اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

مصائب امام حسن مجتبی علیہ السلام

مصائب امام حسن مجتبی علیہ السلام

امام حسن کی ہجرت کے تیسرے سال پندرہ رمضان المبارک کومدینے میں ولادت ہوئی اور ٤٠ھ کو امامت ملی ، آپ کی مدت امامت دس سال ہے ، آخر کار ٢٨ صفر ٥٠ھ کو ٤٧یا ٤٨ سال کی عمر میں معاویہ کے حکم سے بذریعہ جعدہ زہردیاگیا اور مدینہ منورہ میں شہادت ہوئی ،آپ کا مرقد جنت البقیع میں ہے ۔
آپ حضرت علی کی شہادت کے بعد مسلسل دشمنوں کے مصائب کا نشانہ رہے،خاص طور سے معاویہ کے ظلم و ستم برداشت کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ کے دوستوں نے بھی آپ سے بے وفائی کی ۔ آپ نے چھ مہینے خلافت کی اور صلح کے بعد مدینہ چلے گئے اور تا عمر وہیں رہے ۔


معاویہ کی خونخوار سازش

معاویہ کی قاتلانہ سازش یہ تھی کہ اس نے تہیہ کر لیا تھا کہ پوشیدہ طریقے سے امام حسن کو قتل کر دیا جائے اپنے اس ارادے کو پورا کرنے کے لئے اس نے چار منافقوں کا الگ الگ انتخاب کیا ، ہر ایک سے کہا کہ اگر تم نے حسن بن علی کو قتل کر دیا تو میں تمہیں دو لاکھ درہم اور شام کا فوجی افسر بنا دوں گا ۔ اس کے علاوہ اپنی بیٹی سے شادی کردوں گا ۔ ان چار کا نام تھا ۔١۔ عمر و بن حریث۔٢۔ اشعث بن قیس ۔٣۔ حجر بن الحارث اور ۔٤۔ شبث بن ربعی ۔
معاویہ نے جن انعامات کا اعلان کیا تھا انہیں حاصل کرنے کے لئے ان سب نے حامی بھر لی ۔
معاویہ نے ان سب پر جاسوس مقرر کر دیئے جو پوشیدہ طریقے پر ان کی کارکردگی کی رپورٹ معاویہ کو بھیجتے رہتے تھے ۔
امام حسن کو اس سازش کی خبر ہو گئی ۔ اس کے بعد آپ مکمل طور سے نگراں رہے کہ یہ سازش اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ آپ ہر وقت لباس کے اندر زرہ پہنتے تھے یہاں تک کہ اسی زرہ میں آپ نماز بھی پڑھتے تھے ،آخر ایک سازشی نے حالت نماز میں آپ پر تیر چلا دیا ، لیکن اس زرہ کی وجہ سے تیر کا زخم بدن پر نہ لگا ۔ (١)


خوارج کی سازش

دوسری طرف خوارج آپ کی گھات میں تھے ، یعنی وہی تقدس مآب جاہل افراد آپ کو قتل کرنا چاہتے تھے، ان کا بہانہ یہ تھا کہ آپ نے معاویہ سے جنگ کیوں نہیں کی ، وہ آپ کو ( معاذ اللہ )مشرک و مذل المومنین پکارتے تھے ۔
انہیں خوارج میں ایک جراح بن سنان نامی شخص نے ساباط ( مدائن )میں سر راہ امام حسن کا لجام فرس پکڑ لیا اور تلوار سے آپ کو اس طرح مارا کہ ران کا گوشت شگافتہ ہو کرتلوار استخوان تک پہونچ گئی ۔ امام نے درد کی شدت سے اس کی گردن میں بانہیں ڈال دیں اور دونوں زمین پر گرگئے ، امام حسن کے ایک شیعہ عبد اللہ بن خطل نے لپک کر تلوار اس کے ہاتھ سے چھین لی اور قتل کر دیا ، ایک دوسرے ساتھی کو بھی پکڑ کر قتل کر دیا ۔ امام حسن کو مدائن کے گورنر سعد بن مسعود ثقفی کے مکان پر لے گئے اور آپ کا علاج کرایا گیا ۔ (۲)


امام حسن کو زہر دیا گیا

جعدہ بنت اشعث امام حسن کی زوجہ تھی ، معاویہ نے اسے ایک لاکھ درہم بھیجا اور پیغام بھیجا کہ اگر امام حسن کو زہر دیدوگی تو تمہاری شادی اپنے بیٹے یزید سے کردوں گا ، جعدہ نے معاویہ کی یہ پیش کش قبول کر لی اور امام حسن کو زہر دیدیا ۔
معاویہ نے جعدہ کے پاس سیّال زہر بھیجا،امام حسن روزے سے تھے ،ہواگرم تھی ، افطارکے وقت جعدہ نے وہ زہر آپ کے دودھ کے پیالے میں ملا کر امام کی خدمت میں پیش کیا ، امام نے اسے پیا تو فوراً زہر محسوس کر لیا ، جعدہ سے فرمایا :
''تو نے مجھے قتل کیا ، خدا تجھے قتل کرے ، خدا کی قسم تیری آرزو پوری نہ ہو گی ، خدا تجھے ذلیل کرے گا ۔''
دو روز کے بعد آپ نے اسی زہر سے شہادت پائی ۔ معاویہ نے جعدہ سے جو قول و قرار کیا تھا اسے پورا نہ کیا ،یزید سے اس کی شادی نہیں کی ،اس نے امام حسن کے بعد خاندان طلحہ کے ایک شخص سے شادی کر لی،
اور اس سے کئی بچے ہوئے،جب ان بچوں کے خاندان اور خاندان قریش کے درمیان تکرار ہوتی تو انہیں کہا جاتا ''یا بنی مسمّة الازواج '' ( اے ایسی عورت کے بیٹو جو اپنے شوہروں کو زہر دیتی ہیں )۔ (ارشاد شیخ مفید،ج٢ ص١٣ پر روایت ہے کہ جعدہ معاویہ کے پاس گئی اور کہا :میری یزید سے شادی کردو۔ اس نے جواب دیا :''اذهبی فان الامرأة لا تصلح للحسن بن علی لا تصلح لابنی یزید'' دفعان ہو جا ! تیری جیسی عورت جب حسن بن علی سے نباہ نہ کر سکی تو میرے بیٹے یزید سے کیا نباہ کرے گی ۔ (۳)
عمر بن اسحاق کا بیان ہے کہ میں حسن و حسین کے ساتھ گھر میں تھا اتنے میں امام حسن طہارت کے لئے گھر سے باہر گئے، واپس آکر فرمایا کہ ''کئی بار مجھے زہر دیا گیا لیکن اس مرتبہ سب سے شدید تھا ، میرے جگر کا ایک ٹکڑا گرا ، اسے میں نے اپنے اس عصا سے حرکت دی '' ۔ امام حسین نے پوچھا :'کس نے آپ کو زہر دیا ۔''
امام حسن نے فرمایا : اس سے تم کیا چاہتے ہو؟ کیا اسے قتل کرو گے ؟ جسے میں سمجھتا ہوں اس پر تم سے زیادہ خدا عذاب کرے گا اور اگر وہ نہ ہو تو میں نہیں چاہتا کہ بے گناہ میری وجہ سے گرفتار ہو ۔ (۴)
امام حسن زہر کھانے کے بعد چالیس دن بیمار اور صاحب فراش رہے، آخر ماہ صفر میں آپ کی شہادت واقع ہوئی ۔ (۵)
ایک دوسری روایت میں حضرت صادق آل محمد کا ارشاد ہے کہ جس وقت امام حسین اپنے بھائی کے سرہانے آئے اور حالت دیکھی تو رونے لگے ۔ امام حسن نے پوچھا ۔بھائی کیوں روتے ہو ؟
امام حسین نے کہا : کیسے گریہ نہ کروں کہ آپ کو مسموم دیکھ رہا ہوں ،لوگوں نے مجھے بے بھائی کا کر دیا ۔
امام حسن نے فرمایا : میرے بھائی ! اگر چہ مجھے زہر دیا گیا ہے لیکن جو کچھ ( پانی ، دودھ ،دواوغیرہ )چاہوں یہاں مہیّا ہے ۔ بھائی ، بہنیں اور خاندان کے افراد میرے پاس موجود ہیں ، لیکن
'لا یوم کیومک یا ابا عبداللّه .''
اے ابا عبد اللہ! تمہاری طرح میری حالت تو نہیں ہے ، تم پر تیس ہزار اشقیاء کا ہجوم ہو گا جو دعویٰ کریں گے کہ ہم امت محمدی ہیں ۔ وہ تمہارا محاصرہ کر کے قتل کریں گے ، تمہارا خون بہائیں گے، تمہاری عورتوں اور بچوں کو اسیر کریں گے ،تمہارا مال لوٹ لیں گے، اس وقت بنی امیہ پر خدا کی لعنت روا ہو گی ۔
میرے بھائی تمہاری شہادت دلگداز ہے کہ
''و یبکی علیک کلّ شئی حتیٰ الوحش فی الفلوات و الحیتان فی البحار ''تم پر تمام چیزیں گریہ کریں گی یہاں تک کہ حیوانات صحرائی و دریائی تمہاری مصیبت پر روئیں گی ۔ (۶)


امام حسین سے وصیت

امام محمد باقر فرماتے ہیں کہ امام حسن پر حالت احتضار طاری ہوئی ، امام حسین سے کہا : میرے بھائی تم سے وصیت کرتا ہوں اس کا لحاظ کرنا اور پوری کرنا ۔
جب میں مر جاؤں تو دفن کا انتظام کرنا ، پھر مجھے قبر رسول (ص)پر لے جانا تاکہ ان سے تجدید عہد کروں، پھر مجھے قبر مادر پر لانا پھر بقیع میں لیجا کر دفن کر دینا، یہ سمجھ لو کہ حمیرا ( عائشہ )جس کی دشمنی و عناد میرے خاندان سے سبھی جانتے ہیں اس کی طرف سے مجھ پر مصیبت ڈھائی جائے گی ۔
جس وقت حضرت نے انتقال کیا ، جنازے کو تابوت میں رکھا گیا ، جہاں رسول (ص)نماز پڑھتے تھے وہیں لے جایا گیا امام حسین نے نماز جنازہ پڑھائی، وہاں سے قبر رسول (ص)پر لیجا کر تھوڑی دیر کے لئے رکھا گیا ۔


اعتراض عائشہ اور امام حسین کا جواب

عائشہ کو خبر کی گئی کہ بنی ہاشم جنازے کو قبر رسول (ص)کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، عائشہ ایک خچر پر سوار ہو کر وہاں پہونچ گئیں اور ڈیرا ڈال دیا ،کہنے لگیں :
''نحّوا ابنکم عن بیتی .''۔اپنے فرزند کو میرے گھر سے باہر لے جاؤ کیونکہ یہاں کوئی چیز دفن نہیں ہو سکتی ، حجاب رسول کو پارہ نہیں ہونا چاہئے ۔
امام حسین نے ان سے فرمایا :
تم نے اور تمہارے باپ نے تو پہلے ہی حجاب رسول کو پارہ پارہ کر دیا ہے، تم نے رسول کے گھرایسے کو ( ابو بکر )پہونچا دیا ہے کہ رسول کو اس کی قربت ناپسند تھی ، خدا تم سے اس کی باز پرس کرے گا ۔ واقعہ یہ ہے کہ میرے بھائی حسن نے مجھے وصیت کی تھی کہ میرا جنازہ قبر رسول (ص)پر لے جانا تاکہ تجدید عہد کروں ۔ تم سمجھ لو کہ میرے بھائی تمام لوگوں سے زیادہ خداو رسول اور معنی قرآن کو سمجھتے تھے، وہ حجاب رسول کے پارہ ہونے کو اچھی طرح سمجھتے تھے ۔ اگر ان کا دفن ہونا میری رائے میں مناسب ہو تا تو سمجھ لو کہ تمہاری خواہش کے بر خلاف یہاں ضرور دفن ہوتے ۔ (لیکن رسول(ص)کے قریب پھاوڑا چلانا میری نظر میں جائز نہیں )
اس کے بعد محمد حنفیہ اپنی بات کہنے لگے ،فرمایا :
اے عائشہ! ایک دن تم خچر پر سوار ہوئیں اور ایک دن تم اونٹ پر سوار ہوئی تھیں، تمہیں جو بنی ہاشم سے نفرت ہے اس کی وجہ سے نہ تو تم اپنے اختیار میں ہو نہ چین سے رہ سکتی ہو ۔
عائشہ نے ان سے مخاطب ہو کر کہا : اے حنفیہ کے بیٹے ! یہ فرزندان فاطمہ ہیں جو مجھ سے بات کر رہے ہیں، تم کیوں بیچ میں بول رہے ہو ۔
امام حسین نے فرمایا : محمد کو بنی فاطمہ سے الگ کیوں کر رہی ہو، خدا کی قسم ! انہیں تین فاطمہ نے جنم دیا ہے ۔ فاطمہ بنت عمران (مادر ابو طالب )، فاطمہ بنت اسد (مادر علی )فاطمہ بنت زائدہ بن اصم (مادر عبد المطلب )۔
عائشہ نے جھلا کر کہا : اپنے فرزند کو ہٹاؤ ،لے جاؤ کہ تم لوگ عناد پرست ہو ۔
امام حسین جنازے کو بقیع کی طرف لے کر چلے گئے ۔ (۷)
دوسری روایت ہے کہ غسل کے بعد جب جنازے کو قبر رسول (ص)کی طرف لے چلے تو حاکم مدینہ مروان اور اس کے ساتھیوں نے یقین کر لیا کہ امام حسن کو قبر رسول (ص)کے پہلو میں دفن کرنا چاہتے ہیں، انہوں نے تیاری شروع کر دی اور لباس جنگ پہن کر بنی ہاشم کے سامنے آگئے،عائشہ خچر پرسوار ہو کر فریاد کر رہی تھیں ، مجھے پسند نہیں کہ اپنے فرزند کو میرے گھر میں لاؤ ۔
مروان نے کہا :
''یا ربّ هیجا هی خیر .''
کتنے ہی موقعے ہوتے ہیں کہ جنگ آسائش سے بہتر ہوتی ہے،کیا عثمان مدینے کے کنارے دفن ہوں اورحسن پیغمبر کے قریب دفن کئے جائیں .؟ جب تک میرے ہاتھ میں تلوار ہے ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔
قریب تھا کہ بنی ہاشم اور بنی امیہ میں شدید جنگ چھڑ جائے کہ عبد اللہ بن عباس نے مروان سے جا کر کہا : اے مروان ! ہم چاہتے ہیں کہ قبر رسول (ص)پر تجدید عہد کریں ،ہم امام حسن کو پہلوئے رسول(ص)میں دفن نہیں ہونے دینا چاہتے ،
اس کے بعد عائشہ کی طرف رخ کیا :
یہ کیا ذلیل حرکت ہے عائشہ ! ایک دن خچر پر ایک دن اونٹ پر ۔ تم نور خدا کو بجھانا چاہتی ہو ۔ دوستان خدا سے جنگ کرنا چاہتی ہو ۔ واپس جاؤ کہ جو کچھ تم چاہتی ہو پا گئی ہو ۔ ( اطمینان رکھو کہ ہم امام حسن کو پہلوئے رسول(ص)میں دفن نہیں کریں گے )خداوند عالم اس خاندان سے انتقام ضرور لے گا چاہے عرصہ گذر جائے ۔ (۸)

منعته عن حرم الرسول ضلالة
و هو ابنه فلایّ امر یمنع

فکانّه روح النّبی و قد ر أت
بالبعد بینهما العلائق تقطع


( عائشہ نے از روئے گمراہی جنازۂ امام حسن کو حرم رسول(ص)سے روکا حالانکہ وہ فرزند رسول ۖہیں، انہیںکیوں روکا ؟ حسن مانند روح رسول(ص)تھے اور عائشہ نے خیال کیا کہ ان دونوں میں جدائی ڈال کر رشتہ منقطع کر دے گی )۔


جنازے پر تیر بارانی

محدث قمی نے مناقب بن شہر آشوب کے حوالے سے لکھا ہے کہ جنازہ ٔامام حسن پر تیر بارانی بھی ہوئی ۔ اور دفن کے وقت ستر تیر آپ کے جسد مبارک سے نکالے گئے ۔ (۹)
اسی لئے ہم زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں:
''و انتم صریع قد فلق ''
تم ( خاندان نبوت والو )میں سے کسی کو محراب عبادت میں سر شگافتہ کیا گیا، دوسرے کو تابوت کے اندر تیر بارانی کی گئی ،کسی کو بعد قتل نوک نیزہ پر سر بلند کیا گیا ۔ اور بعض کو زندان کے گوشے میں کھینچا گیا اور اعضاء کو لوہے کا فشار دیا گیا ۔ یا زہر کے اثر سے داخلی طور سے قطع قطع کیا گیا ۔ (۱۰)
امام حسین جنازے کو بقیع میں گئے اور جدۂ ماجدہ فاطمہ بنت اسد کے پہلو میں دفن کیا گیا ۔


مرثیۂ امام حسین

امام حسین نے جنازے کو تابوت میں رکھتے ہوئے یہ اشعار پڑھے :
کیا میں سر میں تیل لگاؤںیا ریش کو عطر سے خوشبودار کروں ؟ جبکہ میں آپ کے سر کو مٹی میں دیکھ رہا ہوںاور آپ کو کٹی شاخ یا پتے کی طرح دیکھ رہا ہوں ۔
جب تک کبوتر کی آواز گونجے گی اور شمالی و جنوبی ہوا چلے گی میں آپ پر روتا رہوں گا ۔
میرا گریہ طولانی ہے،میرے آنسو رواں ہیں ، آپ مجھ سے دور ہیں اور قبر نزدیک ہے ۔
جس کا مال چھین لیا گیا ہو ، غارت شدہ نہیں ہے ، بلکہ غارت شدہ وہ ہے جو اپنے بھائی کو خاک میں لٹائے ۔ (۱۱)

 

خونِ جگر طشت میں

جنادہ بن امیہ روایت کرتا ہے کہ جس بیماری میں امام حسن نے شہادت پائی ، میں انکی عیادت کے لئے گیا ،میں نے دیکھا کہ آپ کے پاس طشت رکھا ہے جس میں گلے سے خون کے لوتھڑے گر رہے ہیں،جس میں آپ کے جگر کے ٹکڑے تھے ،میں نے عرض کی : اے مولا ! علاج کیوں نہیں کرتے ؟
فرمایا : اے بندۂ خدا ! موت کا علاج کس چیز سے کروں ؟
اس کے بعد میں نے عرض کی:مولا ! مجھے موعظہ فرمایئے ۔فرمایا :'' استعد لسفرک .''
اے جنادہ ! آخرت کے سفر کے لئے آمادہ ہو جاؤ اور عمر ختم ہونے سے پہلے توشۂ آخرت حاصل کرلو۔ سمجھ لو کہ تم دنیا کی طلب میں ہو اور موت تمہاری طلب میں ہے ،کبھی آنے والے کل کا غم آج نہ کرو ۔
جنادہ کہتے ہیں کہ ناگاہ میں نے دیکھا کہ امام حسین حجرے میں تشریف لائے حالانکہ امام حسن کا رنگ زرد ہو گیا تھا ،سانسیں رک رہی تھیں، امام حسین نے خود کو برادر کے بدن پر گرا دیا اور سر آنکھوں کا بوسہ دینے لگے ،تھوڑی دیر آپ کے پاس بیٹھکر راز کی باتیں کرتے رہے ۔ (۱۲)


شہادت امام حسن پر معاویہ کی خوشی

معاویہ کو شہادت امام حسن کی خبر ملی تو بہت خوش ہوا ۔ سجدے میں گر کر شکر خدا بجالایا ۔ پھر تکبیر کہی ۔ اس وقت ابن عباس شام میں تھے ۔ معاویہ نے انہیں بلایا اور بڑے مسرور انداز میں تعزیت پیش کی ۔ پھر ابن عباس سے پوچھا حسن بن علی کی عمر کتنی تھی ؟
ابن عباس نے جواب دیا ۔ تمام قریش کے لوگ ان کے سن و سال سے آگاہ ہیں ۔ تعجب ہے کہ تم ناواقفیت ظاہر کر رہے ہو ۔
معاویہ نے کہا : سنا ہے کہ حسن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں ؟
ابن عباس نے کہا : ہر چھوٹا بڑا ہوتا ہے ۔ اور یہ سمجھ لو کہ ہمارے بچے بھی بوڑھوں کی طرح ہوتے ہیں ۔
سچ بتاؤ کہ وفات حسن سے تم اتنے خوش کیوں ہو ؟ خدا کی قسم ان کی موت تمہارے اجل کو ٹالے گی نہیں نہ ان کی قبر تمہاری قبر کو بھرے گی ۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کے بعد میری اور تمہاری عمر کس قدر مختصر ہے ۔ (۱۳)


حوالہ جات

١۔بحار الانوار ،ج٤٤،ص٣٣
۲۔ ترجمۂ ارشاد شیخ مفید ،ج٢،ص٨
۳۔بحار الانوار ،ج٤٤،ص ١٤٨و١٥٤
۴۔بحار الانوار،ج٤٤،ص١٤٨،١٥٤
۵۔کشف الغمہ ،ج٢،ص ١٦٣
۶۔ امالی صدوق مجلس ٣٠، مقتل المقرم ،ص٢٤٠
۷۔اصول کافی ،ج١،ص ٣٠٢،٣٠٣
۸۔ ترجمہ ارشاد شیخ مفید ،ج٢،ص ١٥
۹۔انوار البہیہ ،ص٨٣
۱۰۔ یہ زیارت مصباح الزائر میں ائمہ اطہار سے نقل ہوئی ہے اور مفاتیح الجنان میں بھی موجود ہے
۱۱۔مناقب بن شہر آشوب ،ج٤،ص ٤٥
۱۲۔ انوار البہیہ ،ص٨٠
۱۳۔عقد الفرید ،ج٤،ص ٣٦٢

 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment