اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

روزِ عاشوره

روزِ عاشوره

عاشورہ کا دن، نمازِ ظہر کا وقت آیا۔ کچھ اصحاب باقی ہیں۔ اُن میں سے ایک عرض کرتے ہیں: فرزند رسول! زوال کا وقت شروع ہوگیا۔ میرا دل چاہتا ہے کہ آپ کی اقتداء میں آخری نماز پڑھ لیں۔ امام حسین بڑے خوش ہوئے۔ کس طرح کی نماز ہوئی۔ کچھ اصحاب اس طرف آگے کھڑے ہوگئے ، جدھر فوج تیر برسارہی تھی۔ حسین نماز میں مصروف ہوئے۔ یہ آگے امام حسین کے کھڑے ہوگئے۔ اِدھر سے تیر آرہے ہیں۔ ہڈیوں کو توڑ رہے ہیں۔ سینے میں پیوست ہورہے ہیں لیکن ان میں سے ایک نہیں گرتا۔ کیوں اس قدر استغراق ہے۔ اس قدر غرق ہوچکے ہیں عشقِ حسین میں کہ تیروں کا پتہ ہی نہیں چلتا کہ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں لگ رہے ہیں۔ امام حسین کی جب آواز آئی:
"اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰہِ وَبَرَکَا تُہ"
اب سمجھے کہ نماز ختم ہوئی۔ اُدھر نماز ختم ہوئی حسین کی، اِدھر یہ ختم ہوگئے۔ آپ نے خیال فرمایا کہ اتنی روحانیت کے مالک کبھی آپ نے دیکھے ہیں کہ آئے ہیں اپنی جانیں بیچنے کیلئے۔
امام حسین علیہ السلام سے عہد ہوچکا ہے۔ حضرت نے فرمایا:
بھائیو! تم چلے جاؤ، آج کی شام میں نہیں دیکھوں گا۔ عاشورہ کا دن ہے، رات کو کہا تھا کہ یہ رات جو آنے والی ہے، میری زندگی میں نہیں آئے گی۔ چلے جاؤ، اپنے بال بچوں سے جاکر مل لو جن کے بال بچے ہیں، وہ مل آئیں۔
وہ آوازیں دیتے ہیں کہ حسین ! اگر ہم چلے جائیں تو خدا کرے ہمیں درندے کھا جائیں۔ حسین فرماتے ہیں:بھائیو! میں نانا کو تم سے راضی کروالوں گا۔ میں یہ کہہ دوں گا: نانا! میں نے خود ان کو بھیجا تھا، یہ خود نہیں آئے تھے۔ میرے نانا تم سے ناخوش نہیں ہوں گے۔ امام حسین نے یہ فرمایا۔ جانتے ہیں، کیا جواب دیا ہے اصحابِ باوفا نے: اگر ہم ہزار بار قتل کئے جائیں اور پھر جلا دئیے جائیں اور ہماری راکھ اُڑا دی جائے تو ہر بار ہماری راکھ کا ہر ذرہ آپ کے قدموں میں گرے گا۔ آپ کو چھوڑ کر کیوں چلے جائیں؟ رہ گئے یہ بال بچے، حسین ! اگر آپ کی راہ میں ان کو تکلیف ہو تو اس تکلیف سے بڑی راحت کیا ہے؟ کہیں دنیا میں ایسے واقعات ہوئے ہیں؟
میں آپ سے عرض کروں۔ اس وقت یزید کی بیعت کس کس نے کرلی تھی؟مجھے اس کا ذکر نہیں کرنا ہے۔ اتنی بات کہنی ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا خاندان ایسا نہیں رہا تھا جس نے یزید کے ہاتھوں پر بیعت نہ کرلی ہو۔ عبداللہ ابن زبیر مکہ چلے گئے تھے۔ اپنی خلافت کا اعلان کردیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ جن کی دسترس میں یہ چیز نہ تھی، انہوں نے سب نے بیعت کرلی تھی۔ حسین نے کہانانا کے روضے پر جاکر: نانا!میں آپ کی قبر کو کبھی نہیں چھوڑتا لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کی محنتیں برباد ہورہی ہیں۔ میرے علی اکبر کے سینے پر برچھی لگ جائے گی۔ میری بہنیں قید ہوجائیں گی لیکن آپ کی محنت کو برباد نہیں ہونے دوں گا۔
اے میرے بزرگو! کبھی تصور میں سوچنا اِن چیزوں کو، اپنی جان کو پیش کردینا اور بات ہے، غیروں کو بلا کر آگے کردینا اور بات ہے۔ عزیزوں کو بھی آگے بڑھا دینا اور بات ہے۔ لیکن حضور!ناموس کا معاملہ ایساہے کہ جب یہ معاملہ آتا ہے تو اولاد کو بھی فدا کردیا جاتا ہے کہ ناموس پر حرف نہ آنے پائے۔ جان کو بھی فدا کردیا جاتا ہے۔ سب کچھ فدا کردیتا ہے لیکن جب دین پر مصیبت آتی ہے تو پھر ناموس کو بھی فدا کردینا چاہئے۔ لیکن دنیا میں آج تک ایسا کوئی پیدا نہیں ہوا سوائے امام حسین کے جو گھر سے اپنی بیٹیوں اوربہنوں کو لے کر چلے۔ جنہوں نے غالباً دن کے وقت گھر کے باہر کی دیوار تک نہ دیکھی تھی۔ اگر کبھی نانا کی زیارت کا شوق ہوا، خود نہیں گئیں، امیر الموٴمنین علیہ السلام سے یا بھائیوں سے کہا کرتی تھیں۔
بابا! اماں کی قبر کی زیارت کو دل چاہتا ہے۔ نانا کی قبر کی زیارت کو دل چاہتا ہے، اجازت دیجئے۔ امیر الموٴمنین اجازت دیتے تھے ۔ مگر پہلے یہ حکم دیتے تھے کہ یہاں سے جنت البقیع تک جو راستہ ہے، اس راستے میں اِدھر اُدھر جو کوچے ہیں، پہلے وہ بندکردئیے جائیں کہ کوئی اِن کوچوں سے گزرنے والا نہ گزرے۔ اس کے بعد جب نکلتی تھیں شہزادیاں تو ایک طرف امام حسن ہوتے تھے اور ایک طرف امام حسین ہوتے تھے۔ اِن شہزادیوں کو حسین اپنے ہمراہ لے کر جارہے ہیں کہ اُن کی شہادت کے بعد بازاروں میں پھرائی جائیں گی۔ یہ درباروں میں لائی جائیں گی۔ اب آپ سمجھئے کہ دین پر حسین کا کتنا بڑا احسان ہے۔
عاشورہ کا دن ہے، کوئی نہیں رہاامام حسین کے ساتھ۔ علی اصغر کو دفن کرچکے۔ علی اکبر کا لاشہ اُٹھا کر لے جاچکے ہیں۔ عباس کے بازو قلم ہوچکے۔ دریا پر چھوڑ آئے کیونکہ وصیت یہ تھی کہ مجھے نہ لے جائیے گا۔ یہ سب کچھ ہوچکا۔ اب امام حسین میدان میں کھڑے ہوئے اُن سے کہہ رہے ہیں:
کوفے اور شام کے لوگو!دیکھو، اب میرا کوئی نہیں، میں زندہ نہیں رہوں گا لیکن تھوڑا سا پانی تو پلا دو۔ کسی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا۔ چند لمحوں کے بعد ایک شخص کی آواز آتی ہے داہنی طرف سے :پیاسے میرا سلام!امام حسین اُس طرف دیکھتے ہیں، ایک شخص کھڑا ہوا ہے مسافرانہ لباس میں۔ ہاتھ میں کشکول پانی سے بھرا ہوا۔ آپ نے فرمایا: تو کون ہے جو یہاں مجھے سلام کررہا ہے کیونکہ یہاں تو کوئی مجھے سلام کے قابل ہی نہیں سمجھتا۔ اس نے کہا کہ میں فلاں جگہ کا رہنے والا ہوں، میرا دل چاہا کہ میں کچھ سیاحت کروں۔ سیاحت کیلئے گھر سے چلا تھا۔ آج اس دریا کے کنارے پہنچا، کنارے پر بیٹھ گیا۔پانی پیا، منہ ہاتھ دھویا۔ بیٹھا ہوا تھا کہ کچھ تھوڑا سا دم لے لوں، پھر چلوں گا۔ پیاسے! ایک مرتبہ تیری آواز جو کان میں آئی کہ مجھے پانی پلا دو، میرے دل کی رگیں کٹ گئیں۔ اتنا اثر کیا کہ میں بیٹھ نہ سکا۔یہ پانی بھر کر لایا ہوں، لے پی لے۔آپ نے فرمایا: خدا تجھے جزائے خیر دے، میں پانی نہ پیوں گا، چلا جا ، دور نکل جا کیونکہ اس کے بعد جو میری فریاد کی آواز بلند ہوگی، وہ جو کوئی سن لے گا اور نہ آئے گا، تو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ تو چلا جا۔ اُس نے کہا :
میں چلا تو جاؤں لیکن تو پانی تو پی لے۔ دیکھ! تیرے ہونٹ خشک ہوگئے ہیں، تیری آنکھوں میں حلقے پڑے ہوئے ہیں۔
جلدی سے یہ پانی پی لے۔ آپ نے فرمایا: بھائی! اب کیا پیوں گا؟ ابھی ابھی اپنے چھ ماہ کے بچے کی قبر بنائی ہے جو پیاسا اُٹھ گیا۔ وہ میرے جوان بیٹے کی لاش پڑی ہوئی ہے جو پیاسا اُٹھ گیا۔ وہ میرا بھائی نہر کے کنارے پڑا ہوا ہے، پانی ہی کیلئے گیا تھا۔ اب میں کیا پانی پیوں گا۔ وہ کہتا ہے: پھر کیوں مانگ رہے تھے پانی؟ آپ نے فرمایا: اتمامِ حجت کررہا تھا کہ کل یہ نہ کہیں کہ مانگتے تو دے دیتے۔ مظلوم! یہ تیرا سارا خاندان تباہ ہوگیا، کوئی نہ رہا، آخر تیرا کیا قصور تھا؟
آپ نے فرمایا:
یہ قصور تھا کہ وہ کہتے تھے کہ یزید کی بیعت کرلو۔ میں کہتا تھا کہ فاسق و فاجر کی بیعت نہ کروں گا،دین تباہ ہوجائے گا۔ یہ جو لفظ آپ نے کہے تو وہ ایک مرتبہ گھبرا گیا۔
سر سے پاؤں تک دیکھا اور اس کے بعد کہتا ہے: مظلوم! تیرا وطن کہاں ہے؟ امام حسین نے فرمایا: مدینہ۔ ارے کس قبیلے کا ہے؟کہا بنی ہاشم۔ یہ جو کہا تو ایک مرتبہ اُس کا دل دھڑکنے لگا۔ رسول سے کیا قربت ہے؟ فرمایا: میرے نانا ہوتے ہیں۔ تیرا نام کیا ہے؟ کہا: حسین ابن علی ۔ یہ نام سننا تھا کہ وہ کہتا ہے کہ جنابِ فاطمہ زہرا کے فرزندآپ ہی ہیں؟ امام حسین نے فرمایا: ہاں، میں ہی ہوں۔ اُس نے کہا: آقا! مجھے بھی اجازت دیجئے کہ میں ان لوگوں سے لڑکر اپنی جان فدا کردوں۔ آپ نے فرمایا: تجھے اجازت نہیں دوں گا بلکہ تو اپنے گھر چلا جا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو تو اپنی ایک بیٹی چھوڑکر آیا ہے، وہ تجھے بہت یاد کرتی ہے۔ یا حسین ! سکینہ کا بھی کبھی خیال آیاکہ آپ کے بعد کیا ہوگا؟

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

عقل کا استعمال اور ادراکات کا سرچشمہ
عید مباہلہ
آیہٴ” ساٴل سائل۔۔۔“ کتب اھل سنت کی روشنی میں
انہدام جنت البقیع تاریخی عوامل اور اسباب
ماہ رمضان کے دنوں کی دعائیں
جمع بین الصلاتین
ہم اور قرآن
نہج البلاغہ کی شرح
شفاعت کا مفہوم
شب قدر کو کیوں مخفی رکھا گیا؟

 
user comment