اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

امر بمعروف اورنہی از منکر کی اہمیت

امر بمعروف اورنہی از منکر کی اہمیت

بسم اﷲالرحمٰن الرحیم

انتساب

سید الشہداء حضرت امام حسین  (ع)  کے نام  جہنوں نے اپنے بے مثال قیام کا مقصد یوں بیان فرمایا: (ارید ان اٰمر بالمعروف و انھیٰ عن المنکر)


مقدمہ

امر بمعروف اور نھی از منکر اسلام کا ایک ایسا اہم فریضہ ہے جسکے ذریعہ معاشرے میں تمام واجبات رائج ہوسکتے ہیں اور تمام برائیوں پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اگر دنیا بھر کے ایک ارب مسلمان ہر روز صرف ایک نیک کام کا أمر اور ایک منکر سے روکیں تو دنیا کا چہرہ ہی بدل جائے جبکہ اسکی عدم موجودگی میں اسلامی معاشرہ کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔ اور ہر روز سامری جادوگر جیسا کوئی فنکار سونے کا ایک گوسالہ بنا کر آسانی کے ساتھ ہماری نوجوان نسل کو ثقافتی یلغار کا شکار بنا سکتا ہے۔ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ امر بمعروف و نھی از منکر قطعی واجبات میں سے ہے اور یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے کہ امام حسین (علیہ السلام )نے فرمایا : ''میرا کربلا جانے کا مقصد امر بمعروف اور نھی از منکر ہے''  اس تحریر میں ہم امر بمعروف اور نھی از منکر کی اہمیت کو فطرت، عقل اور قرآن و حدیث کے حوالے سے بیان کرنے کی کوشش کرینگے۔
ومن اللّٰہ التوفیق۔
نسیم حیدر زیدی


امر بمعروف اور نھی از منکر کے معانی

أمر کے دو معنی ہیں۔
الف:کام ،اسکی جمع اُمور ہے ، قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے(وشَاوِرْھم فی الامر)(1) ان سے کام کاج میں مشورہ کرلیا کرو۔
ب: حکم دینا اسکی جمع أوامر ہے، ارشاد ہوتا ہے( قُلْ أَمرَ ربّی بِالْقِسط )(2) کہہ دیجئے میرا پروردگار تمھیں عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے۔ أمر بمعروف میں یہی معنی مراد ہیں۔
نہی: کے معنی روکنا اور منع کرنا ہے، ارشاد ربّ العزت ہوتا ہے(وامَّا مَنْ خافَ مَقَامَ رَبِّہِ وَنَھیَ النَفسُ عَنِ الھِوٰی ٭ فَاِنّ الجَنَةَ ھِیَ المٰاوٰی ) (3) جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور جی کو ناجائز خواہشوں سے روکتا ہے تو اس کا ٹھکانا یقینا بہشت ہے۔

معروف اور مُنکر کے معنیٰ

أَلْمَعْروفُ اِسْم لِکلّ فِعْلٍ یُعْرَفُ بِالْعَقْلِ أو الشَرْع حُسُنَہ' وَالْمُنکَر مَا یُنکَر بِھِمٰا۔ (4)
معروف ہر وہ کام جسے عقل اور دین نے اچھا جانا ہے۔ اور مُنکر ہر وہ کام جسے ان دونوں نے برا جانا ہے ۔
نتیجہ: امر بمعروف اور نہی از منکر کے معنی نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے۔

امر بمعروف اور نھی از منکر ،عقل ، قرآن اور حدیث کی روشنی میں:

جب ہم تاریخ بشر کا مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام والدین اپنے بچوں کو کچھ کام انجام دینے کی ترغیب اور کچھ کاموں سے روکتے رہے ہیں۔ اس لحاظ سے امر بمعروف اور نہی از منکر ہر انسان کی فطرت میں موجود ہے اور کسی خاص زمان و مکان یا کسی خاص رنگ و نسل اور علاقے سے مخصوص نہیں ہے ۔ پس جو مسئلہ اس طرح وسعت رکھتا ہویہی اسکے فطری ہونے کی دلیل ہے ۔ خطرات اور غلطیوں کے مقابل آواز اٹھانا صرف انسانوں سے مخصوص نہیں ہے۔ ہم قرآن کریم میں پڑھتے ہیں کہ '' ہُد ہُدنے جب ملک صبا کے اُوپر سے اپنی پرواز کے دوران پایا کہ اس ملک کے لوگ سورج کی پوجا کرتے ہیںتو حضرت سلیمان علیہ السلام کے حضور آکر اپنی فریاد کے ذریعہ اس گمراہی کی شکایت کی'' (5) اس لئے گمراہی کے خلاف فریاد بلند کرنا اور دوسروں کے بارے میں ہمدردی دکھانا صرف انسانوں کا فطری مسئلہ نہیں ہے بلکہ حیوانات میں بھی اس قسم کی جبلّی ریشے پائے جاتے ہیں۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ لا ابالی انسان حیوان سے بدتر ہے تو مبالغہ نہ ہوگا۔ امر بمعروف  اور نہی از منکر ایک ضرورت ہے اور یہ مسئلہ اتنا واضح اور روشن ہے کہ مجھے ڈر ہیکہ اگر اس کی وضاحت کروں تو خود یہ وضاحت آفتاب کے سامنے ابر کی
مانند اسکی شفافیت کو کم نہ کردے کونسا عاقل ہوگا جو خطرے اور گمراہی کے مقابل خاموشی اختیار کرنے کو پسند کرے اور اسکی مذمت نہ کرے؟ کونسی عقل ہے جو راہنمائی ہمدردی اور نیک کام کے لئے ہمت افزائی اور برے کاموں سے روکنے کو ضروری نہ سمجھے ، چون کہ دین اسلام عقل اور فطرت کے مطابق ہے اس لئے کہاجا سکتا ہے کہ امر بمعروف اور نہی از منکر سے متعلق تمام آیات و روایات ہماری س فطری اور عقلی فریضہ کی طرف راہنمائی اور ہدایت کرتی ہیں۔ ارشاد ربّ العزت ہوتا ہے ''تم کیا اچھے گروہ ہو کہ لوگوں کی ہدایت کے واسطے پیدا کئے گئے ہوں تم ، لوگوں کو ، اچھے کام کا حکم کرتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو'' (6)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ سب سے اچھا دوست وہ ہے جو تمھیں برے کاموں سے روکے اور بدترین دوست وہ ہے جو تم کو اس کی یاد دہانی کرائے ۔ (7)
اور آیئے اب دیکھتے ہیں کہ نہج البلاغہ میں اس موضوع کے کن زاویوں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

امر بمعروف اور نھی از منکر کی اہمیت:

'' تمام نیک اعمال حتیٰ خدا کی راہ میں جہاد بھی أمر بمعروف اور نہی از منکر کے مقابلے میں سمندر کے پانی کے مقابل دَہن کی تری کی مانند ہیں ''۔ (8)
امام علیہ السلام نے امر بمعروف اور نہی از منکر کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح میں جتنا دخل امر بمعروف اور نہی از منکر کا ہے جھاد کا نہیں ہے اس لئے کہ جھاد کبھی کبھار پیش آتا ہے۔ جبکہ امر بمعروف اور نھی از منکر کا فریضہ اکثر اوقات وجود رکھتا ہے۔ لہٰذا یہ ایک طبیعی أمر ہے کہ اسکا اثر معاشرہ پر جھاد کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس برتری کی وجہ یہ ہو کہ امر بمعروف اور نہی از منکر جھاد کا پیش خیمہ ہے۔ اگر امر بمعروف اور نھی از منکر نہ ہو تو جھاد کا قیام نہیں ہو سکتا۔

فلسفہ أمر بمعروف و نھی از منکر:

امام علیہ السلام نے فرمایا: ''خدا وند متعال نے امر بمعروف کو اصلاح خلائق کے لیے اور نہی از منکر کو سر پھروں کی روک تھام کے لیے فرض کیا ہے''۔ (9)

امر بمعروف اور نھی از منکرکے مراحل اور درجات:

عبدالرحمٰن بن اُبی لیلیٰ فقیہ سے روایت ہے کہ میں نے علی علیہ السلام کو فرماتے سُنا ہے۔
'' اے صاحبان ایمان! جو شخص دیکھے کہ ظلم وعدوان پر عمل ہو رہا ہے اور برائی کی طرف دعوت دی جارہی ہے ، اور وہ دل سے اُسے بُرا سمجھے تو وہ (عذاب سے) محفوظ اور گناہ سے بری ہوگیا اور جو زبان سے اُسے بُرا کہے وہ ماجور ہے اور صرف دل سے بُرا سمجھنے والے سے افضل ہے اور جو شخص شمشیر باکف ہو کر اُس برائی کے خلاف کھڑا ہو تاکہ اللہ کا بول بالا ہو اور ظالموں کی بات گر جائے تو یہی وہ شخص ہے جس نے ہدایت کی راہ کو پالیا اور سیدھے راستے پر ہولیا اور اسکے دل میں یقین نے روشنی پھیلادی ۔'' (10)
اس بیان میں امام علیہ السلام نے امر بمعروف اور نھی از منکر کے تین مرحلوں کی طرف اشارہ کیا ہے جنکا سلسلہ وار خلاصہ حسب ذیل ہے۔

پہلا مرحلہ:

یہ ہے کہ انسان خدا کی نافرمانی اور گناہ سے قلباً نفرت کرتا ہو اور برے کاموں کو اپنے ضمیر میں منکر جان کر اُس سے بیزار ہو اس مرحلہ میں کوئی بھی فرد مستثنیٰ نہیں ہے یعنی کمزور و ناتواں ، گونگے، بہرے ، غریب اور امیر غرض سب لوگوں کو گناہ اور برے کاموں سے دل سے بیزار ہونا چاہیے۔

دوسرا مرحلہ:

یہ ہے کہ معروف کا أمر کرنے والا بد کردار کو زبان سے تنبیہ کرے اور اُسے نیک کاموں کی دعوت دے۔

تیسرا مرحلہ:

یہ ہے کہ اگر بات کا اثر نہ ہو تو طاقت کے ذریعہ بُرے کاموں کو روکا جائے۔
ایک اہم نکتہ جسے یہاں پر بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ امر بمعروف اور نہی از منکر کا محور اسکی تأثیر ہے۔ یعنی اصل یہ ہے کہ غلط کام کرنے والا کس طریقے سے بروں کاموں سے ہاتھ کھینچتا ہے، مثال کے طور پر اگر اشارہ مؤثر ہو تو اشارہ واجب ہے، اگر آواز اٹھانا مؤثر ہو تو فریاد واجب ہے ، اگر دھمکی مؤثر ہو تو دھمکی واجب ہے، اگر بار بار یاد دہانی مؤثر ہو تو اسکی تکرار واجب ہے اگر آہ و زاری، شکایت کے ذریعہ اور اجتماعی طور سے کہنا مؤثر ہوتو ایسے ہی کرنا واجب ہے اور اگر بات کا اثر اور منکرات سے مبارزہ کرنا طاقت اور حکومت ہاتھ میں ہونے کی صورت میں ہی مؤثر ہو تو پس حکومت اور طاقت کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، غرض اسلام ہم سے باطل کی نابودی، حق کا بول بالا ، منکرات کی روک تھام اور نیک کاموں کی تاکید چاہتا ہے، اور جو چیز جس مرحلے کے ذریعہ بھی ممکن ہوسکے اُسے انجام دینا واجب ہے۔
دوسری چیز جسکی طرف امام علیہ السلام نے اشارہ کیا وہ یہ کہ تیسرے مرحلے کو دوسرے مرحلوں پر ترجیح دی ہے کہ ممکن ہے کہ اس فوقیت کی علّت یہ ہو کہ اس مرحلہ میں انسان کو زیادہ خطرات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اسکے علاوہ یہ مرحلہ نہایت سخت ہونے کے ساتھ ساتھ ایثار اور فدا کاری کا مظہر ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہا گیا ہے ''أفْضَلُ الأَعْمٰالُ أَحْمَزُھا '' سخت اور دشوار عمل بہترین عمل ہے۔ (11)

امر بمعروف اور نھی از منکر کے آثار و برکات:

1۔ قہر خدا سے نجات :۔

  امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: جو شخص کسی منکر اور برے کام کو دیکھ کر اس سے قلباً بیزار ہوا، اس نے بلاشبہ خدا کے عذاب سے نجات پائی ہے۔ اور جوکوئی برے کاموں کو زبان سے منع کرے اُس نے صلہ پالیا ہے۔ (12)

٢۔ ہدایت یافتہ ہونا:۔

  '' جوشخص کلمة اللہ کی عزت اور ظالموں کی ذلت کے لیے شمشیر کے ساتھ اٹھے وہ ہدایت یافتہ ہے '' (13)

٣۔ مؤمنین کا سہارا:۔

  امر بمعروف اور نھی از منکر مومنوں کی اساس اور انکا سہارا ہے اور کفّار کے لیے ذلت اور رسوائی کا باعث ہے۔

٤۔ خود انسان پر أمر بمعروف کا اثر :۔ 

حضرت علی علیہ نے اپنے بیٹے سے فرمایا: امر بمعروف کرو تاکہ تمھاراشمار اہل معروف میں ہو۔ (14)
حقیقت میں جس طرح کپڑے دھونے والے کے ہاتھ خود بخود پاک ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح لوگوں کو نیک کاموں کی طرف دعوت دینے والا بھی فطری طور پر کوشش کرتا ہے کہ وہ خود بھی نیک کاموں پر عمل کرے جسکی وہ دوسروں کو تلقین کرتا ہے۔

امر بمعروف اور نھی از منکر ترک کرنے کے نتائج:

خاموش انسان پر خدا کی لعنت :۔ 

حضرت علی علیہ السلام نے خطبہ قاصعہ میں فرمایا ''خدا نے گذشتہ امتوں پر اسی وجہ سے لعنت بھیجی کہ انہوں نے نے امر بمعروف اور نھی از منکر کو ترک کردیا تھا'' (15)

اگر گناہ پوشیدہ طور سے انجام پائے تو اس کا خطرہ عام لوگوں کو نہیں ہوتا لیکن اگر کچھ افراد گناہ کو کھلم کھلا اور آشکار انجام دیں اور باقی لوگ اُسے روکنے کی طاقت رکھنے کے باوجود اس سے نہ روکیں اور خاموش بیٹھے رہیں تو خدائے تعالیٰ تمام لوگوں کو ایک ساتھ قہروعذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔


خاموشی بدکاروں کے تسلط کا پیش خیمہ ہے:۔ 

حضرت علیہ السلام فرماتے ہیں : ''اگر تم لوگ امر بمعروف اور نہی از منکر کو ترک کردوگے تو برے لوگ تم پر مسلط ہوجائیں گے اور پھر تمھاری آہ ، فریاد کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ (16)
راضی (خاموش) شریک جرم ہے:۔  کبھی خاموشی کی وجہ لاعلمی ، ڈر اور شرم و حیا جیسی چیزیں ہوتی ہیں لیکن انسان دل سے گناہ سے نفرت کرتا ہے، لیکن بعض اوقات گناہ کے خلاف خاموشی ، اس سے رضا مندی کی علامت ہوتی ہے۔ اور آیات و روایات کے مطابق اس قسم کے افراد در حقیقت گناہ میں شریک ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہم نہج البلاغہ میں پڑھتے ہیں کہ اگرچہ حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ایک شخص نے مارا تھا لیکن قرآن مجید فرماتا ہے: لوگوں کی ایک جماعت نے اُسے مارا اور عذاب الٰہی میں مبتلا ہوئے، یہ اسی لیے ہے کہ وہ جماعت اس شخص کے عمل سے راضی تھی۔(17)

مردہ معاشرہ:۔ 

امام علیہ السلام فرماتے ہیں : ''جو نہ زبان سے ، نہ ہاتھ سےاور نہ دل سے برائی کی روک تھام کرتا ہے یہ زندوں میں چلتی پھرتی ہوئی لاش ہے'' (18)

حرف آخر:

یہ بات مسلم ہے کہ اگر ابتدا سے ہی منکرات کی روک تھام نہ کی جائے اور خاموشی اختیار کرلی جائے تو مسلسل خطرات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل مراحل قابل غور ہیں۔
پہلا قدم: گناہ کو دیکھ کر بے توجھی برتنا اور نہی از منکر نہ کرنا۔  دوسرا قدم: گناہ کا عادّی اور معمول ہوجانا۔ تیسرا قدم: گناہ کو انجام دینے میں رضا مندی کا اظہار کرنا۔  چوتھا قدم: گناہ کو انجام دینے میں مدد کرنا۔ پانچواںقدم: گناہ کا مرتکب ہونا۔  چھٹا قدم :گناہ کو انجام دینے پر اصرار کرنا۔  ساتواں قدم: دوسروں کو گناہ کی دعوت دینا۔  آٹھواں قدم:گناہ انجام دینے اور اسکی تبلیغ پر پیسے خرچ کرنا۔  نواں قدم: گناہ سے اجتناب کرنے والوں سے لڑنا جھگڑنا انھیں اذیت اور آزار دینا اور جلا وطن کرنا۔  دسواں قدم: بے رحم اور قسی القلب ہو جانا۔
اگر قرآن مجید فرماتا ہے کہ شیطان کے نقش قدم پر نہ چلنا تو یہ اس لیے ہے کہ شیطان
انسان کو قدم بہ قدم فساد کی طرف کھینچتا ہے۔ شیطان کے رفتہ رفتہ اور قدم بہ قدم اثر کو نہج البلاغہ میں یوں بیان کیا گیا ہے۔

فَبَاضَ :

پہلے شیطان ان لوگوں کی روح میں انڈے دیتا ہے، وفَرَّحَ فِیْ صُدُورِھِمْ : پھر چوزے نکالتا ہے اسکے بعد  ودَبّ : شیطان کے چوزے انسان کی روح میں چاروں ہاتھ پاؤں سے حرکت کرتے ہیں۔ ودَرَج فی حجورھم : پھر یہ چوزے انسان کی گود میں اِدھر ادھر پھرنے لگتے ہیں۔ فنظر بأعینھم : اسکے بعد شیطان ان لوگوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا ہے اور وہ عین اللہ کے بجائے عین شیطان ہو جاتی ہیں۔ وَ نطق بألسنتھم : اسکے بعد شیطان انکی زبان میں بولنے لگتا ہے۔ فَرَکَبَ بھم الزَّلَلَ : پھر شیطان ان ہی افراد کے ذریعہ دوسروں کی لغزش کا سامان بھی فراہم کرتا ہے۔
آخر میں دعا ہے کہ خدایا: ہمیں شیطان کے شر سے محفوظ رکھ اور اس اہم فریضہ امر بمعروف اور نھی از منکر ، پر صحیح طور پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرما، آمین یاربّ العالمین۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) سورہ مبارکہ آل عمران ، آیت ١٥٩
(2) سورہ مبارکہ اعراف، آیت ٢٩
(3) سورہ مبارکہ نازعات، آیت ٤١۔١٠
(4) المفردات فی غریب القرآن نقل از پژوھشی در امر بہ معروف و نھی از منکر از دید گاہ قرآن و روایات
ص ١٤
(5) سورہ مبارکہ نمل آیت ٢٤
(6) سورہ مبارکہ آل عمران آیت ١١٠
(7) امر بمعروف و نھی از منکر، محسن قرائتی۔ ص٣٢
(8) نہج البلاغہ ۔ حِکَم  ٣٧٤
(9) نہج البلاغہ ۔ حِکَم  ٢٥٢
(10) نہج البلاغہ ۔ حِکَم  ٣٧٣
(11) امر بمعروف و نھی از منکر۔ آیت اللہ حسین نوری ھمدانی ص٥٩
(12) نہج البلاغہ  حِکَم  ٣٧٣
(13) نہج البلاغہ  حِکَم  ٣٧٣
(14) نہج البلاغہ  مکتوب  ٣١
(15) نہج البلاغہ  خطبہ قاصعہ
(16) نہج البلاغہ  مکتوب  ٤٧
(17) نہج البلاغہ  خطبہ۔ ٢٠
(18) نہج البلاغہ حِکَم  ٣٧٣


'' فہرست منابع ''


١۔ قرآن کریم :    ترجمہ ۔ علامہ ذیشان حیدر جوادی
انتشارات انصاریان۔ قم۔ بی تا
ترجمہ ۔ مولانا حافظ فرمان علی
ناشر ۔ پیر محمد ابراہیم ٹرسٹ کراچی ١٩٨٩
٢۔ نہج البلاغہ:    ترجمہ ۔ علامہ مفتی جعفر حسین
امامیہ پبلیکیشنز لاھور۔ بی تا
٣۔ امر بہ معروف و نھی از منکر:آیة اللّٰہ حسین نوری ھمدانی
دفتر تبلیغات اسلامی قم۔ ١٣٧٧
٤۔ امر بمعروف اور نہی از منکر:محسن قرائتی
مجمع جھانی اہل بیت (ع) قم ١٤٢٣
مندرجہ بالا منابع کے علاوہ ، ان منابع سے بھی استفادہ کیا گیا: أمر بمعروف و نھی از منکر در اسلام ۔ علی تھرانی، پژوھشی در امر بہ معروف و نھی از منکر از دید گاہ قرآن وروایات محمد اسحاق مسعودی، فرھنگ آفتاب فرھنگ تفصیلی مفاہیم نہج البلاغہ ، عبد المجید، و تفسیر موضوعی نہج البلاغہ وغیرہ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
تشیع کی پیدائش اور اس کی نشو نما (۲)
خدا کی راہ میں خرچ کرنا
جاہل کی پہچان
جن اور اجنہ کےبارے میں معلومات (قسط -2)
عدل الہی قرآن کی روشنی میں
دستور اسلام ہے کہ ہم سب ''معتصم بہ حبل اللہ''
تشيع کا خصوصي مفہوم
عبادت اور خدا کا ادراک
عالم برزخ، روایات كی روشنی میں

 
user comment