اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

حضرت فاطمہ الزہرا ء تیر ہویں قسط

حضرت فاطمہ الزہرا ء تیر ہویں قسط

 ہم گزشتہ مضمون میں جنا ب ِ سیدہ سلام اللہ علیہا کے سخاوت کے واقعات بیان کر رہے تھے ۔ یہ سب کچھ تو وہ اپنی مرضی سے ہمیشہ کرتی ہی رہتی تھیں ۔ مگر تاریخ میں ایک واقعہ ایسا بھی ملتا ہے جو کہ بعد میں وقوع پذیر ہوا اور اس دن اتفاق سے کوئی سائل بھی دروازے پر نہیں آیا کیونکہ باہر حضور (ص)اس مال کو تقسیم فر ما رہے تھے جو شاہ نجاشی نے بھیجا تھا۔ لہذا جو تحفہ اس نے علا حدہ سے حضرت فاطمہ (رض) کے لئے بھیجا تھا ان کے ہاتھ میں پڑا رہا، چونکہ یہ بھی سخاوت سے متعلق ہے لہذا ہم اس کو یہاں در ج کر رہے ہیں ۔ وہ واقعہ یوں ہے کہ ایک دن حضور (ص) اپنی صاحبزادی کے گھر تشریف لا ئے اور ان کے ماتھے کو بوسہ دیا تو دیکھا کہ حضرت سیدہ کے بازوئے مبارک میں ہیرے کے بازو بند بندھے ہو ئے ہیں۔
حضور (ص) نے سوال کیا کہ یہ تمہارے پاس کہا ں سے آئے ؟ تو انہوں نے انکشاف کیا آپ کے پاس جو حبشہ سے وفد آیا تھا وہ یہ میرے لیئے لایا تھا۔اور اس کو حکم تھا کہ میرے پاس براہ ِراست پہنچا دے۔ یہ وہی ہے جو میں پہنے ہوئے ہوں ۔ یہاں ایک مورخ نے یہ لکھا ہے کہ انہوں(رض) نے فرمایاکہ میں نے اس خیال سے بازوبند پہن لیئے کہ اسے ثواب زیادہ ملے۔ ممکن ہے کہ یہ بھی ایک وجہ رہی ہو، مگر میرا خیال یہ ہے کہ حضرت سیدہ (رض) سے زیادہ حضور (ص) کے بعد آداب سلطنت کون جانتا ہوگا؟ لہذا انہوں اس خیال سے قبول کر لیئے ہو نگے اور پہن لیئے ہو نگے کہ بادشاہوں کے تحفہ رد کر نا ان کی تو ہین سمجھا جاتا ہے۔ لہذا کوئی رد نہیں کر تا جبکہ نجا شی تومو من بھی تھااور تحفے کو خیرات کرنے میں اس لیئے تاخیر ہوگئی کہ مدینے کے سائل با ہر حضور (ص) کے پاس سے خیرات لے کر چلے گئے ادھر وہ کیوں آتے۔ بہر حال حضور (ص) نے فر مایا کہ بیٹی میں نے تو جو کچھ بھی آیا تھا تقسیم کر دیا۔ چونکہ وہاں مصروف تھا اس لیئے وہاں سے فارغ ہو کر آیا ہوں ۔ مگر تمہارے پاس یہ ابھی تک کیوں ہے ؟ہم نے راہ ِ فقر اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمیں یہ چیزیں زیب نہیں دیتیں کیونکہ ہمیں یوم ِ قیامت امت کی شفاعت کرنا ہے؟
اس سے جناب سیدہ سلام اللہ علیہا بہت ہی زیادہ ملول ہو گئیں کہ انہوں اس کو خیرات کرنے میں دیر کیوں لگا ئی، فوری طور پر کیوں نہیں یہ فرض انجام دیا۔ اسی وقت وہ زیورکسی کے سپرد فر مایااور جوہری کے ہاں فروخت کر کے رقم حاصل کی ۔پھر مدینہ کے حاجت مندوں میں منادی کرادی، چونکہ حجرہ فاطمہ (رض)، حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کے حجرے کی پشت پرتھا ۔ جب چہل پہل دیکھی تو حضور (ص) نے حضرت عائشہ (رض) سےپوچھا یہ کیسی چہل پہل ہے فاطمہ کی طرف ؟ تو انہوں نے تمام حقیقت گوش گزار فر ما ئی ۔ حضور (ص) اسی وقت تشریف لے گئے اور اظہار خوشنودی فر مایا۔ تب جا کر حضرت سیدہ (رض)کو قرار آیا۔ اس کے بعد سے اگر کوئی تحفہ پیش کر تا تو وہ رد تو نہیں فرماتیں تھے مگر اس کے جانے کے بعد فوری طور پر خیرات فر مادیتیں ۔
اب ہم اور آگے بڑھتے ہیں ۔ کہ ان کو ولایت کا شرف بھی حاصل تھااور ان کی بہت سی کرامات بھی مشہور ہیں جو کہ مورخین نے تمام کی تمام حوالوں کے ساتھ رقم کی ہیں ۔ مگر ان پر بات کر نے سے پہلے ہم ان سے بات کر نا چا ہیں گے جو کہ سرے سے ولایت اور کرامات کے ہی قائل نہیں ہیں بلکہ وہ تو یہاں تک جا تے ہیں کہ حضور(ص) کے پاس بھی سوائے قر آن کے عظیم معجزے کے اور کوئی معجزہ ان سے سر زد نہیں ہوا۔ جب کے حضور(ص) کی سیرت ِ مبارکہ اور صحابہ کرام (رض) کی سیرت ِ مبارکہ اور ان کے بعد اولیا ئے کرام (رح)کی سیرت ِ مبارکہ کرامات سے بھری ہو ئی ہیں۔لیکن ہم نے بارہا عرض کیا ہے کہ فرق یہ ہے کہ کرامت کو ، صاحب ِکرامت بھی ہر وقت نہیں دکھا سکتا وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کبھی کبھی سرزد ہو تی ہے۔
اس سلسلہ میں ابن ِ کثیر (رح) نے جن کو ان کی تفا سیر کے سعودی ایڈیشن میں کافی کتر بیونت کے بعد منکر َ کرامت ثابت کیا جاتا ہے! اپنی اصل تفسیر میں سورہ القص کی آیت نمبر٨٠کی تفسیر فرماتے ہو ئے تحریر فر ماتے ہیں کہ “بہت سے راویوں نے لکھا ہے کہ قارون کیمیا بنا نے کا ماہر تھا۔ لیکن کیمیا نام کی کوئی چیز نہیں ہے در اصل جو اس قسم کا دعویٰ کرتے ہیں وہ سب شعبدے باز اور جا ہل ہیں ۔ اس لیئے کہ سوائے خدا تعالیٰ کے کو ئی کسی دھات کی سرشت کو تبدیل نہیں کر سکتا۔ البتہ اس پر ملمع کر دے تو اور بات ہے ۔مگر اس سے سرشت نہیں بد لے گی۔
مگر جب خدا چاہے تو ایسا ہوسکتا ہے اور جو اکثر اولیا ءکے ہاتھوں دیکھنے میں آیا ہے “ پھر انہوں نے آگے چل کر مثال دی ہے کہ ایک شخص حضرت حیوہ بن شریح (رح) کے پاس آکر سوالی ہوا تو اس وقت ان کے پاس کچھ بھی نہ تھا، انہیں اس کو خالی ہاتھ واپس کر تے حیا آئی تو انہوں نے ایک کنکری اٹھا کر اس کی جھولی میں ڈالدی اور وہ پتھر سونے کی ڈلی میں تبدیل ہو گیا۔ اسی طرح ان کی مشہور کتاب “ البدایہ والنہا یہ “ میں ایک جگہ یہ تحریر ملتی ہے کہ ً عبد القادر جیلانی (رح) سے اس تواتر سے کرا مات سرزد ہو ئی ہیں کہ انہیں رد نہیں کیا جا سکتا “اور دوسرے جگہ ان (رح) ہی کے بارے میں تحریر فر ماتے ہیں کہ “وہ صاحب ِ کشف وکرامات بزرگ تھے اور ان سے لوگوں نے بہت فا ئدہ اٹھایا “ اس کے علاوہ اللہ سبحانہ تعالیٰ مشہور حدیث ِ قدسی میں فر ماتے ہیں کہ ً جب بندہ میری طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو میں اسکی طرف دس قدم بڑھتا ہوں ۔ پھر میں اس کے ہاتھ بن جا تا ہوں ،اس کے کان بن جا تا ہوں، اس کی آنکھیں بن جا تا ہوں جس سے وہ افعال انجام دیتا ہے دیکھتا ہے اور سنتا ہے ً اس کو تصوف میں مقام ِ فنا فی اللہ کہتے ہیں ۔ اور یہ حدیث تمام خطیب اور بزر گانَ ِکرام بلا تخصیص اپنے وعظوں میں دہراتے رہتے ہیں۔
میرا اس تمام بحث میں الجھنے کا مقصد یہ تھا کہ جب یہ حال ان (رض) ماں کے بیٹوں کا ہے تو خود اگر ان سے جو تمام ولیوں کی ماں ہیں کوئی کرا مت دیکھنے میں آتی ہے تو اس میں حیرت کی کیا بات ہے ؟ آگے ہم چند معجزاتی واقعات بیان کر رہے ہیں۔ ملا حظہ فر ما ئیں۔
چکی کا اپنے آپ چلنا۔ حضرت سیدہ (رض) کی ذمہ داریاں بچوں کی ولادت کے بعد بڑھ گئیں تھیں، جبکہ وہ اپنے معمولات میں بھی فرق نہیں آنے دینا چا ہتی تھیں ۔ اکثر اوقات وہ فجر کے بعد آٹا بھی پیستی جاتیں اور تلاوت بھی کرتی جا تیں ۔ ایک دن کسی ضرورت سے حضرت علی کرم اللہ کے پاس حضرت سلمان فارسی (رض)تشریف لا ئے ۔ حضرت فاطمہ (رض) نے پردہ کر لیا اور حضرت علی کرم اللہ وجہ ان کو حجرے میں لے گئے۔ تب انہوں نے باہر کی طرف دیکھا کہ چکی کے پاس کوئی بھی نہیں ہے اور چکی چل رہی، اس میں جو بھی پڑ رہے ہیں اور آٹا بھی نکل رہا ۔ایسی ہی ایک روایت حضرت ابو ذر غفاری(رض) سے بھی ہے کہ وہ کسی کام سے حضرت علی کرم اللہ وجہ کے ہاں تشریف لے گئے۔اور واپس آکر حضور (ص) کو بتلایا کہ صاحبزادی صاحبہ (رض)نماز پڑھ رہی تھیں اور ان کی چکی آپ ہی آپ چل رہی اور آٹا خود بخود پس رہا تھا۔
جھولے کا اپنے آپ ہلنا۔ جب جناب ِ حسنین (رض) چھو ٹے تھے ۔تو وہ اکثر ان کو جھولے میں لٹا کر عبادت میں مصروف ہو جاتیں اور پھر وہ نماز میں مشغولیت کی بنا پر اپنے اطراف سے بے خبر ہو جاتیں۔بچوں میں سے کسی کی آنکھ جھولا رک جانے سے کھل جا تی تو جھولا خود بخود ہلنے لگتا اور بچے دوبارہ سوجاتے ۔
آپ پہلے پڑھ چکے ہیں کہ حضرت فاطمہ (رض) جب خود بچہ تھی تو اللہ تعالیٰ نے کئی مرتبہ ان کے پھٹے پرانےلباس کو منور فر مادیا۔ اس سے ان کے بچے بھلاکیسے محروم رہ سکتے تھے؟ لہذا ایک عید آئی اور انہوں نے دوسروں کی تیاریاں دیکھ خود بھی مطالبہ فر مادیا کہ ہم بھی کل نئے کپڑے پہنیں گے۔ چونکہ انہیں اپنے بچپنے کا تجر بہ تھا لہذا وہ مطمعن ہو کر عبادت میں مصروف ہو گئیں ،اس کا ذکر انہوں نے اپنے شوہر سے بھی نہیں فر مایا کیونکہ وہ اس پر زندگی بھر عمل پیرا رہیں جو نصیحت ان کے والد ِ محترم نے فر ما ئی تھی کہ بیٹی میں نے تیرے لیئے سب سے بہتر شخص تلاش کیا ہے اور علی (رض)کو کبھی تنگ مت کر نا۔
اس رات وہ تمام رات نوافل میں مصرف رہیں ،اس لیئے کہ انہیں یقین تھا کہ اللہ انکا وعدہ ضرورپورا کرے گا اور بچوں کے سامنے شرمندہ نہیں ہو نا پڑے گا ۔ وہ جو دلوں کے حال جانتا ہے اپنی بندی سے کیسے بے خبر رہ سکتا تھا۔ لہذا اس سے پہلے کہ بچے اٹھیں ایک درزی حا ضر ہوا اور دوجوڑ کپڑے جناب حسنین (رض)کے ناپ کے دے گیا۔ (باقی آئندہ

بشکریہ عالمی خبریں ڈاٹ کام

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حضرت آدم ﴿ع﴾ پر سب سے پہلے سجدہ کرنے والے فرشتہ ...
خود شناسی(پہلی قسط)
قرآن کی حفاظت
جھاد قرآن و حدیث کی روشنی میں
سیاست علوی
قرآن مجید و ازدواج
عید سعید فطر
شب قدر ایک تقدیر ساز رات
آخرت میں ثواب اور عذاب
انیس رمضان / اللہ کے گھر میں پہلی دہشت گردی

 
user comment