اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟

۱۲۔ عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟

 جیساکہ ہم سورہ اعراف آیت نمبر ۱۷۲ میں پڑھتے ہیں:

< وَإِذْ اٴَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِی آدَمَ مِنْ ظُہُورِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَاٴَشْہَدَہُمْ عَلَی اٴَنفُسِہِمْ اٴَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوا بَلَی شَہِدْنَا اٴَنْ تَقُولُوا یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّا کُنَّا عَنْ ہَذَا غَافِلِینَ>

اور جب تمہارے پروردگار نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی ذریت کو لے کر انھیں خود ان کے اوپر گواہ بنا کر سوال کیا کہ کیا میں تمہارا خدا نہیں ہوں؟ تو سب نے کہا بے شک ہم اس کے گواہ ہیں یہ عہد اس لئے لیا کہ روز قیامت یہ نہ کہہ سکیں کہ ہم اس عہد سے غافل تھے“۔

اس آیت میں بنی آدم کے عہد و پیمان کو مجمل طور سے بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ عہد و پیمان کیا تھا؟ (یہ سوال ذہن میں آتا ہے۔)

اس عالم اور اس عہد و پیمان سے مراد وہی ”عالم استعداد“ ، ”پیمان فطرت“ اور تکوین و آفرینش ہے، وہ بھی اس طرح سے کہ جب انسان ”نطفہ“ کی صورت میں صلب پدر سے رحم مادر میں منتقل ہوتاہے جس وقت انسان کی حقیقت ذرات سے زیادہ نہیں ہوتی، اس وقت خداوندعالم حقیقت توحید کو قبول کرنے کی استعداد اور آمادگی عنایت فرماتا ہے، لہٰذا انسان کی فطرت اور اس کی ذات میں یہ الٰہی راز ایک حس باطنی کی صورت میں ودیعت ہو تا ہے، نیز انسان کی عقل میں ایک حقیقت کی شکل میں قراردیاجاتا ہے!۔

اس بنا پر تمام انسانوں کے یہاں روحِ توحید پائی جاتی ہے، اور خداوندعالم نے انسان سے زبان تکوین و آفرینش میں سوال کیا ہے اور اس کا جواب بھی اسی زبان میں ہے۔

اس طرح کی تعبیریں ہمارے روز مرّہ کی گفتگو میں ہوتی ہے جیساکہ ہم کہتے ہیں کہ انسان کے چہرہ کے رنگ سے اس کے اندرونی حالات کا پتہ لگ جاتا ہے، یا انسان کی سر خ آنکھوں کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ شخص رات میں نہیں سویا ہے۔

ایک عرب ادیب اور خطیب سے نقل ہوا ہے :

سَلْ الاٴرضَ مَن شَقَ اٴنھارکِ وغرسَ اٴشجارکِ واٴینعَ ثِمَارِکِ فإنْ لَمْ تُجبکَ حواراً إجابتکَ إعتباراً

اس زمین سے سوال کرو کہ تیرے اندر یہ نہریں کس نے جاری کی ہیں اور کس نے یہ درخت اگائے ہیں اور کس نے پھلوں میں رس گھولا ہے؟ تو اگر وہ سادہ زبان میں جواب نہ دے تو پھر زبان حال سے گویا ہوگی“۔

اسی طرح قرآن مجید میں بھی بعض مقامات پر زبان حال سے گفتگو کا بیان ہوا ہے:

<فَقَالَ لَہَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْہًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِینَ>(1)

اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بکراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں“۔(۲)

                               

(1)سورہ فصلت ، آیت  ۱۱

(۲) تفسیر نمونہ ، جلد ۷، صفحہ ۶

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مجلس کیا ہے
حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
کیا خدا وند عالم کے وعد و عید حقیقی ھیں ؟
کیا تمام انسانی علوم قرآن میں موجود ہیں ؟
کو نسی چیزیں دعا کے اﷲ تک پہنچنے میں مانع ہوتی ...
صفات جمال و جلال سے کیا مراد ہے؟
مرجع تقلید کے ہوتے ہوئے ولی فقیہ کی ضرورت کیوں؟
توحید ذات، توحید صفات، توحید افعال اور توحید ...
جنت ماں کے قدموں تلے / ولادت کے دوران مرنے والی ...
کیا شب قدر متعدد ھیں ؟ اور کیا دن بھی شب قدرکا حصھ ...

 
user comment