اردو
Thursday 18th of April 2024
0
نفر 0

امام رضاعلیہ السلام اور ولایت عہدی کامنصب

امام رضاعلیہ السلام اور ولایت عہدی کامنصب

نام: علی علیہ السلام
کنیت : ابوالحسن
والد : امام موسی کاظم علیہ السلام
والدہ: محل ولادت مدینہ
مدت امامت: ۲۰ سال
عمر: ۵۵سال
فرزندان: ایک بیٹااور ایک بیٹی
ولادت: ۱۱ذی قعدہ ۱۴۸ھ
شہادت: آخرماہ صفر ۲۰۳ھ
قاتل: مامون لعین
مدفن: مشہد مقدس
صفات

عالم آل محمد، القائم بامراللہ، الحجة، ناصرالدین اللہ، شاہد، داعیاالی سبیل اللہ، امام الہدی، العروة الوثقی، الامام الہادی، الولی ، المرشد۔(بحارالانوار ج۴۹)۔
القاب: الرضا، الصابر، رضی، القبلة السابع، ہدانہ (وطن سے دور) قرة اعین المومنین، الصادق، الفاضل، الوصی۔
مامون الرشید، ہارون الرشید عباسی کابیٹاجوکہ خلافت کی کرسی پربیٹھاتھا، اس نے ارادہ کرلیاکہ کہ امام رضاکومدینے سے ”مرو“خراسان بلایاجائے اور ان کی علمی اور اجتماعی موقعیت سے استفادہ کرتے ہوئے ان پرکاملانظارت اور نگرانی رکھے۔
پس مامون نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ (احترام کی صورت میں) زبردستی امام کوبلایاجبکہ امام اپنی ناراضگی اور نارضایتی کولوگوں پرواضح کررہے تھے اب جب کہ امام رضاعلیہ السلام خراسان ، حکومت کے مرکزتک پہنچ گئے، سوال یہ پیداہوتاہے کہ مامون نے کیوں امام کوبلایا؟ خلافت کے لئے، ولایت عہدی کے منصب کے لئے ، یاامام کی فعالیتوں کودیکھتے ہوئے ان پرنگرانی اور کنٹرول رکھنے کے لئے؟
تاریخ میں ملتاہے کہ جونہی امام خراسان پہنچے کچھ دنوں کے بعدہی مامون نے امام کے ساتھ مذاکرات شروع کردئیے اور امام سے منصب خلافت قبول کرنے کوکہا، فضل بن سہل کے کہنے کے مطابق اس دن تک خلافت کی میں نے بے اہمیتی اور بے ارزشی نہیں دیکھی تھی جتنی اس دن دیکھی کیونکہ اس دن امام خلافت قبول کرنے سے انکارکررہے تھے اور مامون خلافت قبول کروانے پراصرارکرہاتھا مامون نے جب یہ دیکھا توپھراصرارکیاکہ کم ازکم ولایت عہدی قبول کریں، امام نے اس سے بھی انکارکیا، تب مامون نے امام کودھمکی دی اور کہاکہ اگراب بھی قبول کرنے سے انکارکریں تومیں آپ کوقتل کروادوں گاامام نے بھی ناچارہوکرولایت عہدی کے منصب کوقبول کرلیالیکن شرائط کے ساتھ، کہ میں ہرگزملک اور مملکت ، خلافت، عزل ونصب حکام، قضاء اور فتوی وغیرہ میں دخل اندازی نہیں کروں گا(الارشاد، شیخ مفید، ص۳۱۰)۔
بالاخرہ پیرکے دن ۱۷/رمضان ۲۰۱ھ کورسمی طورپرحضرت کی ولایت عہدی کااعلان کیاگیااور خلیفہ مامون کے حکم پرسب سے پہلابیعت کرنے والاعباس مامون تھا اور عسکری ودرباری شخصیتوں نے آنحضرت کی بیعت کی، یہ ولایت عہدی امام کے شیعوں اور دوستوں کی خوشی اور شادمانی کاباعث بنی لیکن امام نے جوکہ غم واندوہ میں مبتلاتھے اور حقیقت سے آگاہ تھے سب اس سیاسی دغابازی اور گناؤنی سازش کوزمانے کے ساتھ ساتھ آشکارکردیا۔
مامون نے کیوں امام کواپناولی عہدبنایا؟

مامون عباسیوں میں خلافت کے لئے سب سے زیادہ شایستہ اور سزاوارتھا لیکن چونکہ بنی عباس اسکے مخالف تھے، اس کے استادفضل بن سہل کے بھی سرسخت دشمن تھے، دوسری بات یہ کہ امین (مامون کابھائی) ماں اور باپ کی طرف سے اصیل عرب ، جبکہ مامون کی ماں ایک معمولی سے کنیزتھی، امین کواس پرہرلحاظ سے برتری اور فوقیت حاصل تھی ، اسکے علاوہ اکثرامراء امین رشیدکے طرف دارتھے، فوج کے بڑے بڑے افسربھی اسی کے چاہنے والے تھے، ا سکے مقابلہ میں مامون کی تکیہ گاہ اور پناہ گاہ کیاتھی …لوگ…نہیں… درباری نہیں، فوج نہیں، عباسی خاندان نہیں، اس سے معلوم ہوتاہے کہ مامون کوحکومت کرنے کے لئے ہرطرف سے خطرہ ہی خطرہ تھااور وہ کسی بھی صورت میںاپنی حکومت کوپائداراور باقی نہیں رکھ سکتاتھا۔
تین گروہ کم ازکم ضروراس کے مقابلے میں تھے، ۔
۱۔ علوی شیعہ۔ ۲۔ اعراب۔ ۳۔ امین اور خاندان بنی عباس۔
اس کے علاوہ خوداہل خراسان بھی اب اس سے ناراض تھے اور اس کی حکومت کے لئے خطرہ ثابت ہورہے تھے ان چیزوں کومدنظررکھتے ہوئے مامون کے لئے کچھ راہ حل تھے جن کے ذریعہ وہ اپنی حکومت کوبچاسکتاتھا۔
۱۔ علویوں اور شیعوں کی بغاوت کوسرکوب کرنا(صلح یاشمشیرکے ذریعہ)۔
۲۔علویوں سے عباسی حکومت کے لئے جوازاور مشروعیت کی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا۔
۳۔ عربوں کااعتمادحاصل کرنااور ان میں محبوبیت پانا۔
۴۔ اپنی حکومت کے جوازکے لئے ایرانیوں اور خراسانیوں سے سرٹیفکیٹ حاصل کرنا۔
۵۔ علویوں کواہل دنیاثابت کرتے ہوئے ان کی محبوبیت اور احترام کوختم کرنا۔
۶۔ اپنے لئے ہرخطرے سے محفوظ رہنے کے لئے اسباب فراہم کرنا۔۷۔ عباسیوں کو راضی اور خوشنودرکھنا۔
جی ہاں! یہ سب ایسی راہ حل ہیں جوصرف اور صرف امام رضاعلیہ السلام کی ولایت عہدی کے ذریعہ ہی انجام تک پہنچ سکتی ہیں اور خاص کرامام رضاعلیہ السلام جیسی محبوب شخصیت کے خطرے سے بھی وہ محفوظ ومصون رہ سکتاہے امام رضاعلیہ السلام کی ولایت عہدی ہی کے ذریعہ وہ علویوں کوخلع سلاح بھی کرسکتاتھا، ان کی محبوبیت بھی ختم کرسکتاتھا (یہ بتلاتے ہوئے کہ علوی لوگ بھی اہل دنیاہیں) ان سے ا ورایرانیوں سے جواہل بیت کی مشروعیت اور جوازکامدرک لے سکتاتھا ، عباسیوں اور عربوں میں یہ آشکارکیاکہ اگراپنے بھائی کوقتل کیالیکن حکومت کواس کے اہل اور سزاوارشخص تک پہنچایا۔
تجزیہ وتحلیل

کچھ چیزیں ایسی ہیں جوکہ مامون کے اخلاص اور امام کی ولایت عہدی کوپوری طرح مشکوک بنادیتی ہیں، اگرواقعا مامون امام کوایمان اور عقیدے کی بنیادپر خلافت دیناچاہتاتھا تو:
۱۔ امام کوکیوں زبردستی مدینے سے مرو، خراسان لایاجب کہ مدینے میں رہ کربھی انہیں خلیفہ یاولی عہدبناسکتاتھااور خودخراسان میں ان کانمائندہ رہ سکتاتھا۔
۲۔ اس نے کیوں حکم دیاکہ امام کومشکل ترین راستوں بصرہ، اہوازاور فارس سے لایاجائے اور کوفہ وقم سے نہ لایاجائے کہ وہاں کہ اکثریت شیعہ تھی، اگروہ مخلص ہوتاتوامام کااستقبال کرنے کی اس کے لئے زیادہ اسباب فراہم ہوسکتے تھے اور اس میں اسی کافائدہ تھا۔
۳۔ مامون نے کیوں مذاکرہ کرتے وقت امام کوخلیفہ اور خودکوولی عہدقراردیاجب کہ ولی عہدکے منصب پرامام جوادعلیہ السلام کوفائزکرسکتاتھا یایہ منصب امام کے اختیارمیں دے سکتاتھا۔
۴۔ امام کاولی عہد ہونے کاکیافائدہ تھاجب کہ اس وقت امام مامون سے ۲۰سال بڑے تھے۔
۵۔ امام نے جب حکومتی امورمیں دخالت کرنے سے انکارکردیاتویہ کس قسم کی ولایت عہدی تھی اور اس کاکیافائدہ تھا؟
۶۔ اگرمامون ولایت عہدی یاخلافت دینے میں مخلص تھاتوامام کے قبول نہ کرنے کی صورت میں اس نے کیوں امام کوقتل کرنے کی دھمکی دی؟!
۷۔ اگرمامون اتناہی مخلص تھا توامام کی شہادت کے بعدکیوں امام جوادعلیہ السلام کوجوکہ کمسن بھی تھے ولی عہدنہیں بنایا؟
۸۔ مشہورواقعہ کے مطابق کیوں مامون نے ا مام کونمازعیدپرجاتے وقت آدھے راستے سے واپس لایا، کیاوہ امام کے انقلاب لانے سے ڈرنہیں گیا؟
۹۔ کیوں مامون زبردستی امام کواپنے ساتھ بغدادلے جاناچاہتاتھا کیااسے امام سے بغاوت یاتختہ الٹنے کاڈرتھا؟
۱۰۔ اور پھرکس بناپرمامون نے امام کوشہیدکردیا؟

 
امام رضا علیہ السلام کے ولایت عہدی قبول کرنے کی دلیلیں

 

۱۔ اگرامام رضاعلیہ السلام ولایت عہدی قبول نہ کرتے توان کی ذات کے علاوہ تمام علویوں ، شیعوں اور دوستداران اہل بیت کوخطرہ تھا، لہذالازم تھا کہ امام اپنی اور اپنے چاہنے والوں کوبچائیں، خاص کرامام کاوجودہرزمانے کے لئے لازم اور ضروری ہوتاہے تاکہ لوگوں کی ہدایت کریں، انہیں فکری وفرہنگی مشکلات سے نجات دیں، کفروالحاد کی دیواروں کوتوڑکرلوگوں کوخداشناسی کی طرف لے جائیں امامت کافریضہ انجام دیتے ہوئے لوگوں کوان کے ہدف اور مقصدسے آگاہ کریں اس بناء پرامام نے اپنے شرعی فریضے کوانجام دیتے ہوئے اس منصب کوقبول کیا۔
۲۔ عباسیوں سے جوکہ اہل بیت کے سرسخت دشمن تھے قبول کروایاکہ خلافت آل محمدکاحق ہے۔
۳۔ ولایت عہدی کوقبول کیاتاکہ لوگ آل محمدکوسیاست کے میدان میں حاضرپائیں اور کوئی یہ نہ کہے کہ یہ لوگ جوعلماء اور فقہاء تھے سیاست اور دینوی امور سے باخبرتھے۔
۴۔ دشمن ودوست سے اعتراف کروائیں کہ خلافت ہماراحق ہے جس طرح حضرت علی علیہ السلام نے شوری میں شرکت کرکے اس کواپناحق ثابت کیا۔
۵۔ مامون کے مکروہ چہرے سے نقاب ہٹاکراس کی مکروہ پالیسی اور سازش کوآشکارکردیاتاکہ لوگ اس کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلانہ ہوں۔
اگرامام رضاعلیہ السلام اس منصب ولایت عہدی کوقبول نہ کرتے تواس صورت میں جان بھئی جاتی، شیعہ اور دوست بھی مشکلات میںمبتلاہوجاتے اور امام اہداف تک بھی نہ پہنچ پاتے لیکن ولایت عہدی کے منصب کوقبول کرکے دشمن سے انہوں نے اپنے خلافت کے حقدارہونے اور مامون اور عباسیوں کے غاصب ہونے کوسب پرآشکاراور عیاں کردیا۔ مامون کی تمام شازشوں کوسب پربے نقاب کردیا مختلف ادیان اور مکاتب مثلاجاثلیق، راس الجالوت، عمران صائبی جوکہ اپنے زمانے کے بہت بڑے عالم تھے، کے ساتھ مناظرے کرکے، انہیں شکست دے کرمکتب اہل بیت کوحق ثابت کردیااس خلافت کاحقدار صرف اپنے آپ کوثابت کردیا۔ حقیقت میں مامون چاہتاتھا کہ امام کوان کے مرتبہ اور مقام سے نیچے لائے لیکن یہاں پربھی امام نے اس کی بدنیتی کوفاش کر دیا۔
خلاصہ یہ کہ عہدمامون میں اگرچہ مامون کی نیت خراب تھی لیکن امام نے ولایت عہدی کافائدہ اٹھایا اور دنیاوالوں پرمکتب اہل بیت کی حقانیت کوثابت کردیا اور اس کے علاوہ شیعہ بلکہ اسلام ومسلمین کوعزت وعظمت اور سربلندکرکے ہمیشہ کے لئے سرفرازاور جاودان کردیا

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...
آسيہ
جنت البقیع کا تاریخی تعارف
عمار بن یاسر کے اشعار کیا تھے؟
مشرکینِ مکہ کی مکاریاں
واقعہ فدک
تاریخ اسلام کو دیگر تواریخ پر فضیلت
گروہ ناکثین (بیعت شکن)
ساتواں سبق
بنی نجار میں ایک عورت

 
user comment