اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

قريش كے نمائندے آنحضرت (ص) كى خدمت ميں

142

قريش كے نمائندے آنحضرت (ص) كى خدمت ميں

قريش نے آنحضرت(ص) كے حقيقى مقصد سے با خبر ہونے كيلئے اپنے يہاں كى اہم شخصيتوں كو آپ(ص) كى خدمت ميں بھيجا تا كہ وہ مسلمانوں كا مقصد جان ليں_

قريش كے پہلے نمائندہ وفدميں بُديل خزاعى قبيلہ خزاعہ كے افراد كے ساتھ آيا _ جب وہ رسول خدا(ص) سے ملا تو آپ(ص) نے فرمايا '' ميں جنگ كے لئے نہيں آيا ميں تو خانہ خدا كى زيارت كے لئے آيا ہوں '' نمائندے واپس چلے گئے اور انہوں نے يہ اطلاع قريش كو پہنچا دى _ليكن قريش نے كہا'' خدا كى قسم : ہم ان كو مكہ ميں داخل نہيں ہونے ديں گے ، چاہے ان كا آنا خانہ خدا كى زيارت كى غرض سے ہى كيوں نہ ہو '' _ د وسرے اور تيسرے نمائندہ وفود بھيجے گئے اور انہوں نے بھى '' بُديل '' والى صورت حال بيان كى _

قريش كے تيسرے نمائندے '' حليس بن علقمہ '' جو عرب كے تير اندازوں كا سر براہ تھا، نے قريش كے سرداروں كو مخاطب كر كے كہا كہ '' ہم نے ہرگز تم سے يہ معاہدہ نہيں كيا كہ ہم خانہ خدا كے زائرين كو روكيں گے ، خدا كى قسم اگر تم لوگ، محمد(ص) كو آنے سے روكو گے تو ميں اپنے تيرانداز ساتھيوں كے ساتھ تمہارے اوپر حملہ كركے تمہارى اينٹ سے اينٹ بجادوں گا _ قريش اپنے اندر اختلافات رونما ہونے سے ڈرگئے اور انہوں نے ''حليس ''كو اطمينان دلايا كہ ہم كوئي ايسا راستہ منتخب كريں گے جوتمہارى خوشنودى كا باعث ہوگا_

قريش كا چوتھا نمائندہ ''عُروة بن مسعود ''تھاجس پر قريش اطمينان كامل ركھتے تھے_ وہ جب رسول خدا (ص) سے ملا تو اس نے كوشش كى كہ اپنى باتوں ميں قريش كى طاقت كو زيادہ اور اسلام كى قوّت كو كم كركے پيش كرے اور مسلمانوں كو جھك جانے اور بلا قيد و شرط واپس

 

143

جانے پر آمادہ كرلے_ ليكن جب وہ واپس گيا تو اس نے قريش سے كہا كہ '' ميں نے قيصر و كسرى اور سلطان حبشہ جيسے بڑے بڑے بادشاہوں كو ديكھا ہے مگر جو بات محمد(ص) ميں ہے وہ كسى اور ميں نہيں ''_

ميں نے ديكھا كہ مسلمان ان كے وضو كا ايك قطرہ پانى بھى زمين پر گرنے نہيں ديتے وہ لوگ تبرك كے لئے اس كو جمع كرتے ہيں اور اگر ان كا ايك بال بھى گر جائے تو ان كے اصحاب فوراً تبرك كے لئے اُٹھا ليتے ہيں ، لہذا اس خطرناك موقع پر نہايت سوچ سمجھ كر قدم اٹھانات(22)

آنحضرت(ص) كے سُفرائ

آنحضرت (ص) نے ايك تجربہ كار شخص كو جسكا نام'' خراش ''تھا اپنے اونٹ پر سوار كيا اور قريش كے پاس بھيجا ، ليكن ان لوگوں نے اونٹ كو قتل كرديا اور پيغمبر اكرم (ص) كے نمائندے كو قتل كرنے پر اترآئے ، مگر يہ حادثہ تيراندازان عرب كے ايك دستے كى وساطت سے ٹل گيا _

قريش كى نقل و حركت يہ بتا رہى تھى كہ ان كے سر پر جنگ كاجنون سما يا ہوا ہے_ رسول خدا (ص) مسئلہ كے مسالمت آميز حل سے مايوس نہيں ہوئے _ لہذا آپ(ص) نے قريش كے پاس ايسے شخص كو نمائندہ بنا كر بھيجنے كا ارادہ كيا جس كا ہاتھ كسى بھى جنگ ميں قريش كے خون سے آلودہ نہ ہوا ہو، لہذا آپ(ص) نے عمر بن خطاب كو حكم ديا كہ وہ قريش كے پاس جائيں _ ليكن انہوںنے جانے سے معذرت كرلى _ رسول (ص) خدا نے عثمان بن عفّان كو '' جن كى اشراف قريش سے قريب كى رشتہ دارى تھى '' اشراف قريش كے پاس بھيجا _ عثمان قريش كے ايك

 

144

آدمى كى پناہ ميں مكّہ ميں وارد ہوئے اور پيغمبر اكرم (ص) كے پيغام كو قريش كے سر كردہ افراد تك پہنچا يا _ انہوں نے پيش كش رد كرنے كے ساتھ ساتھ عثمان كو بھى اپنے پاس روك ليا اور واپس جانے كى اجازت نہيں دى _ مسلمانوں كے درميان يہ افواہ اڑ گئي كہ قريش نے عثمان كو قتل كردياہے_(23)

بيعت رضوان

پيغمبر اكرم (ص) كے نمايندے كى واپسى ميں تاخير كى وجہ سے مسلمانوں كے در ميان عجيب اضطراب اور ہيجان پيدا ہو گيا اور مسلمان جوش و خروش ميں آكر انتقام پر آمادہ ہو گئے_ پيغمبر اكرم (ص) نے ان كى جذبات كو متحرك كرنے كے لئے فرمايا '' ہم يہاں سے نہيں جائيں گے جب تك كوئي فيصلہ نہيں ہو جاتا _ '' اس خطرناك صورتحال ميں اگر چہ مسلمانوں كے كے پاس جنگ كے لئے ضرورى ہتھيار اور سازو سامان نہ تھا پھر بھى رسول خدا(ص) نے ارادہ كيا كہ اپنے اصحاب كے ساتھ عہد و پيمان كى تجديد كريں ، چنانچہ آنحضرت(ص) ايك درخت كے سايہ ميں بيٹھ گئے اور سوائے ايك كے تمام اصحاب نے آپ(ص) كے ہاتھ پر بعنوان بيعت ہاتھ ركھا اور قسم كھائي كہ خون كے آخرى قطرے تك اسلام كا دفاع كريں گے_

يہ وہى ''بيعت رضوان ''ہے كہ جس كے بارے ميں قرآن ميں آيا ہے :

'' خداوند عالم ان مومنين سے جنھوں نے تمہارے ساتھ درخت كے نيچے بيعت كي، خوش ہو گيا اور ان كے وفا و خلوص سے آگاہ ہو گيا، اللہ نے ان كے اوپر سكون كى چيز نازل كى اور عنقريب فتح ، اجر كے عنوان سے ان كے لئے قرار دى ہے''_(24)

بيعت كى رسم ختم ہوئي ہى تھى كہ عثمان لوٹ آئے اور قريش كے وہ جاسوس جو دور سے

 

145

بيعت كا واقعہ ديكھ رہے تھے پريشان ہو كر بھاگ كھڑے ہوئے( تا كہ اس خطرناك صورتحال كى خبر قريش كے گوش گزار كريں)_ قريش كے سر برآوردہ افراد نے '' سہيل بن عمرو'' كو صلح كا معاہدہ طے كرنے كے لئے آنحضرت (ص) كى خدمت ميں بھيجا_(5 2)

صلح نامے كامتن

جب سہيل بن عمرو، رسول خدا(ص) كى خدمت ميں پہنچا تو يوں گويا ہوا '' قريش كے سربرآوردہ افراد كا خيال ہے كہ آپ اس سال يہاں سے مدينہ واپس چلے جائيں اور حج و عمرہ كو آيندہ سال انجام ديں ''_

پھر مذاكرات كا باب كھل گيا اور سہيل بن عمرو بات بات پر بے موقع سخت گيرى سے كام لے كر پر يشانى كھڑى كرتا رہا _ جب كہ پيغمبر-اكرم (ص) چشم پوشى كے رويے كو اس لئے نہيں چھوڑ رہے تھے كہ كہيں صلح كا راستہ ہى بند نہ ہو جائے _مكمل موافقت كے بعد رسول خدا(ص) نے حضرت على (ع) سے فرمايا كہ صلح نامہ لكھو ، حضرت على (ع) نے رسول خدا (ص) كے حكم سے لكھا:

بسم اللہ الرحمن الرحيم

سہيل نے كہا كہ ہم اس جملے سے آشنا نہيں ہيں آپ بسمك اللہم لكھيں _ ( يعنى تيرے نام سے اے خدا) رسول خدا (ص) نے موافقت فرمائي پھر حضرت على (ع) نے پيغمبر اكرم (ص) كے حكم سے لكھا ''يہ وہ صلح ہے جسے اللہ كے رسول محمد(ص) انجام دے رہے ہيں''_

سہيل بولا '' ہم آپ(ص) كى رسالت اور نبوت كو قبول نہيں كرتے اگر اس كو قبول كرتے تو آپ سے ہمارى لڑائي نہ ہوتى _

 

146

لہذا آپ اپنا اور اپنے باپ كا نام لكھيں(26)

آنحضرت (ص) نے حضرت علي(ع) كو حكم ديا كہ اس جملے كو مٹاديں ليكن حضرت علي(ع) نے عرض كيا '' ميرے ہاتھوں ميں آپ(ص) كا نام مٹانے كى طاقت نہيں ہے '' رسول خدا(ص) نے اپنے ہاتھوں سے اس جملے كو مٹا ديا _ (27)

صلح نامے كى كچھ شرائط يوں تھيں:

1_ قريش اور مسلمان دونوں عہدكرتے ہيںكہ دس سال تك ايك دوسرے سے جنگ نہيں كريں گے تا كہ جزير ةالعرب ميں اجتماعى امن و امان اور صلح قائم ہوجائے_

2_ جب بھى قريش كا كوئي آدمى مسلمانوں كى پناہ ميں چلا جائے گا تو محمد(ص) اس كو واپس كريںگے ليكن اگر مسلمانوں ميں سے كوئي شخص قريش كى پناہ ميں آجائے گا تو قريش پر لازم نہيں كہ وہ اس كو واپس كريں_

3_ مسلمان اور قريش جس قبيلے كے ساتھ چاہيں عہد و پيمان كر سكتے ہيں_

4_ محمد(ص) اور ان كے اصحاب اس سال مدينہ واپس جائيں اور آئندہ سال زيارت خانہ خدا كے لئے آسكتے ہيں_ليكن شرط يہ ہے كہ تين دن سے زيادہ مكّہ ميں قيام نہ كريں اور مسافر جتنا ہتھيار لے كر چلتا ہے اس سے زيادہ ہتھيار اپنے ساتھ نہ ركھيں(28)_

5_ مكہ ميں مقيم مسلمان اس معاہدے كى روسے اپنے مذہبى امور آزادى سے انجام دے سكتے ہيں اور قريش انہيں آزار يا مجبور نہيں كريں گے كہ وہ اپنے مذہب سے پلٹ جائيںيا ان كے دين كا مذاق نہيں اڑائيں گے _اسى طرح وہ مسلمان جو مدينہ سے مكہ آئيں ان كى جان و مال محترم ہے_(29)

معاہدہ كے دو نسخے تيار كئے گئے اور ايك نسخہ رسول خدا(ص) كى خدمت ميں پيش كيا گيا اس

 

147

كے بعد آپ(ص) نے جانوروں كو ذبح كرنے كا حكم ديا اور وہيں سرمنڈوايا (30)اور اس طرح19 دن كے بعد آپ(ص) مدينہ كى طرف روانہ ہو گئے_

صلح كے مخالفين( مطالعہ كيلئے)

صلح كا معاہدہ كچھ مسلمانوں خصوصاً بعض مہاجرين كى ناراضگى كا باعث بنا اور مسلمانوں كو سب سے زيادہ تكليف صلح نامہ كى دوسرى شق كى وجہ سے ہوئي جس ميں مسلمانوں كے پاس پناہ لينے والوں كو واپس كردينے كو لازم قرار ديا گيا تھا ، مخالفين صلح ميں سب سے آگے عمر بن خطاب تھے واقدى كى روايت كے مطابق عمر اور ان كے ہمنوا افراد رسول خدا(ص) كى خدمت ميں پہنچے اور كہا كہ '' اے اللہ كے رسول(ص) كيا آپ(ص) نے نہيں كہا تھا كہ ہم جلدى ہى مكہ ميں داخل ہو كر كعبہ كى كنجى لے ليں گے اور دوسروں كے ساتھ عرفات ميں وقوف كريں گے ؟ اور اب حالت يہ ہے كہ نہ ہمارى قربانى خانہ خدا تك پہنچى اور نہ ہم خود رسول خدا(ص) نے عمر كو جواب ديا كہ '' كيا ميں نے اسى سفر كے لئے كہا تھا؟ عمر نے كہا '' نہيں'' پھر مقبول رسول (ص) (ص) نے عمر كى طرف رخ كيا اور فرمايا كہ '' كيا تم احد كا دن بھول گئے ہو جس دن تم بھاگتے ہوئے پيچھے مُڑكر نہيں ديكھتے تھے اور ميں تمہيں پكار رہا تھا ؟ كيا تم احزاب كا دن بھول گئے ؟ كيا تم فلا دن بھول گئے ؟''

مسلمانوں نے كہا اے اللہ كے رسول (ص) آپ(ص) نے جو كچھ سوچ ركھا ہے ہم نے اس

كے بارے ميں نہيں سوچا تھا _ آپ(ص) خدا اور اس كے حكم كو ہم سے بہتر جانتے ہيں_

اسى طرح جب صلح نامہ لكھا گيا تو عمر اپنى جگہ سے اُٹھ كر رسول خدا(ص) كے پاس آئے اور كہا '' اے اللہ كے رسول (ص) كيا ہم مسلمان نہيں ہيں ؟ '' آپ نے فرمايا : '' بے شك ہم مسلمان

 

ہيں '' عمر نے كہا كہ ''پھر دين خدا ميں ہم كيوں ذلت اور پستى برداشت كريں ؟آپ(ص) نے فرمايا كہ ميں خدا كا بندہ اور اس كا رسول ہوں ميں خدا كے حكم كى كبھى بھى مخالفت نہيں كروں گا اور خدا بھى مجھے تباہ نہيں كرے گا _(31) عمر بن خطاب كہتے ہيں كہ'' ميں نے كبھى بھى حديبيہ كے دن كى طرح اسلام كے بارے ميں شك نہيں كيا_(32)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

رسالت پر ایمان لانے کا تقاضا
الکافی
چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)

 
user comment