اردو
Tuesday 16th of April 2024
0
نفر 0

دوم پیدائش کے بعد کے حقوق

دوم پیدائش کے بعد کے حقوق:۱:حق زندگی:

      بچے کوزندہ رہنے کاحق ہے چاہے مذکرہویامونث اورشریعت اسلامی اسے زندہ درگورکرنے یاحمل گراکر اس کی شمع حیات کوگل کرنے کی اجازت نہیں دیتی چنانچہ اسلام نے جاہلیت میں رائج زندہ درگورکرنے والے عمل کی مذمت کی ہے اورقرآن کریم تحدید آمیز لہجے میں کہتاہے :

واذا المؤدة سئلت بای ذنب قتلت [64]۔

      ”اورزندہ درگورلڑکی سے پوچھاجائے گااسے کس جرم میں قتل کیاگیاہے“۔

      اوراس عظیم جرم کوکسی حالت میں بھی جائزقرارنہیں دیاجاسکتا حتی کہ بھوک جیسی مجبوری میں بھی جیسا کہ لوک فقرکے خوف سے اپنی اولاد کوقتل کردیاکرتے تھے چنانچہ قرآن میں ارشاد ہے  :

      ولاتقتلوا اولادکم من املاق نحن نرزقکم وایاھم

      ”اپنی اولاد کومفلسی وتنگ دستی کی وجہ سے قتل نہ کرو ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں آورانہیں بھی “ [65]۔

      اوردوسری آیت میں ہے  :

      ولاتقتلوا اولادکم خشیة املاق نحن نرزقھم وایاکم  [66]۔

      ”اپنی اولاد کومفلسی کے خوف کی وجہ سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہین بھی “۔

      آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ پہلی آیت میں پہلے ماں باپ کے رزق کاذکرہے پھر اولاد کے رزق کالیکن دوسری آیت میں اس کے برعکس پہلے اولاد کے رزق کاذکر ہے پھرماں باپ کے رزق کا۔

      اس کاراز کیاہے ؟ کیایہ فقط تعبیرکافرق ہے نہیں ایساہرگزنہیں کیو ں کہ قرآن کی ہرتعبیر دقیق اورمعنی خیز اوراس میں کسی لفظ کاتقدم یاتاخرحکمت سے خالی نہیں ہوتی دقت کرنے سے پتاچلتاہے کہ یہ فقرہ کہ مفلسی کی وجہ سے اپنی اولاد کوقتل نہ کرو(سورة انعام ۶: ۱۵۱) کامطلب یہ ہے کہ مفلسی اورتنگ دستی سے اس زمانہ کاانسان دوچارتھا اورچونکہ اس زمانے میں آنسان سب سے زیادہ اہمیت اپنی ذات کودیتاتھا لذا اس کی ہلاکت سے ڈرتاتھا اورخدا تعالی ایسی حالت میں اسے اطمینان دلارہاہے کہ پہلے وہ اس کے رزق کاضامن ہے اوردوسرے درجے میں اس کی اولاد کے رزق کالذا فرماتاہے  :

نحن نرزقکم وایاھم

      ”اے مفلس ونادار انسان ہم تمہیں بھی رزق دیں گے اورانہیں (تمہاری اولاد) کو بھی رزق عطاکریں گے۔

      لیکن دوسری آیت میں فرماتاہے 

      ولاتقتلوا اولادکم خشیة املاق

      ”اپنی اولاد کوافلاس کے ڈرسے قتل نہ کرو“۔

      تواس سے مراد یہ ہے کہ مستقبل میں آنے والے فقرکے خوف سے اپنی اولاد کوقتل نہ کرو لہذا خداتعالی پہلے ان کی اولاد کے رزق کی ضانت اٹھاکر انہیں مطمئن کرنا چاہتاہے کیونکہ انہیں اندیشہ تھا کہ ان کی اولاد آئیگی تواپنے ساتھ فقربھی لائے گی لہذا خداوندکریم نے فرمایاہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی یعنی اس آیت میں خدا اولاد کے رزق کے ذمہ داری لے رہاہے۔

      پس دونوں آیتوں کامعنی ایک نہیں ہے بلکہ ہرآیت والدین کوخاص حالت میں مخاطب قراردے رہی ہے لیکن دونوں آیتوں کاہدف ایک ہے اوروہ ہے اولاد کی زندگی پر ظلم کرنے سے روکنا۔

      پھرزمانہ جاہلیت میں لڑکے اورلڑکی کے درمیان امتیاز برتاجاتاتھا اورلڑکیوں کوزندہ درگورکرکے انتہائی قساوت قلبی اورسفاکانہ انداز میں ان کی زندگی کاخاتمہ کردیاجاتاتھا اورذرہ بھرانسانی جذبات واحساسات متاثرنہیں ہوتے تھے۔

      ”المختار من طرائف الامثال والاخبار “ کے مولف نقل کرتے ہیں کہ ”حضرت عمر سے زندگی کے عجیب ترین واقعات کے بارے میں سوال کیاگیاتوانہوں نے کہا دو واقعے ایسے ہیں ایک کویاد کرتاہوں ہنس پڑتاہوں اوردوسرے کویاد کرتاہوں تورودیتاہوں۔ پوچھاگیاہنسانے والاواقعہ کونسا ہے توانہوں نے جواب دیا میں زمانہ جاہلیت میں کھجور کے بنے ہوئے ایک بت کی عبادت کیاکرتاتھا جب سال ختم ہوجاتاتھا تومیں وہ بت کھالیا کرتاتھا اوراس کی جگہ کچی کھجوروں کادوسرا بت بنا کے رکھ دیتاتھا پوچھاگیادوسرا رلانے والا واقعہ کونسا ہے توکہنے لگے جب میں اپنی بیٹی زندہ درگورکرنے کے لئے گڑھا کھود رہاتھا تومیری داڑھی گرد وغبار سے اٹ گئی تھی اورمیری بیٹی میری داڑھی سے گردوغبار جھاڑرہی تھی اس کے باوجود میں نے اسے زندہ دفن کردیا“ [67]۔

      اس وحشی، بہیمانہ اورانسانیت سوز رسم کے مقابلے میں اسلام نے حیات انسانی کے لئے ایک نئی فکر تشکیل دینے کابیڑا اٹھایاکہ زندگی فقط ایک حق نہیں ہے بلکہ یہ ایک الہی امانت ہے جسے خدائے تعالی نے انسان کے پاس ودیعت رکھاہے۔

      لہذا بغیرشرعی جواز کے اس پرہرقسم کاتجاوز ایک ناقابل بخشش ظلم شمارکیاجائے گا اوراللہ تعالی کے علاوہ کسی طاقت کواس مقدس امانت کے چھیننے کاحق نہیں ہے وہی زندگی عطاکرتاہے اورصرف وہی اسے لینے کاحقدار ہے۔

      نیز اسلام نے لڑکیوں کے لئے خصوصی طورپرایک نئی اجتماعی فضاقائم کرنے کے لئے کام کیا کیونکہ زمانہ جاہلیت کے لوگ لڑکی کی پیدائش سے خوش نہیں ہوتے تھے چنانچہ قرآن فرماتاہے  :

      واذا بشراحدھم بالانثی ظل وجھہ مسودا وھو کظیم یتواری من القوم من سوء مابشربہ ایمسکہ علی ھون ام یدسہ فی التراب الاساء مایحکمون

      ”اورجب ان میں سے کسی کے یہاں اس کی لڑکی کے پیدا ہونے کی خبردی جاتی تھی توغصہ کے مارے اس کامنہ کالاہوجاتاتھا اورو ہ زہرکاساگھونٹ پی کر رہ جاتاہے (بیٹی کی) عار اوراس کی وجہ سے کہ جس کی اس کوخبردی گئی ہے اپنی قوم کے لوگوں سے چھپاتاپھرتاہے (اورسوچتارہتاہے) آیااسے ذلت اٹھانے کے لئے اسی طرح زندہ رہنے دے یا (زندہ ہی) اس کوزمین میں گاڑدے دیکھویہ لوگ کس قدر براحکم لگاتے ہیں“ [68]۔

      اوردوسری طرف سے ان کے اندر اس فکرکواجاگرکیاکہ رزق اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے وہ لڑکیوں کوبھی اس طرح رزق دیتاہے جیسے لڑکوں کواوراس طریقے سے زندگی کے بارے میں اطمینان کی فضاقائم کی اورپیغمبر نے بڑی صاف وشفاف اورالماسی زبان لڑکیوں کے لئے استعمال کی چنانچہ کبھی تولڑکی کوپھول کہا اورکبھی بیٹیوں کوباعث برکت، انس رکھنے والی،شفقت کرنے والی اورگران قیمت قراردیاہے، حمزہ بن حمران روایت کرتے ہیں کہ ”ایک شخص پیغمبر کے پاس آیا اورمیں بھی وہیں تھا جب اسے اپنے بچے کی خبردی گئی تواس کے چہرے کارنگ متغیرہوگیا پیغمبر نے پوچھاکیاہواہے ؟ تواس نے جواب دیا اچھا ہی ہواہے آپ نے فرمایا تھا توپھرتیرے چہرے کارنگ کیوں متغیرہوگیا؟ کہنے لگا جب میں گھرسے نکلاتھا تومیری بیوی دردزہ میں مبتلاتھی اب مجھے خبرملی ہے کہ اس نے لڑکی کوجنم دیاہے توآپ نے فرمایا :

      الارض تقلھا، والسماء تظلھا، واللہ یرزقھا وھی ریحانة تشمھا۔

      ”زمین اسے اٹھائے گی، آسمان اس پرسایہ کرے گا، اللہ تعالی اسے رزق دے گا اوریہ پھول کی طرح تجھے خوشبو فراہم کرے گی“ [69]۔

      حضرت علی نے اسی بات کی تاکید کرتے ہوئے فرمایاہے  :

      جب پیغمبر کولڑکی کی خوشخبری دی جاتی تھی توآپ فرماتے : یہ پھول ہے اوراس کے رزق کاضامن خداہے  [70]۔

      اورپیغمبر کاحضرت فاطمة کے ساتھ عملی سلوک ہمارے لئے ایک زندہ نمونہ ہے۔ حسنی سیرت آئمہ میں بنت شاطی سے نقل کرتے ہیں جب حضرت فاطمة زہرا پیداہوئیں توآپ کے والدین بہت خوش ہوئے اورایسی محفل منعقد کی کہ اس سے پہلے اہل مکہ نے لڑکی کی ولادت کے موقعے پراس طرح کی محفل برپا نہیں کی تھی [71]۔

      اوریہ چیزان القاب وخطابات سے بھی ظاہرہوتی ہے جوپیغمبر نے حضرت فاطمة کوعطافرمائے تھے چنانچہ حسنی نے استاد توفیق ابوعلم کی کتاب ”اہل البیت“ سے نقل کیاہے ”سیدة فاطمة“ کے نواسماء مبارکہ ہیں فاطمة،صدیقہ، مبارکہ، طاہرہ،زکیہ، محدثہ، زہراء، بتول، اورسیدة نساء اہل الجنة، ابوعلم مزید لکھتے ہیں کہ ”آپ کوپیغمبر کی ماں بھی کہاجاتاہے کیونکہ اپنی ماں کی وفات کے بعد پیغمبر کے گھرمیں آپ تنہاتھیں ان کاخیال رکھتیں اورراتوں کوجاگتیں [72]۔

      نیز کتب سیرت میں ملتاہے کہ پیغمبر نے آپ سے بہت محبت کی اورآپ پربہت مہربان رہے جب کسی سفرپرجاتے توسب سے آخرمیں آپ سے ملتے اورجب واپس آتے توسب سے پہلے آپ سے ملاقات کرتے اورسفریاغزہ سے واپسی پرمسجدمیں دورکعت نمازپڑھتے پھر فورا حضرت زہرا کے پاس آتے تھے [73]۔

      درست ہے کہ پیغمبر علم غیب کے ذریعہ ان رازہائے سربستہ کوجانتے تھے کہ آپ کی ذریت طاہرہ کاسلسلہ آپ کی پارہ جگرحضرت فاطمة زہراسے ہے اوریہ آپ کے نقش قدم پرچلتے رہیں گے اورکتاب خدا سے جدانہیں ہوں گے یہاں تک یہ دونوں ایک ساتھ حوض کوثرپرپیغمبر کے پاس حاضرہوں گے ۔

          لیکن آپ یہ بھی چاہتے تھے کہ ہمارے لئے ایک زندہ اوردرخشندہ مثال چھوڑ جائیں کہ بیٹی کے ساتھ کیاسلوک کیاجاتاہے ایسا اجتماعی سلوک کہ جس سے جاہلیت کازمانہ محروم تھا اور آئمہ بھی اس فرق کودنیا سے ختم کرنے کے لئے کہ جوبیٹے اوربیٹی کے درمیان زمانہ جاہلیت سے چلاآرہاتھا اپنے اندر بزرگوار ہی کے نقش قدم پرچلتے رہے وہ فرق کہ جس نے لڑکے کے مقابلے میں لڑکی کی اہمیت کوبالکل ختم کردیاتھا۔

      حسن بن سعید لخمی سے روایت ہے جب ہمارے ایک دوست کے یہاں لڑکی پیداہوئی تووہ امام صادق کے پاس آیا جب امام نے اسے ناخوش دیکھا توفرمایا اگراللہ تعالی تیری طرف وحی بھیجتا کہ بجے کاانتخاب توخود کرے گایامیں تو توکیاجواب دیتا اس شخص نے کہا میں یہی کہتا پروردگار توہی انتخاب کرتوآپ نے فرمایا بیشک اللہ نے تیرے لئے انتخاب کرلیاہے [74]۔

      توایسے حکیمانہ انداز کے ساتھ امام صادق نے جاہلیت کے باقی ماندہ اثرات کولوگوں کے دلوں سے زائل کیا اوراس سے بھی زیادہ موثرانداز یہ ہے کہ جب ایک شخص نے لڑکی جنم دینے پراپنی بیوی پرخیانت کاالزام لگایاتوامام صادق نے اس کی اس عقل وشرع کے خلاف مضمحل فکرکو رد کیا اورقرآن کی اعلی فکر کو بیان کیا۔

      ابراہیم کرخی کی روایت میں ہے اس کہ ایک شخص کہتاہے میں نے مدینہ میں شادی کی توامام صادق نے پوچھا تونے اپنی زوجہ کوکیساپایا میں نے کہا کوئی مرد کسی عورت یمں کوئی بھلائی نہیں دیکھتا مگرمیں نے اس میں دیکھی ہے لیکن اس نے مجھ سے خیانت کی ہے آپ نے فرمایا کیسی خیانت تومیں نے عرض کیا اس نے لڑکی کوجنم دیاہے توآپ نے فرمایا شاید تم اسے ناپسند کرتے ہو لیکن یادر کھو خداوندعالم ارشاد فرماتاہے کہ تمہارے آباؤاجداد اورتمہاری اولاد تم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون تمہارے لئے زیادہ فائدہ مند ہے [75]۔

      بلغنی انہ ولد لک ابنة فتسخطھا! وماعلیک منھا؟ ریحانة تشمھا وقد کفیت رزقھا[76]۔

      ”مجھے پتاچلاہے کہ تیرے ہاں لڑکی پیداہوئی ہے جس کی وجہ سے توکبیدہ خاطرہے توتوجان لے کہ وہ تیرے اوپرکوئی بوجھ نہیں ہے وہ توایک پھول ہے جس کی خوشبو تیرے مشام تک پہنچے گی اوراس کے رزق کی ذمہ داری خدا کے اوپرہے۔

      اس سے بڑھ کرامام صادق نے لڑکے کولڑکی پرفوقیت دینے کی فکرکو برعکس کردیا اورفرمایا : الحسنات ویسال عن النعمة

      ”لڑکے نعمت ہیں اورلڑکیاں نیکیاں ہیں اوراللہ تعالی نعمتوں کاحساب لے گا اورنیکیوں پرثواب دے گا [77]۔

      آپ نے ملاحظہ فرمایاکہ مکتب اہل بیت نے لوگوں کے اذہان کوجاہلیت کے افکار سے پاک کیا اورانہیں آسلام کے ان ترقی یافتہ افکار سے پرکیا کہ جوعالم وجود میں آنسان کے لئے مقام ومنزلت کے قائل ہیں اس کی زندگی آزادی اورشرافت کے محافظ ہیں اوراس کے ناخن اگنے کے وقت سے اس کے حقوق کی حفاظت کرتے ہیں بالخصوص حق وجود کی اوربالخصوص لڑکیوں کے حق حیات کی ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تشیع کے اندر مختلف فرقے
نعت رسول پاک
اسراف : مسلم معاشرے کا ناسور
تمباکو نوشی کے احکام
تا روں بھري رات
تلمود ( یہودیوں کی وحشتناک کتاب)
امام خمینی کی شخصیت کو خراج عقیدت
فرقۂ سلفیہ پر ایك نظر
معاشرے کے ساتھ رہیے
مسلمانوں کے ایک دوسرے پر حقوق

 
user comment