اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

حضرت علی کی مشکلات‘ہمارے لیے عبرتیں

حضرت علی کی مشکلات‘ہمارے لیے عبرتیں

تاریخ قوموں کے لیے اظہارِ افتخار کا باعث بھی ہوتی ہے اور اظہارِ ندامت کا سبب بھی۔ شیعہ ائمہٴ اور پیشواؤں کی تاریخ نہ صرف مکتبِ تشیع سے تعلق رکھنے والوںبلکہ پوری امتِ اسلامیہ کے لیے باعثِ افتخار ہے۔ یہ تاریخ اعليٰ اقدار سے وابستگی اور ان کی پاسداری کے لیے عظیم قربانیوں کی مثالوں سے پُر ہے۔ ہم اس تاریخ کا تذکرہ انتہائی فخر اور انبساط کے ساتھ کرتے ہیں‘ لیکن اکثر اس سے سبق موزی اور عبرت اندوزی کی طرف سے غافل ہوتے ہیں۔ جبکہ کم از کم اپنی تاریخ سے واقفیت اور اس سے عبرت کا حصول قوم کی اپنے ملی نصب العین سے واقفیت‘ اس سے وابستگی اور مستقبل کی راہوں کو بغیر کج روی اور نقصان کے طے کرنے کا موجب اور عروج کی راہوں پر گامزن ہونے کا ذریعہ بنتا ہے۔
یوں تو امیر المومنین حضرت علیٴ ابن ابیطالبٴ کی پوری زندگی سبق موز اور قابلِ تقلید ہے‘ کیونکہ پٴ کی حیات ِ مبارک کا ہر ہر پل رضائے الٰہی کے حصول میں بسر ہوا‘ لیکن فی الحال ہم پٴ کے دورِ خلافت میں پٴ کو درپیش مشکلات کا جائزہ لے کر اپنی انفرادی کردار سازی اور قومی و اجتماعی کردار کی تعمیر میں اس سے استفادہ کرنا چاہتے ہیں۔
امام علیٴ نے اپنے حق خلافت کی بازیابی اوراپنے مسلمہ حق کے حصول کے لیے کسی بھی ممکنہ اقدام سے گریز نہیں کیا۔ لیکن حضرت عثمان کے قتل کے بعد لوگوں کے انتہائی اصرار اور رائے عامہ کے شدید دباؤ کے باوجود ابتدائی مرحلے میں خلافت قبول کرنے سے انکار کیا۔ لہٰذا جب حضرت عثمان کے قتل کے بعد لوگوں نے پٴ کے ہاتھ پر بیعت کا ارادہ کیا‘ تو پٴ نے ان سے فرمایا:
’’مجھے چھوڑ دو‘ اور (اس خلافت کے لیے) میرے علاوہ کسی اور کو ڈھونڈ لو‘ ہمارے سامنے ایک ایسا معاملہ ہے جس کے کئی رخ اور کئی رنگ ہیں‘ جسے نہ دل برداشت کر سکتے ہیں اور نہ عقلیں اسے مان سکتی ہیں۔ دیکھو افقِ عالم پر گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اور راستہ پہچاننے میں نہیں تا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اگر میں تمہاری اس خواہش کو مان لوں تو تمہیں اس راستے پر لے کر چلوں گا جو میرے علم میں ہے اور اس کے متعلق کسی کہنے والے کی بات اور کسی ملامت کرنے والے کی سرزنش پر کان نہ دھروں گا۔‘‘ (نہج البلاغہ۔ خطبہ٩٢)
جیسا کہ اس خطبے کے الفاظ سے بھی ظاہر ہے‘ پٴ کے اس انکار کا سبب معاشرے کی بگڑی ہوئی صورتحال تھی‘ جس میں عوام اور خواص ہر سطح پر اقدار تہہ و بالا ہوچکی تھیں اور ایسے بگڑے ہوئے معاشرے کو راہِ راست پر لانا ایک دشوار عمل تھا‘ کیونکہ امامٴ کی نظر میں حکومت کا مقصد اسلامی احکام کا نفاذ اور عدل و انصاف کا قیام تھا۔ جیسے کہ پٴ کا ارشاد ہے :
’’اگر میرے پیش نظر حق کا قیام اور باطل کی نابودی نہ ہو تو تم لوگوں پر حکومت کرنے سے یہ جوتا مجھے کہیں زیادہ عزیز ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ۔ خطبہ ٣٣)
اب ہم اُن گروہوں کا علیحدہ علیحدہ جائزہ لیں گے‘ جن کی طرف سے حضرتٴ کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔
 
قریش:

 حضرت عثمان کے قتل کے بعد اور لوگوں کی حضرت علیٴ کے ہاتھ پر بیعت کے موقع پر بہت سے قریشیوں نے حضرتٴ کی بیعت نہیں کی‘ اور اگر کسی سیاسی محرک کی بنا پر بیعت پر مجبور ہوئے بھی‘ تو باطن میں پٴ کے دشمن رہے اور دل میں پٴ سے بغض رکھا‘ پٴ سے تعاون نہ کیا اور مسلسل پٴ کو نقصان پہنچانے کے لئے موقع کی تاک میں رہے۔
امام علیٴ قریش کے کینے کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’قریش کے ہم سے کینے اور دشمنی کی وجہ یہ ہے کہ خدا نے ہم کو ان کی قیادت و رہبری کے لیے منتخب کیا ہے اور ہم نے انہیں اپنے زیر فرمان لیا ہے۔‘‘(کتاب الارشاد ۔ ج ١۔ ص ٢٩٣)
اسی بارے میں پٴ نے ایک اور مقام پر فرمایا:
’’میرا قریش سے کیا تعلق ہے‘ میں نے کل ان کے کفر کی وجہ سے ان سے جہاد کیا تھا‘ اور ج فتنہ اور گمراہی کی بنا پر جہاد کروں گا۔ میں ان کا پرانا مدمقابل ہوں اور ج بھی ان کے مقابلے پر تیار ہوں۔ خدا کی قسم! قریش کو ہم سے کوئی عداوت نہیں ہے سوائے یہ کہ پروردگار نے ہمیں منتخب قرار دیا ہے اور ہم نے ان کو اپنی جماعت میں داخل کرنا چاہا تو وہ ان اشعار کے مصداق ہوگئے:
ہماری جاں کی قسم یہ شرابِ نابِ صباح
یہ چرب چرب غذائیں ہمارا صدقہ ہیں
ہم ہی نے تم کو یہ ساری بلندیاں دی ہیں
وگرنہ تیغ و سناں بس ہمارا حصہ ہیں(نہج البلاغہ۔خطبہ٣٣)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قریش کا جذبہ حسد تھا جو انہیں امام علیٴ کی حکومت قبول نہ کرنے اور پٴ کے خلاف ریشہ دوانیوں پر ابھارتا تھا‘ کیونکہ ایسے لوگ جو کسی وجہ سے اپنے پ کو دوسروں سے کمتر محسوس کرتے ہیں اگر وہ کمزور ایمان بھی ہوں‘ تو ان میں اپنے سے برتر لوگوں کے خلاف حسد کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں‘ اور اگر حسد کرنے والے اور جن افراد سے حسد کیا جارہا ہے وہ ممتاز اجتماعی اور سیاسی مقام کے حامل ہوں تو یہ صفت پورے معاشرے کو فساد کی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ حضرت علی علیہ السلام کے بقول: ’’جب حسد کی بارش برستی ہے‘ تو فساد اور تباہی کی نشوونما کرتی ہے۔‘‘ (غرر الحکم ۔ش٥٢٤٢)
شارح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید نے امام علیٴ سے قریش کے بغض و عداوت کے موضوع پر ایک عمدہ گفتگو کی ہے‘ وہ کہتا ہے:
’’تجربے نے ثابت کیا ہے کہ زمانے کا گزرنا بغض و عداوت کے خاتمے اور تش حسد کے ٹھنڈا ہو جانے کا موجب ہوتا ہے ۔۔۔۔ لیکن خلافِ توقع حضرت علیٴ کے مخالفوں کا مزاج اور نفسیات ربع صدی گزرنے کے بعد بھی نہ بدلا‘ اور وہ لوگ زمانہ رسول۰ میں علیٴ کے ساتھ جیسا بغض و عداوت رکھتے تھے‘ اس میںکوئی کمی واقع نہ ہوئی۔ حتيٰ کہ قریش کے بچے اور ان کے بھی بچے جنہوں نے اسلام کے خونیں معرکوں کا مشاہدہ نہ کیا تھا اور بدر و احد کی جنگوں میں قریش کے خلاف حضرت علیٴ کی شمشیر زنی کے مظاہرے نہ دیکھے تھے، وہ بھی اپنے اجداد کی طرح علیٴ سے شدید عداوت رکھتے تھے‘ اور اپنے دل میں ان کے خلاف کینے کو پروان چڑھاتے تھے۔‘‘ (شرح نہج البلاغہ۔ ج١١۔ ص ١١٤۔ خطبہ ٢١١ کے ذیل میں )

 
اصحابِ جمل (ناکثین):

امامٴ نے درجِ ذیل کلام میں اصحابِ جمل‘ یعنی جنگِ جمل کی گ بھڑکانے والوں کی مشکل کی جانب اشارہ فرمایا ہے:
’’۔۔۔ سچ ہے زمانے نے رلانے کے بعد مجھے ہنسایا ہے (اور انتہائی تعجب کے ساتھ ہنسایا ہے) مجھے تعجب نہیں‘ اور خدا کی قسم یہ لوگ میری طرف سے نرمی سے مایوس ہو گئے (اور جانتے ہیں کہ میں دین اور عدالت کے نفاذ میں نرمی اور سہل انگاری کرنے والا انسان نہیں ہوں) اور وہ مجھ سے (معاویہ کی طرح) خدا اور اس کے دین کے بارے میں دھوکے و فریب اور منافقت کا مظاہرہ چاہتے ہیں اور یہ عمل مجھ سے کس قدر بعید ہے (یعنی میں دھوکے باز‘ مداہنت کرنے والا اور سازشی نہیں ہوں)۔ (کتاب الارشاد ۔ ج١۔ ص ٢٩٣)
جنگ جمل کی گ بھڑکانے والوں (ناکثین) کا مقصد حکومت و ریاست کا حصول تھا۔
عیسائی مصنف جارج جرداق اپنی شہرہ فاق تالیف ’’علی صدائے عدالتِ انسانی‘‘ میں کہتا ہے:
’’طلحہ اور زبیر کاشمار حضرت علیٴ کے سخت ترین مخالفین میں ہوتا تھا۔ وہ حکومت کے تمنائی اور حکومت و ریاست اور مال و مقام کے حصول کے لیے شدید کوششیں کرنے والے لوگ تھے۔‘‘ (علیٴ صدائے عدالت انسانی۔ ص ٢٣٤)
طلحہ اور زبیر میں سے ہر ایک اپنے پ کو حضرت علیٴ سے زیادہ خلافت کا حقدار سمجھتا تھا۔ اور ان کے دلوں میں اس کے حصول کی رزو مچلتی رہتی تھی۔
تاریخی شواہد اور قرائن نیز نہج البلاغہ میں حضرت علیٴ کے کلمات موجود ہیں‘ جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ طلحہ اور زبیر نے جب یہ دیکھا کہ اپنا اوّلین مقصد (حکومت اور خلافت) حاصل نہ کر سکیں گے‘ تو اس مقصد سے دستبردار ہو گئے اور چاہا کہ امام علیٴ کی حکومت ہی میں کسی علاقے کی گورنری حاصل کرلیں اور اس مقصد کے حصول کے لیے امامٴ کی بیعت کی۔ ان لوگوں نے اس خواہش کو بیعت کی شرط کے طور پر امامٴ کی خدمت میں پیش کیا:
’’جب طلحہ اور زبیر نے حضرتٴ سے کہا کہ ہم اس شرط پر پ کی بیعت کرتے ہیں کہ اس حکومت میں پ کے شریک رہیں گے‘ تو پ نے فرمایا: نہیں‘ بلکہ تم مجھے تقویت پہنچانے اور ہاتھ بٹانے میں شریک اور ناتوانی اور مشکلات کے موقع پر مددگار ہوگے۔‘‘ (نہج البلاغہ۔ کلمات ِقصار ٢٠٢)
بعض مورخین نے بھی لکھا ہے کہ زبیر کا خیال تھا کہ امامٴ عراق کی گورنری ان کے سپرد کر دیں گے اور طلحہ کے ذہن میں بھی یمن کی حکمرانی کا خیال تھا۔ زبیر نے مدینہ سے فرار ہونے سے پہلے قریش کے ایک اجلاسِ عمومی میں یوں اظہار کیا تھا:
’’کیا یہ ہے ہماری سزا؟ ہم نے عثمان کے خلاف تحریک اٹھائی‘ ان کے قتل کے لیے زمین ہموار کی‘ جبکہ علیٴ گھر میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب انہوں نے زمامِ امور ہاتھ میں تھامی تو مختلف علاقوں کے امور کی ذمہ داری دوسروں کے سپرد کر دی۔ ‘‘ (الامامۃ و السیاسۃ ابن قتیبہ۔ ص ٧٠۔٧١)
یہاں اصحابِ جمل کی خودخواہی اور عہدے و مقام سے محبت‘ اس بات کا سبب بنی کہ عالمِ اسلام ایک شدید فتنے میں مبتلا ہوا‘ جس کی چنگاریاں اب تک محسوس کی جاتی ہیں۔ لہٰذا اجتماعی اور سماجی امور میں متحرک افراد کے لیے اس میں عبرت اور سبق کے پہلو موجود ہیں‘ کہ اگر اس جدوجہد کے دوران ان کا مقصد مقدس اہداف کو اولیت دینے کی بجائے عہدے و مقام کے حصول کو اہمیت دینا ہو جائے‘ تو اس سے بجائے اصلاح اور بہتری کے معاشرے میں فتنہ وفساد کی گ بھڑکتی ہے۔

 
اصحابِ صفین (قاسطین):

معاویہ جو قاسطین کے سرخیل اور ان کے مرکزی رہنما تھے‘ انہیں کسی صورت حضرت علی علیہ السلام کی حکومت گوارا نہ تھی‘ کیونکہ ایک طرف تو وہ امامٴ سے دیرینہ عداوت رکھتے تھے‘ اور دوسری طرف ان کا طرزِ حکمرانی اور جن اقدار و روایات کے وہ پابند ہوگئے تھے‘ انہیں پتا تھا کہ علیٴ کسی صورت انہیں اس پر قائم رہنے کی اجازت نہ دیں گے۔ لہٰذا انہوں نے پہلے ہی دن سے امامٴ کی حکومت کو قبول نہ کیا اور پٴ کے خلاف ریشہ دوانیوں میں مصروف ہوگئے۔ وہ جانتے تھے کہ حضرت علیٴ اپنی حکومت کی بنیاد عدل و انصاف کے قیام پر رکھیں گے‘ جبکہ وہ کسی صورت عدل کے سامنے تسلیم ہونے پر تیار نہ تھے‘ اسی لیے جنابِ امیرٴ نے انہیں ’’قاسطین‘‘ یعنی ظالم ستم کار گروہ قرار دیا۔
اس گروہ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے استاد شہید مرتضيٰ مطہری۲ فرماتے ہیں:
’’ قاسطین‘ طبیعتاً فریبی اور منافق تھے‘ وہ زمامِ حکومت اپنے ہاتھ میں لینے اور حضرت علیٴ کی حکومت اور اقتدار کے خاتمے کے لیے کوشاں تھے ۔‘‘ (جاذبہ و دافعہ علیٴ۔ ص٩٨)
نہج البلاغہ میں جہاں کہیں ایک عادلانہ حکومت کی تاسیس اور مخالفین کے ساتھ جنگ کی بات ئی ہے‘ وہاں اسی گروہ کی جانب اشارہ ہے۔
جنگ ِجمل کے خاتمے کے بعد حضرت علیٴ کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ معاویہ نامی ایک خطرناک عنصر تھا۔ انہوں نے حضرت علیٴ کی حکومت کو ناجائز قرار دیتے ہوئے پٴ کے خلاف پوری مملکتِ اسلامیہ میں ایک وسیع پروپیگنڈے کا غاز کیا اور سادہ لوح افراد کی ایک کثیر تعداد کو فریب دینے میں کامیاب ہو گئے ۔
مصری مصنف ڈاکٹر طہ حسین اس بارے میں لکھتے ہیں:
’’معاویہ کی ایک سیاسی روش یہ تھی کہ اپنی فیاضیوں اور بخششوں کے ذریعے لوگوں کے دل اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔ انہوں نے ان بخششوں کو صرف اہلِ شام ہی کے لیے مخصوص نہیں رکھا تھا‘ بلکہ ایسے افراد جو اب تک علیٴ کی اطاعت پر باقی تھے، ان پر بھی اپنی نوازشیں کیا کرتے تھے۔ ان کے پاس عراق میں جاسوس اور کارندے تھے جو لوگوں کو ان کی طرف راغب کرتے تھے‘ یا ان سے ڈراتے تھے اور خفیہ طریقے سے انہیں مال و دولت پہنچاتے تھے۔‘‘ (علیٴ و فرزندانش۔ ص ٧٤)
حضرت علی علیہ السلام معاویہ کی سرکشی اور اشتعال انگیزیوں کے خلاف ہر قسم کی سستی اور کوتاہی کو ایک گناہِ عظیم سمجھتے تھے۔ لہٰذا پٴ نے اسے تسلیم کروانے یا اس کا قلع قمع کرنے کی غرض سے ایک جنگ کا غاز کیا جس نے خرکار جنگِ ’’صفین‘‘ کی صورت اختیار کی۔
جنگِ صفین کا انجام اپنے دامن میںبہت سے سبق اور عبرتیں لیے ہوئے ہے۔ اس میں ایک سبق یہ ہے کہ کسی قوم کا اپنے رہبر و رہنما پر غیر متزلزل اعتماد اسے کامیابی کی منزل سے قریب کر دیتا ہے‘ اور عبرت یہ ہے کہ کس طرح جاہل‘ کم عقل اور سطحی سوچ رکھنے والے افراد ایک جیتی ہوئی جنگ کو شکست میں بدل سکتے ہیں ۔

 
خوارج (مارقین):

حضرت علیٴ کے لیے شدید مشکلات کا سبب بننے والے اس تیسرے گروہ کے بارے میں استاد شہید مرتضيٰ مطہری کہتے ہیں:
’’تیسرا گروہ مارقین (خوارج) کا ہے‘ ان کی طبیعت میں ناروا تعصب‘ خشک تقدس اور خطرناک جہالت رچی بسی تھی۔‘‘ (جاذبہ و دافعہ علیٴ۔ ص٩٨)
خوارج صفین کی جنگ میںامیر المومنینٴ کے لشکر کا حصہ تھے۔ لیکن اپنے جہل‘ جمود اور سطحی اندازِ فکر کی بنا پر عمرو عاص اور معاویہ کے فریب کا شکار ہو گئے‘ اور انہوں نے حضرت علیٴ کی مخالفت کرتے ہوئے‘ پٴ کو حکمیت قبول کرنے پر مجبور کیا۔
امامٴ نے متعدد مواقع پر خوارج کے جہل‘ جمود اور ان کی کج فکری کی جانب اشارہ کیا ہے۔ ایک مقام پر پٴ فرماتے ہیں:
’’میں تمہیں اس تحکیم سے منع کر رہا تھا‘ لیکن تم نے عہد شکن دشمنوں کی طرح میری مخالفت کی‘ یہاں تک کہ میں نے اپنی رائے کو چھوڑ کر مجبوراً تمہاری بات کو تسلیم کر لیا۔ مگر تم دماغ کے ہلکے اور عقل کے احمق نکلے۔ خدا تمہارا برا کرے ‘میں نے تو تمہیں کسی مصیبت میں نہیں ڈالا ہے اور تمہارے لیے کوئی نقصان نہیں چاہا ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ ۔ خطبہ ٣٦)
امامٴ کا خوارج کو سبک سر قرار دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ خوارج کم عقل اور معمولی معمولی بات پر اپنی رائے بدل لینے والے لوگ تھے۔ ایک موقع پر وہ حکمیت کے ایسے شدید طرفدار تھے کہ اسے قبول نہ کرنے پر حضرت علیٴ کو قتل کی دھمکی دے رہے تھے اور دوسرے موقع پر اسکے ایسے مخالف ہو ئے کہ حضرتٴ سے اس عمل پر توبہ کرنے کا مطالبہ کرنے لگے اور پٴ کی جانب سے انکار پر (نعوذ با) پٴ کو کافر قرار دینے لگے ۔

 
امام ٴ کے اصحاب اور اقربائ:

عام طور پرحضرت علیٴ کے لیے دشواریاں ایجاد کرنے والوں کے طور پر پٴ کے کھلے دشمنوں کے تذکرے پر ہی اکتفائ کیا جاتا ہے۔ جبکہ پٴ کی عادلانہ روش پٴ کے کچھ اقربائ اور پٴ کے بعض دیرینہ ساتھیوں کے لیے بھی ناقابلِ برداشت تھی‘ جو پٴ کے لیے مشکلات میں اضافے کا موجب بنی۔
امامٴ نے خلافت قبول کرنے کے بعد بیت المال کی تقسیم کے بارے میں اپنی پالیسی بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’ تم ا کے بندے ہو اور مال بھی ا کا مال ہے‘ جو تمہارے درمیان برابر تقسیم ہوگا‘ اور کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ہوگی۔ پرہیزگاروں کے لیے خدا کے یہاں بہترین اجر موجود ہے۔‘‘
اگلے دن پٴ نے عبدا بن ابی رافع کو حکم دیا کہ ہر نے والے کو تین دینار دینا۔ اس موقع پر سہل بن حنیف نے کہا کہ: یہ شخص میرا غلام تھا‘ جسے میں نے کل ہی زاد کیا ہے۔ امامٴ نے فرمایا: سب کو تین دینار ملیں گے اور ہم کسی کو کسی پر ترجیح نہیں دیں گے۔ (ائمہ اہلِ بیتٴ فکری وسیاسی زندگی۔ص٧٤)
ابن عباس نے امام حسنٴ کے نام ایک خط میں لکھا کہ لوگ اس لیے پ کے والد کو چھوڑ کر معاویہ کی طرف چلے گئے کہ پ کے والد مال کو لوگوں کے درمیان برابر تقسیم کیا کرتے تھے اور لوگوں کو (پ کے والد کی) یہ بات برداشت نہ تھی۔ (ائمہ اہلِ بیتٴ فکری وسیاسی زندگی۔ص٧٥)
دو عورتیں امامٴ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنے فقر و ناداری کا اظہار کیا۔ امامٴ نے کہا کہ اگر تمہاری بات سچ ہے تو تمہاری مدد کرنا ہم پر فرض ہے۔ پھر پٴ نے ایک شخص کو بازار بھیجا کہ ان کے لیے لباس اور خوراک خریدے اوران میں سے ہر ایک کو دو سو درہم دے۔ ان میں سے ایک عورت نے اعتراض کیا اور کہا: میں عرب ہوں‘ جبکہ وہ دوسری عورت موالی ہے۔ ہمارے ساتھ ایک سا سلوک کیوں کیا جا رہا ہے؟! امامٴ نے جواب دیا: میں نے قرن پڑھا اور اس میں خوب غور و فکر کیا ہے‘ وہاں مجھے کہیں نظر نہیں یا کہ اولادِ اسماعیلٴ کو اولادِ اسحاقٴ پر مچھر کے برابر بھی برتری دی گئی ہو۔
ایک مرتبہ حضرت علیٴ کی بہن امِ ہانی عطایا میں سے اپنا حصہ لینے کے لیے ئیں۔ امامٴ نے انہیں بیس درہم دیئے۔ امِ ہانی کی عجمی کنیز بھی امامٴ کے پاس ئی‘ اسے بھی پٴ نے بیس درہم دیئے۔ جب امِ ہانی کو یہ بات پتا چلی تو وہ سخت ناراض ہوئیں اور امامٴ کے پاس کر اعتراض کیا۔ امامٴ نے انہیں بھی یہی جواب دیا کہ میں نے قرآن میں عجم پر عرب کی برتری کا ذکر نہیں دیکھا ہے۔

 
امام کے سست اور بزدل اصحاب :

 امامٴ کو درپیش دشواریوں میں سے ایک دشواری‘ بلکہ پ کو خون کے نسو رلانے والے عناصر میں پ کے سست‘ بے عمل اور بزدل اصحاب بھی شامل تھے۔
جب پ کو مسلسل خبر دی گئی کہ معاویہ کے ساتھیوں نے شہروں پر قبضہ کر لیا ہے اور پ کے دو عاملِ یمن عبید ا ابن عباس اور سعید بن نمران‘ بسر بن ارطاۃ کے مظالم سے پریشان ہو کر پٴ کی خدمت میں گئے‘ تو پٴ اپنے اصحاب کی طرف سے جہاد میں کوتاہی سے بددل ہوکر منبر پر کھڑے ہوئے اور یہ خطبہ ارشاد فرمایا:
’’اب یہی کوفہ ہے کہ جس کا بست و کشاد میرے ہاتھ میں ہے۔ اے کوفہ! اگر تو ایسا ہی رہا‘ اور یونہی تیری ندھیاں چلی رہیں‘ تو خدا تیرا برا کرے گا۔
(اسکے بعد شاعر کے اس شعر کی تمثیل بیان فرمائی) اے عمرو! تیرے اچھے باپ کی قسم، مجھے تو اس برتن کی تہہ میں لگی ہوئی چکنائی ہی ملی ہے۔
اس کے بعد فرمایا: مجھے خبر دی گئی ہے کہ بسر یمن تک گیا ہے اور خدا کی قسم میرا خیال ہے کہ عنقریب یہ لوگ تم سے اقتدار چھین لیں گے‘ اس لیے کہ یہ اپنے باطل پر متحد ہیں اور تم اپنے حق پر متحد نہیں ہو۔ یہ اپنے پیشوا کی باطل میں اطاعت کرتے ہیں‘ اور تم اپنے امام کے حق میں بھی نافرمانی کرتے ہو۔ یہ اپنے مالک کی امانت اسکے حوالے کر دیتے ہیں‘ اور تم خیانت کرتے ہو۔ یہ اپنے شہروں میں امن و امان رکھتے ہیں اور تم اپنے شہر میں بھی فساد کرتے ہو۔
میں تو تم میں سے کسی کو لکڑی کے پیالے کا بھی امین بناؤں تو یہ خوف رہے گا کہ وہ کنڈا لے کر بھاگ جائے گا۔
خدایا! میں ان سے تنگ گیا ہوں‘ میں ان سے اکتا گیا ہوں‘ اور یہ مجھ سے اکتا گئے ہیں۔ لہٰذا مجھے ان سے بہتر قوم عنایت کر دے اور انہیں مجھ سے بدتر حاکم دیدے اور ان کے دلوں کو یوں پگھلا دے جس طرح پانی میں نمک گھولا جاتا ہے ۔
خدا کی قسم! میں یہ پسند کرتا ہوں کہ ان سب کے بدلے مجھے بنی فراس بن غنم کے صرف ایک ہزار سپاہی مل جائیں‘ جن کے بارے میں ان کے شاعر نے کہا تھا: ’’اس وقت میں اگر تو انہیں واز دے گا‘ تو ایسے شہسوار سامنے ئیں گے جن کی تیز رفتاری گرمیوں کے بادلوں سے زیادہ سریع ہوتی ہے۔‘‘ (نہج البلاغہ۔ خطبہ ٢٥)
 
بنی فراس بن غنم کون ہیں؟

ابن ابی الحدید اپنی شرح نہج البلاغہ میں ان کے بارے میں لکھتا ہے: یہ عرب قبائل میں سے ایک قبیلہ تھا‘ جو اپنی شجاعت اور بہادری کی وجہ سے شہرت رکھتا تھا۔ ان کا ایک معروف سردار ’’ربیعۃ بن مکدّم‘‘ تھا‘ جس نے اپنی زندگی اور بعد از موت بھی عورتوں اور بچوں کی حفاظت کی۔ کہتے ہیں کہ وہ واحد فرد تھا جس نے اپنی موت کے بعد بھی کھڑے رہ کر مظلوموں کا دفاع کیا۔ اس دفاع کی داستان یہ ہے کہ وہ اپنے قبیلے کی عورتوں اور بچوں کے ایک گروہ کے ساتھ جا رہا تھا کہ بنی سلیم کے سواروں کے ایک گروہ نے اس مختصر قافلے پر حملہ کر دیا‘ وہ ان کا دفاع کرنے والا واحد مرد تھا‘ اس نے بے جگری سے مقابلہ کیا‘ اس دوران دشمنوں نے اس پر ایک تیر پھینکا جو اسکے دل میں پیوست ہو گیا اور وہ زمین پر گرنے والا تھا لیکن اس نے اپنے نیزے کو زمین پر گاڑ دیا اور اس سے ٹیک لگا کر کچھ وقت تک اپنی سواری پر کھڑا رہا اور بچوں اور عورتوں کو اشارہ کیا کہ جتنا جلد ہوسکے وہ اپنے قبیلے میں پہنچ جائیں۔ بنی سلیم جو اسکی بہادری سے خوفزدہ تھے‘ وہ یہ سمجھتے ہوئے کہ وہ ابھی زندہ ہے اسکے نزدیک نہیں ئے۔ ہستہ ہستہ اسکے ساکت پڑ جانے پر اسکی موت کا خیال ان کے ذہنوں میں پختہ ہو گیا اور ان میں سے ایک نے اسکے گھوڑے کی طرف تیر پھینکا‘ گھوڑا تیر کھا کر گر پڑا‘ تب پتا چلا کہ ربیعہ کافی پہلے فوت ہوچکا تھا۔ لیکن اس وقت تک اسکے قبیلے کی عورتوں اور بچوں نے اپنے پ کو اپنے قبیلے تک پہنچا لیا تھا اور دشمن کے ہاتھوں قیدی ہونے سے بچ گئے تھے۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید۔ ج١۔ ص ٣٢١)
کتاب’’ بلوغ الادب‘‘ میں ہے کہ اس قبیلے کا ہر بہادر فرد دوسرے قبیلے کے دس بہادروں کے برابر ہوتا تھا‘ اور وہ عرب کے بہادر ترین قبائل میں شمار ہوتے تھے۔ (بلوغ الادب۔ ج٢۔ ص ١٢٥)
دلچسپ بات یہ ہے کہ (اس وقت) کوفہ میں امامٴ کے سپاہیوں کی تعداد دسیوں ہزار سے زائد تھی‘ جبکہ ایک روایت کے مطابق دس ہزار افراد تھی (حوالہ سابق) لیکن امامٴ کی رزو تھی کہ ان سب کے بدلے انہیں قبیلہ بنی فراس کے ایک ہزار افراد مل جائیں۔ (پیامِ امام امیر المومنینٴ۔ ج١۔ ص ١٠٠‘١٠١)
جب پ کومعاویہ کی فوج کے انبار پر حملے کی اطلاع ملی‘ تو پٴ نے اہلِ کوفہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
’’تم پر حملہ کیا جا رہا ہے اور تم حملہ نہیں کرتے ہو۔ تم سے جنگ کی جارہی ہے اور تم باہر نہیں نکلتے۔ لوگ خدا کی نافرمانی کر رہے ہیں اور تم اس صورتحال سے خوش ہو۔
میں تمہیں گرمی میں جہاد کے لیے نکلنے کی دعوت دیتا ہوں‘ تو تم کہتے ہو کہ شدید گرمی ہے‘ تھوڑی مہلت دیجیے کہ گرمی گزر جائے۔ اسکے بعد سردی میں بلاتا ہوں تو تم کہتے ہو کہ کڑاکے کا جاڑا پڑ رہا ہے ذرا ٹھہر جایئے کہ سردی ختم ہو جائے۔
حالانکہ یہ سب جنگ سے فرار کے بہانے ہیں ‘ورنہ جو قوم سردی اور گرمی سے فرار کرتی ہو‘ وہ تلواروں سے کس قدر فرار کرے گی۔۔۔‘‘ (نہج البلاغہ ۔خطبہ ٢٧ سے اقتباس)

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جنگى توازن
تہذيبي انقلاب کي اہميت
حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی

 
user comment