اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

انصارحسین علیہ السلام ہی انصاراللہ ہیں (حصہ دوم)

انصارحسین علیہ السلام ہی انصاراللہ ہیں (حصہ دوم)

نمبر(38).>* عباد بن مھاجر بن ابج المھاجر جھنی *<
مکہ سے کوفہ کے راستے میں عرب کے ان صحرائی قبائل میں سے جنکی طرف سے گزر ھوتا تھا بہت سے لوگ خوش آئیند دنیوی توقعات کو پیشِ نظر رکھ کر اس قافلہ کے ساتھ ھوجاتے تھے.چنانچہ "میاہ جھنیہ" نام کے چشمہ کے پاس سے قبیلہ جھنیہ کے بہت سے لوگ اسی طرح آپ (ع) کے ساتھ ھوگئے تھے.ان ھی میں عباد بن مھاجر بھی تھے.جب جناب مسلم وھانی کے شہید ھوجانے کی خبر سننے کے بعد امام حسین علیہ السلام نے 'منزل زبالہ' پر لوگوں کو حقیقی صورتِ حال سے مطلع فرماتے ھوئے انجام سے ناواقف افراد کو اپنے قافلہ سے جدا ھونے کی ھدایت فرمائی اور اس کے نتیجہ میں سوا ان جاں نثاروں کے جو آپ (ع) کے ساتھ مدینہ سے آئے تھے تقریبًا سب منتشر ھوگئے تو عباد بن مھاجر اُن گنتی کے باوفا افراد میں سے تھے جنہوں نے امام (ع) کا ساتھ چھوڑنا پسند نہیں کیا اور وہ امام (ع) کے ساتھ رھے یہاں تک کہ وہ روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر(39).>* عبدالرحمٰن بن عبدرب انصاری خزرجی *<
صحابہ رسول (ص) میں سے حدیثِ غدیر کے راوی اور شاھد تھے.حضرت امیر علیہ السلام کے مخصوص شاگرد تھے.حضرت علی علیہ السلام نے خود انکو قرآن کی تعلیم دی اور انکی تربیت بھی فرمائی تھی.وہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مکہ سے روانہ ھوئے اور میدانِ کربلا تک برابر ھمراہ رکاب رھے.صبح ِ عاشور ان ھی سے بریر بن خضیر کی مزاحیہ گفتگو ھوئی تھی جسکا تذکرہ گزر چکا ھے.انہوں نے بھی حملہ اولٰی میں درجہ شہادت حاصل کیا.
**

نمبر(40).>* عبدالرحمٰن بن عبداللہ بن کدن ارجی *<
طبقہ تابعین میں سے معزز ، بہادر اور جنگ آزما تھے.کوفہ سے جو دوسرا وفد امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا گیا تھا جس کے ساتھ تقریبًا 53 عرضداشتیں امام (ع) کی خدمت میں ارسال کی گئی تھیں جن میں سے ھر ایک دو تین اور چار دستخطوں سے تھی.اس وفد میں قیس بن مسہر صیداوی اور عمارہ بن عبید سلولی کے ساتھ عبدالرحمٰن بن عبداللہ بھی تھے.اس کے بعد امام حسین علیہ السلام نے مسلم بن عقیل علیہ السلام کو کوفہ بھیجا تو عمارہ اور عبدالرحمٰن کو انکے ساتھ کر دیا.اس کے بعد عبدالرحمٰن بن عبداللہ کسی نہ کسی طرح کوفہ سے نکل کر میدانِ کربلا تک پہنچے اور امام حسین علیہ السلام کے اصحاب میں داخل ھوگئے یہاں تک کہ حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر(41).>* عبدالرحمٰن بن مسعود *<
وہ مسعود بن حجاج تیمی کے فرزند تھے جنکا تذکرہ سلسلہ شہداء میں بعد میں آئیگا.دونوں باپ بیٹے عمر سعد کے ساتھ آئے تھے اور محرم کی ساتویں تاریخ کو امام (ع) کی خدمت میں سلام کرنے کے قصد سے حاضر ھوئے.پھر واپس نہیں گئے.عبدالرحمٰن بن مسعود روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر(42).>* عبداللہ بن بشر خثعمی *<
پورا نام ونسب عبداللہ بن بشر بن ربیعہ بن عمرو بن منارة بن ممیر بن عامر بن ریشہ بن مالک بن واھب بن جلیحہ بن کلب بن ربیعہ بن عفرس بن خلف بن اقبل بن انمارالختعی ھے.
انکے والد بشر بن ربیعہ اپنے زمانے کے مشہور روزگار اور میدان جنگ کے نبردآزما شہسواروں میں سے تھے.کوفہ کا مشہور احاطہ جو "جبانہ بن بشر" کہلاتا تھا ان ھی کے نام سے منسوب تھا.جبگ قادسیہ کے ذیل میں انکا نام صفحاتِ تاریخ پر نمایاں ھے.انکے فرزند عبداللہ صفات شجاعت و جراءت و نام آوری میں ان ھی کے قدم بقدم تھے.میدانِ کربلا میں فوج عمر سعد کے ساتھ پہنچ کر خفیہ طریقہ پر انصارِ حسین علیہ السلام میں شامل ھوگئے یہاں تک کہ حملہ اولٰی میں درجہ شہادت حاصل کیا.
**

نمبر(43).>* عبداللہ بن یزید بن ثبیط قیسی *<
یزید بن ثبیط کے دس بیٹے تھے چنانچہ انہوں نے دسوں کے سامنے نصرتِ حسین علیہ السلام کا سوال پیش کیا لیکن ان میں سے صرف دو تھے جنہوں نے اس اھم ارادہ میں باپ کا ساتھ دیا.ان ھی دو میں ایک عبداللہ تھے.چنانچہ وہ اپنے والد کی ھمراھی میں بصرہ سے نکلے اور مقامِ ابطح پر پہنچ کر خدمتِ امام (ع) میں حاضر ھوئے.روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر(44).>* عبیداللہ بن یزید بن ثبیط قیسی *<
یہ یزید بن ثبیط کے دوسرے فرزند تھے جنہوں نے نصرتِ امام حسین علیہ السلام کے تہییہ میں انکا ساتھ دیا اور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر45).>* عقبہ بن صلت جھنی *<
"میاہ جھنیہ" کے اعراب میں سے جو اثنائے راہ سے قافلہ حسینی کے ساتھ ھوگئے تھے.ایک یہ بھی تھے اور منزلِ زبالہ میں امام حسین علیہ السلام کے حقیقتِ حال کے اظہار پر مشتمل خطبہ کو سنکر جب سوا خاص جان نثاروں کے اور سب نے اپنی اپنی راہ لی تو یہ امام (ع) کے ساتھ ھی رھے یہاں تک کہ روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر(46).>* عمار بن ابی سلامہ دالانی *<
نام ونسب:

عمار بن ابی سلامہ بن عبداللہ بن عمران بن راس بن دالان ھمدانی.
حافظ ابن حجر لکھتے ھیں کہ انہوں نے رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ کا ادراک کیا تھا اور علی بن ابی طالب علیھما السلام کے ساتھ جمل، صفین اور نہروان کی لڑائیوں میں شرکت کی تھی.کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر(47).>* عمار بن حسان طائی *<
نام ونسب :

عمار بن حسان بن شریح بن سعد بن حارثہ بن لام بن عمرو بن ظریف بن عمرو بن ثمامہ بن ذھل بن جذعان بن سعد بن طے.
مخصوص و ممتاز شیعانِ علی علیہ السلام میں سے مشہور بہادر و جنگ آزما تھے.انکے والد حسان بن شریح حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے اصحاب میں سے تھے اور جنگ صفین میں آپ (ع) ھی کی نصرت میں شہید ھوئے.عمار امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مکہ معظمہ سے آئے تھے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.انکی اولاد میں سے عبداللہ بن احمد بن عامر بن سلیمان بن صالح بن وھب بن عمار بن حسان بن شریح طائی جلیل القدر عالم اور فقیہہ تھے جو اپنے والد کے ذریعہ امام علی الرضا علیہ السلام سے روایت کرتے تھے اور "کتاب القضایا والاحکام" کے مصنف تھے.
**

نمبر(48).>* عمرو بن ضبیعۃ بن قیس بن ثعلبہ ضبعی تیمی *<
بہادر ، شہسوار اور جنگ کے میدان میں کارِ نمایاں انجام دیئے ھوئے تھے.عمر سعد کی فوج کے ساتھ میدانِ کربلا میں پہنچے پھر انصارِ امام حسین علیہ السلام میں شامل ھوگئے اور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر(49).>* عمران بن کعب بن حارث اشجعی *<
انکا شمار بھی حملہ اولٰی کے شہداء میں ھے.حالات معلوم نہیں.
**

نمبر (50).>* قارب مولی الحسین (علیہ السلام) *<
قارب بن عبداللہ بن اریقط لیثی دئلی.
انکی والدہ فکیہہ امام حسین علیہ السلام کی حرم سرا میں جناب رباب مادر جناب سکینہ سلام اللہ علیھنا کی کنیز تھیں اور انکی شادی عبداللہ بن اریقط کے ساتھ ھوئی اور اس طرح قارب کی ولادت ھوئی تھی وہ اپنی والدہ کی ھمراھی میں امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مدینہ سے مکہ اور پھر وھاں سے میدانِ کربلا تک پہنچے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر (51).>* قاسط بن زھیر بن حارث تغلبی *<
وہ اور انکے دو بھائی مقسط اور کردوس حضرت علی بن ابی طالب علیھما السلام کے اصحاب میں سے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ھوئے تھے.پھر امام حسن علیہ السلام کے ساتھ رھے.یہاں تک کہ آپ (ع) نے حجاز کی طرف مراجعت فرمائی.اس کے بعد وہ تینون بھائی کوفہ میں قیام پذیر ھے.یہاں تک کہ جب امام (ع) کربلا میں وارد ھوئے تو وہ تینوں بھائی کسی نہ کسی طرح امام (ع) کی خدمت میں پہنچے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر (52).>* قاسم بن حبیب بن ابی بشر ازدی *<
کوفہ کے شیعانِ علی علیہ السلام میں سے بہادر، دلیر اور شہوار تھے.عمر سعد کی فوج کے ساتھ کربلا پہنچے پھر پوشیدہ طریقہ پر امام (ع) کے ساتھ ملحق ھوگئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر (53).>* کردوس بن زھیر بن حارث تغلبی *<
وہ اور انکے بھائی قاسط بن زھیر اور دوسرے بھائی مقسط تینوں اصحاب حضرت علی علیہ السلام میں سے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ لڑائیوں میں شرکت کی تھی.کربلا میں خفیہ طریقہ پر خدمتِ امام حسین علیہ السلام میں پہنچے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر (54).>* کنانہ بن عتیق تغلبی *<
کنانہ بن عتیق بن معاویہ بن جماعۃ بن قیس تغلبی کوفی شجاعانِ روزگار میں سے عابد و زاھد اور حافظِ قرآن تھے.لڑائی اٹھنے سے پہلے میدانِ کربلا میں خدمتِ امام (ع) میں پہنچے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر (55).>* مجمع بن زیاد بن عمرو جھنی *<
"میاة جھنیہ" کے اعراب میں سے جو اثنائے راہ میں امام (ع) کے ساتھ ھوگئے تھے اور جب منزلِ زبالہ میں امام (ع) کے خطبہ کو سنکر سوا مخصوص جان نثاروں کے دوسرے تمام لوگ متفرق ھوگئے تو مجمع بن زیاد امام (ع) کے ھمراہ ھی رھے اور روزِ عاشور پہلے انکا گھوڑا زخمی ھوکر پے ھوا پھر چند آدمیوں کو قتل کرکے وہ دشمنوں میں گھر گئے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر (56).>* مسعود بن حجاج تیمی *<
کوفہ کے بڑے مشہور شیعہ علی علیہ السلام اور لڑائیوں میں کام کیے ھوئے تھے.اپنے فرزند عبدالرحمٰن بن مسعود کے ساتھ عمر سعد کی فوج میں میدانِ کربلا تک پہنچے اور ساتویں محرم کو امام (ع) کی خدمت میں سلام کرنے کےلیے حاضر ھوئے تو پھر واپس نہیں گئے.روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**

نمبر (57).>* مسلم بن کثیر صدفی ازدی *<
قبیلہ ازدشنوہ میں سے اعرج یعنی لنگ تھے.انہوں نے رسالتمآب صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ادراک کیا تھا.جنگِ جمل میں حضرت امیر علیہ السلام کی نصرت میں شریکِ جنگ تھے کہ پنڈلی پر تیر پڑا جسکا اثر رھا.کوفہ دے نصرتِ امام حسین علیہ السلام کا تہیہ کرکے روانہ ھوئے اور کربلا میں پہنچ کر آپ (ع) سے قدم بوس ھوئے.حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر (58)>* مقسط بن زھیر بن حارث تغلبی *<
وہ اور انکے قاسط اور کردوس اصحابِ حضرت علی علیہ السلام میں سے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ لڑائیوں میں شریک ھوئے تھے وہ سب میدانِ مربلا میں خفیہ طریقہ پر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر (59).>* منیع بن زیاد *<
انکا شمار بھی حملہ اولٰی کے شہداء میں ھے.حالات معلوم نہیں.
**

نمبر (60).>* نصر بن ابی نیزر *<
ابو نیزر نجاشی بادشاہِ حبشہ یا کسی اور ملکِ عجم کے بادشاہ کی نسل سے تھے.بچپنے میں دینِ اسلام سے مشرف ھونے کا شوق پیدا ھوا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور مذھبِ اسلام اختیار کیا تو آنحضرت (ص) نے انکی تربیت فرمائی اور آپ (ص) کی وفات کے بعد وہ حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں رھے اور آپ (ع) کے مملوکہ ایک نخلستان میں اصلاح و تربیت کے کام پر مامور ھوئے.
انکے فرزند نصر نے اپنی کمسنی اور نوجوانی کا زمانہ حضرت علی اور امام حسن علیھماالسلام کے ساتھ اور بقیہ زندگی کا دور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں گزارا.یہاں تک کہ سفرِ عراق میں آپ (ع) کے ساتھ مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا پہنچے اور حملہ اولٰی میں پہلے انکا گھوڑا کام آیا پھر وہ خود درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر (61).>* نعمان بن عمرو ادی *<
کوفہ کے باشندہ اصحابِ حضرت علی علیہ السلام میں سے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ جنگِ صفین میں بھی شریک ھوئے تھے.وہ اور انکے بھائی حلاس بن عمرو ازدی کربلا میں عمر سعد کی فوج کے ساتھ پہنچے تھے اور شرائطِ صلح مسترد ھونے پر اصحابِ حسین علیہ السلام سے ملحق ھوگئے.یہاں تک کہ حملہ اولٰی میں درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر(62).>* نعیم بن عجلان انصاری *<
نعیم بن عجلان بن نعمان بن عامر بن زریق الانصاری الخزرجی اور وہ اور انکے دو بھائی نضر اور نعمان اصحابِ امیرالمومنین علیہ السلام میں سے تھے اور جنگِ صفین میں کارِ نمایاں انجام دیئے تھے اور تینوں شجاعانِ روزگار اور شعراء میں شمار ھوتے تھے.
نعمان بن عجلان کو حضرت علی علیہ السلام نے عمرو بن سلمہ مخزومی کو معزول فرماکر بحرین کا حاکم مقرر کیا تھا.
نضر اور نعمان دونوں نے امام حسن علیہ السلام کی خلافت کے زمانے میں انتقال کیا اور نعیم کوفہ میں مقیم رھے.جب امام حسین علیہ السلام سرزمینِ عراق پر پہنچے تو وہ کوفہ سے کسی نہ کسی طرح نکل کر آپ (ع) کی خدمت میں پہنچ گئے اور روزِ عاشور حملہ اولٰی میں شہید ھوئے.
**
**- یہاں پر حملہ اولٰی کے پچاس شہداء کی تعداد پوری ھوگئی.اب ان اصحاب کا تذکرہ کیا جائیگا جو حملہ اولٰی کے بعد "نماز ظہر" تک شہید ھوئے تھے.
**

>** خیمہ گاھِ حسینی پر ھجوم **<
جب تک حسینی جماعت اپنی مختصر تعداد میں سہی پوری موجود تھی.اس وقت تک دشمنوں کےلیے آگے بڑھنا ممکن نہ ھوسکا تھا لیکن اب جبکہ حملہ اولٰی کے ذیل میں پچاس نفوس اس جماعت کے یکبارگی شہید ھوگئے اور جتنے انصارِ حسین علیہ السلام باقی رہ گئے ان میں سے کسی کے پاس سواری کےلیے گھوڑا نہ رھا تو اب لشکرِ مخالف کو جراءت ھوئی کہ وہ خیامِ حسینی کا رخ کرے.اس موقع پر اگرچہ اصحابِ حسین علیہ السلام کی تعداد بہت کم ھوچکی تھی مگر پھر بھی انکی شجاعت کا عالم یہ تھا کہ تاریخ کا بیان ھے :"انہوں نے جنگ کی یہاں تک کہ دوپہر کا وقت ھوگیا.دنیا کی سخت ترین جنگ جو خلقِ خدا میں کبھی کسی کی نظر سے گزری ھو"
یزیدی لشکر کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح پسِ پشت پہنچ کر ان بہادروں کو گھیرے میں لےلے مگر پشت کی جانب انکے خیمے تھے جنہیں امام کے حکم سے اس طرح ایک دوسرے سے متصل اور طناب اندر طناب کردیا گیا تھا کہ انہوں نے ایک مضبوط دیوار اور حصار کی شکل اختیار کرلی تھی اس لیے اس طرف سے حملہ غیرممکن تھا.عمر سعد نے یہ دیکھا تو حکم دیا کہ طنابیں کاٹ کر خیموں کو انکے چپ و راست سے گرادیا جائے تاکہ پورے طور سے محاصرہ کرنا ممکن ھوسکے.اصحابِ حسین علیہ السلام نے جو یہ دیکھا تو متفرق طور پر اپنے اپنے خیموں کے اندر داخل ھوکر منتظر رھے یہاں تک کہ جب کسی خیمہ میں کوئی داخل ھوتا کہ طنابیں کاٹ کر اسکو گرائے تو وہ فورًا قتل کردیا جاتا اور لاش باھر پھینک دی جاتی.جب عمر سعد کو اپنی اس تدبیر میں بھی ناکامی ھوئی تو اس نے کہا کہ 'اچھا کسی خیمہ کے اندر جاکر گرانے کی کوشش نہ کرو بلکہ ان سب خیموں میں آگ لگا دو'
ظاھر ھے کہ امام حسین علیہ السلام کا خیمہ اور حرم سرائے عصمت آپ (ع) کے اصحاب کے مسلسل خیموں کی قطار سے علٰیحدہ تھے.دشمن کے سپاھی جب ان خیموں میں آگ لگانے لگے تو امام (ع) کہ آگ لگا لینے دو اس لیے کہ جب وہ آگ لگادیں گے اور شعلے بھڑکنے لگیں گے تو پھر وہ بھی اس طرف سے تم پر حملہ نہ کرسکیں گے اور جو اُنکا مقصد ھے وہ پورا نہ ھوگا.چنانچہ اصحابِ حسین علیہ السلام نے مدافعت چھوڑ دی اور دشمن آگ لگانے میں کامیاب ھوگیا.مگر نتیجہ نے ظاھر کردیا کہ عمر سعد نے تدبیرِ جنگ کے لحاظ سے غلطی کی اور امام حسین علیہ السلام کی رائے دشمنوں کے تجربہ میں بالکل صائب ثابت ھوئی یعنی آگ لگادینے سے دشمن کے لیے اس طرف کا راستہ بند ھوگیا اور اس کے بعد بھی مقابلہ سامنے ھی کی جانب سے کیا جاسکا.اس تدبیر کے بھی ناکام ھونے پر کمینہ طینت شمر برافروختہ ھوگیا اور اس نے حملہ کرکے خاص خیمہ امام حسین علیہ السلام پر نیزہ مارتے ھوئے کہا کہ آگ لاؤ تاکہ میں اس خیمہ کو اس کے رھنے والے سمیت جلادوں.اس آواز کے سننے سے حرم سرائے عصمت میں ایک شور نالہ و فریاد کا بلند ھوا.امام حسین علیہ السلام نے اسکو للکار کر فرمایا کہ :
"اے شمر تو آگ اس لیےمنگارھاھے
کہ میرے خیمہ کو میرے اھل و عیال سمیت جلادے.خدا تجھے آگ سے جلنا نصیب کرے"
لشکرِ یزید کے دوسرے سرداروں نے بھی شمر کو منع کیا اور شبث بن ربیع نے شمر کے پاس جاکر کہا 'میں نے آج تک ایسی شرمناک بات نہیں سنی جیسی تم زبان سے نکال رھے ھو اور نہ اس سے بدتر اقدام دیکھا جسکا تم نے ارادہ کیا ھے.تم عورتوں کو خوفزدہ کرتے ھو؟' ان سبکی مخالفت سے مرعوب ھوکر شمر اپنے ارادہ سے باز آکر خیمہ کے دروازہ سے ھٹ گیا.
اتنی دیر میں زھیر بن قین نے دس بہادر ساتھیوں کو ساتھ لیکر حملہ کردیا اتنا سخت حملہ کہ شمر اور اس کے ساتھ والی فوج کو خیموں کے پاس سے دور کردیا اور ابوغزہ ضبابی کو جو شمر کا خاص آدمی تھا قتل کردیا.افواجِ یزید نے جو اپنے ایک سربرآوردہ ساتھی کو اس حملہ میں قتل ھوتے دیکھا تو پورے جوش و خروش کے ساتھ ان دسوں آدمیوں پر ٹوٹ پڑے اور سخت خونریز لڑائی ھوئی مگر ان بہادروں نے بھی بڑی پامردی سے مقابلہ کیا جس کے نتیجہ میں دشمن کو شکست ھوئی.
پھر بھی کثرت اور قلت کا مقابلہ ھی کیا؟ صورت یہ تھی کہ اس مختصر جماعت کے ایک دو بھی قتل ھوتے تھے تو اس سے نمایاں کمی ظاھر ھونے لگتی تھی برخلاف افواجِ یزید کے جو کثیر تعداد میں تھے.اس لیے جتنے بھی قتل ھوتے تو کچھ پتہ نہ چلتا تھا.
**

**- جو اصحابِ حسین علیہ السلام اس کے بعد سے دوپہر کے وقت تک نماز ظہر کے ھنگامہ سے پہلے شہید ھوئے ان کے نام تاریخ میں حسبِ ذیل ملتے ھیں.
**
نمبر (63).>* بکر بن حی تیمی *<
عمر سعد کی فوج کے ساتھ کربلا آئے تھے مگر جنگ چھڑنے کے بعد توفیقِ الہی دستگیر ھوئی اور امام حسین علیہ السلام کی طرف آکر شریکِ جہاد ھوئے اور حملہ اولٰی کے بعد درجہ شہادت پر فائز ھوئے.
**

نمبر (64).>* عمرو بن جنادہ بن کعب خزرجی *<
انکے والد جنادہ بن کعب کا تذکرہ حملہ اولٰی کے شہداء میں ھوچکا ھے.عمرو بن جنادہ کا واقعہ کربلا میں نو یا دس برس کا سن تھا.انکی والدہ بحریہ بنت مسعود تھیں جو اپنے شوھر کے ساتھ میدانِ کربلا میں موجود تھیں.جب جنادہ درجہ شہادت پر فائز ھوچکے تو انکی بیوہ نے یتیم بچہ کو بھی ھدایت کی وہ بھی جائے اور امام حسین علیہ السلام کی نصرت میں جنگ کرے.بچہ خدمتِ امام (ع) میں آیا اور طالبِ اجازت ھوا.آپ (ع) نے اجازت دینے سے انکار کیا.بچہ نے پھر رخصت طلب کی.آپ (ع) نے اصحاب کی طرف رخ کرکے فرمایا "ابھی تو اسکا باپ معرکہ جنگ میں قتل ھوچکا ھے اب اگر یہ بھی قتل ھوگیا تو اسکی ماں کے دل پر کیا گزریگی.یہ سنکر بچہ نے کہا آقا! میری ماں نے ھی تو مجھے بھیجا ھے اور انہوں نے ھی مجھے یہ جنگ کا لباس پہنایا ھے.بہرطور اجازت حاصل کرکے بچہ میدان میں آیا اور لڑ کر قتل ھوا.افواجِ یزید میں سے کسی بےرحم نے بچہ کا سر کاٹ کر جماعتِ حسینی کی طرف پھینک دیا.شیردل ماں نے بچہ کا سر اٹھا لیا اور کہا شاباش ! بیٹا شاباش !! تونے امام (ع) پر نثار ھوکر میرا دل خوش اور میری آنکھوں کو خنک کیا" پھر اس نے سر کو فوجِ دشمن کی طرف پھینک دیا اور خود ایک طزف آھنیں لیکر دشمنوں پر حملہ آور ھوئی مگر امام (ع) نے اسے گوارا نہ کیا اور اس کو خیمہ کی جانب واپس فرمادیا.
**

>** ظہر کا ھنگام اورنماز ظہر کا ھنگامہ **<
لشکر یزید کو اب یہ فکر تھی کہ کسی طرح مہم جلد سرجائے.اسی عالم میں ظُہر کا وقت ھوگیا.ادھر ابوثمامہ عمرو بن عبداللہ صائدی نے امام (ع) کی خدمت میں عرض کیا کہ "مولا ، یہ لوگ اب آپ (ع) کے بالکل قریب آگئے ھیں اور یہ یقینی ھے کہ آپ (ع) پر آنچ آنے سے پہلے میں قتل ھو جاؤں گا.میں چاھتا ھوں کہ اس نماز کو کہ جس کا وقت آگیا ھے آپ (ع) کے ساتھ پڑہ لوں اور اس کے بعد خدا کی بارگاھ میں جاؤں"
امام (ع) نے آسمان کی پر نظر کرتے ھوئے فرمایا "تم نے نماز کو یاد کیا.خدا تم کو نمازگزاروں
اور یاد رکھنے والوں میں محسوب کرے. ھاں
یہ نماز کا اول وقت ھے"
پھر آپ (ع) نے فرمایا "ان لوگوں سے کہو کہ اتنی دیر جنگ سے ھاتھ روک لیں کہ ھم نماز پڑہ لیں"
اللہ اللہ ! رسول اللہ (ص) کا فرزند جس کے گھر سے نماز کی بنیاد قائم ھوئی وہ نماز کی خواھش کرے اور وہ پوری نہ کی جائے بلکہ مہلت کے سوال پر حصین بن تمیم صف سے باھر نکلے اور کہے کہ تمہاری نماز قبول نہیں ھے.
**

نمبر (65).>* حبیب بن مظاھر اسدی *<
نام و نسب :

حبیب بن مظاھر بن رئاب بن اشتر بن خجوان بن فقص بن طریف بن عمرو بن قیس بن حارث بن ثعلبۃ بن دوران بن اسد
کنیت :

ابوالقاسم
عرب کے مشہور شہسوار ربیعہ بن خوط بن رئاب کے چچازاد بھائی تھے.
ابن کلبی کی روایت کے مطابق صحابی تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی زیارت سے مشرف ھوئے تھے.شیخ طوسی نے انہیں اصحابِ امیرالمومنین علیہ السلام پھر اصحابِ امام حسن علیہ السلام اور اصحابِ امام حسین علیہ السلام میں درج کیا ھے.
حبیب بن مظاھر ، میثم تمار اور رشید ھجری کی طرح حضرت علی علیہ السلام کے صحابہ بااختصاص میں سے تھے جنہیں آپ (ع) نے خاص طور سے علومِ باطنی اور اسرار کی تعلیم دی تھی.
سب سے پہلے جب معاویہ کے انتقال کی خبر کوفہ پہنچی تھی اور امام حسین علیہ السلام کو کوفہ کی طرف بلانے کا خیال بعض دماغوں میں پیدا ھوا تھا تو سلیمان بن صرد خزاعی کے مکان پر شیعانِ کوفہ کا اجتماع ھوا تھا.اس جلسہ کی روداد سے ظاھر ھوت ھے کہ اس موقع پر حبیب بن مظاھر بھی موجود تھے.صرف موجود ھی نہیں تھے بلکہ وہ اس جماعت میں نمایاں اور ذمہ دارانہ حیثیت رکھتے تھے.چنانچہ جو پہلا خط امام حسین علیہ السلام کے نام شیعانِ کوفہ کی طرف سے بھیجا گیا تھا اس میں سلیمان بن صرد وغیرہ کے ساتھ انکا نام بھی خصوصیت کے ساتھ ثبت تھا اور جب جناب مسلم علیہ السلام کوفہ میں وارد ھوکر مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کے مکان میں فروکش ھوئے تھے تو سب سے پہلا اجتماع شیعوں کا جو ھوا تھا اس میں جناب مسلم (ع) نے امام حسین علیہ السلام کا خط پڑھ کر سنایا تھا.اس موقع پر سب سے پہلی تقریر عابس بن ابی شبیب شاکری نے کی تھی اور اسکی تائید حبیب بن مظاھر نے کی تھی جسکا خلاصہ یہ تھا کہ "ھم دوسرے لوگوں کے متعلق ذمہ داری نہیں لیتے مگر جہاں تک ھماری ذات کا تعلق ھے ھر طرح امداد کےلیے آمادہ ھیں"
میدانِ کربلا میں حضرت امام حسین علیہ السلام کے پاس پہنچنے کے بعد سے وہ برابر ایسے مواقع کے منتظر رھتے تھے کہ دشمن کے ساتھ گفت و شنید کے ذریعہ نصیحت کے فرض کو انجام دے سکیں.چنانچہ جب عمر بن سعد نے قرة بن قیس حنظلی کو امام حسین علیہ السلام کے پاس بصیغہ مراسلت بھیجا تھا اور قرة بن قیس نے امام (ع) کے پاس آکر عمر سعد کا پیغام پہنچاکر واپس جانا چاھا تھا تو حبیب نے کہا تھا "قرة بن قیس ، ظالم جماعت کی طرف کہاں جارھے ھو.اس بزرگ کی نصرت کرو جس کے نانا کی بدولت خدا نے تمکو اور ھمکو اسلام کی عزت عطا کی" قرة نے کہا تھا کہ میں جاکر پیغام کا جواب کہہ دوں تو پھر اس مسئلہ پر غور کرونگا.
اس تقریر کا اثر قرة کے دل پر ضرور ھوا تھا چنانچہ بعد میں وہ کہا کرتا تھا کہ اگر حُر جاتے وقت اپنا ارادہ مجھ پر ظاھر کردیتے تو میں بھی ان کے ساتھ نصرتِ حسین علیہ السلام کےلیے چلا جاتا.اس تاسف اور اظہارِ رنج سے ظاھر ھے کہ دل اس کا احساس سے معمور ھوچکا تھا اور ضمیر آمادہ کررھا تھا مگر اس میں قوتِ ارادی اتنی نہ تھی کہ وہ حُر کی طرح اس خیال کو عملی جامہ پہنا سکتا.وہ اس کےلیے سہارے کا محتاج تھا اور یہ اسکی عملی کمزوری تھی کہ سہارا نہ ملنے سے اس کے قدم رُک گئے.
نوویں تاریخ کی شام کو جب افواجِ یزید نے دفعۃً جماعتِ حسینی پر حملہ کردیا اور امام (ع) نے جناب ابوالفضل العباس علیہ السلام کو مقصد دریافت کرنے کے لیے بھیجا اور جناب عباس علیہ السلام بیس سواروں کے ساتھ جن میں زھیر بن قین اور حبیب بن مظاھر بھی تھے انکے سامنے گئے اور پوچھا کہ اس بےوقت اقدام کا کیا منشاء ھے اور جواب ملا کہ ابن زیاد کا حکم آیا ھے کہ یا تم سے بیعت لی جائے یا جنگ کی جائے.
جنابِ عباس علیہ السلام یہ کہہ کر کہ میں امام سے دریافت کرلوں تو آکر تمکو جواب دیتا ھوں.امام (ع) کی خدمت میں واپس گئے اور دوسرے اصحاب وھیں کھڑے رھے.تو اس وقفہ کو بھی حبیب بن مظاھر نے بیکار نہ جانے دیا.زھیر بن قین سے کہا کہ ان لوگوں سے تم کچھ گفتگو کرو اور نہیں تو میں کچھ بات چیت کروں.زھیر نے کہا نہیں آپ ھی گفتگو کیجئے.اس وقت حبیب نے مخالف مجمع کو مخاطب کرتے ھوئے حسبِ ذیل تقریر کی


"سوچو تو! کتنا برا انجام ھوگاپیشِ خدا اس جماعت کاجو اس کے سامنے جائے گی اس حالت میں کہ اسنےاولادِ رسول (ص) کا خون بہایا ھو اور ملک کے ان عبادت گزاروں کو قتل کیاھو جو پچھلے
پہر سےاٹھنے والےاور کثرت سے ذکرِ الہی کرنیوالے ھوں"


عزرہ بن قیس نے جو ایک خفیف الحرکات مسخرہ انسان تھا بات کاٹنے کےلیے پکار کر کہا حبیب ! تم اپنی طرف ھر موقع پر اشارہ کرتے رھتے ھو کہ میں بڑا عبادت گزار ھوں' یہ بے موقع مداخلت سنکر زھیر بن قین کو غصہ آگیا اور انہوں نے کہا "عزرہ اس میں شک ھی کیا ھے؟بلاشبہ حبیب کا نفس ایسا ھی ھے جسکا خدا نے تزکیہ کیا ھے اور اسکو صحیح راستہ پر چلنے کی توفیق عطا کی ھے"
شبِ عاشور حبیب بن مظاھر نے امام حسین علیہ السلام سے اجازت چاھی کہ وہ جاکر قبیلہ بنی اسد سے جو اطراف میں مقیم ھیں آپ (ع) کی نصرت کی خواھش کریں چنانچہ امام (ع) نے اجازت دیدی اور حبیب نے بنی اسد کے مجمع میں جاکر وعظ و نصیحت کے ذریعہ اُنہیں نصرتِ امام (ع) کے فریضہ کی طرف توجہ دلائی جس پر سب سے پہلے عبدالرحمٰن بن بشیر اسدی نے لبیک کہی اور پھر دوسرے لوگ بھی آمادہ ھوکر حبیب کے ساتھ جماعتِ حسینی کی طرف روانہ ھوئے مگر یہ کہ اس واقعہ کی خبر عمر سعد کو ھوگئی اور اس نے پانچ سو سوار سدِراہ ھونے کےلیے بھیج دیئے جن کے مقابلہ کی یہ جماعت تاب نہ لاسکی اور سب لوگ واپس چلے گئے.ناچار حبیب خدمتِ امام (ع) میں تنہا واپس پہنچے.
صبحِ عاشور جب امام حسین علیہ السلام نے اپنا تاریخی خطبہ ارشاد کیا تھا اور شمر نے انتہائی بے شرمی ، بےحیائی اور کمینہ فطرتی سے آپ (ع) کی تقریر میں مداخلت کی اور کہا کہ 'میں منافق ھوں اور خدا کی عبادت ایک حرف پر کرتا ھوں (یعنی صرف زبانی) اگر کچھ میری سمجھ میں آرھا ھو کہ آپ کیا کہتے ھیں' تو حبیب بن مظاھر ھی تھے جنہوں نے اس گستاخی کا جواب دیا یہ کہہ کر "بخدا میں سمجھتا ھوں کہ تو خدا کی ستر حرفوں پر عبادت کرتا ھے (یعنی تیری عبادت مخلصانہ حیثیت سے یکرنگ نہیں بلکہ ھفتاد رنگ ھے) اور میں گواھی دیتا ھوں کہ تو سچ کہتا ھے، تیری کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ امام (ع) کیا فرماتے ھیں کیونکہ تیرے دل پر مہر لگ چکی ھے"

پھر جب امام (ع) نے اپنی مختصر جماعت کو ترتیب دیا تو میسرہ کا سردار حبیب بن مظاھر کو قرار دیا.
جب مسلم بن عوسجہ مجروح ھوکر گرے اور امام حسین علیہ السلام انکے سرھانے تشریف لے گئے تو حبیب نے جو آپ (ع) کے ساتھ ساتھ تھے مسلم کو انکی شہادت پر مبارکباد دینے کے بعد کہا اگر مجھے یہ یقین نہ ھوتا کہ میں بھی بہت جلد تم سے آکر ملتا ھوں تو کہتا کہ کچھ وصیت کرو تاکہ میں اس وصیت کو پورا کروں اور اس طرح جو تمہاری قرابت اور مذھبی خصوصیت کا حق ھے اسکو ادا کروں.جواب میں مسلم بن عوسجہ نے امام حسین علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ھوئے کہا کہ اور تو کچھ نہیں وصیت بس یہ ھے کہ انکی نصرت سے ھاتھ نہ اٹھانا.ظاھر ھے کہ اس وصیت نے حبیب بن مظاھر کے دھکتے ھوئے جذبہ قربانی کےلیے ھوا سے کچھ کم کام نہ دیا ھوگا.
پھر کہاں ممکن تھا کہ حصین بن تمیم کے اس گستاخانہ کلام کو جو اس نے امام حسین علیہ السلام کی جانب سے نمازِ ظہر کےلیے التوائے جنگ کی خواھش پر کیا تھا وہ ٹھنڈے دل سے گوارہ کرلیتے؟ چنانچہ انہوں نے بیتاب ھوکر کہا "قبول نہیں ھے؟رسول اللہ (ص) کے فرزند کی نماز تیرے خیال میں قبول نہیں اور تیری نماز قبول ھے؟" حصین نے یہ سنکر حملہ کردیا اور حبیب بھی مقابلہ پر آگئے اور انہوں نے اسکے گھوڑے کے منہ پر تلوار ماری جس سے وہ الف ھوگیا اور حصین زمین پر گرگیا.مگر اس کے ساتھیوں نے بڑھ کر اسے اپنے حلقہ میں لے لیا اور حبیب کے ھاتھوں سے بچاکر لے گئے.
اب حبیب میدانِ جنگ میں آھی چکے تھے.ایمان کا جوش اور شجاعت کی امنگ ، دشمن کی جراءت و جسارت کا غصہ اور اس کے زندہ نکل جانیکا رنج.چنانچہ وہ اس مضمون کا شعر پڑھنے لگے :
"میں قسم کھاتاھوں کہ ھم اگر تعداد میں تمہارے برابر ھوتے یا تمہارے آدھے بھی ھوتے توتم ھمارےسامنے سےیقینی بھاگ جاتےاےبدترین خلائق حسب و نسب اور اخلاق کےلحاظ سے"
پھر انہوں نے دوسرے شعر پڑھے جنکا مضمون یہ تھا :
"میں حبیب ھوں اور میرے باپ کا نام مظاھرھے.میدانِ جنگ اوربھڑکتی ھوئی لڑائی کےھنگام کاشہسوارھوں.تمہاری تعداد ھم سے زیادہ ھے اور لڑائی کا سامان تمہارےپاس فراواں ھے مگر ھم اپنی بات کے زیادہ دھنی اور مشکلات
کے زیادہ برداشت کرنیوالے ھیں اسکے علاوہ حجت ھماری بالا ، حقیقت نمایاں فرائض کی پابندی زیادہ اور دامن صاف ھے"
ان اشعار میں حبیب بن مظاھر نے اصحابِ حسین علیہ السلام کے کردار اور ان نفسیاتی خواص کو جو اُن کے ثبات واستقلال کے ذمہ وار تھے صاف طور پر بیان کیا ھے.
حبیب نے سخت جنگ کی یہاں تک کہ ایک تمیمی پہلوان نے جسکا نام بدیل بن صریم تھا حبیب پر حملہ کیا.حبیب نے ایک ضربِ شمشیر میں اسکا کام تمام کیا لیکن اسی کے ساتھ بنی تمیم کے ایک دوسرے شخص نے ان پر نیزہ کا وار کردیا جس سے وہ زمین پر آرھے.ابھی وہ اٹھنا ھی چاھتے تھے کہ انکے پہلے کے شکست خوردہ حریف حصین بن تمیم نے انکے سر پر تلوار لگائی جس سے وہ بےجان ھوکر گرگئے.وہ تمیمی جس کے نیزہ کے وار نے حبیب کو زمین پر گرایا تھا انکا سر کاٹنے کےلیے قریب آیا تو حصین نے کہا کہ 'میں انکے قتل میں شریک ھوں' تمیمی نے کہا 'نہیں، کام میں نے تمام کیا ھے' آخر حصین نے کہا کہ 'مجھے اتنا کرلینے دو کہ میں انکا سر اپنے گھوڑے کی گردن سے باندھ کر ایک دفعہ لشکر میں گردش کرلوں تاکہ لوگ دیکھ لیں کہ میں نے انکے قتل میں شرکت کی ھے.پھر تم اسکو لے لینا اور ابن زیاد کے پاس لے جانا.وھاں سے جو انعام ملے گا اس میں میں حصہ نہیں لوں گا' پہلے تو تمیمی نے انکار کیا مگر لوگوں کے کہنے سننے سے راضی ھوگیا.اس طرح گویا اس پہلی شکست کی خفت مٹائی جو اسے حبیب کے مقابلہ میں حاصل ھوچکی تھی.
حبیب بن مظاھر کی شہادت کا امام حسین علیہ السلام پر خاص اثر ھوا.
((جب شہادت امام حسین علیہ السلام کے بعد فوج والے کوفہ واپس ھوئے تو حبیب کا سر انکے تمیمی قاتل نے لیکر اپنے گھوڑے کی گردن میں آویزاں کرلیا اور اس طرح ابن زیاد کے محل کی طرف چلا.راستے میں حبیب بن مظاھر کے فرزند قاسم بن حبیب کی نظر اس پر پڑی تو وہ اس شخص کے ساتھ ھولیے اور اس سے منت سماجت کے ساتھ کہا کہ یہ میرے باپ کا سر مجھے دیدو کہ میں دفن کردوں.اس نے انکار کیا اور کہا یہ کیونکر ھوسکتا ھے مجھے تو ابن زیاد سے انعام لینا ھے.بچہ بےبسی کے ساتھ رو کر رہ گیا اور وقت کا منتظر ھوگیا.مصعب بن زبیر کے عہد حکومت میں جب باجمیرا (مقام) پر فوج کشی ھوئی تو یہ تمیمی ظالم بھی فوج میں تھا.اس دوران ایک دن قاسم بن حبیب نے موقع پاکر اسے قتل کردیا))
**

>* شہادت حُر *<
حُر بن یزید ریاحی نے جنکے حالات میں پہلے درج ھوچکا ھے کہ وہ حملہ اولٰی میں اپنے گھوڑے کے پے ھونے کے بعد پیادہ ھوچکے تھے اور اس سے پہلے کئی مرتبہ لڑ بھی چکے تھے.اب حبیب بن مظاھر کی شہادت کے بعد مضبوط ارادہ کر لیا کہ وہ شرفِ شہادت کو حاصل کرکے رھیں گے.چنانچہ انہوں نے میدان میں نکل کر یہ رجز پڑھنا شروع کیا :
"میں قسم کھاتا ھوں کہ میں قتل نہ ھوں گاجب تک دشمنوں کو قتل نہ کر لوں اورمارانہ جاؤں گامگرپیش قدمی کی حالت میں ، آج تلواریں لگاؤں گا فیصلہ کن تلواریں ، اور نہ میرے قدم پیچھے ھٹیں گے اور نہ کمزوری کا اظہار ھوگا"
کبھی کہتے تھے کہ :
"میں شمشیرزنی کروں گااس بہترین خلائق کی طرف سے جس کے قیام نے سرزمینِ حرم کو عزت بخشی"
معلوم نہیں امام (ع) کا اشارہ تھا یا خود اپنی خواھش سے زھیر بن قین نے حُر کے ساتھ مل کر جہاد شروع کیا.حالت یہ تھی کہ جب ایک گِھر جاتا تھا تو دوسرا بڑھ کر اسکو چھڑانے کی کوشش کرتا تھا.تھوڑی دیر یہی صورت قائم رھی لیکن اس کے بعد پیادوں کی فوج نے حُر کو سختی سے گھیرلیا.اور زھیر بب قین کی مدافعت ناکام رھی.بہت سے لوگ ٹوٹ پڑے اور ایوب بن مسرح کے ساتھ ایک اور شخص نے کوفہ کے شہسواروں سے مل کر حُر کو شہید کیا.امام (ع) نے اپنے ناصر کی یہ قدر کی کہ جب اسکی لاش میدان سے اٹھاکر لائی گئی اور حضرت (ع) کے سامنے رکھی گئی تو آپ (ع) خاک و خون حُر کے چہرے سے صاف کرتے جاتے تھے اور فرماتے تھے :
"حُر تم بیشک حُر ھو.تمہارے والدین نے تمہارا نام بہت ٹھیک رکھا تھا.تم دنیا میں بھی 'حُر' ھواور آخرت میں بھی 'حُر"
مطلب یہ تھا کہ انسان کی حریت و شرافت کا جوھر اس کے افعال ھی سے نمایاں ھوتا ھے.دنیوی خواھشوں کی کی قید و بند میں گرفتار اور ھوا و ھوس میں اسیر ھوکر حق و ناحق کے امتیاز کو مٹا دینے والا ھرگز حریتِ ضمیر اور شرافت کے جوھر کا مالک نہیں ھوسکتا.یقینًا حُر نے تمام دُنیوی توقعات کو ٹھکرا کر حق کے راستے پر قدم رکھا تو وہ حُر ھی ثابت ھوئے اور حریت کے اصل جوھر کو اُنہوں نے اپنے عمل سے نمایاں کردیا.
**


نمبر (66).>* ابو ثمامہ صائدی *<
نام و نسب : عمرو بن عبداللہ بن کعب الصائدین شرجیل بن شراجیل بن عمرو بن جشم بن حاشد بن جشم بن حیزون بن عوف بن ھمدان الھمدانی الصائدی.
ابو ثمامہ انکی کنیت تھی.وہ عرب کے شہسواروں میں سے شیعانِ علی علیہ السلام کے ممتاز افراد میں سے تھے.حضرت علی علیہ السلام کی صحبت سے شرفیاب ھوئے تھے اور آپ (ع) کے ساتھ تمام لڑائیوں میں شریک ھوئے تھے.آپ (ع) کے بعد امام حسن علیہ السلام کی صحبت اختیار کی تھی مگر امام حسن علیہ السلام کی مدینہ روانگی کے بعد انہوں نے کوفہ ھی میں قیام باقی رکھا.
جب جناب مسلم بن عقیل علیھما السلام امام حسین علیہ السلام کے نمائندہ کی حیثیت سے کوفہ آئے تو ابو ثمامہ نے گرم جوشی کے ساتھ انکی تائید کی اور جب کوفہ پر ابن زیاد کا تسلط ھوا اور جناب مسلم علیہ السلام کو خونریزی کے آثار نظر آئے تو انہوں نے ابو ثمامہ کو یہ خدمت سپرد کی کہ وہ زرِ اعانت اپنے پاس جمع کیا کریں اور اسلحہ جنگ خریدیں اس لیے کہ وہ اس امر میں بڑی واقفیت رکھتے تھے.
جناب مسلم علیہ السلام کی شہادت کے بعد ابو ثمامہ مخفی طور سے کوفہ سے نکل کر نافع بن ھلال کے ساتھ عراق کے راستے میں جماعتِ حسینی سے ملحق ھوئے.
انکی وفاداری اور فداکاری کا یہ یادگار واقعہ تھا کہ جب عمر سعد نے کثیر بن عبداللہ کو پیغام دیکر امام حسین علیہ السلام کے پاس بھیجا تو ابو ثمامہ نے اس سے کہا کہ اپنی تلوار باھر رکھ دو.جب وہ اس پر تیار ھوتا دکھائی نہیں دیا تو انہوں نے کہا کہ اچھا میں تمہاری تلوار کے قبضہ پر ھاتھ رکھے رھوں گا چونکہ اس نے یہ بھی منظور نہ کیا اس لیے اسے واپس جانا پڑا اور عمر سعد کو دوسرا قاصد بھیجنا پڑا جس نے پیغام رسانی کے فرض کو انجام دیا.
ظہر کی نماز کا وقت آنے پر انکی فرض شناسی کا بہترین نمونہ تھا کہ اس سخت موقع پر بھی ان کے دل میں یہ خواھش جاگزیں تھی کہ میں نماز جماعت سے امام حسین علیہ السلام کی اقتدا میں پڑھ لوں.پھر خدا کی بارگاھ میں جاؤں.امام حسین علیہ السلام اس پر اتنا خوش ھوئے کہ آپ (ع) نے انکو دعا دی.فرمایا کہ :
"تم نے اس وقت نماز کو یاد کیاخدا تمکونمازگزاروں میں محسوب کرے"
اس کے بعد امام (ع) نے اصحاب سے فرمایا کہ ان لوگوں سے کہو کہ اتنی دیر جنگ سے ھاتھ روک لیں کہ ھم نماز پڑھ لیں.اسی التواء کے سوال پر ھنگامہ ھوگیا تھا جس میں حبیب بن مظاھر اور حُر درجہ شہادت پر فائز ھوئے.جیسا کہ تاریخ سے پتہ چلتا ھے یہ سوچ کر نہایت تکلیف ھوتی ھے کہ ابو ثمامہ کی یہ تمنا تھی کہ وہ نمازِ ظہر امام حسین علیہ السلام کی اقتدا میں ادا کرلیں پوری نہیں ھوئی بلکہ اسی ھنگامہ میں اپنے قبیلہ کے ایک شخص کے ھاتھ سے جو فوجِ یزید میں تھا وہ شہید ھوئے.
**

>** نمازِ ظہر **<
جنگ ملتوی نہیں ھوئی تھی.ایسے موقع کےلیے شرع نے مخصوص حکم "نمازِ خوف" کا دیا ھے جس کے معنی یہ ھیں کہ فوج کے دو حصے ھوجائیں.ایک حصہ دشمن سے مقابلہ کرے اور دوسرا حصہ نماز میں شریک ھو.وہ ایک رکعت امام کے ساتھ پڑھے اور باقی نماز تخفیف کے ساتھ فرادٰی پڑھ کر تمام کرے اور جب یہ نماز ختم کرکے جائے اور دشمن کے سامنے کھڑا ھوجائے تو وہ پہلا حصہ فوج کا میدانِ جنگ سے آکر نماز میں شریک ھو مگر یہ تو اس وقت ھوسکتا تھا جب فعج کی اتنی تعداد ھو کہ دو حصے ھوسکتے ھوں کہ ان میں سے ایک دشمن کے ساتھ اتنی دیر مقاومت کرسکے کہ دوسرا حصہ واپس آئے مگر یہاں تو جماعتِ حسینی کی مجموعی تعداد بھی افواجِ مخالف کی کثرت کو دیکھتے ھوئے گویا کہ نہ ھونے کے برابر تھی مگر امام (ع) نے انکی شجاعت پر اعتمادِ کامل رکھتے ھوئے زھیر بن قین اور سعید بن عبداللہ حنفی سے فرمایا کہ تم دونوں میرے سامنے کھڑے ھوجاؤ تاکہ میں نمازِ ظہر پڑھ لوں.چنانچہ یہ دونوں جان نثار اصحاب کی تقریبًا نصف جماعت کے ساتھ آگے بڑھے اور اپنے امام (ع) کے سامنے سینہ سپر ھوکر کھڑے ھوگئے یہاں تک کہ امام حسین علیہ السلام نے "نمازِ خوف" ادا کی.
**

نمبر (67).>* سعید بن عبداللہ حنفی *<
کوفہ کے معزز شیعانِ علی علیہ السلام میں سے تھے اور شجاعت و عبادت کی صفت سے موصوف تھے.اھلِ کوفہ کے جو دعوتی خطوط امام (ع) کے پاس مکہ بھیجے گئے تھے.ان میں سب سے آخری خط کو لیکر آپ (ع) کی خدمت میں پہنچنے والے ھانی بن شبیعی اور سعید بن عبداللہ حنفی تھے.حضرت امام حسین علیہ السلام نے ان خطوط کا جواب بھی انہی دونوں کے سپرد کیا تھا.چنانچہ اپنے خط میں ان کے ناموں کا حوالہ بھی دیا تھا.
"اس طرح کہ "ھانی اور سعید"میرے پاس تمہارا خط لیکر آئے اور یہ دونوں سب سے آخری تمہارےنمائندے تھے جو میرے پاس پہنچے"
اس کے بعد آپ (ع) نے تحریر فرمایا تھا کہ :
"میں تمہاری جانب اپنے چچازاد بھائی اور معتمد عزیز مسلم بن عقیل کو بھیجتا ھوں"
یہ دونوں اس خط کو لیکر حضرت مسلم علیہ السلام کے آگے روانہ ھوگئے.
جب جناب مسلم بن عقیل (ع) کوفہ میں وارد ھوکر مختار کے مکان میں فروکش ھوئے اور کوفہ والے آپ (ع) کے پاس جمع ھوئے تھے اور آپ نے امام حسین علیہ السلام کا خط پڑھ کر سنایا تھا تو عابس بن ابی شبیب شاکری اور حبیب بن مظاھر کے بعد سعید بن عبداللہ حنفی کھڑے ھوئے تھے اور انہوں نے بھی نصرت و وفاداری کا عہد کیا تھا.
شبِ عاشور جب امام حسین علیہ السلام نےاپنا تاریخی خطبہ ارشادکیاتھاکہ
میں اپنی بیعت سے تمہیں آزاد کرتا ھوں ، تمہارا جہاں جی چاھے چلے جاؤ"
تو اصحاب میں سے مسلم بن عوسجہ کےبعدسعیدکھڑے ھوگئے تھے اور انہوں نےجوش و ولولہ سے بھرے ھوئے الفاظ کہے تھے کہ :
"خداکی قسم ھم آپ کاساتھ نہیں چھوڑیں گے.بخدا اگرمیں قتل کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں پھر جیتے جی جلادیاجاؤں پھرمیری خاک ہوا میں منتشر کی جائے اور میرے
ساتھ ستر مرتبہ ایسا ھی سلوک ھوتو بھی میں آپ سے جدانہ ھوں گا ، یہاں تک کہ آخری مرتبہ بھی موت مجھے آپ ھی کے قدموں پر آئے"
سعید کے لیے پنی وفاداری و جان نثاری کے دعووں کے پورا کر دکھانے کا اب موقع آگیا کہ جب امام حسین علیہ السلام نماز ظہر میں مصروف تھے اور آپ (ع) نے سعید اور زھیر بن قین کو بطور محافظ اپنے سامنے کھڑا کیا تھا.سعید نے یہ صورت اختیار کی کہ وہ خاص حضرت امام حسین علیہ السلام کے سامنے کھڑے تھے اور جو تیر آنے لگتا تھا اسے بڑھ کر اپنے اوپر روکتے تھے.یہاں تک کہ زخموں کی کثرت سے زمین گر کر جاں بحق تسلیم ھوئے اور درجہ شہادت پر فائز ھوئے.اس حالت میں کہ تیرہ تیر ان کے جسم میں پیوست تھے.
**

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

یزیدی آمریت – جدید علمانیت بمقابلہ حسینی حقِ ...
فاطمہ (س) اور شفاعت
نجف اشرف
امام زمانہ(عج) سے قرب پیدا کرنے کے اعمال
حضرت فا طمہ زھرا (س) بحیثیت آئیڈیل شخصیت
حضرت علی اور حضرت فاطمہ (س) کی شادی
محشر اور فاطمہ کی شفاعت
اقوال حضرت امام جواد علیہ السلام
کتاب’’جنت البقیع کی تخریب‘‘ اردو زبان میں شائع
حادثات زندگی میں ائمہ (ع) کا بنیادی موقف

 
user comment