اردو
Thursday 25th of April 2024
0
نفر 0

بَني مُصْطَلقْ كا اسلامى تحريك ميں شامل ہونا

137

بَني مُصْطَلقْ كا اسلامى تحريك ميں شامل ہونا

جب رسول خدا(ص) نے مال غنيمت اور اسارى كو مسلمانوں كے درميان تقسيم كيا اس وقت بنى مصطلق كے رئيس '' حارث بن ابى ضرار'' كى بيٹي''جوُيرْيہّ'' ايك مسلمان كے حصّے ميں آئيں انہوں نے اپنے مالك سے طے كيا كہ ميں كچھ رقم ادا كركے آزاد ہو جاؤں گى ليكن ان كے پاس پيسے نہيں تھے_ان كى صرف ايك اميد تھى پيغمبر اكرم (ص) كالطف و مہرباني، پيغمبر اكرم (ص) كے پاس آئيں اور كہا'' ميں حارث كى بيٹى ہوں اور اسير ہو كر آئي ہوں _،ور ميں نے يہ طے كر ليا ہے كہ كچھ پيسے ادا كركے آزاد ہو جاؤں اے اللہ كے رسول (ص) ميں آئي ہوں تا كہ اس رقم كى ادادئيگى ميں آپ(ص) ميرى مدد فرمائيں _ ''رسول خدا(ص) نے فرمايا كہ '' آيا تمہيں يہ پسند ہے كہ ميںتمہارے لئے اس سے بہتر كا م انجام دوں ؟ جن پيسوں كى تم قرض دار ہو اس كو ميں ادا كردوں پھر تم سے شادى كرلوں ؟ جُوَيْريّہ اس پيش كش سے مسرور ہوگئيں_

جُوَيْريّہ سے رسول خدا(ص) كى شادى كى خبر اصحاب ميں پھيل گئي لوگوں نے بنى مُصطَلق كے پيغمبر اكرم (ص) كے رشتہ دار بن جانے كے احترام ميں اپنے اسارى كو آزاد كرديا _ جب بنى مُصْطَلق نے لشكر اسلام كا يہ بڑا پن اور در گذر ديكھا تو مسلمان ہو گئے اور ايك با بركت شادى كے نتيجہ ميں وہ سب كے سب اسلامى تحريك ميں شامل ہوگئے_(14)

ايك فاسق كى رسوائي

بنى مصْطَلق كے مسلمان ہو جانے كے بعدرسول خدا(ص) (ص) نے وَليد بن عُقْبة بن اَبى مُعيط كو ان كى طرف زكوة وصول كرنے كے لئے بھيجا_ بنى مصطلق نے جب سُنا كہ پيغمبر اكرم (ص) كا

 

138

نمائندہ ان كى طرف آرہا ہے تو وہ استقبال كے لئے دوڑ پڑے ليكن وليد دڑگيا اور اس نے خيال كيا كہ وہ لوگ جنگ كرنے كے لئے آمادہ ہيں ، لہذا اس نے مدينہ واپس آكر رسول (ص) خدا سے كہا كہ '' وہ لوگ مجھے قتل كردينا چاہتے تھے اور انہوں نے زكوة ادا كرنے سے بھى انكار كرديا ہے ''_

بنى مُصْطَلق كے ساتھ دوبارہ جنگ كى باتيں لوگوں كى زبان پر چڑ ھ گئيں اس واقعہ كے بعد بنى مُصْطَلق كا ايك وفد مدينہ آيا اور اس نے حقيقت حال بيان كى (15) اس واقعہ كے بارے ميں سورہ حجرات كى مندرجہ ذيل آيت نازل ہوئي :

'' اے ايمان لانے والو اگر كوئي فاسق تمہارے پاس كوئي خبر لائے تو اس كى تحقيق كرو كہيں ايسا نہ ہو كہ نادانى كى بنا پر لوگوں (كى جان و مال) كو نقصان پہنچادو پھر (جب معلوم ہو كہ فاسق نے جھوٹ بولا تھا )تو جو كچھ كيا ہے اس پر تم كو پشيمانى ہو_(16)

آنحصرت(ص) كى بيوى پر تہمت (واقعہ افك)(مطالعہ كيلئے)

رسول خدا(ص) جب بھى سفر پر جانا چاہتے (حتّى كہ جنگ كے لئے بھي) تو اپنى بيويوں كے درميان قرعہ نكالتے تھے جس كے نام قرعہ نكل آتا اسى بيوى كو اپنے ساتھ لے جاتے تھے_

غزوہ بنى مُصْطَلق كے موقع پر جناب عائشےہ كے نام قرعہ نكلا آپ(ص) انہيں اپنے ساتھ لے گئے_جنگ سے واپسى كے دوران جب مدينہ كے قريب پہنچے تو وہيں ٹھہر گئے اور آرام كرنے لگے_اسى اثنا ميں عائشےہ اس بات كى طرف متوجہ ہوئيں كہ ان كا گلوبند گم ہو گيا ہے اس كو ڈھونڈنے كے لئے آپ خيمہ گاہ سے دور چلى گئيں جب واپس پلٹيں تو لشكر اسلام وہاں سے كوچ كرچكا تھا اور عائشےہ تنہا رہ گئي تھيں_ ايك متقى اورنيك شخص جن كا نام صفوان

 

139

بن مُعطل تھا اورجو لشكر اسلام كے پيچھے پيچھے اطلاعات حاصل كرنے كے لئے چلا كرتے تھے ، وہاںپہنچے اور جناب عائشےہ كو ديكھا كہ وہاں تنہا ہيں _ نہايت ادب سے اونٹ سے نيچے اُترے ، اونٹ كو زمين پر بٹھايا اور خود دوركھڑے ہوگئے يہاں تك كہ عائشےہ اونٹ كى پشت پر سوار ہوگئيں انہوں نے اونٹ كى مہار پكڑى اور راستے ميں گفتگو كئے بغير مدينہ لے آئے_جب يہ لوگ مدينہ پہنچے تو منافقين نے عبداللہ بن اُبيّ كى قيادت ميں صفوان اور عائشےہ كے بارے ميں تہمتيں تراشيں ، ناواقف ان تہمتوں كولے اڑے ،مدينہ ميں تہمتوں اور افواہوں كا بازار گرم تھا ، اور ہر آدمى ايك الگ بات كہنے لگا ، جناب عائشےہ بيمار ہوگئيں اور اس تہمت كے غم ميں جو بے گناہى كے با وجود ان پر لگائي گئي تھى روتى رہتيں اور كسى وقت چين نہ پاتيں ، قريب تھا كہ اس موضوع پر فتنہ بر پا ہوجائے كہ سورہ نور كى آيات نمبر 11 سے 27 تك نازل ہوئيں اور عائشےہ كو يہ خوش خبرى سنائي گئي كہ خدا تمہارى پاكيزگى پر گواہ ہے_(17)پھر رسول خدا(ص) نے تہمت لگانے والوں پر حد جارى كى _ جن لوگوں پر حدجارى كى گئي ان ميں حسّان بن ثابت اور حَمنہ كا نام بھى نظر آتا ہے_(18)

ابن اسحاق كہتا ہے كہ بعد ميں معلوم ہوا كہ صفوان بن معطل در اصل مرادنگى سے عارى اور عورتوں كے ساتھ نزديكى نہيں كر سكتا تھے_ يہ مرد پارسا كسى جنگ ميں شہيدہو گئے_(19)

صلح حديبيہ

ذى قعدہ 7 ہجرى بمطابق فرورى و مارچ 628 عيسوي

 

140

مكہ كى راہ پر:

لشكر اسلام كى پے در پے كاميابيوں اور مشركين مكّہ كى گوشہ گيرى نے پيغمبر اكرم (ص) كو اس بات پر آمادہ كيا كہ دوسرى بار جزيرة العرب ميں مسلمانوں كى حيثيت و وقار كے استحكام كے لئے اقدام كريں _آپ(ص) نے حكم ديا كہ مسلمان سفر حج كے لئے تيار ہو جائيں اور ہمسايہ قبائل جو ابھى تك حالت شرك پر باقى تھے ان سے آپ نے مسلمانوں كے ساتھ اس سفر پر چلنے كى خواہش ظاہر كى _ ان ميں سے بہت سے لوگوں نے عذر پيش كيا اور ساتھ چلنے سے انكار كرديا _

اس سفر ميں عبادتى اور معنوى خصوصيات كے علاوہ مسلمانوں كے لئے وسيع اجتماعى اور سياسى مصلحتيں بھى تھيں_ اس لئے كہ عرب كے متعصب قبائل نے مشركين كے غلط پروپيگنڈے كى بنا پر يہ سمجھ ركھا تھا كہ رسول خدا(ص) خانہ كعبہ كے لئے'' جو سلف كى بارگاہ اور افتخار كا مظہر ہے'' ، كسى طرح اس كى قدر و منزلت كے قائل نہيں ہيں اور اسى وجہ سے اسلام كے پھيلاؤ سے شدتّ كے ساتھ ہر اساں تھے _ اب غلط خيالات كے پردے چاك ہوئے اور انہوں نے ديكھ ليا كہ رسول خدا(ص) ، حج كو ايك واجب فريضہ جانتے ہيں _ ايك طرف اگر قريش مانع نہيں ہوئے اور زيارت كعبہ كى توفيق ہوگئي تو يہ مسلمانوں كے لئے بڑى كاميابى ہوگى كہ وہ چند سال كے بعد ہزاروں مشركين كى آنكھوں كے سامنے اپنى عبادت كے مراسم ادا كريں گے دوسرى طرف اگر قريش مسلمانوں كے مكّہ ميں داخل ہونے سے مانع ہوئے تو اعراب كے جذبات طبعى طورپر مجرو ح ہوجائيں گے كہ ان لوگوں نے مسلمانوں كو فريضہ حج انجام دينے كے لئے آزادكيوں نہ چھوڑا _ يہ سفر چونكہ جنگى سفر نہ تھا اس لئے پرسول خدا(ص) نے حكم ديا كہ ہر شخص اپنے ہمراہ صرف ايك تلوار '' مسافر كا اسلحہ '' كے

 

141

عنوان سے ركھ سكتا ہے _ اسكے علاوہ اور كوئي ہتھياز ركھنے كى اجازت نہيں ہے _رسول خدا(ص) نے قربانى كے لئے ستر(70) اونٹ مہيّا كئے اور چودہ سو مسلمانوں كے ساتھ مكہ كى طرف روانہ ہوئے اور مقام ذو الحليفہ ميں احرام باندھا_

آپ نے عباد بن بشر كو 20 مسلمانوں كے ساتھ ہر اول دستہ كے عنوان سے آگے بھيج ديا تا كہ را ستے ميںآنے والے لوگوں كے كانوں تك لشكر اسلام كى روانگى كى خبر پہنچا ديں اور كسى خطرے يا سازش كى صورت ميں اس كى خبر رسول خدا(ص) كو ديں_ (20)

قريش كا موقف

جب قريش ، رسول خدا(ص) كى روانگى سے آگاہ ہوئے تو انہوں نے بتوں (لات و عزّي) كى قسم كھائي كہ آنحضرت(ص) كو مكّہ ميں آنے سے روكيں گے _ قريش كے سرداروں نے رسول خدا (ص) كو روكنے كے لئے خالد بن وليد كو دو سو سواروں كے ساتھ مقام '' كُراع الغَميم ''بھيجا جہاں پہنچ كر يہ لوگ ٹھہر گئے _

رسول خدا(ص) قريش كے موقف سے آگاہى كے بعد يہ چاہتے تھے كہ خونريزى كے ذريعے اس مہينے اور حرم كى حرمت مجروح نہ ہو اس لئے آپ(ص) نے راہنما سے فرمايا كہ كارواں كو اس راستے سے لے چلو كہ جس راستے ميں خالد كا لشكر نہ ملے _

راہنما ، قافلہ اسلام كو نہايت دشوار گذار راستوں سے لے گيا يہاں تك كہ يہ لوگ مكہ سے 22 كيلوميٹر دور'' حديبيّہ'' كے مقام پر پہنچ گئے_ آنحضرت(ص) نے سب كو يہ حكم ديا كہ يہيں اُتر جائيں اور اپنے خيمے لگاليں (21)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

میثاقِ مدینہ
سکوت امیرالمومنین کے اسباب
مسلم بن عقیل کی بیٹیوں کے نام کیا تھے؟
امام حسين (ع) کي طرف سے آزادي کي حمايت
حُرّ؛ نینوا کے آزاد مرد
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ
حدیث غدیر کی سندیت و دلالت
۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے ...

 
user comment