اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

جناب ابراھیم علیہ السلام سے خدا کا وعدہ

جناب ابراھیم علیہ السلام سے خدا کا وعدہ

خداوندعالم نے جناب ابراھیم علیہ السلام سے جناب اسماعیل کے بارے میں جو وعدہکیا وہ ”وعدہ رحمت و شوکت اور نور محمدی (صلی الله علیه و آله و سلم) کی کثرت نسل اور چمکتے ھوئے عظیم آسمان وحی سے بارہ چمکتے ھوئے ستارے ھیں“۔

جیسا کہ (تکوین ۱۷: ۲۰) میں اس بات کی وضاحت کرتے ھوئے ارشاد ھوتا ھے:

(۲۰)”وُلیشَمعیل شِمَعْتیخٰا ھِینِّہ بِرَخْتی اُوتُو وھیْفْرْتی اُوتُووَھیربتی اُ تُوبِمِئُد مئدُ شِنیم عاسارنِسیئیم یولِد وِنْتَتِّیُو لِغوُیَ غادُل“۔

”(۲۰) اے ابراھیم! میں نے اسماعیل کے بارے میںتمہاری دعا قبول کرلی، اور ھم نے ان کو برکت عطا کی اور پُر ثمر بنادیا اور ان کو بلند مقام پر پہنچائیں گے ، محمد اور ان کی نسل سے بارہ اماموں کے ذریعہ ان کی امت کو ایک عظیم امت قرار دیں گے“۔

مذکورہ آیت کا نتیجہ یہ ھے:حضرت محمد مصطفی (صلی الله علیه و آله و سلم) اور بارہ اماموں کے ذریعہ جو جناب اسماعیل کی نسل سے ھیں، ان کو برکت دیتے ھوئے بلند و بالا مقام پر پہنچادیں گے، اور ان کی شخصیت و عظمت کو اس منور آفتاب اور بارہ چمکتے ھوئے ستاروں کے ذریعہ مزید روشن و منور کریں گے۔

نیز (برنابا ۴۲: ۱۳ تا ۲۰ میں ) اس وعدہ کی طرف اشارہ کرتے ھوئے خداوندعالم فرماتا ھے:

”(۱۳) میں تم سے حق بات کہتا ھوں کہ بے شک جب کوئی پیغمبر آتا ھے تو وہ بے شک صرف ایک امت کے لئے خدا کی رحمت کی نشانی بن کر آتا ھے۔

(۱۴) اسی وجہ سے اس کی باتیں صرف اسی امت کے لئے ھوتی ھیں جس کی طرف وہ رسول بنا کر بھیجا گیا ھے۔

(۱۵) لیکن جب خدا کی طرف سے رسول آتا ھے خدا اس کو انگوٹھی کے برابر عطا کرتا ھے۔

(۱۶) پس زمین پر رہنے والوں اور اس کی تعلیمات قبول کرنے والوں پر رحمت اخلاص حاصل ھوتا ھے۔

(۱۷) اور عنقریب ستمگاروں (کے ظلم و ستم کے خاتمہ کے لئے) ایک صاحب قدرت آنے والاھے۔

(۱۸) اور وہ بتوں کی عبادتوں کا خاتمہ کردے گا تاکہ شیطان ذلیل و رسوا ھوجائے۔

(۱۹) کیونکہ خداوندعالم نے ابراھیم سے یھی وعدہ کیا تھا، اور فرمایا: دیکھو بے شک کہ میں تمہاری نسل کو زمین کے تمام قبیلوں پر برکت دوں گا، اور جس طرح تم نے بتوں کو توڑا ھے تمہاری نسل میں سے ایسا کرنا جلد (ممکن ) ھے۔

اور فصل ۲۰۸ میں ارشاد ھوتا ھے:

(۷) میں تم سے سچ کہتا ھوں کہ ابراھیم کا فرزند وھی اسماعیل ھے کہ جس کی نسل سے ”مسیّا“ (حضرت محمد (صلی الله علیه و آله و سلم)) آئے گا جس کا وعدہ ابراھیم کو دیا ھے کہ جس کی برکت سے زمین کے تمام قبیلے برکت حاصل کریں گے۔

(۸) پس جب کاہنوں کے سردار نے یہ سنا تو غصہ میں بھر آیا اور چلانے لگا کہ ھمیں اس فاجر کو سنگسار کرنا ھوگا کیونکہ یہ وھی اسماعیل ھے ، اور بے شک یہ موسیٰ ، ان کی شریعت اور خدا سے انکار کرتا ھے۔

(۹) پس ہر لکھنے والے، فریسیان اور بزرگان قوم نے پتھر اٹھا لئے تاکہ ”یسوع“ کو سنگسار کریں، لیکن وہ ان کی نظروں سے غائب ھوگئے اور ان کے درمیان سے باہر نکل گئے“۔

قارئین کرام!  جناب اسماعیل (علیہ السلام) کے بارے میں مذکورہ وعدہ ان کے نام نامی کے بھی موافق ھے جیسا کہ (تکوین ۲۶: ۱، اور ۱۷: ۲۰، و ۲۱: ۱۷) میں ارشاد ھوتا ھے:

”اسماعیل یعنی مسموع از خدا“۔

یعنی ابراھیم علیہ السلام کا یہ بیٹا (اسماعیل) ملنا در حقیقت جناب ابراھیم علیہ السلام کی دعا کا قبول کرنا ھے۔

جیسا کہ پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) سے بھی منقول ھے کہ آپ نے فرمایا:

”اٴَنا دَعوَة اٴَبي اِٴبرَاھیمَ“۔[1]

”میں اپنے پدر جناب ابراھیم کی دعا ھوں“۔

توریت اور انجیل نیز تمام انبیاء علیھم السلام نے نہ صرف پیغمبر اسلام (صلی الله علیه و آله و سلم) اور ان پر قرآن نازل ھونے کی خبر دی ھے بلکہ ان کے بلا فصل وصی امیر الموٴمنین علیہ السلام کے بارے میں بھی خبر دی ھے، اور ان کے اوصاف کو بیان کیا ھے، اور کبھی واضح الفاظ میںاور کبھی اشارہ و کنایہ میں اھل بیت علیھم السلام کے بارے میں گفتگو کی ھے، یہاں تک کہ انبیاء علیھم السلام نے حضرت امام حسین خامس آل عبا علیہ السلام کے مصائب پر غم و ملال کے ساتھ گریہ کیا ھے۔[2]

ایک بہت اھم واقعہ

نصر بن مزاحم اپنی کتاب ”وقعة صفین“[3](جو اسلامی کتابوں میں بہت قدیمی کتاب ھے اور ائمہ علیھم السلام کے زمانہ کے نزدیک لکھی گئی ھے) میں ”حبّہ عرنی“ (جو حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کے اصحاب و انصار میں سے تھے) سے نقل کرتے ھیں:

جس وقت جنگ صفین کے راستہ میں ”رقّہ“ نامی جگہ میں منزل لی، ھمارا لشکر ایک ایسی عیسائی عبادتگاہ کے نزدیک تھا جس میں ایک عیسائی راہب عبادت خداوندی میں مشغول تھا۔

جب اس نے ھمارے لشکر کو دیکھا تو اپنی عبادتگاہ سے باہر آیا اور حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ھوا، اور اس نے امام علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا: اس عبادتگاہ میں میرے پاس ایک کتاب ھے جو میرے آباء و اجداد سے ارث ملی ھے، اور یہ کتاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مخصوص اصحاب نے اپنے قلم سے عیسیٰ مسیح کی زندگی میں لکھی ھے، میں چاہتا ھوں کہ وہ کتاب آپ کی خدمت میں پیش کروں۔

امام علیہ السلام نے فرمایا: جاؤ اور وہ کتاب لے آؤ تاکہ میں اس کو دیکھوں، راہب اپنی عبادتگاہ میں گیا اور وہ کتاب لے کر حاضر ھوا، اور اس نے امام علیہ السلام سے اجازت طلب کی کہ وہ خود کتاب کی تحریر کو آپ کے لئے پڑھے، امام علیہ السلام نے اس کو اجازت دی اور اس نے پڑھنا شروع کردیا:

”اس خدا کے نام سے جس کی رحمت بے انتہا اور جس کی مہربانی ھمیشگی ھے“۔

یہ بات قضا اور لوح محفوظ میں لکھی ھوئی ھے کہ خداوندعالم امّی لوگوں کے درمیان ایک نبی کو مبعوث کرے گا جو خود انھیں میں سے ھوگا اور وہ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا، اور ان کو راہ خدا کی ہدایت کرے گا، اور اس رسول کی نشانی یہ ھے کہ وہ نہ گرم مزاج ھوگا اور نہ سخت مزاج۔[4]

”وہ ایسا انسان ھے کہ جب لوگوں کے درمیان چلتا ھے ،چلاّتا نھیں، اور وہ اکڑ کر نھیں چلتا، بدی کا جواب بدی سے نھیں دیتا بلکہ عفو و بخشش سے کام لیتا ھے۔

لیکن اس پیغمبر کی (حقیقی اور واقعی) امت بہت زیادہ خدا کا شکر کرنے والی ھے، اور ہر حال میں خدا کی حمد و ثنا کرتی ھے، ان کی زبان خدا کی تسبیح و تکبیر کے لئے آمادہ ھے اور ان کی آنکھیں خوف خدا کی وجہ سے گریا کناں ھیں۔

خداوندعالم اِس پیغمبر کو ہر اُس قوم پر کامیاب کردے گا جو تکبر اور فخر و مباہات کرتی ھو، جس وقت خداوندعالم اس کو دنیا سے اٹھالے گا تو اس کی امت میں اختلاف، کینہ اور دشمنی پھیل جائے گی، امت ایک دوسرے سے اختلاف کرے گی اور اس کے بعد اجتماع کرے گی، اور جب تک خدا کی مشیت رھے گی یہ امت باقی رھے گی۔

اس کی امت سے ایک شخص فرات کے کنارے سے گزرے گا، یہ شخص لوگوں کو نیکی کی ہدیت کرے گا اور برائیوں سے روکے گا، اور وہ لوگوں میں عدل و انصاف سے فیصلہ کرے گا، اور کبھی بھی اپنے فیصلوں میں برخلاف حکم نھیں کرے گا، دنیا اس کی نظر میں اس مٹی سے پست و ذلیل ھوگی جس کو آندھی اور طوفان اڑا لے جاتی ھے۔

اس کی نظر میں موت ایک پیاسے انسان کے لئے پانی پینے سے بھی زیادہ گوارا ھوگی!

وہ خلوت میں (بھی) خدا سے ڈرتا ھوگا اور ظاہری طور پر (بھی) خدا کی راہ میں خیرخواھی کرتا ھوگا۔

خدا کی صراط مستقیم میں کسی بھی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نھیں ڈرے گا، اس شہر کے رہنے والوں میں جو شخص اس پیغمبر کو دیکھے اور اس پر ایمان لائے تو اس کی جزا و ثواب بہشت رضوان ھے، اور جو شخص اس صالح بندہ کی کہ جو فرات کے کنارے سے گزرے گا؛ دیکھے تو اس پر اس کی مدد کرنا واجب ھے۔

راہب نے اس تحریر کو پڑھنے کے بعد امام علیہ السلام سے کہا: وہ خدا کے صالح بندے تم ھو اور میں تمہارے ساتھ رھوں گا اور تم سے الگ نھیں ھوں گا یہاں تک کہ جہاں آپ جائیں گے میں بھی پہنچ جاؤں گا، اگر طے یہ ھو کہ آپ شھید ھوں تو میں بھی آپ کے ساتھ ھوں یہاں تک کہ شھید ھوجاؤں۔

حضرت امیر الموٴمنین علیہ السلام نے اس تحریر کو سننے کے بعد زار زار رونا شروع کردیا اور (پھر) فرمایا: خدا کا شکر ھے کہ اس نے مجھے نھیں بھلایا، اور نیک افراد کے ساتھ مجھے یاد کیا۔

اس کے بعد راہب امام علیہ السلام کے ساتھ چل دیا اور حضرت علی علیہ السلام سے ایک پل کے لئے بھی جدا نھیں ھوا یہاں تک کہ وہ جنگ صفین میں شھید ھوگیا۔

امام علیہ السلام نے جنگ کے بعد حکم دیا کہ شہدا کو دفن کردیا جائے اور چند لوگوں کو راہب کے جنازہ کی تلاش میں بھیجا اور جب اس کا جنازہ مل گیا تو امام علیہ السلام اس کی بالین پر آئے اور فرمایا:

”ھُوَ مِنَّا اٴَھْلَ الْبَیْتِ!“۔

” یہ (راہب) ھم اھل بیت میں سے ھے“۔

اس کے بعد امام علیہ السلام نے خود اس کے لئے قبر کھودی اور خود ھی قبر میں وارد ھوئے اور اس کو مسلمانوں کے طریقہ پر دفن کیا۔[5]

اے کاش، احقر العبد (موٴلف) کا دل بھی اس عیسائی راہب کی طرح اھل بیت علیھم السلام کی معرفت و ولایت سے مالامال ھوتا اور ان حضرات کے وجود مبارک کا عشق سوزاں ھمارے دل میں ھوتا تاکہ آخرت کے لئے نجات کا سامان فراھم ھوجاتا اور اھل بیت علیھم السلام اپنی غلامی کی زنجیر میرے دل پر ڈالتے اور اپنی نظر کیمیا سے میرے وجود کے تانبہ کو سونے میں تبدیل کردیتے۔

حقیر اپنی گزری ھوئی عمر پر دردمندانہ طور پر افسوس کرتا ھے حالانکہ لوگوں کے درمیان اھل بیت علیھم السلام کے خادم کے نام سے مشھور ھے اور ہر لمحہ اپنے دل و زبان سے اس نظم میں خود سے خطاب کرتا ھوں:

    آشتی سر تا بہ پا افروختی

                                 وندر آن آتش وجودت سوختی

    دور گشتی از گلستان وجود

                                 دادی از کف مایہٴ بود و نبود

    گشتہ محرم واز فیوضات الہ

                                 ھم چو خیل عاصیانی روسیاہ

    از چہ رو اندر حجاب افتادہ ای

                                 لنگ و کور اندر سراب افتادہ ای

    در خیالاتی و در چون و چرا

                                 خود ندانی در کجایی در کجا

    ماندہ از راہ و چرا درماندہ ای

                                 کاروان رفت از چہ رو واماندہ ای

    اندر این عالم مگر کاری نبود

                                 از ازل بہرت مگر یاری نبود

    در غم دنیای دونی آہ، آہ     

                                 بی ہش و مست و زبونی آہ آہ

    غافلی از دلبر جانانہ ات

                                 آشتی افتادہ در کاشانہ ات

    نغمہ ای با یاد جانان ساز کن         

                                 تا بہ کوی حضرتش پرواز کن [6]

سر سے پیر تک آگ بھڑکا رکھی ھے، اور اس آگ میں اپنے وجودت کو جلا ڈالا ھے۔

تم گلستان وجود سے دور ھوگئے ھو ،افسوس کہ سب کچھ برباد کردیا ھے۔

میں الٰھی فیضان سے محروم ھوگیا ھوں، جیسے گناہگاروں کا ایک جم غفیر۔

کس وجہ سے حجاب میں پڑے ھوئے ھو، لنگڑے اور اندھے کی طرح سراب میں گر پڑے ھو۔

خیالات اور چوں چرا میں مبتلا ھو، تمھیں خود بھی معلوم نھیں کہ تم کہاں ھو۔

راستہ بھٹک گئے ھو، اور راستہ میں کیوں رہ گئے ھو، کارواں جا چکا تم بھٹک گئے ھو۔

کیا اس دنیا میں تمہارا کوئی مشغلہ نھیں ھے، تم نے خداوندعالم سے مدد کیوں نھیں لی۔

غم دنیا میں مبتلا ھوگئے ھو ہائے ہائے، بے ھوش اور مست اور مدھوش ھو ہائے ہائے۔

اپنے دلبر محبوب سے غافل (کیوں) ھو، یہ تمہارے کاشانہ پر آگ جل ر ھی ھے۔

اپنے محبوب کی یاد میں نغمہ سرائی کرو، تاکہ اپنے محبوب (خدا) کی بارگاہ میں پرواز کرسکو۔



[1] مناقب، ج ۱، ص ۲۳۲؛ الفقیہ، ج ۴، ص ۳۶۸؛ بحار الانوار، ج ۲۵، ص ۲۰۰، باب ۶، حدیث ۱۲۔

[2] احقاق الحق، جلد حسنین۔

[3] یہ کتاب ”پیکار صفین“ کے نام سے، پرویز اتابکی کے ذریعہ فارسی ترجمہ ھوچکی ھے۔

[4] جی ہاں، رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) نہ بد اخلاق تھے، اور نہ سخت مزاج اور نہ ھی سخت دل ، وہ یگانہ کائنات رحمت کے خدا کے دروازے کے عنوان سے نرمی، مہربانی، صفائے روح، سلامت نفس اور کرامت و بزرگوای کے بلند مرتبے پر فائز تھے، اور ایک جملہ میں یہ کہا جائے کہ آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) اخلاق الٰھی سے مزین تھے:

<فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنْ اللهِ لِنْتَ لَہُمْ وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لاَنْفَضُّوا مِنْ حَوْلِکَ>(سورہٴ آل عمران (۳)، آیت ۱۵۹)

”پیغمبر ! یہ اللہ کی مہربانی ھے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ھو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ھوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ھوتے۔۔“۔۔

آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) اپنی ۲۳ سال کی زندگی میں سختیوں ، پریشانیوں اور دشمنوں کی اذیت و تکلیف اور دوستوں کے جھل و نادانی میں گرفتار رھے، لیکن کبھی بھی آپ نے غصہ اور سخت دلی کا مظاہرہ نھیں کیا، اور اپنے دوست و دشمن کے سامنے ہدایت کی وجہ سے نرمی، محبت اور عفو و بخشش سے کام کیا، اور اگر حکم خدا کی وجہ سے میدان جنگ میں گئے تو خلوص کے ساتھ اور صرف دشمن کو دفع کرنے کی غرض سے، بلکہ دشمن کو بیدار کرنے کی غرض سے، آنحضرت (صلی الله علیه و آله و سلم) نے میدان جہاد میں قدم رکھا ، اور آپ جنگ کے گرم بازار میں ہر لمحہ یاد خدا، خدا کے عمل اور حکم خدا کے مطابق دوسرے کاموں میں مشغول رہتے تھے۔

جس وقت جنگ اُحد میں آپ کی نظر مبارک اپنے عزیزوں کے ٹکڑے ٹکڑے جنازوں پر پڑی مخصوصاً اپنے چچا جناب حمزہ کے ناک کان کٹے لاشے پر پڑی، جبکہ زخمی ھونے کی وجہ سے آپ کی پیشانی اور دانتوں سے خون نکل رہا تھا، خداوندعالم کی طرف متوجہ ھوئے اور نرم لہجہ میں کہا: (جبکہ آپ سے آپ کے اصحاب دشمن کے لئے بد دعا کرنے کے لئے کہہ رھے تھے اور آپ انکار کر رھے تھے)

”اللھم اہدِ قومی، فانھم لا یعلمون“ (بحار الانوار، ج ۲۰، ص ۱۱۷، باب ۱۲)

پالنے والے! میری قوم کی ہدایت فرما، کیونکہ یہ لوگ حقائق اور دنیا و آخرت کی صلاح و نیکی سے بے خبر ھیں!۔

[5] وقعة صفین، ص ۱۴۷؛ بحار الانوار، ج ۳۲، ص ۴۲۶، باب ۱۱۔

[6] موٴلف۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت امام حسین علیہ السلام کے ذاتی کمالات
امام موسی کاظم علیہ السلام
بعثت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)
امام سجادعلیہ السلام کے کے القاب
معراج انسانیت امام موسیٰ کاظم(ع)
۱۳ رجب المرجب حضرت علی (س) کی ولادت با سعادت کا ...
حضرت امام مہدی (عج)کی معرفت کی ضرورت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے کلمات قصار
تہران میں یوم شہادت امام جعفر صادق (ع) پرچم عزا نصب
حضرت فاطمہ (س) انتہائي صاحب عصمت و طہارت تھيں

 
user comment