اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

حق پوشیدہ نھیں ھے

حق پوشیدہ نھیں ھے

اھل بیت علیھم السلام کے سامنے کوئی پردہ نھیں ھے جیسا کہ خداوندعالم بھی کسی پردہ میں پوشیدہ نھیں ھے، اگر بعض لوگ چشم بصیرت سے خدا کو نھیں دیکھتے تو اس کی وجہ یہ ھے کہ وہ خود پردہ میں ھیں ورنہ خدا تو ظاہر ومُظہراور نور ھے:

<اللهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ۔۔۔>[1]

”اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ھے۔۔۔۔“

ان لوگوں کی آنکھوں پر حق کو دیکھنے میں مانع حجاب اور نبوت و ولایت کو نہ دیکھنے کا سبب قیامت تک باقی رھے گا اور قیامت کے دن ان پر حقیقت واضح ھوجائے گی، جس طرح پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کے لئے حقیقت واضح ھے اور کوئی چیز ان سے مخفی نھیں ھے، اور جو کچھ مستقبل میں دوسروں کے لئے واضح ھوگی ان حضرات کے لئے اس وقت بھی واضح و روشن ھے۔

البتہ جو لوگ اھل بصیرت ھیں اس وقت میں حق اور نبوت و لایت کی حقیقت کو دیکھتے ھیں اور ان کے نزدیک ان کی عظمت واضح اور روشن ھے، اسی وجہ سے ان حضرات کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیتے ھیں اور اپنے تمام وجود سے ان حضرات کی اقتدا کرتے ھیں۔

جمال یار ندارد نقاب و پردہ ولی

                                 غبار رہ بنشان تا نظر توانی کرد[2]

(ترجمہ شعر:جمال خدا پردہ میں نھیں ھے لیکن اپنی راہ سے گرد و غبار صاف کرو تاکہ اس کا دیدار ھوجائے۔)

جی ہاں حق پوشیدہ نھیں ھے اور رسالت و امامت بھی پردہ میں نھیں ھے۔

غیب و شھود کے حقائق جو سب کے سب الٰھی نشانیاں ھیں کوئی بھی حجاب اور پردہ میں نھیں ھے، یہ انسان ھی ھے جو گناھوں کے پردہ میں لپٹا ھوا ھے اور اس وجہ سے حق دیکھنے سے محروم ھے، پردہ اور حجاب دیکھنے والوں کی آنکھوں پر ھے نہ حق پر کہ ھمیشہ مخلوق پر واضح ھے چنانچہ مولائے عاشقین، قبلہ عارفین اور امیر الموٴمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ھیں:

”الحَمدُ لِلّٰہِ المُتَجَلُی لِخَلقِہِ بِخَلقِہِ۔“[3]

”تمام حمد و تعریف اس خدا سے مخصوص ھیں جو اپنی مخلوق کے لئے ان کی خلقت کے سبب آشکارھے“۔

اھل بیت علیھم السلام نوری حقائق ھیں یہاں تک کہ ان کا جسم او ربدن بھی ان کے نوری وجود سے متاٴثرھے اور جن کے دل میں نفس کی پاکیزگی اور حقیقت سے عشق و محبت کی وجہ سے نور قرار دیا گیا ھے؛ وھی اھل بیت علیھم السلام کی حقیقت کو دیکھتے ھیں اور خود ان کی اقتدا کرتے ھیں اگرچہ سر کی آنکھوں سے محروم ھوں!

جناب ابو بصیر کہتے ھیں: میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں وارد ھوا، لوگوں کو آتے جاتے دیکھا، امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: لوگوں سے پوچھو کیا مجھے دیکھ رھے ھیں؟ میںنے جس سے بھی سوال کیا کہ کیا امام باقر (علیہ السلام) کو دیکھتے ھو؟ وہ کہتا تھا: نھیں، جبکہ امام علیہ السلام اس کے مقابل کھڑے ھوتے تھے، اس موقع پر ابوہارون مکفوف (جو دونوں آنکھوں سے نابینا تھے) مسجد میں تشریف لائے، میں نے ان سے سوال کیا: کیا حضرت محمد باقر (علیہ السلام) کو دیکھ رھے ھو؟ انھوں نے جواب دیا: جی ہاں، اور پھر انھوں نے امام علیہ السلام کی طرف اشارہ (بھی) کیا اور کہا: کیا تم نھیں دیکھ رھے ھو امام (علیہ السلام) وہاں کھڑے ھوئے ھیں، میں نے ان سے سوال کیا: تم نے کس طرح سمجھا؟ تم تو نابینا ھو؟ انھوں نے جواب دیا: میں کس طرح امام کو نہ دیکھوں اور نہ جانوں حالانکہ امام چمکتا ھوا نور ھے[4]!!

جی ہاں سر کی آنکھوں سے نابینا لیکن دل کی آنکھوں سے بینا، حقیقت کو چاھے کچھ بھی ھو اور کھیں بھی ھو اور کسی بھی جلوے میں ھو دیکھتا ھے ، لیکن سر کی آنکھوں سے بینا اور دل کی آنکھوں سے نابینا اگرچہ حقیقت اس کے سامنے بھی ھو تو بھی وہ اسے نھیں دیکھتا، یھی نھیں بلکہ اس کی تکذیب اور اس کے انکار کے لئے اٹھ کھڑا ھوتا ھے!

ممکن ھے کوئی شخص پیغمبر اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) اور اھل بیت علیھم السلام کے سلسلہ میں گفتگو کرے یا ان کی تاریخ پڑھے یا ان کے سلسلہ میں کتاب لکھے لیکن ان کو نہ دیکھے یا دوسرے الفاظ میں: ان کے ظاہر کو دیکھے لیکن ان حضرات کی شخصیت اور عظمت کو نہ دیکھتا ھو، جیسا کہ عیسائی اور لامذہب دانشوروں نے بزم ربوبیت کے ان شاہدوں اور الوھیت کی نشانیوں کے بارے میں کتابیں لکھی لیکن ان پر ایمان نہ لائے اور تحریف شدہ ثقافت اور اپنے جھل کے ھولناک گڑھوں میں باقی رھے اور ختم ھوگئے!

حضرت امام موسی بن جعفر علیہ السلام کے حالات زندگی میں ملتا ھے[5] کہ قید خانہ میں ہر روز طلوع آفتاب سے زوال کے وقت تک سجدہ اور عبادت و مناجات میں مشغول رہتے تھے، ہارون دن میں جب زندان کی چھت پر جاتا تھا اور قید خانے کے روشن دان سے قید خانہ کے اندر دیکھتا تھا قید خانہ کے گوشہ میں صرف کپڑا دیکھتا تھا، ایک روز اس نے داروغہ زندان ”ربیع“ سے کہا:

”مَاذاکَ الثَّوْبُ الَّذِی اٴَرَاہُ کُلُّ یَوْمٍ فِی ذَلِکَ المَوْضِعِ؟“

”اے ربیع! وہ کپڑا کیسا ھے جس کو میں ہر روز وہاں دیکھتا ھوں ؟“۔

ربیع نے جواب دیا:

”مَاذَاک بِثُوْبٍ، وَاِٴنَّمَاھُوَ موسَی بْنُ جَعْفَر، لَہُ کُلَّ یَوْمٍ سَجْدَةٌ بَعْدَ طُلُوعِ الشَّمسِ اِٴلَی وَقْتِ الزَّوَالِ۔“[6]

”وہ کپڑا نھیں ھے بلکہ موسیٰ بن جعفر (علیہ السلام) ھیں ہر روز طلوع آفتاب کے بعد سے زوال تک سجدہ میں رہتے ھیں“۔

ہارون چونکہ سر کی آنکھوں سے دیکھتا ھے لیکن اس کا باطن اندھا ھے لہٰذا حقیقت کو دیکھنے سے محروم ھے، بلاشک اگر اپنے باطن میں روشنی پاتا تو امام علیہ السلام کو قید خانہ سے آزاد کردیتا اور حکومت امام علیہ السلام کے سپرد کردیتا کیونکہ حکومت امام کا الٰھی حق ھے، اور خود ھمہ تن گوش غلام کی طرح امام علیہ السلام کی خدمت کرتا اور ایک لمحہ کے لئے بھی امام علیہ السلام کی اقتدا سے دست بردار نہ ھوتا۔

اس کے مقابلہ میں جن لوگوں کو حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے آزار و تکلیف دینے کے لئے بھیجا گیا، چنانچہ صالح بن وصیف داروغہ زندان کہتا ھے: کیا کروں میں نے دو بدترین لوگوں کو امام کے آزار و تکلیف دینے کے لئے بھیجا، لیکن وہ دونوں امام کی عبادت اور راز و نیاز کو دیکھ کران سے اتنے متاٴثر ھوئے کہ وہ خود بھی عبادت اور راز و نیاز میں مشغول ھوگئے اس طرح کہ ان کا انداز بھی تعجب خیز تھا!!

میں نے ان سے کہا: تمھیں کیا ھوگیا ھے؟ تمہارے حوالہ جو کام کیا گیا تھا اس کو کیوں انجام نہ دیا؟ مگرتم نے ان میں کیا دیکھ لیا ھے؟ وہ جواب میں کہتے ھیں: ھم اس شخص کے بارے میں کیا کھیں جو دن بھر روزہ رکھتا ھو اور شب کو عبادت میں گزارتا ھو اور عبادت کے علاوہ کسی دوسرے کام میں مشغول نہ ھو، وہ جب ھماری طرف دیکھتے ھیں تو ھمارے بدن میںاس طرح لرزہ پیدا ھوجاتا ھے کہ ھم اس وقت اپنے اوپر قابو نھیں کرپاتے[7]!

جی ہاں ، حقیقت دیکھنے والے حقیقت یافتہ ھو جاتے ھیں اور شیطانی کام انجام دینے کے بجائے اسلامی اور عبادی کاموں میں مشغول ھوجاتے ھیں۔

 



[1] سورہٴ نور (۲۴)، آیت۳۵۔

[2] حافظ شیرازی، دیوان اشعار۔

[3] نہج البلاغہ، ص۱۵۷، خطبہ، ۱۰۸؛ اعلام الدین؛ بحار الانوار، ج۳۴، ص۲۳۹، باب۳۳۔

[4] الخرائج والجرائح، ج۲، ص۵۹۵؛ بحار الانوار، ج۴۶، ص۲۴۳، باب۵، حدیث۳۱۔

[5] اس واقعہ کی طرف اھل بیت علیھم السلام کے مقام فنا کی بحث میں اشارہ ھوچکا ھے، لیکن چونکہ جادہ حق پر چلنے والوں کے لئے سرمشق کی حیثیت رکھتا ھے اسی وجہ سے تکرار ھوا ھے۔

[6] عیون اخبار الرضا، ج۱، ص۹۵، باب۷، حدیث۱۴؛ بحار الانوار، ج۴۸، ص۲۲۰، باب۹، حدیث۲۴۔

[7] اصول کافی، ج۱، ص۵۱۲، باب مولد ابی جعفر الحسن بن علی علیہ السلام، حدیث۲۳؛ الارشاد مفید، ج۲، ص۳۳۴؛ روضة الواعظین، ج۱، ص۲۴۸؛ بحار الانوار، ج۵۰، ص۳۰۸، باب۴، حدیث۶۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف
پیغام شہادت امام حسین علیہ السلام

 
user comment