اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

خدا پر ایمان لانے کا راستہ :

خدا پر ایمان لانے کا راستہ :

خدا پر ایمان لانے کی راھیں متعدد ھیں :

اھل اللہ کے لئے اس کی دلیل ومعرفت کا ذریعہ خود اس کی ذات ھے <اٴَوَ لَمْ یَکْفِ بِرَبِّکَ اٴَنَّہ عَلیٰ کُلِّ شَیْء ٍشَھِیْد>[1]((یا من دل علی ذاتہ بذاتہ))[2] ،((بک عرفتک واٴنت دللتنی علیک)) [3]

اوراھل اللہ کے علاوہ بقیہ افراد کے لئے چند راہوں کی طرف مختصر طور پر اشارہ کرتے ھیں :

الف):انسان جب بھی خود اپنے یا اپنے حیطہٴِ ادراک میں موجود، موجودات کے کسی بھی جزء کے متعلق غور کرے تو اس نتیجے پر پھنچے گا کہ اس جزء کا نہ هونا محال نھیں ھے اور اس کا هونا یا نہ هونا ممکن ھے۔اس کی ذات عدم کی متقاضی ھے اور نہ ھی وجود کی۔اور مذکورہ صفت کی حامل ھر ذات کوموجود هونے کے لئے ایک سبب کی ضرورت ھے، اسی طرح جس طرح ترازو کے دو مساوی پلڑوں میں سے کسی ایک پلڑے کی دوسرے پر ترجیح بغیرکسی بیرونی عامل وسبب کے ناممکن ھے، اس فرق کے ساتھ کہ ممکن الوجود اپنے سبب کے ذریعے موجود ھے اور سبب نہ هونے کی صورت میں عدم کا شکار ھے اور چونکہ اجزاء عالم میں سے ھر جزء کا وجود اپنے سبب کا محتاج ھے، لہٰذااس نے یا تو خود اپنے آپ کو وجود عطا کیا ھے یا موجودات میں سے اسی جیسے موجود نے اسے وجود بخشا ھے۔ لیکن جب اس کا اپنا وجود ھی  نہ تھا تو خود کو کیسے وجود عطا کرسکتا ھے او راس جیساممکن الوجود جس چیز پر خود قادر نھیں غیر کو کیا دے گا۔اور یہ حکم وقاعدہ جوکائنات کے ھر جزء میں جاری ھے، کل کائنات پر بھی جاری وساری ھے۔

جیسا کہ ایک روشن فضاکا وجود،جس کی اپنی ذاتی روشنی کوئی نھیں اس بات کی دلیل ھے کہ اس روشنی کامبدا ضرور ھے جو اپنے ھی نور سے روشن ومنور ھے ورنہ ایسے مبدا کی غیر موجودگی میں فضا کا روشن ومنور هونا ممکن ھی نھیں ھے، کیونکہ ذاتی طور پر تاریک موجو د کا غیر ، تو درکنار خود کو روشن کرنا بھی محال ھے۔

اسی لئے وجود کائنات اور اس کے کمالات ،مثال کے طورپر حیات، علم اور قدرت، ایک ایسی حقیقت کے وجود کی دلیل ھیں جس کا وجود، حیات، علم اورقدرت کسی غیر کے مرھون منت نھیں<اٴَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اٴَمْ ھُمُ الْخَالِقُوْنَ>[4] ((عن ابی الحسن بن موسی الرضا   (ع) اٴنہ دخل علیہ رجل فقال لہ: یا ابن رسول اللّٰہ! ما الدلیل علی حدوث العالم؟ فقال (ع): اٴنت لم تکن ثم کنت وقد علمت اٴنک لم تکوّن نفسک ولا کوّنک من ھو مثلک))[5]

ابو شاکر دیصانی نے چھٹے امام  (ع) سے پوچھا: اس بات کی کیا دلیل ھے کہ آپ (ع)  کو کوئی خلق کرنے والا ھے؟ امام نے فرمایا: ((وجدت نفسی لا تخلو من إحدی الجھتین، إما اٴن اٴکون صنعتھا اٴنا اٴو صنعھا غیری، فإن کنت صنعتھا اٴنا فلا اٴخلو من اٴحد المعنیین،إما   اٴن اٴکون صنعتھا وکانت موجودة، اٴو صنعتھا وکانت معدومة فإن کنت صنعتھا وکانت موجودة فقد استغنیت بوجودھا عن صنعتھا، و إن کانت معدومة فإنک تعلم اٴن المعدوم لا یحدث شیئًا، فقد ثبت المعنی الثالث اٴن لی صانعاً وھو اللّٰہ رب العالمین))[6]

جو چیز نہ تھی اور موجود هوئی یا تو خود اس نے خود کو وجود عطاکیا یا کسی غیر نے۔ اگر خود اس نے خود کو موجود کیا، یا تو وہ خودپھلے سے موجود تھی اور اس نے خود کو موجود کیا یا پھلے سے موجود نہ تھی،پھلی صورت میں موجود کو وجود عطا کرنا ھے جو محال ھے اور دوسری صورت میں معدوم کو وجود کی علت وسبب قرار دینا ھے اور یہ بھی محال ھے۔ اگر کسی دوسرے نے اسے وجود عطا کیا ھے اور وہ بھی پھلے نہ تھا اور بعد میں موجود هوا ھے تو وہ اسی کی مانند ھے۔

لہٰذا، بحکم عقل جو بھی چیز پھلے نہ تھی اور بعد میں موجود هوئی اس کے لئے ایسے خالق کا هونا ضروری ھے جس کی ذات میں عدم ونابودی کا سرے سے کوئی عمل دخل نہ هو۔

اسی لئے، کائنات میں رونما هونے والی تمام تبدیلیاں اور موجودات اس خالق کے وجود پر دلیل ھیں جسے کسی دوسرے نے خلق نھیں کیا ھے اور وہ مصنوعات ومخلوقات کا ایسا خالق ھے جو خود مصنوع و مخلوق نھیں ھے۔

ب):اگر کسی بیابان میںکوئی ایسا ورق پڑا ملے جس پر الف سے یاء تک تمام حروف تھجی ترتیب سے لکھے هوں،ھر انسان کا ضمیر یہ گواھی دے گا کہ ان حروف کی لکھائی اور ترتیب، فھم و ادراک کا نتیجہ ھیں اور اگر انھی حروف سے کلمہ اور کلمات سے لکھا هوا کلام دیکھے تو اس کلام کی بناوٹ و ترکیب میں موجود دقّت نظر کے ذریعے موٴلف کے علم وحکمت پر استدلال کرے گانیز اگر کسی کی گفتار میں انھی خصوصیات کا مشاھدہ کرے گا تو مقرر کے علم وحکمت کا معترف هو جائے گا۔کیا ایک پودے میں موجود عناصر اولیہ کی ترکیب،کتاب کی ایک سطر کی جملہ بندی سے کم تر ھے، جو لکھنے والے کے علم پر نا قابل انکار دلیل ھے؟!

وہ کونسا علم اور کیسی حکمت ھے جس نے پانی اور مٹی میں بیج کے چھلکے کے لئے موت اور بوسیدگی کا مادہ فراھم کیا ھے اور اس بیج کے مغز کو پودے کی شکل میں زندگی عطا کی ھے ؟!

 جڑ کو وہ قدرت وطاقت عطا کی ھے کہ زمین کے دل کو چیرکر مٹی کی تاریک تہوں سے پودے کے لئے خوراک جذب کرتی ھے اور مٹی کے حصوں سے مختلف درختوں کے لئے خوراک فراھم کی ھے، تاکہ ھر پودا اور ھر درخت اپنی مخصوص خوراک حاصل کر سکے اور درختوں کی جڑوں کو ایسا بنا یا ھے کہ وہ اپنی مخصوص خوراک کے علاوہ جو ا س درخت کے مخصوص پھل کو جاملتی ھے، کوئی اور خوراک جذب نہ کریں اور زمین کی کشش ثقل کا مقابلہ کرتے هوئے پانی اور خوراک درخت کے تنے اور شاخوں تک پھنچائیں۔جس وقت جڑیں زمین سے پانی اور خوراک لے کر درخت کے تنے اور شاخوں تک پھنچانے میں مصروف عمل هوتی ھیں، اسی دوران  تنا بھی فضا سے هوا اور روشنی لینے کے عمل کو انجام دے رھا هوتا ھے ((کلّ میسّر لما خلق لہ))[7]،جس قدر بھی کوشش کی جائے کہ جڑ، جسے مٹی کے اعماق تک جانے اور تنا جسے فضا میں سر بلند کرنے کے لئے بنا یا گیا ھے،کو اس حکیمانہ سنت سے روکیں اور اس کے برعکس جڑ کو فضا اور تنے کو مٹی میں قرار دیں تو یہ دونوں قانون کی اس خلاف ورزی کا مقابلہ کرتے هوئے طبیعی طریقہ کار کے مطابق اپنی نشونما جاری رکھیں گے <وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً>[8]

فقط ایک درخت اور ان رگوں کی جو اس کی جڑوں سے ہزار ھا پتوں تک حیرت انگیز نظام کے ساتھ پھنچائی گئی ھیں، بناوٹ اور پتوں کے ھر خلیے کو دی جانے والی قدرت وتوانائی میں غور وفکر، جس کے ذریعے وہ جڑو ں سے اپنی خوراک اورپانی کوجذب کرتے ھیں، اس بات کے لئے کافی ھے کہ انسان لا متناھی علم وحکمت پر ایمان لے آئے <اٴَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضَ وَ اٴَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَنْبَتْنَا بِہ حَدَائِقَ ذَاتَ بَہْجَةٍ مَّا کَانَ لَکُمْ اٴَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَہَا اٴَ إِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ بَلْ ھُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ>[9]<اٴَ اٴَنْتُمْ اٴَنْشُاٴْتُمْ شَجَرَتَہَا اٴَمْ نَحْنُ الْمُنْشِوٴُنَ>[10] <وَ اٴَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ>[11]

نیز جس پودے اوردرخت کو دیکھیں، جڑ سے لے کر پھل تک حق تعالی کے علم،قدرت اور حکمت کی آیت ونشانی ھے اور ان کی نشونما کے لئے جو آئین مقرر کیا گیا ھے اس کے سامنے سر جھکائے هوئے ھے <وَالنَّجْمُ وَالشَّجَرُ یَسْجُدْانِ>[12]

جیسا کہ کسی بھی جاندار کی زندگی میں غوروفکر، انسان کے لئے خدا کی طرف رھنماھے۔

ابو شاکر دیصانی نے چھٹے امام (ع) کی خدمت میں حاضر هو کر کھا :اے جعفر بن محمد (علیھما السلام)! مجھے میرے معبود کی جانب رھنمائی فرمائیں۔ ایک چھوٹا بچہ مرغی کے انڈے کے ساتھ کھیل رھا تھا۔  

 امام (ع) نے اس بچے سے انڈا لے کر فرمایا :”اے دیصانی!اس انڈے کے گرد محکم حصار ھے، اس کا چھلکا سخت ھے اور اس چھلکے کے نیچے باریک جھلی ھے۔ اس باریک جھلی کے نیچے پگھلا هوا سونا اور سیال چاندی موجود ھے جو آپس میں نھیں ملتے۔نہ تو اندر سے کوئی مصلح باھر آیا ھے جو اس کے بارے میں اصلاح کی خبر دے اور نہ ھی کوئی مفسد باھر سے اندر گیا ھے جو فساد کی اطلاع دے اور نہ ھی کوئی یہ جانتا ھے کہ انڈا نر کے لئے بنا یا گیا ھے یا مادہ کے لئے۔“[13]

آیا تصفیہ شدہ چونے کے ذریعے محکم حصار کو، جس میں بے انتھا اسرار پوشیدہ ھیں، کس صاحب تدبیر نے مرغی کے کھائے هوئے دانوں سے جدا کر کے اس کے تخم دان میں چوزے کی پرورش کے لئے ایسا مقام امن بنایا  اور اس کے اندر نطفے کو، صدف میں گوھر کی مانند جگہ دی۔ چونکہ چوزہ اس دوران ماں سے  دور ھے اور رحم مادر میں نھیں ھے جھاں سے اپنی خوراک حاصل کر سکے، لہٰذا اس کے لئے اسی محکم حصار کے اندر اس کے قریب ھی خوراک کا انتظام کیا۔چونے کی سخت دیوار اور چوزے اور اس کی خوراک کے درمیان نرم ونازک جھلی بنا ئی تاکہ چوزہ اور اس کی خوراک حصار کی سختی سے محفوظ رھیں۔ اس اندھیری اور تاریک فضا میں اس کے اعضاء وجوارح کو ہڈیوں، پٹھوں، رگوں، اعصاب اور حواس، جن میں سے فقط اس کی آنکھ کا دقیق مطالعہ محیّرا لعقول ھے، کے ذریعے پایہ تکمیل تک پھنچا کر ھر ایک کو مناسب جگہ قرار دیا۔

اورچونکہ اس چوزے کو اپنی خوراک کے لئے مٹی اور پتھروں کے درمیان سے دانے چننے ھیں، لہٰذا اس کی چونچ ہڈی کی ایک خاص قسم سے بنائی تاکہ زمین پر موجود پتھر وں کے ساتھ ٹکرانے سے اسے کوئی نقصان نہ پھنچے۔ اورکھیں اپنی خوراک سے محروم نہ هوجائے، لہٰذااسے سنگدانہ عطا کیا تاکہ جو بھی دانہ ملے اسے کھاکر اس میں محفوظ کر لے اور پھر اسے بتدریج نظامِ ہضم کے حوالے کرے۔اس کی نازک کھال کو پروں کے ذریعے ڈھانپ کر سردی،گرمی، چوٹ اور جانوروں کے آزار سے محفوظ کیا۔ ضروریات

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم
عبادت اور خدا کا ادراک
عالم برزخ، روایات كی روشنی میں

 
user comment