اردو
Tuesday 23rd of April 2024
0
نفر 0

اہلسنت و الجماعت کا فقہی نظام

اہلسنت و الجماعت کا فقہی نظام

تاریخ اسلام میں فقہ اہلسنت کے کئی دور گذرے ہيں ۔ آغاز اسلام سے گیارہویں ہجری قمری تک کا دور ، حضور اکرم (ص) کے وجود پرنور سے متعلق ہے ۔ اس دور میں سارے مسلمانوں کو براہ راست قرآن اور پیغمبر اسلام تک رسائی حاصل تھی ۔ اس کے بعد کا دور صحابۂ کرام کا دور تھا اس دور ميں جو گیارہويں ہجری سے تقریبا چالیس ہجری قمری تک جاری رہا۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اسلامی تہذیب و تمدن پر اثرانداز ہونے والے جملہ اسلامی علوم ميں سے ایک علم فقہ ہے ۔ علم فقہ، وسیع ترین اور جامع ترین اسلامی علوم ميں سے ایک ہے کہ جس میں  صدر اسلام سے لے کر اب تک ، انسان کو زندگی میں درپیش مسائل کو بیان کیا گیا ہے ۔ تاریخ اسلام ميں بڑے پیمانے پر فقہا وجود میں آئے کہ جو عالم اسلام کا نابغہ شمار ہوتے ہیں اور انہوں نے فقہ کے مسائل ميں بہت زیادہ کتابیں بھی تحریر کی ہیں ۔ اس درمیان شیعہ اور اہل سنت کے فقہی نظام ، آغاز سے لے کر اب تک مختلف ادوار سے گذارے ہيں ۔ اس پروگرام میں ہم اہل تسنن کے فقہی نظام کے بارے میں عرائض پیش کریں گے .
تاریخ اسلام میں فقہ اہلسنت کے کئی دور گذرے ہيں ۔ آغاز اسلام سے گیارہویں ہجری قمری تک کا دور ، حضور اکرم (ص) کے وجود پرنور سے متعلق ہے ۔ اس دور میں سارے مسلمانوں کو براہ راست قرآن اور پیغمبر اسلام تک رسائی حاصل تھی ۔ اس کے بعد کا دور صحابۂ کرام  کا دور تھا اس دور ميں جو گیارہويں ہجری سے تقریبا چالیس ہجری قمری تک جاری رہا ، مسلمان ، براہ راست پیغمبر اکرم (ص) کے وجود مبارک سے رابطے ميں نہیں تھے اور صحابہ کے ذریعے سے ہی پیغمبر اسلامی کی سیرت اور ان کے اقوال و بیانات سے مطلع ہوتے تھے ۔ چالیسیوں ہجری سے سو ہجری قمری تک کا دور تابعین یعنی ان کےدور سے ، جنہوں نے صحابہ کو درک کیاتھا ، معروف ہے  ۔ اس دور میں مسلمان ایک واسطے سے پیغمبر اسلام (ص) سے رابطے میں تھے اور ان سے نقل قول کرتے تھے ۔ اس کے بعدکا دور جو دوسری صدی ہجری سے چوتھی صدی ہجری تک کا دور ہے ، فقہ اہل سنت میں ان کے چار اماموں یا ان کے فقہی مذاہب کی بنیاد ڈالے جانے کے دور سے مشہور ہے ۔ چوتھی صدی ہجری کے بعد کے ادوار ميں بھی ان ہی چار اماموں کی تقلید کا دور باقی رہا ۔ آخرکار اس دورکے بعد ، نئي فقہی اور قانونی تحریک کا آغاز ہوا جو فقہ اہل سنت میں اجتہاد کادروازہ کھلنے کادور شمار ہوتا ہے ۔
دوسری صدی سے چوتھی صدی ہجری میں ، فقہ اہل سنت کے کمال حاصل کرنے، اور چار اماموں کے وجود ميں آنے اور ان کے فقہی مذاہب کی تاسیس کا آغاز ہوا۔ البتہ پہلے کے ادوار میں فقہ کے وجود نے ، اس دور کے مقدمات کو فراہم اور نئے فقہی مذاہب کی بنیاد کےلئے راہ ہموار کردی ۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ بعض موارد جیسے خلیفہ سوم کے دور میں قرآن کریم کی تنظیم و ترتیب اور اس کی جمع آوری ، احادیث نبوی (ص) کی دوسری صدی سے جمع آوری اور مختلف عقائد کا ظہور ، اہل سنت کے فقہی مذاہب کے وجود ميں آنے کے جملہ عوامل ہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر تہذیبوں سے مسلمانوں کی آشنائی ، مختلف مکاتب کاوجود ، حکومت میں توسیع اور اس کے نتائج اور قانونی ضروریات میں توسیع بھی اہل سنت کے فقہی مذاہب شمار ہوتے ہیں ۔
اہل سنت کے پہلے فقہی مکتب کی بنیاد "نعمان بن ثابت ابو حنیفہ" کے توسط سے ڈالی گئی ۔ ابو حنیفہ ایرانی نژاد تھے اور 80 ہجری قمری میں شہر کوفہ میں پیدا ہوئے ۔ ابو حنیفہ فقیہ ہونے کے علاوہ اپنے زمانے کے کامیاب تاجروں ميں سےتھے ۔ ان کا شمار اہل سنت کے نزدیک عظیم فقہاء میں ہوتاہے ۔ ابوحنیفہ ، اپنے استاد حماد بن ابی سلیمان کی پیروی میں ، نئے فقہی مکتب کو وجود ميں لائے ۔ ابوحنیفہ کے فقہی افکار کی بنیاد ، سات اصولوں ، کتاب خدا، سنت رسول خدا (ص) ، صحابہ کے اقوال ، قیاسیا اجتہاد بالرائے یعنی کسی مشابہ مورد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، درپیش قضیے میں ان ہی مشابہ موارد کے مطابق حکم کرنا یا احکام دین کی اپنی طرف سے تاویل کرنا ، اور  استحسان یعنی مشابہ موارد کو مدنظر رکھے بغیر مستقل طور پر جائزہ لینا اور جو چیز حق و انصاف سے زیادہ قریب ہو‘ نیز ہمارا ذوق و عقل اسے پسند کرے اسی کے مطابق حکم صادر کرنا ۔، نیز اجماع اور عرف پر استوار تھی ۔ یہ مکتب کہ جسے بعد میں حنفی مکتب سے شہرت حاصل ہوئی ۔ حکومت کے قبول کرنے اور حنفی قاضیوں کو اسلامی ملکوں میں بھیجے جانے سے اس مذہب کو تیزی سے فروغ حاصل ہوا ۔ فقہ حنفی کا دائرہ ، پہلے عراق اور پھر مصر ، ماوراء النھر ، اناطولیہ ( یا موجودہ ترکی ) اور بر صغیر اور حتی چین تک پھیل گيا۔ اگرچہ خود ابو حنیفہ حقیقت میں اپنےفقہی مکتب کے اصلی مروج اورشارح تھے تاہم ان کے مکتب کے شاگردوں اور تربیت یافتہ افراد نے بھی فقہ حنفی کو پھیلانے میں اہم کردار کیا ۔ اس کے ساتھ ہی بعد ميں فقہ حنفیہ کے بہت سے پیرو  مثلا اسد بن فرات کوفی ، فقہ حنفی کو چھوڑکر فقہ مالکی سے جا ملے ۔  ابوحنیفہ 150 ہجری قمری ميں انتقال کرگئے ۔
اہل سنت کے دوسرے فقہی  مذہب کی بنیاد " مالک بن انس " نے رکھی ۔ اہل سنت کا یہ فقہی مذہب ، فقہ مالکی کے نام سے موسوم ہوا۔ ابوعبداللہ مالک بن انس ، مالکی مذہب کے بانی اور پیشوا اور اہل سنت کے چار اماموں ميں سے دوسرے امام ہيں جو دو ہجری قمری ميں مدینے سے 32  فرسخ دور شمال کے  ایک علاقے میں پیدا ہوئے ۔ مالک نے شہر مدینہ میں ہی جو اس وقت فقہ وحدیث کا مرکز تھا تعلیم حاصل کرنا شروع کردی ۔ اور بہت سی علمی منزلیں سر کرتے ہوئے ان علوم میں اعلی مقام حاصل کرلیا اور پھر مسجد نبوی میں درس دینے اور فتوی جاری کرنے لگے ۔ ان کے فقہ کی بنیاد پہلے درجے میں قرآن و حدیث اور پھر اجماع علماء اور اس کے بعد اجماع اور اہل مدینہ کے عمل پر استوار تھی ۔ کیوں کہ مالک مدینے میں پلے بڑھے تھے اس لئے اس شہر کے باشندوں کے عمل کو بہت زیادہ اہیمت دیتے تھے اور جن موارد ميں قرآن و حدیث اور نص نہیں ملتی تھی وہاں اہل مدینہ کے عمل کو حجت قرار دیتے تھے ۔وہ قیاس اور استحسان پر بھی عمل کرتے تھے اور ان کو اصول استنباط کاجز سمجھتے تھے ۔ اس بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ مالک ، فقہ میں عمل باالرائے کے معتقد تھے ۔فقہ مالکی پہلے حجاز میں شائع ہوئی اور پھر مصر میں کثیر تعداد میں اس کی اشاعت عمل میں آئی اور مصر سے شمالی افریقہ اوراندلس تک پھیل گئی ۔ اس وقت بھی زیادہ تر مالکی مذہب  کے پیروکار شمالی افریقہ ميں ہیں ۔ البتہ یہ مذہب مصر ميں پھیل نہیں سکا ۔ اندلس ميں بھی فقہ مالکی ان کے شاگرد یحی بن یحی لیثی اندلسی کے توسط سے پھیلا ۔ مالک بن انس نے یہ کوشش کی کہ فقہی روش پر حدیث کی ایک کتاب تحریر کرکے اپنے آراء و نظریات کو پیش کریں ۔ چنانچہ انہوں نے جو کتاب تحریر کی اس کا نام موطاّ  ہے ۔ نقل حدیث کے علاوہ مالک نے اس کتاب میں مدینے کے فقہا کے فتووں کا ذکرکیا ہے اور پھر اپنے فقہی نظریے کو بیان کیا ہے ۔ مالک معتقد تھے کہ احکام شرعیہ کے لئے مستند روایات کے ہوتے ہوئے قیاس اور عمل باالرائے پر عمل نہیں کیا جاسکتا ہے مالکی مذہب کے فقہاء ميں سے اہم ترین ابو عبداللہ زیاد بن عبد الرحمن قرطبی کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے ۔
اہل سنت کے تیسرے فقہی مکتب کے بانی " ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی ہيں ۔ شافعی 150 ہجری قمری ميں غزہ میں پیدا ہوئے ۔ انہیں حنفی اور مالکی دونوں مذاہب سے آشنائی حاصل تھی ۔ انہوں نے یہ کوشش کی ان دو مذاہب کے مختلف اصولوں کے درمیان ایک رشتہ قائم کریں اور ایک نئی فقہ وجود میں لائیں ۔ لیکن شافعی ، ابوحنیفہ کے قاعدۂ استحسان اور اور مالکی کے اصول استصلاح ، یعنی ایک ایسا حکم حاصل کرنا کہ جس کے بارے میں نص اور اجماع موجود نہ ہو ، کی مخالفت کرتے تھے ۔ انہوں نے اپنے فقہی آراء و نظریات کو اصول فقہ ميں ایک رسالے میں تحریر کیا ہے ۔ فقہ شافعی کی مصر میں صلاح الدین ایوبی نے ترویج کی اور عراق اور مکہ میں بھی اس مذہب کے طرفدار پیدا کئے ۔ شافعی 204 قمری میں وفات پاگئے ۔
اہلسنت کا چوتھا فقہی مکتب " احمد بن حنبل " سے منسوب اور حنبلی سے موسوم ہے ۔ احمد 164 ہجری قمری میں پیدا ہوئے ان کا شمار حنابلہ مذہب کے پیشوا اوراہل حدیث  کے عظیم فکری رہنماؤں میں ہوتا ہے ۔ حنبل کہ جنہوں نے شافعی کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا ، تیس ہزار احادیث پر مشتمل ایک مسند ، تدوین کرکے دوسروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کی ۔  احمد بن حنبل کے فقہ کی اساس کتاب خدا ، سنت ، صحابہ کے فتوے ، قیاس اوراستحسان پر ہے ۔ ان کے مذہب کے پیروکارزیادہ تر حجاز ميں ہیں ۔ حنبلی مذہب کے مشہور فقہا میں " احمد بن محمد بن ھانی " جو "اثرم" سے معروف تھے کی جانب اشارہ کیا جاسکتا ہے ۔ 241 ہجری قمری ميں احمد بن حنبل کا انتقال ہوگيا ۔
 اہل سنت کے ان چار اماموں کے بعد اس فرقے میں فقہ میں جمود پیدا ہوگيا اور چوتھی صدی ہجری قمری سے تیرہویں صدی قمری تک صرف ان اماموں کی کتابوں کی شرح ، تفسیر اور اس کے حاشیہ نویسی پر توجہ دی گئی ۔ ان مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کے فقیہ نے بھی ان پیشواؤں کے کارناموں میں کسی نئے نکتے کا اضافہ نہيں کیا ۔ اس بناء پر فقہ اہل سنت میں اجتہاد ان چار افراد کی تقلید میں محدود ہوگیا ۔ اگرچہ ان چار افراد ميں اجتہاد کا محدود اور منحصر ہوجانا ہر قسم کی عقلی اور نقلی دلیلوں سےعاری تھا تاہم رفتہ رفتہ  سیاسی محرکات اور حکام کی سرگرمیوں کے ساتھ ہی اس سلسلے ميں ایک اجماع وجود ميں آيا کہ جسے توڑنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ لیکن تقریبا تیرہویں صدی قمری میں ، عالم اسلام میں نمایاں تبدیلی رونما ہوئی ۔ اور زمانے کے اعتبارسے فقہی احکام  میں نظر ثانی کی ضرورت نے بعض فقہائے اہل سنت کو اس امر پر مجبور کیا کہ وہ چاروں مذاہب کے رہنماؤں کے آراء و نظریات کی پیروی لازم ہونے کے بارے ميں شک و تردید سے دوچار ہوجائیں ۔ بہرحال بتدریج اہل سنت کے فقہا نے اس بات کو درک کرلیا کہ صرف ان چاروں فقہا کی تقلید ميں خود کو محصور کرنے کے بارے ميں کوئی عقلی اور نقلی معتبر اور متقن دلیل موجود نہيں ہے اور وہ بھی ان چار فقہا کی مانند مسائل میں اجتہاد کرسکتے ہیں ۔ چنانچہ تقریباً بیس سال پہلے مصر کے الازہر یونیورسیٹی کے چانسلر شیخ محمود شلتوت نے  یہ نظریہ پیش کیا کہ اجتہاد کا دروازہ کھلاہے اور قوی دلیل کی موجودگی میں ایک مذہب یافقہ کے ماننے والوں کے لئے دوسرے مذہب کی طرف رجوع کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے اور اس بناء پر انہوں نے قانونی طور پر فتویٰ دیا کہ دوسرے مذہب کی طرح شیعہ فقہ پر بھی عمل صحیح ہے۔ ان کا یہ اقدام قدر و منزلت کا متقاضی ہے ۔
شیخ محمود شلتوت مصر کے ایک عظیم مفکر ، دانشور ، محقق ، مفسر اور ادیب تھے وہ 1958 میں الازہر یونیورسیٹی کے چانسلر بنے اور عمر کے آخری ایام تک اسی مقام اور عہدے پر فائز رہے ۔موجود دور میں فقہ جعفری کی اعلیٰ علمی حلقوں میں پذیرائی کی ایک قابل ذکر مثال مصر کی عظیم دانشگاہ جامعہ ازہر کے چانسلر مفتی علامہ شیخ محمود شلتوت کا ایک منصفانہ اور جرات مندانہ قدم ہے۔ شلتوت " دارالتقریب بین المذاہب الاسلامیہ " کے بانیوں میں سے تھے جسکا مقصد اہل تسنن اور تشیع کے درمیان دوستی اور برادری کو قائم کرنا اور تمام رنجشوں اور تفرقہ کو مٹادینا اور اسلامی مذاہب کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنا تھا ۔ دارالتقریب کے مثبت کارناموں میں سے ایک، امامیہ اور جعفری شیعہ  مذہب اور فقہ کے مطابق عمل کرنے کے جواز سے متعلق  شیخ شلتوت کا فتوا صادر کرنا ہے ۔ یہ عالم و مفکر 70 سال کی عمر میں 1963 ميں انتقال کرگئے ۔ شیخ شلتوت کے آثار میں تفسیر قرآن کریم ، نہج القرآن فی بناء المجتمع اور بہت سی دیگر تصنیفات و تالیفات قابل ذکر ہيں ۔
قابل ذکر ہے کہ اہل سنت کے چار مذاہب کے علاوہ بعض دیگر مذاہب بھی وجود میں آئے جیسے زیدیہ اور اسما عیلیہ کہ جنہيں شیعہ مذاہب ميں شمار کیا جاتاہے ان مذاہب کی بھی فقہ ہے اور اس کے پیروکار ہیں اسی طرح مذہب اباضیہ جو مستقل ہے ، خوارج کی پیداوار ہے ۔ 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

چالیس حدیث والدین کےبارے میں
قرآن میں وقت کی اہمیت کا ذکر
رمضان المبارک کے اٹھارہویں دن کی دعا
عفت نفس
اہل سنت والجماعت کی اصطلاح کا موجد؟
فلسطین کی تاریخ
حضرات ائمہ علیھم السلام
والدین کی نافرمانی کےدنیامیں منفی اثرات
عزا داری کا اسلامی جواز
ایمانداری کا انعام

 
user comment