اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

حضرت ابوطالب(ع) اور حضرت خدیجہ (س) کی رحلت

جناب رسول خدا (ص) اور اصحاب رسول (ص) کو شعب ابوطالب سے نجات ملی تو اس بات کی امید تھی کہ مصائب وآلام کے بعد ان کے حالات سازگار ہوجائیں گے اور خوشی کے دن آئیں گے مگر ابھی دو سال بھی نہ گزرے تھے کہ دو ایسے تلخ اور جانکاہ صدمات سے دوچار ہوئے جن کے باعث رسول خدا(ص) اور اصحاب رسول (ص) پر گویا غم واندوہ کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، رنج واندوہ کا سبب حضرت ابوطالب (ع) کی رحلت اور اس کے تین دن یا ایک ماہ بعد آپ (ص) کی جان نثار شریکہ حیات (حضرت خدیجہ (ع) ) کی بھی اس جہان فانی سے رحلت تھی _(1)
حضرت ابوطالب (ع) اور حضرت خدیجہ (ع) کو ''حجون'' نامی قریش کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا_
حضرت ابوطالب اور حضرت خدیجہ (ع) کی رحلت نے رسول خدا (ص) کو بہت مغموم و محزون کیا چنانچہ آپ (ص) نے اس غم والم کا اظہار ان الفاظ میں فرمایا کہ ان چند دنوں میں اس امت پر دو ایسی مصیبتیں نازل ہوئی ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ ان میں سے کس نے مجھے زیادہ متاثر کیا ہے_(2)
رسول خد ا(ص) پر اپنے واجب الاحترام چچا اور وفا شعار شریکہ حیات کی رحلت کا اس قدر صدمہ ہوا کہ آپ (ص) بہت ہی کم ، گھر سے باہر تشریف لاتے چونکہ یہ دونوں عظیم حادثات بعثت کے دسویں سال میں واقع ہوئے تھے اسی لئے ان کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس سال کو ''عام الحزن'' یعنی غم واندوہ کا سال کہاجانے لگا_(3)

حضرت ابوطالب (ع) کی مظلومیت

حضرت ابوطالب (ع) کو چونکہ اپنے بھتیجے کے اوصاف حمیدہ کا علم تھا اور اس امر سے بھی واقف تھے کہ آپ (ص) کو رسالت تفویض کی گئی ہے اسی لئے وہ آپ(ص) کی تنہائی کے وقت نہایت خاموشی سے آپ (ص) پر ایمان لے آئے تھے وہ رسول خدا (ص) کی بیالیس سال سے زیادہ عرصہ تک حفاظت ونگرانی کرتے رہے (یعنی اس وقت سے جب کہ رسول خدا(ص) کاسن مبارک آٹھ سال تھا اس وقت تک جبکہ آپ(ص) کا سن شریف پچاس سال کو پہنچ گیا ) وہ چونکہ حفاظت و حمایت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تھے اسی لئے وہ آپ (ص) کے پروانہ وار شیدائی تھے ، یہی وجہ تھی کہ انہوں نے رسول خدا (ص) کے آسمانی دین کی ترویج کی خاطر کبھی بھی جان ومال قربان کرنے سے دریغ نہیں کیا ، یہاں تک کہ انہوں نے اسی (80) سال سے زیادہ کی عمر میں اس وقت انتقال کیاجبکہ آپ (ع) کا دل خدا اور رسول (ص) پر ایمان سے منور تھا_
حضرت ابوطالب (ع) کی رحلت کے بعد دشمنوں کے آستینوں میں پوشیدہ ہاتھ بھی باہر نکل آئے اور وہ اس بات کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگے کہ صدر اسلام کے اس مرد مجاہد کی موت بحالت کفر واقع ہوئی ہے تاکہ لوگوں پر یہ ظاہر کرسکیں کہ یہ ان کا قومی جذبہ تھا جس نے انہیں اس ایثار و قربانی پرمجبور کیا _
حضرت ابوطالب(ع) کے ایمان کے متعلق شک و شبہ پیدا کرنے میںجو محرک کار فرماتھا اس کا مذہبی عقیدے سے زیادہ سیاسی پہلو تھا، بنی امیہ کی سیاسی حکمت عملی کی بنیاد چونکہ خاندان رسالت(ص) کے ساتھ دشمنی اور کینہ توزی پر قائم تھی اسی لئے انہوںنے بعض جعلی روایات پیغمبر اکرم (ص) سے منسوب کرکے حضرت ابوطالب (ع) کو کافر مشہور کرنے میںکوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیا وہ اس بات کو کہ وہ ایمان نہیں لائے تھے، فروغ دیکر لوگوں کو یہ باور کرانا چاہتے تھے کہ ان کے فرزند عزیز حضرت علی (ع) کو عظمت و فضیلت کے اعتبار سے دوسروں پر کوئی فوقیت و برتری حاصل نہیں ہے اور اس طرح آپ (ع) کی شخصیت داغدار ہوسکے اگر حضرت ابوطالب (ع) حضرت علی (ع) کے والد بزرگوار نہ ہوتے تو وہ ہرگز اس بات کا اتنا زیادہ چرچا نہ کرتے اور نہ ہی اس قدر نمایاں طور پر اتنا جو ش وخروش دکھاتے_
کوئی بھی ایسا انصاف پسند شخص جسے تاریخ اسلام سے معمولی واقفیت ہوگی اور پیغمبر اکرم (ص) کے اس عظیم حامی اور مددگارکی جدو جہد سے لبریز زندگی کے بارے میں علم رکھتا ہوگا وہ اپنے دل میں حضرت ابوطالب (ع) کے بارے میں ذرا بھی شک وشبہ نہ لائے گا جس کی دو وجوہات ہیں:
اول:_ ممکن ہے کوئی شخص قومی تعصب کی بناپر، کسی دوسری شخص یا قبیلے کی حمایت و حفاظت کی خاطرکچھ عرصے تک مرنے مارنے پر آمادہ ہوجائے لیکن یہ اس امر کا باعث نہیں ہوسکتا کہ وہ شخص چالیس سال تک نہ صرف حمایت وپشت پناہی کرے بلکہ اس شخص کا پروانہ وار شیفتہ بھی ہونیز اپنے جان سے بھی پیارے بیٹے کو اس پر قربان کردے_
دوم:_ یہ کہ حضرت ابوطالب (ع) کے اقوال و اشعار ، پیغمبر (ص) اور آئمہ معصومین علیہم السلام کی
احادیث اور روایات اس وہم وگمان کی تردید کرتے ہیں اور اس بات پر متفق ہیں کہ رسول خدا (ص) کی حمایت کا اصل محرک ان کا وہ راسخ عقیدہ اور محکم ایمان تھا جو انہیں رسول (ص) کی ذات بابرکت پر تھا_
چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام کی محفل میں حضرت ابوطالب (ع) کا ذکر آگیا تو آپ (ع) نے فرمایا :
''مجھے حےرت ہے کہ لوگوں کو حضرت ابوطالب (ع) کے ایمان پر کیوں شک و تردد ہے کیونکہ کوئی ایسی عورت جس نے دین اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل کرلیا وہ اپنے کافر شوہر کے عقد میں کیسے رہ سکتی ہے ، حضرت فاطمہ بنت اسد سلام اللہ علیہا ان اولین خواتین میں سے تھیں جودین اسلام کی سعادت سے مشرف ہوئیں چنانچہ جب تک حضرت ابوطالب (ع) زندہ رہے وہ ان سے جدا نہ ہوئے''_
حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے حضرت ابوطالب (ع) کے ایمان سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا :
''اگر حضرت ابوطالب (ع) کے ایمان کو ترازو کے ایک پلڑے میں رکھاجائے اور دوسرے پلڑے میں دیگر لوگوں کے ایمان کو رکھ کر تولاجائے تو یقینا حضرت ابوطالب (ع) کے ایمان کا پلڑا بھاری رہے گا_ کیا آپ لوگوں کو اس بات کا علم نہیں کہ امیرالمومنین حضرت علی (ع) نے بعض لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت ابوطالب (ع) کی جانب سے فریضہ حج ادا کریں''_(4)
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے رسول خدا (ص) کی حدیث بیان کرتے ہوئے فرمایا :
''حضرت ابوطالب (ع) کا ایمان اصحاب کہف کے ایمان کی طرح تھا کہ وہ لوگ دل سے
توایمان لے آئے تھے مگر زبان سے اس کا اظہار نہیں کرتے تھے ان کے اس عمل کا خداوند تعالی انہیں دو گنا اجر دے گا''_
دین اسلام کی ترویج و تبلیغ کےلئے حضرت ابوطالب (ع) کی خدمات کے بارے میں ابن ابی الحدید لکھتا ہے کہ :
''کسی شخص نے حضرت ابوطالب (ع) کے ایمان سے متعلق کتاب لکھی اور مجھ سے کہا کہ اس کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کروں اور اس پر اپنے ہاتھ سے کچھ لکھوں، میں نے کچھ اشعار اس کتاب کی پشت پرلکھ دیئے جن کا مضمون یہ تھا:

وَ لَولَا اَبُوُطَالبٌ وَابنُه
لَمَا مُثّلَ الدّینُ شَخصَاً فَقَاما
فَذاک بمَكَّةَ آوَی وَحامی
وَهذَا بيَثرَبَ جَسَّ الحماما

اگر ابوطالب (ع) اور ان کے فرزند حضرت علی (ع) نہ ہوتے تو دین اسلام ہرگزقائم نہیں ہوسکتا تھا باپ نے مکے میں پیغمبر (ص) کی حمایت کی اور بیٹا یثرب میں دین کی حمایت میں موت کی سر حد تک آگے بڑھ گیا_

حوالہ جات

1_الصحیح من سیرة النبی(ص) ج 2 ص 128_
2_تاریخ یعقوبی ج 2 ص 35_
3_السیرة الحلبیہ ج 1 ص 347_
4_شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج 14 ص 68_70 والغدیر ج 7 ص 380_

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تہذيبي انقلاب کي اہميت
حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)

 
user comment