و اقامت جیسی اھم عبادتوں كے لئے!! كیا یہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی شان میں گستاخی اور ان پر بھتان نھیں ھے؟

معلوم ھوتا ھے كہ یہ روایت عبداللہ بن زید كے قبیلہ والوں نے گڑھی ھے، اور اس خواب كو خوب مشھور كیا، تاكہ فضیلت ان كے قبیلہ كے نام ھوجائے۔ لھذا ھم بعض مسندات میں دیكھتے ھیں كہ اس حدیث كے راوی وھی ھیں۔ اور اس سلسلہ میں جس نے بھی ان پر اعتماد كیا، وہ ان سے حسن ظن كی بنیاد پر كیا ھے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقیدہ ختم نبوت
ماہ رمضان کی آمد پر رسول خدا (ص) کا خطبہ
جن اور اجنہ کے بارےمیں معلومات (قسط-1)
حکومت خدا کا ظھور اور اسباب و حسب و نسب کا خاتمہ
شیعہ:لغت اور قرآن میں
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جبر و اختیار
"حی علیٰ خیر العمل " كے جزء اذان ھونے كے سلسلہ میں ...
کیا نذر کرنے سے تقدیر بدل سکتی ہے؟
آخرت میں اندھے پن کے کیا معنی هیں؟

 
user comment