اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

دوسرے کرّات (سیاروں) پر زنده مخلوقات کے وجود کے بارے میں اسلام کا کیا نظریه هے؟

دوسرے کرّات (سیاروں) پر زنده مخلوقات کے وجود کے بارے میں اسلام کا کیا نظریه هے؟

اسلام دوسرے کرّات (سیاروں ) میں زندگی کے بارے میں کیا نظریه رکھتا هے؟

ایک مختصر

تفصیلی جواب...

تفصیلی جوابات

یه فکر که کیا کهکشانوں اور دوسرے کرّات (سیاروں) میں زنده مخلوقات یا کوئی دوسری عقلمند مخلوقات موجود هے یا نهیں ؟ یه ان سوالات میں سے هے که انسان قدیم زمانه سے اس کے جواب کی تلاش میں هے ، لیکن ابھی تک اس کا جواب حاصل نهیں کر سکا هے- قرآن مجید کی بعض تعبیرات میں آسمان میں بعض زنده مخلوقات کی طرف اشاره کیا گیا هے ، من جمله :

١- "من دابۃ " کی تعبیر : ارشاد هو تا هے:

" اور اس کی نشانیوں میں سے زمیں و آسمان کی خلقت اور ان کے اندر چلنے والے تمام جاندار هیں اور وه جب چاهے ان سب کو جمع کرلینے پر قدرت رکھنے والا هے- [1]"

٢- " من فی السموات " اور " مافی السموات "کی تعبیر :

ارشاد الهی هے:

" آسمان و زمیں میں جو بھی هے سب اسی سے سوال کرتے هیں اور وه هر روز ایک نئی شان والا هے- [2]"

" اور الله هی کے لئے آسمان کی تمام چیزیں اور زمین کے تمام چلنے والے اور ملائکه سجده ریز هیں اور کوئی استکبار کر نے والا نهیں هے- [3]"

" آسمان اور زمین اور جو کچھـ ان کے در میان هے سب اس کی تسبیح کر رهے هیں "-[4]

٣- " مشارق و مغارب " کی تعبیر : ارشاد هوتا هے:

"میں تمام مشرق و مغرب کے پروردگار کی قسم کھا کر کهتا هوں که هم قدرت رکھنے والے هیں– [5]"

٤- " العالمین [6]" کی تعبیر : اس سلسله میں ارشاد هوتا هے:

" ساری تعریف الله کے لئے هے جو عالمین کا پالنے والا هے- [7]"

مذ کوره آیات میں صرف پهلی آیت [8]اور وه آیات جن میں " عالمین" کا لفظ آیا هے، احتمال کی صورت میں دوسرے کرّات میں زنده مخلوقات کے وجود کی دلالت کرتی هیں – [9]"

علامه طباطبائی (رح) پهلی آیت کی تفسیر میں کهتے هیں : " ظاهر آیه یه هے که آسمانوں میں زمین کے مانند چلنے والے جاندار موجود هیں --- [10]"

صاحب تفسیر نمونه لکھتے هیں : " یه آیت آسمانوں میں مختلف قسم کی زنده مخلوقات موجود هو نے کی دلالت کرتی هے ، اگر چه ابھی تک سائنسدانوں نے قطعی طور پر اس سلسله میں کوئی فیصله نهیں کیا هے اور اجمالی طور پر کهتے هیں که زنده مخلوقات موجود هیں ، لیکن قرآن مجید واضح طور پر اس حقیقت کو بیان کرتا هے که آسمانوں میں بھی زنده چلنے والی مخلوقات کافی تعداد میں موجود هیں [11]-

حضرت علی بن ابیطالب سے نقل کی گئی ایک حدیث میں آیا هے : " یه ستارے جو آسمان میں دکھائے دیتے هیں ، زمین کے شهروں کے مںند شهر هے ، هر شهر دوسرے شهر ( هرستاره دوسرے ستاره) کے ساتھـ نور کے ایک ستون کے ذریعه جڑا هوا هے-[12]"

مذکوره آیت کے دوسرے کرّات میں زندگی کی دلالت کے بارے میں مندرجه ذیل چند نکات بیان کر نا ضروری هے :

١- قرآن مجید میں لفظ " سماء اور سموات" کئی معنی میں استعمال هوئے هیں : اوپر کی جهت ، آسمانی کرّات ، زمین کی فضا و ---[13]

دوسرے کرّات میں زنده مخلوقات کے هونے کے سلسله میں اس آیت کی دلالت اس صورت میں صحیح هے که زیر بحث آیات میں لفظ " سموات" آسمانی کرّات کے معنی میں هو جبکه ممکن هے مذکوره آیت میں لفظ " سموات " زمین کے اطراف میں موجود فضا کے طبقات کے معنی میں هو اور لفظ " دابۃ " کا مراد خوردبین سے دیکھے جانے والی مخلوقات (جیسے جراثیم اور وائرس وغیره ) اور بڑی مخلوقات ( جیسے پرندے) جو همارے اطراف کی فضا میں اڑتے هیں ، هوں –

٢- چونکه ابھی تک سائنسی لحاظ سے دوسرے کرّات میں زنده مخلوقات کا وجود ثابت نهیں هوا هے اور مذکوره آیات سے صرف قوی احتمال کی صورت میں اس کا اشاره کیاگیا هے ، لهذا دوسرے کرّات میں زنده مخلوقات کے وجود کے بارے میں قطعی طور پر قران مجید سے نسبت نهیں دی جاسکتی هے-

نتیجه کے طور پر مذکوره آیات ایک احتمالی تفسیر کی بنیاد پر مستقبل کے بارے میں علمی اسرار بیان کر نے کے مترادف هے که ابھی تک سائنسدانوں کے ذریعه اس کا علمی مطلب ثابت نهیں هوا هے-

 

[1] - سوره شوری ،٢٩، " ومن آیاته خلق السموات والارض ومابث فیهما من دابۃ وهو علی جمعهم اذا یشاء قدیر"-

[2] - سوره رحمن ، ٢٩،" یسئله من فی السموات والارض کل یوم هوفی شان"-

[3] - سوره نحل ،٤٩،" ولله یسجد مافی السموات وما فی الارض من دابۃ والملائکۃ وهم لا یستکبرون" -

[4]  سوره اسراء ٤٤ ،" تسبیح له السموات السبع و الارض و من فیهن"-

[5] - سوره معارج ، " فلا اقسم برب المشارق والمغارب انّا لقادرون " ملاحظه هو: سوره صافات ،٥; سوره اعراف،١٣٧-

[6] - یه لفظ قرآن مجید میں ٦١ بار تکرار هوا هے-

[7] - سوره فاتحه ،٢-

[8] - سوره شوری ،٢٩-

[9] - مزید معلو مات کے لئے ملاحظه هو: رضایی اصفهانی ،پزوهشی در اعجاز علمی قرآن ، ج١،ص١٩٥-٢٠٦-

[10] - المیزان : ،١٨،ص٥٨-

[11] - ملاحظه هو: تفسیر نمونه ،ج٢٠، ص٤٣٦-٤٣٩-

[12] - سفینۃ البحار ،ج ٢ ص٥٧٤، ماده " نجم" ، تفسیر علی بن ابراهیم سے نقل کرتا هے: " هذه النجوم فی السماء مدائن مثل المدائن التی فی الارض مربوطۃ کل مدینۃ الی عمود من نور"-

[13] - ملاحظه هو: تفسیر نمونه ،ج١،ص١٦٥-١٦٦-

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...

 
user comment