اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

اھل سنت کے وضو کے طریقھ کے پیش نظر آیھ وضو میں لفظ " الی " کن معنی میں ھے؟ اور اس سلسلھ میں پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی سیرت کیا ھے؟

وضو سے متعلق آیھ شریفھ: "فاغسلوا وجوھکم و ایدیکم الی المرافق " میں لفظ " الی " کن معنی میں ھے ؟
کیا اھل سنت " الی " کے معنی " سمت " میں کرتے ھیں اور اسی وجھ سے اپنے ھاتھوں کو کھنی کے سمت میں دھوتے ھیں ؟ اس سلسلھ میں پیغمبر اسلام صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی سیرت کیا تھی؟
ایک مختصر

آیھ وضو میں لفظ" الی " کے بارے میں قابل ذکر بات ھے کھ یھ صرف دھونے کی حد اور مقدار بیان کرنے کےلئے ھے ، نھ کھ دھونے کی کیفیت بیان کرنے کے لئے ۔ یعنی آیھ شریفھ میں ، وضو میںجو ھاتھه کی حد اور مقدار دھونی چاھئے ، وه کھنی تک معین ھوئی ھے اور لفظ " الی " غایت ( انتھا) کے معنی میں ھے ، لیکن مغسول کا غایت نھ کھ غسل کا اور چونکھ جب کھا جائے کھ ایک ھاتھه کو دھویا جائے ، ممکن ھے دھونے والے کے ذھن میں آئے کھ اگر کلائی تک دھولیں تو کافی ھے ۔ اس وھم و گمان کو دور کرنے کے لئے۔ ارشاد ھوا ھے کھ کھنی تک دھویا جائے ، لھذا شیعھ فقھا و ضو میں ، ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا واجب جانتے ھیں اور س سلسلھ میں اھل بیت علیھم السلام کے ذریعھ بیان شده   رسول خدا صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے عمل و سنت کو اس معنی کے لئے بھترین گواه جانتے ھیں۔

 

اھل سنت نے بھی اگرچھ " الی " کو "سمت " کے معنی میں لیا ھے اور ا س لحاظ سے نیچے سے اوپر کی طرف دھونے کو بھتر جانتے ھیں ۔ لیکن اس کے باجود کھتے ھیں کھ آدمی ھاتھوں کو نیچے سے اوپر کی طر ف یا برعکس دھونے میں اختیار رکھتا ھے ، پس انھوں نے بھی لفظ " الی " سے انگلیوں کےسرے سے کھنی تک دھونے کے وجود کا استفاده نھیں کیا ھے ۔

 

تفصیلی جوابات

سوال کا جائزه لینے سے پھلے درج ذیل تمھید کی طرف اشاره کیا جاتا ھے :

 

شیعھ فقھا اس بات کے قائل ھیں کھ وضو کے لئے ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا واجب ھے ، لیکن اھل سنت متفقھ طورپر کھتے ھیں کھ انسان کو اختیار ھے کھ ھاتھوں کو نیچے سے اوپر کی طر ف یا برعکس دھولیں ۔ لیکن نیچے ( انگلیوں کے سرے) سے اوپر کی طرف دھونا مستحب ھے ۔ [1]

 

شیعھ فقھا کی دلیل ان روایا ت پر مبنی ھے جن میں بیان کیا گیا ھے کھ : رسول خدا صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھوتے تھے ۔[2]

 

اور ایک صحیح روایت ھے کھ امام معصوم (ع) نے وضو سے متعلق آیت کی تفسیر میںفرمایا ھے : [3] : " ھاتھوں کو اوپر سے نیچے کی طرف دھونا چاھئے" [4]

 

لیکن قرآن جید کی آیھ شریفھ : " یا ایھا الذین آمنوا اذا قمتم الی الصلاۃ فاغسلوا وجوھکم و ایدیکم الی المرافق۔۔۔۔" ایمان والو ! جب نماز کے لئے کھڑے ھوجاؤ ،چھره اور ھاتھوں کو کھنی تک دھولو۔۔۔" میں لفظ " الی " صرف دھونے کی حد اور مقدار بیان کرنے کےلئے ھے ، نھ کھ دھونے کی کیفیت بیان کرنے کےلئے ۔

 

آیھ شریفھ میں وضو کے دوران ھاتھه کو دھونے کی حد کھنی تک[5] معین ھوئی ھے ، اس کی وضاحت اس طرح سے کی جاسکتی ھے کھ جب کسی سے کھا جائے کھ ھاتھه کو دھولے ، ممکن ھے اس کے ذھن میں آئے   کھ اگر ھاتھه کو کلائی تک دھولیا جائے تو کافی ھے ، کیونکھ عام طورپر ھاتھه دھونے میں اسی قدر دھویا جاتا ھے ، اس وھم کو دور کرنے کے ئے ارشاد ھوا ھے کھ ھاتھ کو کھنی تک دھولیا جائے ۔

 

مذکوره بیان کو واضح کرنے کےلئے اس مثال سےاستفاده کیا جاسکتا ھے ؛ مثلا : مسجد کے خادم سے کھا جاتا ھے کھ " اکنس المسجد من الباب الی المحراب " "مسجد میں دروازه سے محراب تک جھاڑو دیدو " یھاں پر کھنے والے کی مراد وه حد اور مقدار ے جسے جاڑودینا ھے اور وه یھ نھیں کھنا چاھتاھے کھ کھاں سے شروع کرے اورکھاں پر ختم کرے خاص طورپر جب کھ آیھ شریفھ میں لفظ "من"    نھیں آیا ھے ۔ پس مذکوره آیت میں لفظ "الی " مستحب کے طور پر بھی نھیں کھتا ھے کھ ھاتھوں کو انگلیوں کے سروں سے کھنی کی طرف دھویا جائے ۔

 

رسول اللھ صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کا عمل اور آپ ( ص) کی سنت ، جو اھل بیت علیھم السلام کے توسط سے بیان کی گئی ھے ، اس معنی کی بھتریں گواه ھے۔ [6]

 

پس " الی " یا " غایت " [7] کے معنی میں ھے ، لیکن غایت مغسول [8] نھ کھ غسل اور دھونا[9] اور یا شیخ طوسی ( رح) کے ارشاد کے مطابق " من" [10] یا " مع" [11] کے معنی میں ھے ۔ [12]

 



[1] الفقھ علی المذاھب الخمسۃ ، ص ۸۰ ، الفقھ علی مذاھب الاربعۃ ، ج ۱ ص ۶۵۔ مبحث بیان عدد السنن و غیرھا ۔۔ ، صلاۃ المومن القحاطانی ، ج ۱ ص ۴۱، ۴۲۔

[2]  ملاحظھ ھو: وسائل الشیعھ ، ج ۱ ص ۳۷۸۔ ، ابواب الوضو ، با ۱۵ ، باب کیفیۃ الوضو و جملۃ مں احکامه،

[3] سوره مائده/ ۶۔

[4] وسائل الشیعھ ، ج ۱ ، ابواب الوضو، با ۱۹ ح۱۔

[5]  " مرافق" جمع "مرفق" کھنی کے معنی میں۔

[6]  مزید آگاھی کیلئے ملاحظھ ھو : عطائی اصفھای ، علی ، چرا ؟ چرا؟ ص ۱۹ أ ۳۷۔

[7]  تا

[8]  یعنی ھاتھه دھونے کی حد کھنی تک ھے۔

[9]  یعنی یه نھیں ھے کھ کھنی تک دھونا ھے اس لحاظ سے وھم ھوسکتا ھے کھ دھونے کی کیفیت کھنی کی طرف ھو۔

[10]  سے

[11] معھ

[12] وسائل الشیعھ ، ج ۱ ، ص ۴۰۶۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

وحی کی حقیقت اور اہمیت
رمضان المبارک کے سولہویں دن کی دعا
حرام مہینوں میں جنگ اورخدا کی راہ سے روکنا
اخلاق کی قسمیں
امام حسن ؑ کی شخصیت
ام ابیھا کے معنی میں مختصر وضاحت
حضرت آیت اللہ بہجت (رح) کا یادنامہ شائع ہوا
مکروفریب
تقدیرات الہی ، سچّے اعتقاد اور صحیح خود باوری کا ...
امام کی شناخت کا فلسفہ(پھلا حصہ)

 
user comment