اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

فھم قرآن کی روش سے آشنائی

فھم قرآن کی روش سے آشنائی

قرآن مجید نے بعض آیتوں میں اپنے کو مبین کے عنوان سے معرفی کی ھے ۔ " تِلْكَ آياتُ الْكِتَابِ الْمُبِينِ " ۔ (قصص/ ۲) یہ بیان کر نے والی کتاب کی آیتیں ھیں ،
اور عملی میدان میں بھی اس کے مخاطبین پھلے دور میں اپنی سعی و کوشش کے مطابق اس سے مستفید ھوتے تھے ۔ اور اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کی کیفیت کو منظم کرنے کے لئے اس سے متمسک ھوتے تھے، اگر چہ اس دور اور اس کے بعد زمانے میں کچھ لوگوں نے انسانوں کو فھم قرآن سے متعلق بالکل مجبور معرفی کرتے اور بتاتے تھے ۔ یا قرآن کے کلام اور اس کی زبان کو ما فوق بشر زبان سمجھتے تھے ۔ قرآن کی بہ نسبت اپنی اس ( کھوکھلی ) تعظیم کے ذریعہ انھوں نے اس کتابِ حیات کو تاثیر گزاری کے میدان سے خارج کردیا تھا ۔
وحی کے پیغام کی حصول یابی اس طریقے سے کہ قرآن کے قصص، اس کی تشبیھات، مواعظ و نصائح، وصایا، وعدے و وعید کے درمیان سے انسانی سماج کے درد و الم اور افراد کی ضروریات کو درک کرسکے، اس کے لئے ایک خاص روش کی ضرورت ھے، ایک طرف سے قرآن کے صاف و شفاف اور خالص ( مطالب ) نئی تاویلوں کا شکار نہ ھوں ۔ دوسری طرف زمانۂ نزول کے قدیم حوادث آج کی ترقی یافتہ پیچیدگیوں سے پیچھے نہ رہ جائیں ۔
فھم قرآن کی اس روش اور اصول کی جستجو کے سلسلہ میں ھم نے ایک انٹرویو عظیم استاد اور قرآنی مفکر جناب حجت الاسلام آقائی محمد باقر حجتی سے لیا ھے، ( کہ جنھوں نے گزشتہ سالوں میں علوم اور معارف قرآنی کی تدریس و تالیف میں بڑی خدمتیں انجام دیں ھیں ۔) ھم اس انٹرویو کو قارئین محترم کی خدمت میں پیش کیا جارھا ھے ۔

اس انٹرویو میں شرکت کی بناپر جناب عالی کا شکریہ ادا کرتے ھیں، ذرا فھم قرآن کے بارے میں اپنا نظریہ بیان فرمائیں،آپ کی بڑی مھربانی ھوگی۔ اور بنیادی طورپر روشِ فھم قرآن مجید کے لئے کن مراحل کو طے کرنا چاھئے ؟

قرآن کریم تاریخِ بشریت میں تمام کتابوں کے درمیان چند اعتبار سے بے مثال و بے نظیر ھے ۔ پھلے یہ کہ وہ خدائی پیغام کی آخری کتاب ھے ۔ تاریخ میں اس پیغام کے بعد کسی دوسرے پیغام کا خدا کی طرف سے دوسرے پیغمبر کے ذریعہ آنے کا ھمیں پتہ نھیں ملتا ۔ کہ جو آسمانی کتاب بھی رکھتا ھو اور پیغمبر جو لوگوں کی طرف خدا کی جانب سے ( ھدایت کے لئے ) بھیجا گیا ھو ۔
دوسرے یہ کہ قرآن کریم ھوبھو اور مکمل طورپر خدا کا کلام ھے ۔ اور خدا کا بنایا ھوا ھے ۔ جیسے عالم طبیعت کی دوسری موجودات ھیں اور یہ ایک ایسی موجود ھے کہ انسان جس کا مثل لانے کے لئے زور آزمائی بھی کرے تو اس کا مثل نھیں لاسکتا ھے، کیونکہ بشر اس جیسے کلام کو وجود نھیں دے سکتا ھے ۔
قرآن تمام نصوص ( کتابوں ) اور متون کے درمیان تنھا وہ نص ( کتاب ) ھے، جو ھر تحریف اور ترمیم سے محفوظ ھے ۔
یہ تین خصوصیت صرف قرآن سے مخصوص ھے ۔ یعنی اگر ھم ایک آسمانی یا غیر آسمانی تاریخی نص کا پتہ لگائیں تو اس میں ضرور تحریف اور ترمیم پائیں گے ۔ وہ کلام مرور زمانہ کی وجہ سے تحریف و ترمیم سے محفوظ نہ رہ سکا، اپنے اور بیگانوں کے اعتراف کے مطابق یعنی مسلمان اور غیر مسلمان دونوں نے ( اعتراف کیا ھے ) کہ یہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب اور آسمانی نص تمام نصوص کے درمیان اس اعتبار سے یعنی اس کا ( تحریف سے ) محفوظ رھنا بے مثال ھے اور بھت سے روشن فکروں نے بھی اس بارے میں اعتراف کی زبان کھولی ھے ۔ ان تین خصوصیت کو مدّ نظر رکھتے ھوئے، سرسری طور سے اس کی طرف نظر نھیں کی جا سکتی ۔ اور اس کے ھر حرف میں کلمہ کی بات ھی چھوڑیئے، جملے اور سورے کی بات ھی چھوڑیئے، خلاصۂ کلام یہ کہ کل قرآن میں عمیق اور گہری نظر ڈالنا چاھئے نیز اس کے دوسرے پھلو میں غور و فکر کریں، اسی وجہ سے قرآن کریم نے کبھی کبھی قرآن میں تدبر نہ کرنے کی وجہ سے ھماری مذمت کی ھے ۔ قرآن ھمیں غور و فکر اور تدبر کرنے کا حکم دیتا ھے ۔ یعنی نزول وحی کے دوسرے پھلو کو بھی مدّنظر رکھنا چاھئے، جیسا کہ اس بات کی طرف اشارہ کیا جاچکا ھے ۔ یھاں تک کہ اس کے حروف اور الفاظ کے استعمال میں بھی غور و فکر اور عمیق و وسیع پیمانہ پر دقت کرنی چاھئے ۔
اس صورت میں قرآن مسلمانوں کے لئے کار ساز بن سکتا ھے ۔ ورنہ اگر پرانی روش پر قرآن کی تفسیر میں اقدام کرنا چاھیں ۔ اگرچہ فردی ضرورتیں پوری ھوجائیں گی، لیکن دوسروں کی ضرورتوں کو پوری نھیں کر سکتی، جس طرح کہ عملی طور پر اس کی ضرورت پوری نھیں ھوئی ھے ۔
روایات کے مطابق اھل قرآن میں ھرگز کسی فرد کا پتہ نھیں لگایا جاسکتا ۔ جو دوسروں کا مطیع اور ذلیل و خوار ھو، بلکہ سبھی کامیاب و سر بلند ھیں ۔ لیکن اس شرط کے ساتھ کہ قرآن کو صحیح طریقہ سے حاصل کیا ھو ۔
( فارسی ) اصطلاح میں کہ قرآن کے انجن کو روشن کریں تاکہ وہ اپنے سنگین اور بھاری و بھرکم بوجھ کو رکھ کر کھینچ سکے اور مسلمانوں کو زمین کی وراثت کے مقصد تک پھونچا دے ۔
قرآن کا خود ایک خاص بیان اور اس کی ایک زبان ھے، جس کو خلاصہ کے طور پر خدا کا بیان اور اس کا لب و لھجہ کھا جاسکتا ھے ۔ پیغمبر اسلام (ص) دو قسم کی گفتگو کرتے تھے ۔
ایک یہ کہ خود گفتگو کرتے تھے ۔ لیکن اس کا مضمون وحی ھوتا تھا ۔ یعنی خداوند عالم نے پیغمبر (ص) کو مطالب کو تفصیل سے بیان کرنے اور لوگوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے لئے وحی کرتا تھا ۔
" اِنْ اَتَّبِعُ اِلاَّ مَا يوحَی اِلَیَّ "
ھم صرف وحی پروردگار کی اتباع کر تے ھیں،
نہ صرف یہ کہ ان کا کلام وحی تھا، بلکہ ان کا ھر فعل جو لوگوں کی ھر حاجت کو بیان کرنے کے لئے پیغمبر کے وجود مقدس سے صادر ھوئے ھیں ۔ اس کی بنیاد وحی پر ھوتی تھی ۔
یعنی ان کی رفتار و گفتار اور ان کی تقریر و تائید سب کو وحی مانا جاتا ھے ۔
دوسری قسم جو کچھ وحی کے عنوان سے فرماتے تھے ۔ اگر خود ان کے بیان اور گفتگو کے قالب میں ھوتا تو اس کو حدیث کھا جاتا تھا ۔ اور اگر بعینہ خدا کے بیان کو منتقل کرتے تو اس کو قرآن کھا جاتا تھا اور یہ بات مسلم ھے کہ بشر کا کلام اس عظمت و اھمیت اور قداست کا حامل نھیں ھے ۔ جس عظمت و اھمیت و قداست کا حامل خدا کا کلام (قرآن) ھے ۔ بشر کی صنعت کا محصول وہ قیمت نھیں رکھتا ھے جو قدر و قیمت طبیعی صنعت کا محصول رکھتا ھے کہ جن کا بنانے والا خدا ھے ۔ یعنی بشری صنعت اتنی اھمیت کی حامل نھیں ھے جتنی اھم قدرتی چیزوں کی ھے ۔ اگرچہ اس کی صنعت اور ٹکنالوجی اپنے عروج کو پھونچ چکی ھو ۔
لھٰذا ھمیں کلام خداوندی میں موجود زاویوں میں ھر ایک زاویہ پر غور و فکر کرنا چاھئے، اس کا مطلب یہ نھیں کہ حقیر نے اس سلسلہ میں کوئی کام کیا ھو، لیکن اگر اجمالی طور پر ھم نے قرآن کریم کے زاویوں میں سے تھوڑا بھت اپنی تحقیق و جستجو کا مقصد قرار دیا تو یقیناً ھم عمیق مطالب تک پھنچ جائیں گے کہ جو اس کے شائستہ و لائق ھے، کیونکہ فھم قرآن کے بارے میں ابھی تک علماء و مفکرین نے جو سعی و کوشش انجام دی ھے اور پیش آنے والی ضرورتوں کے جواب میں قرآن کریم سے جو استفادہ کیا ھے نیز صحیح مطالب و معانی درک کئے ھیں، انھیں کی روشنی میں خود قرآن ھی میں ان کی تلاش و تحقیق کرنے کی سعی و کوشش کریں، اگرچہ یہ کام بھت مشکل ھے، اسے گروھی شکل میں انجام دینا چاھئے، یعنی تمام دانشور و علماء جنھوں نے علوم قرآنی، خواہ وہ تفسیر ھو یا غیر تفسیر اور سارے علوم جو قرآن سے وابستہ ھیں نیز تمام اقتصادی وسائل میں ارتباط برقرار ھو اور قرآن کے متعلق ایک نیا کام انجام دیں تاکہ قرآن کریم اسلامی معاشروں کی ضرورتوں کا مکمل اور قانع کنندہ جواب دے ،
حقیر کی نظر میں قرآن کی زبان یہ ھے ۔ " و ما ارسلنا من رسول الا بلسان قومه " (ابراهيم / ۴ )
اور ھم نے جس رسول کو بھیجا اسی قوم کی زبان میں بھیجا ،
قرآن کی زبان اس کی قوم کی زبان یعنی عربی ھے ۔ تمام زبانوں اور تمام سماج کے درمیان سے پیغمبر (ص) کو عرب سماج کے اندر سے انتخاب کیا گیا ۔ پیغمبر کو عرب سماج سے انتخاب کرنے کی علت یہ ھے کہ اگرچہ ھر رسول اپنی قوم کی زبان میں خدا کی طرف سے مبعوث ھوتا رھا ھے ۔ لیکن عربی زبان ایک فصیح و بلیغ زبان ھے ۔ یعنی وہ خاموشی اور کنوگاپن جو عجمی زبان میں پایا جاتا ھے ۔ عربی زبان میں نھیں ھے، وہ خصوصیت جو عربی زبان میں پائی جاتی ھے، وہ کسی اور زبان میں نھیں پائی جاتی ھے، لیکن عربی زبان میں ممکن ھے ایک لفظ بھت سے معانی رکھتا ھو در آں حالیکہ وہ الفاظ جو دیگر اقوام اور دوسری زبانوں میں پائے جاتے ھیں، وہ اس عربی زبان کی طرح فصیح و بلیغ نھیں ھیں ۔ یعنی عربی زبان (کے الفاظ ) کوتاہ ھونے کے ساتھ ساتھ پُر معنی بھی ھیں ۔ مختصر سی عبارت میں بیشترین معانی کا افادہ کرتے ھیں ( یعنی مختصر الفاظ میں بھت ھی عظیم معانی کو سمو دیتا ھے ) ۔ مثال کے طور پر اگر فارسی میں ایک معانی کو لفظی قالب میں پیش کرنا چاھیں تو عاجز و مجبور ھیں کہ لفظ اور عبارت کو طولانی کریں، تاکہ صحیح طور پر معانی کو درک کر سکیں، مثلاً ھم نے کھا کہ میں گیا، شیر خریدا، معلوم نھیں یہ کھنے والا چڑیا گھر کا مالک ھے، جس نے شیر خریدا یا کوئی معمولی انسان ھے ۔ جس نے شیر (دودھ ) خریدا ۔ یا سماور یا پانی کی ٹوٹی خریدی ۔
لیکن جب ( اسد ) یا ( لبن ) کھتا ھے تو ھر لفظ کے معنی واضح ھیں ( اسد ) کے معنی حیوان درندہ ھے اور ( لین ) کے معنی دودھ کے ھیں ۔
حروف کی تعداد کے اعتبار سے شیر اور اسد ایک ھی جیسے ھیں، لیکن لفظ اسد سے حیوان درندہ سمجھتے ھیں ۔ دودھ وغیرہ نھیں، اس کے علاوہ شیر درندہ کی بھی بھت سی قسمیں ھیں ۔ ( بعض ) کی گردن میں بال نھیں پائے جاتے ( بعض ) مذکر ھیں (بعض) مونث ھیں، ان میں ھر ایک کے لئے عربی زبان میں الگ الگ الفاظ پائے جاتے ھیں، ( مانند ) اسد، لیث، غضنفر، قسورہ اور ھم نے بارھا سنا ھے کہ ابن عباس فرماتے تھے کہ میں ابھی تک فاطر کے معانی کو نھیں سمجھا ھوں، کیا وہ عرب نھیں تھے ؟ فاطر، خالق، باری سب کے معانی پیدا کرنے والا ھے ۔ لیکن کیوں ان میں سے ھر ایک لفظ کوئی ایک خاص جگہ استعمال ھوتا ھے، اگر ان الفاظ میں سے ھر ایک کو عربی کھا جاتا ھے ۔ اور میں بھی لباس عربیت سے متصف رھوں، میرے عربی ذوق کا تقاضا یہ ھوگا کہ میں لفظ فاطر سے ایسے معانی کو درک کروں جو لفظ خالق سے استفادہ نہ کیا جاسکتا ھو، یعنی قرآن مجید میں ھر لفظ ایک خاص مقام اور مناسبت رکھتا ھے ان خصوصیات کے ساتھ جو اس لفظ کے عام معنی میں پائی جاتی ھے، اگر خداوند عالم فرماتا ھے :"اَ فِی اللهِ شَكّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَ الْاَرْض" ( سورہ ابراھيم / ۱۰ )
کیا تمھیں اللہ کے بارے میں شک ھے،جو آسمان وزمین کا پیدا کرنے والا ھے ،
گویا خدا تعجب کر رھا ھے ( کیوں کہ اس میں تاتیر پذیری کا گزر نھیں ھے ) لیکن (یہ جملہ ) اس لھجہ میں ھے کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اس جملہ کو کھتا، تو اسے تعجب کا عنوان دیا جاتا، کیوں نھیں کھا :"اَ فِی اللهِِ شَكّ خَالقِ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْض"
کیا تمھیں اللہ کے بارے میں شک ھے جو آسمان و زمین کا پیدا کرنے والا ھے، یا دوسرے الفاظ کا استعمال نھیں کیا، علماء حضرات کا کھنا ھے کہ قرآن میں مترادف الفاظ نھیں ھیں، قرآن کے ترجموں اور کبھی کبھی تفسیروں میں بھی ان سب کلمات کو پیدا کرنے والے ( خالق ) کے معانی میں استعمال کرتے ھیں، اور دوسرے الفاظ مانند فطر، فصل، فطم اور دوسرے کلمات جن کا آغاز حرف ( فاء ) سے ھوتا ھے، جدا کرنے اور شگاف کرنے کے معنی میں ھیں، ابن عباس فرماتے ھیں کہ میں فاطر کے معانی کو نھیں سمجھتا، یعنی جس طرح ایک خالص عرب اس سے کوئی معنی سمجھتا ھے وہ اس طرح نھیں سمجھتے تھے ۔ اور فرماتے تھے کہ فاطر میں کوئی ایسی خصوصیت ھے کہ ایسے موقع پر استعمال کیا جا رھا ھے آیا وہ خدا جو فاطر ھے اس کے بارے میں شک کیا جاسکتا ھے، یعنی استفھام کا لھجہ ھے ۔ ابن عباس کو اس لفظ کے معنی صحراء میں ملے، انھوں دیکھا کہ ایک کنویں کے بارے میں دو مرد نزاع و جھگڑا کر رھے ھیں، ایک کہہ رھا ھے، " انا فطرتھا " ، یعنی میں نےاس (کے کھودنے کے ) کام کی پھل کی تھی، تم میرے بعد آئے، ابن عباس فرماتے ھیں کہ اس وقت میں نے سمجھا کہ فاطر، موجود کے آغاز کرنے والے کو کھتے ھیں، ورنہ ایک ھنر مند بھی خالق ھے لیکن ان کا آغاز کرنے والا ( آغازگر ) نھیں ھے ۔
اس آیت کا مفھوم یہ ھے کہ تمام سلسلہ عِلَل و مَعَالِیل اور تمام اسباب و مسببات اور تمام متحرکات اور محرکات کی بازگشت ایک ایسے محرّک کی طرف ھو جو خود متحرک نہ ھو، ایسے سبب کی طرف بازگشت کر رھا ھو کہ وہ خود مسبب نہ ھو ۔ اس کی ایک ایسی علت کی طرف بازگشت ھو رھی ھو جو خود معلول نہ ھو، ورنہ دور و تسلسل کا سبب بنے گا، اور تسلسل بھی دلیل عقلی سے یعنی برھان تطبیق و سلم اور دوسری دلیلوں کی رو سے باطل ھے ۔ پس کوئی بھی انسان خدا کے بارے میں شک نھیں کرسکتا، چونکہ وہ آغاز کرنے والا ھے ۔ یعنی اس کائنات کے آغاز کرنے والے کو پھچاننا چاھئے ۔ اور وہ خدا ھے ۔ سورۂ بقرہ کی ابتداء میں جس وقت وہ متقین، کفار اور منافقین کے اوصاف کو بیان کر رھا ھے، ھم دیکھتے ھیں کہ اسلامی معاشرہ نزول قرآن کے وقت تین گروہ سے تشکیل پایا تھا ۔ کیوں کہ قرآن کا لوگوں کے سامنے پیش کرنا ۔ ایسا ھی تھا ۔ جیسے موجودات عالم طبیعی کے سامنے آفتاب کا پیش کرنا ۔
اگر پھول ھے، خوشبو بھی ھوگی، اگر میتہ اور مردار ھے تو بدبو بھی ھوگی، کچھ چیزیں چھپی اور زیر پوشش ھیں، ان کے اندر سے اتنی بدبو نھیں آتی ۔ دوسر ے الفاظ میں کچھ تو قرآن کے سایہ میں ھیں، ان کی روح میں وسعت پیدا ھوتی رھتی ھے، کچھ لوگ مردہ ھیں ۔
"انَّ الَّذِينَ كَفَرُوا سَوَاءٌ عَلَيهمْ ءاََنذَرْتَهمْ اَمْ لَمْ تُنذِرْهمْ لاَيؤْمِنُونَ ، خَتَمَ اللهُ عَلَی قُلُوبِهمْ وَ عَلَی سَمْعِهمْ وَ عَلَی اَبْصَارِهمْ غِشَاوَةٌ وَ لَهمْ عَذَاب عَظِيم " ( بقرہ ۷،۶ )
اے رسول جن لوگوں نے کفر اختیار کیا، ان کے لئے ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ھے ۔ یہ ایمان لانے والے نھیں ھیں، خدا نے ان کے دلوں اور ان کے کانوں پر گویا مھر لگادی، اور ان کی آنکھوں پر پردے پڑے ھیں، آخرت میں ان کے لئے عذاب عظیم ھے ۔
ان کے وجود کی بدبو آس پاس کے ماحول کو خراب کر رھی ھے، یعنی کفار تیسرا گروہ ھے،
" وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ يقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَ بِالْيوْمِ الْآخِرِ وَ مَا همْ بِمُؤْمِنِينَ " ( بقرہ ۸ )
کچھ لوگ ایسے بھی ھیں، جو یہ کھتے ھیں کہ ھم خدا اور آخرت پر ایمان لائے، حالانکہ وہ ایمان نھیں لائے ۔
یہ اپنے کو نفاق آمیز کپڑے کے نیچے چھپائے ھو ئے ھیں، جس کی بدبو ابھی کسی کی ناک تک نھیں پھونچ رھی ھے ۔
آپ مشاھدہ کریں کہ ان آیات میں خداوند عالم " وَ اُوْلَٰئِكَ ھُمْ الْمُفْلِحُونَ " کے بعد کفار کی معرفی کر رھا ھے، درمیان میں کوئی حرف استعمال نھیں کررھا ھے ۔ اور فرمارھا ھے :
" اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا … "
لیکن جب منافقین کی معرفی کر رھا ھے ۔ تو حرف واؤ کو ذکر کررھا ھے :
" وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ يقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَ بِالْيوْمِ الْآخِرِ وَ مَا همْ بِمُؤْمِنِينَ "
ھم اگر عربی ذوق سے آشنا ھوں، تو معلوم ھوگا کہ خالص و اصیل عرب حروف عطف مانند واؤ، ثم، فاء، بل، لا وغیرہ کو ایک خاص جگہ پر استعمال کرتے ھیں، عرب اس وقت واؤ کا استعمال کرتے ھیں، جب اس سے اشتراک کے معانی کا استفادہ کرنا چاھتے ھیں ۔ ( اس سے قبل ھم نے عرض کیا ھے کہ قرآن عربی میں ھے، اور خدا نے تمام زبانوں کے درمیان فقط عربی زبان کو اپنے مقاصد کو بیان کرنے کے لئے مناسب سمجھا ھے، پس اگر کوئی اس زبان کو سمجھ لے اور اس کو عمدہ طریقہ سے ھضم کرلے تو اس پر حجت تمام ھو جاتی ھے )
خدا وند عالم، پیغمبر (ص) سے ارشاد فرماتا ھے :
" وَ اِنْ اَحَدٌ مِنْ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فََاَجِرْه حَتَّیٰ يسْمَعَ كَلَامَ اللهِ ثُمَّ اَبْلِغْه مَاْمَنَه ذَلِكَ بِاَنَّهمْ قَوْم لاَ يعْلَمُونَ " ( توبہ/ ۶ )
اگر یہ مشرکین تم سے پناہ مانگیں، تو ان کو پناہ دو، تاکہ وہ اللہ کے کلام کو سنیں، پھر ان کو آزاد کرکے ان کو کسی امن کی جگہ پھونچا دو ۔ اور یہ مراعات اس وجہ سے ھے کہ یہ جاھل لوگ ھیں ۔
انھیں پناہ دو تاکہ خداوند عالم کا کلام سنیں کیونکہ وہ عرب ھیں ۔ وہ اپنی عربی فطرت و طبیعت کے ساتھ کلام خدا کو ھضم کرسکتا ھے ۔ اسی وجہ سے خاص طور پر فرمایا کلام اللہ، یعنی خدا کا کلام موثر ھے ۔ آپ جب کسی ایک طبیعت کے پھلو میں بیٹھیں گے ، تو آپ کا دل کھل جاتا ھے اور دل کو سکون و اطمینان ملتا ھے ۔ لیکن اگر مصنوعی محصول کے پھلو میں ایک مدت تک بیٹھیں پھر بھی آپ میں کسی قسم کی دگرگونی ایجاد نھیں ھوگی ، کلام اللہ ، یعنی اثر ڈالنے والا ، لغت میں کلام کے معنی، زخم کے ھیں ۔ اور زخم کی خصوصیت یہ ھے کہ وہ اپنا اثر چھوڑ دیتا ھے ۔ اس کا اثر باقی رھتا ھے، عرب یہ سب کچھ سمجھتا ھے ۔ اگر ایمان لایا تو بھت اچھا، اگر نھیں لایا تو اس کو امن کی جگہ پھونچا دو ۔
ھم کو قرآن میں کلام خدا کی ظریف علت کے استعمال کی تحقیق کرنی چاھئے، واؤ حرف عطف دو چیز کے درمیان اشتراک اور جمع کے لئے آتا ھے، اس بناپر یہ کھنا چاھئے کہ منافقین اور کفار کے درمیان ایک اعتبار سے اور منافقین و مومنین کے درمیان ایک دوسرے اعتبار سے اشتراک پایا جاتا ھے ۔ یقینا ظاھری شکل و صورت کے اعتبار سے منافقین، مسلمین کی طرح ھیں، لیکن باطنی لحاظ سے وہ کفار سے اشتراک رکھتے ھیں ۔
بھر حال واؤ کا کام جمع کرنا ھے، چاھے واؤ عطف ھو، چاھے استیناف، ھر حال میں اشتراک کے معنی پائے جاتے ھیں ۔ سر انجام اگر انسان ظاھری یا باطنی طور پر ایمان کے حٓدود سے باھر پیر پھلائے گا تو ھلاکت کے گڑھے میں گرجائے گا ۔ پھر اس سے نکل نھیں سکے گا ۔
" اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا … " یعنی جو شخص اہنے کفر پر ڈٹا رھتا ھے، تو اس کا دل سیاہ اور اس کا وجود تاریک ھو جاتا ھے، لھذا اس کا علاج کیا جائے یا نہ کیا جائے ۔ دونوں برابر ھے ۔ اس کو شفا حاصل نھیں ھوگی ۔ نہ تو کوئی گولی اس کا علاج کر سکتی ھے، اور نہ کوئی کیپسول اور نہ کوئی آپریشن کوئی بھی شئے اس کا علاج نھیں کر سکتی ھے ۔
پس مومنین اور کفار کے درمیان ایک اجنبیت پائی جاتی ھے ۔ اسی وجہ سے خدا نے ( مومنین کے ذکر کے بعد بغیر واؤ کے کفار کا ذکر کیا ھے ) درمیان میں واؤ کا استعمال نھیں کیا، وہ اجنبیت جو اس کو راہ مستقیم کی طرف واپس جانے کو محال کردیتی ھے ۔ اور وہ جتنا بھی تیزی سے آگے بڑھتا رھے گا ۔ اتنا ھی سیدھے راستے سے دور ھوتا جاتا ھے ۔ یھاں تک کہ وہ اس مقام پر پھونچ جاتا ھے ۔ جس مقام سے وہ کبھی بھی اپنے پھلے مقام کی طرف واپس نھیں جاسکتا، اس لئے کہ وہ خود اپنے اختیار سے اپنے راستے سے منحرف ھوچکا ھے ۔ اور جو شخص بھی اپنے کفر پر باقی اور حقائق کے انکار پر ڈٹا رھتا ھے ۔ قھری طور پر اس کا یھی انجام ھانا چاھئے ۔
" ختم الله علیٰ قلوبهم "
یعنی ان لوگوں نے اپنے تمام حواس و ادراک کے راستوں کو بند کر رکھا ھے ۔
لیکن منافقین کے بارے میں فرماتا ھے :
" وَ مِنْ النَّاس … "
یعنی ان کے لئے دو واپسی کا راستہ پایا جاتا ھے ۔ یا وہ کفار کی طرف چلے جائیں یعنی کھل کر اپنے کفر کا اعلان کردیں جیسا کہ ھوا ھے ۔ اور اسلامی معاشرے کی سمجھ میں آگیا کہ یہ کافر تھے، یا ان کے ساتھ تھے، جیسے ابو عامر راھب جس نے مسجد ضرار تعمیر کرائی تھی، لیکن بعد میں خدا نے اس کا راز فاش کردیا کہ یہ مسجد مسلمانوں کی دلسوزی کے لئے نھیں بنائی گئی ھے، بلکہ مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پھیلانے اور خدائی راہ کو مسدود کرنے کے لئے بنائی گئی تھی، وہ کافر ھوگیا، پیغمبر نے اس کا خون مباح قرار دے دیا، وہ روم بھاگ گیا، تاکہ وھاں جاکر کفار کو اکھٹا کرے اور پھر پیغمبر سے جنگ کرے، پھلے تو یہ کہہ رھا تھا کہ مسجد کو خدا کی خوشنودی اور مسلمانوں کے آرام کے لئے تعمیر کروا رھا ھے ۔ تاکہ بوڑھے مرد اور اور عورتیں جو بارش کے اوقات ، اندھیری رات اور ٹھنڈی کے موسم میں مسجد پیغمبر میں نھیں جا سکتے، وہ یھاں آکر عبادت کریں، لیکن آھستہ آھستہ اس کا راز کھل گیا، لھٰذا وہ بھاگ کھڑا ھوا ، اور راستے ھی میں واصل جھنم ھوگیا ۔
منافقیں کے لئے ایمان کی طرف راستہ پایا جا رھا ھے ۔ چونکہ ان کی شکل و صورت اسلامی ھے ۔ اور اندر سے بھی واپسی کی امید پائی جارھی ھے ۔ اور اس معانی کو ھم لفظ واؤ کے ذریعہ سمجھتے ھیں، لیکن کفر پر ڈٹے رھنے والا کافر، مومن سے کسی قسم کا کوئی اشتراک نھیں رکھتا ھے، بلکہ دونوں کے درمیان بڑا فرق پایا جا رھا ھے ۔

استاد، جناب عالی قرآن کے حرف، کلمات، اور آیات کے بارے میں آپ نے گفتگو کی، حتما یہ ساری چیزیں الفاظ قرآن کے وحی ھونے کی مرھون منت ھیں، لیکن خود الفاظ قرآن کے وحی ھونے میں تھوڑا ابھام پایا جاتا ھے ۔ ذرا مھربانی فرماکر یہ بتائیں کہ مقاصد الھی نے کس مرحلہ میں الفاظ کا لباس پہنا ھے ؟ کیا جبرائیل نے انھیں الفاظ کو وھاں سے حاصل و دریافت کیا ھے، اور پیغمبر کی طرف منتقل کیا ھے، یا یہ کہ جبرائیل کے ذریعہ ان معانی اور مفاھیم کے منتقل کرتے وقت خدا نے معانی کو الفاظ کے زیور سے راستہ کردیا ھے ؟ یا یہ کہ جبرائیل نے معانی کو وھاں سے حاصل و دریافت کیا ھے ۔ اور خود انھوں نے ان معانی کو الفاظ کے زیور سے آراستہ کر دیا ھے ؟ ۔

قرآن بعینہ خدا کا کلام ھے، جیسے اس نے عالم خلق میں اس درخت اور اس حیوان کو خلق کیا ھے ۔ جبرائیل نے عین الفاظ کو حاصل و دریافت کیا ھے ۔ اور پیغمبر تک منتقل کیا ھے، یھی وجہ تھی ۔ کہ پیغمبر اطمینان سے ان سے مضمون کو حاصل کرتے تھے، اور یہ کہ الفاظ ادھر ادھر نہ ھوجائیں، بڑی تیزی سے حفظ کرتے تھے، اور وحی کے دریافت کرنے میں عجیب و غریب شوق رکھتے تھے ۔ جبرئیل نے عین لفظ کو حاصل و دریافت کیا ھے ۔ لیکن نہ وہ لفظ جو منہ کے مخرج سے ٹکرا کر نکلتا ھے، اگر ھم کلام اللہ کے الفاظ پر توجہ کریں، تو ھماری مشکل حل ھوجائے گی، لیکن یہ کہ کلام الٰھی کیسے صادر ھوتا ھے، اس کا تعلق ماوراء طبیعت سے ھے ۔ وہ مادیات یعنی فیزیکی پیرا میٹروں سے قابل درک نھیں ھیں، جیسے خدا کے اوصاف جنت و جھنم کے اوصاف ھم کبھی بھی ان کی حقیقت کی گھرائی تک نھیں پھونچ سکتے ۔ مثلا جنت کے اوصاف کو فقط اس لئے بیان کیا ھے تاکہ ھمارا ذھن مطلب کے نزدیک ھوجائے ۔ تاکہ اس کا ایک خاکہ ذھن میں آجائے، ورنہ جنت کے اوصاف کا ایک دوسرے عالم سے تعلق ھے، جس کا نام آخرت ھے ۔
عقلی مطالب کی محسوس شکل میں تصویر کشی نھیں کی جا سکتی ۔ مگر یہ کہ اس کو تشبیہ دیں، اگر قرآن میں انار و انگور ( کا ذکر ) ھے ان کی کامل وضاحت نھیں کی جاسکتی، اسی وجہ سے مختلف قسم کی مَثَل لائی گئی ھے، تاکہ معقول کو محسوس کے ذریعہ ذھن سے نزدیک کریں، نہ یہ کہ ان کے ذریعہ معقول کو تشخیص دیں، لیکن جس کا تعلق حیات سے ھے، اس کو ملموس طریقے سے قرآن میں ذکر کیا ھے ۔ مثال کے طور پر سیاسی، اجتماعی، انفرادی اخلاقی پھلو سے جو امکان پذیر ھے ۔
لیکن جھاں پر قابل لمس نھیں ھے ۔ اس جگہ خدا وند عالم مثل بیان کر تا ھے ۔ یا اس کی تشبیہ بیان کرتا ھے ۔ اس موقع پر ممثل لہ کو پھچاننا چاھئے ۔ خود مثل کے ارکان ملموس ھیں، اگرچہ وجود خارجی میں اس کا کوئی مصداق نھیں پایا جاتا ھے، لیکن پھر بھی مثل بیان کرتا ھے :
"ايوَدُّ اَحَدُكُمْ اَنْ تَكُونَ لَه جَنَّة مِنْ نَخِيلٍ وََ اَعْنَاب " ( بقرہ آیت ۲۶۶ )
کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ھے کہ اس کے پاس کھجور اور انگور کے درخت ھوں ۔
عمل کے حبط ھوجانے کے بارے میں مثل بیان کرتا ھے کہ انسان ایک مدت تک کام کرتا ھے ۔ لیکن آخر میں وہ سب برباد ھوجاتا ھے ۔ در آں حالیکہ ضروری نھیں ھے کہ واقعا کوئی باغ رھا ھو … ۔
ھاں یہ خدا کا کلام ھے، اور خود اس کی گفتگو ھے ۔ لیکن بحث کی گئی ھے کہ آیا خدا کا کلام قدیم ھے یا حادث، یہ بحث ھماری اس وقت کی بحث سے متعلق نھیں ھے ۔ اگرچہ روشن ھے کہ خداوند عالم، کلام کو ایجاد کرتا ھے ۔ اور تکلم خدا کی صفت فعل ھے یہ کبھی بھی قدیم نھیں ھوسکتی، ھاں اس کا علم اس کی قدرت اس کا قدیم ھونا اس کی عین ذات ھے، لیکن خدا کا متکلم ھونا اس کی صفت فعل ھے ۔ اس کی عین ذات اور قدیم نھیں ھوسکتی، ورنہ اس کو ھمیشہ کلام ایجاد کرنا چاھئے، یا ھمیشہ اپنے بندوں کو روزی دینا چاھئے، در حالیکہ " یقبض و یبسط" پتہ پلتا ھے کہ حادث ھے ،
خلاصہ یہ کہ قرآن خدا کا کلام ھے ۔ اس وجہ سے اس کا مثل نھیں لایا جا سکتا، ایک درخت کے پتے کو اسی طرح نھیں بنایا جا سکتا، ایک مکھی کو نھیں خلق نھیں کیاجاسکتا ھے :
" ياَيها النَّاسُ ضرب مثل فَاسْتَمِعُوا لَه اِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اȎِ لَنْ یَخْلُقُوا ذُبَابًا " (حج / ۷۲ ) سے معلوم ھوتا ھے ۔ کہ وہ حادث ھے ۔ٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍٍاے جوگو تمھارے لئے ایک مثل بیان کی گئی ھے ، لھٰذا اسے غور سے سنو، یہ لوگ جنھیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیتے ھو ۔ یہ سب مل بھی جائیں، تو ایک مکھی نھیں پیدا کر سکتے ھیں ،
اس فضائی دور میں یا گزشتہ ادوار میں بلکہ آئندہ بھی قیامت تک ایک مکھی کو نھیں پیدا کیا جاسکتا، اگرچہ ھر قسم کے اسباب کو اس کے لئے فراھم کردیا جائے، چاھے وہ اسباب اپنی خصوصیت کے ساتھ میلیونوں تک پھونچ جائیں،
فھم قرآن کو ابتدا سے شروع کرنا چاھئے ۔ حروف شناسی یعنی قرآن کے الفاظ کو عربی اور قرآنی صورت میں شناسائی کریں، ایک دانشمند کے بقول کسی بھی قرآنی کام کے شروع کرنے اور قرآن سے کسی ضرورت کا مطالبہ کرنے سے قبل اس چیز کو درک کرنا چاھئے کہ یہ کتاب عربی ھے، وہ اپنی عربیت پر فخر کرتی ھے ۔ مطالعہ کر کے حقائق کو حاصل کرنا چاھئے کہ یہ قرآنی الفاظ کس رو سے بھترین تعبیر اور بھترین لفظ اور ساخت و ساز کے ھیں ،
مثلا اس گھاس میں کیا رمز پایا جاتا ھے کہ اس کی جڑ بے رنگ پانی اور بے مزہ خاک سے استفادہ کرتی ھے ۔ اور جب اس میں تنا، شاخ، اور پتّہ نکل آتا ھے ۔ اس کا رنگ بدل جاتا ھے ۔ اور اس میں مزہ پیدا ھو جاتا ھے ۔
سب سے پھلے جو ایک خالص عرب قرآن سے معانی سمجھتا ھے اسے درک کرنا چاھئے ۔ پھر اس کے بعد قرآن سے دوسرے مطالب کی درخواست کرنی چاھئے ۔ یعنی قرآن کے الفاظ کی جان وھی چیز ھے ۔ جس کو عرب درک کرتے ھیں، پھلے اس کو حاصل کرنا چاھئے ۔ پھر اس کو نئے قالب اور نئے سانچے میں ڈھالنا چاھئے۔ تب اس میں کوئی اشکال نھیں ھونا گا، ورنہ جو ھمیں قرآن سے آج ملتا ھے، خاص کر عبارت کے ترجموں میں وہ بے روح کے جسم کے مانند ھے ۔ اس کی اصل روح وھی معنائے اول ھیں، ھم اس وقت فاطر سے خالق سمجھتے ھیں ۔ لیکن عرب سمجھتا ھے، " انا فطرتھا "یعنی میں مخلوق کا آغاز کرنے والا ھے ۔ ابن عباس کے مطالعہ کا سرچشمہ صحراء تھا، کیونکہ صحرائی عربوں کی زبان خالص تھی ۔ عرب اپنی فطرت کے تحت عربی لغات کو سمجھتا ھے، لغت کی روح اس کے ھاتھ میں تھی، نہ معانی جو مرور زمانہ سے اس لغت میں استعمال ھونے لگے، مثلا کلمہ انتقاد یعنی کھوٹے سکے کو خالص سکے سے جدا کرنا، لیکن اس دور میں ھم نے اس کے معانی میں عمومیت دے دی، اور ھر نا خالص سے خالص کو جدا کردینے کو انتقاد کھتے ھیں، اس وقت اس کے معانی میں کافی وسعت ھوگئی ھے ۔ لیکن ابتدا میں صرف سكّے کی بحث میں استعمال ھوتا تھا، نقود و نقدین یعنی سونا چاندی وغیرہ یہ معانی پوری تاریخ میں معنای اول پر حمل ھوا ھے، لیکن اس وقت ان معانی میں کیوں استعمال ھونے لگا ھے، اس کے تاریخی تناسب کو دیکھنا چاھئے ۔
آپ کی فرمائش کے مطابق ھمیں ھمیشہ قرآن کے الفاظ کو پھچاننے کے لئے (پچھلی تاریخ کی طرف ) پلٹنا چاھئے اور نزول آیات کی فضا اور اس کے معنائے اصلی کی حقیقت کو اس فضا میں شناسائی کرنی چا ھئے، کیا اس دور میں معانی قرآن کی پیدائشی تاریخ سے متن قرآن کو جدا کرنا، اس کی جاویدانگی اور قرآنی پیغاموں کی عمومیت سے تضاد نھیں رکھتا ھے ؟

وہ نئے معنی جو لفط کے لئے مرور زمانہ کی وجہ سے وجود میں آتے ھیں، کوئی اشکال کا سبب نھیں بنتے پیغمبر (ص) نےخود الفاظ کو جدید معانی میں استعمال کیا ھے ۔ اور درحقیقت انھوں نے حقیقت متشرعہ اور حقیقت شرعیہ کا موقع فراھم کیا ھے ۔ آخر کار اس چیز کو جاننا چاھئے کہ اس نئے معانی کا اس کے اصلی معانی سے کیا ربط ھے ۔ کیوں نماز کو نماز کھتے ھیں، حالانکہ اس کے اصل معانی دعا کے ھیں ۔ اس کے اصلی معانی کی طرف توجہ کرنا چاھئے،صلٰو ۃ یعنی دعا اس بنا پر کہ اکثر نماز میں خدا سے نیائش اور دعا ھے، اس اصطلاحی نماز کا نام بھی صلٰو ۃ رکھا گیا ۔ آیا اگر معانی اصلی اور نزول کی فضا کی طرف توجہ کی تاثیر زیادہ ھے، افسوس اس صورت میں ھم روایات تفسیری جو شان نزول کو بیان کرتی ھیں، اس میں ایک قسم کی تاریخی فقر کے شکار ھیں، فھم قرآن میں ایک قسم کا ابھام اور خلل ڈالنے والا ایھام ایجاد نھیں ھوتا ؟

اگر منابع میں تلاش کریں، تو یقیناً روایات بھی پائی جاتی ھیں، لیکن اس کے لئے فرصت اور کافی افراد کی ضرورت ھے، اچھا خاصہ مالی بجٹ بھی چاھئے ۔ اس وقت جو ھمارے پاس اسباب نزول پائے جاتے ھیں، اھل سنت کے منابع سے لئے گئے ھیں، اسباب نزول جو ھم شیعوں کے پاس تھے وہ مل نھیں رھے ھیں، جیسے ابن شھر آشوب کا اسباب نزول صرف ان کے قلمی آثار میں اس کی فھرست ملتی ھے ۔ اسباب نزول کو حدیث کے معیار سے تحقیق کریں ۔ تاکہ اس سبب نزول کو حاصل کریں اور ایسا بھی نھیں ھے کہ وہ سبب اس زمانے سے مخصوص تھے، بلکہ یہ سبب ھمیشہ ھر زمانے میں پائے جاتے رھے ھیں ،در واقع تاریخ تکرار ھوتی رھتی ھے ۔ طول تاریخ میں انسان کے کام میں کافی اشتراک پایا جاتا رھا ھے ۔ سر انجام اگر اس زمانے کا سبب نزول مل گیا، ھمارے زمانے میں بھی ایسے اسباب پائے جاتے ھیں، جو ھم کو اس سے مربوط آیت کی طرف ھدایت کرتے ھیں ۔ اور اس کے لئے علم حدیث کے اسناد میں تحقیق کی ضرورت ھے، اس کا تعلق مطالعات حدیث سے ھوتا ھے ،
انقلاب کے بعد تھوڑا بھت دین زندگی کے امور میں داخل ھوگیا، لیکن پھر بھی ھم ابھی ابتدائی راہ میں ھیں، اس کے لئے ایک ھمہ گیر و منظم کوشش کی ضرورت ھے ۔

قرآن کی اپنے زمانے کے مسائل پر نگرانی کیسی ھے ؟ کس حد تک تسلیم کیا جاسکتا ھے کہ قرآن اپنے زمانہ کی تھذیب و تمدن سے تاثیر پذیر ھوا ھے ؟ قرآنی قصے جو شبکہ؟؟؟؟؟ جزیرہ العرب کے باشندوں کے نظریہ کے مطابق جن کے لگنے، باغ و باغچہ اور دوسرے مھم مسائل کو پیش کرتے ھیں، اس کو زمان و مکان سے ھٹ کر ھونے کی کس طرح توجیہ کرتے ھیں ۔

قرآن کبھی بھی دوسروں کے اثر کو قبول نھیں کرتا، قرآن کبھی بھی متأثر نھیں ھوتا ھے ۔ جن کے لگنے کی بات صرف ایک اڑتی پڑتی خبر اور اس زمانے سے محدود نھیں تھی بلکہ اس کی ایک حقیقت ھے، درحقیقت وہ اس وقت بھی تھی اور اس وقت بھی ھے ۔

کیا جن انسان میں حلول نھیں کرتے، کیا جن انسان کو نھیں لگتے ؟

ھاں، ھم جن کو نھیں پھنچان سکتے، خود اس کے نام سے معلوم ھے کہ وہ پوشیدہ ( موجود ) ھے ۔ اس کو ھم دیکھ نھیں سکتے ۔ خدا فرما رھا ھے کہ ایسی موجود پائی جارھی ھیں ۔ لیکن تم آنکھ سے دیکھ نھیں سکتے اور اگر کبھی دیکھ بھی لیا تو اس کی تشخیص نھیں دے سکتے ۔ لیکن وہ بھی تمھاری طرح ھیں ۔ سورۂ جن اور اس کے متعلق آیتیں قرآن میں دیکھی جاسکتی ھیں ۔ اگر قرآن کو ھمہ گیر ھونا چاھئے تو اس بارے میں کوئی محدودیت نھیں ھے ۔ جو کچھ ھے وہ گزشتہ سے متعلق ھے اس وقت بھی ھے اور آئندہ بھی رھے گا ۔ ھمارے اس دور میں بھی ایسے واقعات اور سوالات ھیں جن کا قرآنی آیتیں جواب دے رھی ھیں ۔ قرآن ثابت رھنے والی چیزوں کے مانند ھے ۔ جو مرور زمانہ سے بدلتا نھیں ھے جیسے پانی پینا ۔ جو زندگی کی بقاء کے لئے ضروری ھے ۔ ھر انسان کو پانی پینا چاھئے یہ کھا جاسکتا ۔ چونکہ دقیانوس کے زمانے کے لوگوں کو پانی کی ضرورت تھی، وہ چلے گئے، اب ترقی ھوچکی ھے ۔ پس اس وقت بھی بشر میں کوئی تبدیل نھیں ھوا ۔ اس وقت بھی جھوٹ، ظلم، کم فروشی بری چیز ھے ۔ عھد کا پورا کرنا اور سچائی اچھی چیز ھے ۔ ( آج بھی ایسا ھے ) اور ھمیشہ ایسا ھی رھے گا۔

روایات کی بنیاد پر آیات قرآن میں ظاھر و باطن پایا جاتا ھے ۔ ذرا یہ بتائیں کہ اس اعتبار سے قرآن کے نازل ھونے کی کیا حکمت ھے ؟ کیا یہ مختلف ازمان کے لوگوں کے سمجھ اور فھم کی استعداد اور قابلیت سے متعلق ھے کہ کچھ اس کے ظاھر سے مستفید ھوں اور کچھ اس کے باطن سے یا کوئی دوسری وجہ پائی جارھی ھے ؟

تاویل، بطن یا بطون ( کی بحث ) بھت مھم اور مبنائی ھے ۔ اس کی تفصیل سے بحث کرنے کے لئے کافی فرصت کی ضرورت ھے کہ درحقیقت تاویل کے کیا معنی ھیں، اس بارے میں بحث کرنی دوسری نشستوں میں زیادہ بھتر ھے عام طور سے تاویل، لفظ کو غیر راجح محتمل معانی پرحمل کرنے کوکھتے ھیں، درحالیکہ قرآن میں لفظ تاویل کو ھرگز اس معنی میں نھیں استعمال کیا گیا ھے ۔ اس بناپر ھم سنت قطعی اور عقلی دلیل کے ذریعہ کسی لفظ کو غیر واضح معانی پر، جس کو باطن کھتے ھیں ۔ حمل کریں، جو چیز پوشیدہ ھے، ھم صرف اس کو ایک چیز ھونے کا احتمال دیتے ھیں، کلام کو اس پر حمل کریں، اس کے لئے ایک ھمہ گیر بحث کی ضرورت ھے کہ یہ تمام الفاظ تاویل جو کا قرآن میں استعمال ھوئے ھیں ۔ ان مختلف معانی اور کلمماتِ تاویل کے درمیان ان کا کیا تعلق ھے ۔

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

علم کی فضیلت ۔قرآن وحدیث کی روشنی میں
تفسیر "سورہ البقرة " (آیات 61 تا 65)
ختم سورہ واقعہ
قرآن مجید میں مسلمان کن معنی میں آیا هے؟
قرآن و اھل بیت علیھم السلام
قرآن کے اسماء کیا کیا هیں؟
اسلام پر موت کی دعا
تاویل قرآن
قرآن مجید کاتعارف
قرآن مجيد کي رو سے اسلامي اتحاد

 
user comment