اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

حضرت عثمان کی حکومتی پالیسی

حضرت عثمان کی دوسری حکومتی پالیسی کے متعلق یہ کہنا درست ہے کہ ان کی کوئی ذاتی پالیسی سرے سے تھی ہی نہیں ۔ انہوں نے ہمیشہ بنی امیہ پر انحصار کیا اور اپنے سسرال اور دیگر رشتہ داروں کی بات کوانہوں نے ہمیشہ اہمیت دی تھی ۔
عثمانی دور میں مروان بن حکم کو خصوصی اہمیت حاصل تھی ۔انہوں نے ہمیشہ مروان کے مشوروں کو درخور اعتنا سمجھا اور بنی امیہ کو مسلمانوں کی گردن پر سوار کیا ۔
بنی امیہ جیسے ہی حاکم بنے انہوں نے امت مسلمہ میں ظلم وستم کو رواج دیا ۔ ان کی وجہ سے ملت اسلامیہ شدید مشکلات کا شکار ہوگئی ۔مگر ظالم وجابر حکام پورے اطمینان سے مسلمانوں کا استحصال کرتے رہے انہیں امت اسلامیہ کے افراد کی کوئی پراہ تک نہ تھی ۔ کیونکہ خلیفۃ المسلمین ان سے خوش تھا اور دوسرے مسلمانوں کی ناراضگی کی انہیں کوئی فکر ہی نہیں تھی۔
حضرت عثمان ک شخصیت کا الم ناک پہلو یہ ہے کہ وہ بنی امیہ پر جس قدر مہربان تھے ، دوسرے صحابہ اور عامۃ المسلمین کے لئے وہ اتنے ہی سخت تھے ۔ انہوں نے عبداللہ بن مسعود اور ابو ذر غفاری اور عما بن یاسر جیسے جلیل القدر صحابہ تک سے ہتک آمیز سلوک کیا ۔ان جلیل القدر صحابہ کو ان کے حکم سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور حضرت ابوذر غفاری پر صرے تشددہی نہیں بلکہ انہیں جلا وطن کرکے ربذہ کے بے آب وگیاہ میدان میں مرنے کے لئے تنہا چھوڑ دیاگیا ۔
ان اجلہ صحابہ کا جر صرف یہی تھا کہ وہ بنی امیہ کی لوٹ کھسوٹ اور بداعمالیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے تیار نہ تھے ۔
بلاذری بیان کرتے ہیں کہ :-
"حضرت عثمان نے بنی امیہ کے ان افراد کو عامل مقرر کیا جنہیں رسول خدا (ص) کی صحبت میسر نہ تھی اور نہ ہی اسلام میں انہیں کوئی مقام حاصل تھا ۔ اور جب لوگ ان کی شکایت کرنے آتے تو حضرت عثمان عوامی شکایات کو کئی اہمیت نہیں دیتے تھے اور انہیں معزول نہیں کرتے تھے ۔اپنی حکومت کے آخری چھ برسوں میں انہوں نے اپنے چچا کی اولاد کو حاکم مقررکیا ۔
اسی دور میں عبداللہ بن سعد بن ابی سرح مصر کا حاکم مقرر ہوا ۔ وہ کئی برس تک مصر میں رہا ۔مصر کے لوگ اس کے ظلم کی شکایت کرنے کے لئے حضرت عثمان کے پاس آئے اور حضرت عثمان نے ان کے کہنے پر اسے ایک خط بھی تحریر کیا جس میں اسے غلط کاریوں سے باز رہنے کی تلقین کی گئی تھی لیکن اس نے حضرت عثمان کے خط پر کوئی عمل نہ کیا اور شکایت کرنے والوں پر بے پناہ تشدد کیا ۔ جس کی وجہ سے ایک شخص موقع پر ہی دم توڑگیا ۔
اس کے بعد اہل مصر کا ایک اور وفد ابن ابی سرح کے مظالم کی شکایت کرنے کے لئے مدینہ آیا اور اوقات نماز میں انہوں نے صحابہ سے ملاقات کی اور اپنے اوپر ہونے والے مظالم کی ان لوگوں کو داستان سنائی ۔چنانچہ طلحہ حضرت عثمان کے پاس گئے اور ان سے سخت لہجہ میں احتجاج کیا ۔ بی بی عائشہ نے بھی عثمان کے پاس پیغام روانہ کیا کہ ان لوگوں کو اپنے عامل سے انصاف دلاؤ۔
کبار صحابہ جن میں حضرت علی (ع) مقداد اور طلحہ وزبیر شامل تھے ۔ انہوں نے حضرت عثمان کے نام ایک خط تیار کیا جس میں اس کے عمال کے مظالم کی تفصیل بیان کی گئی تھی اور خط کے ذریعے سے حضرت عثمان کو تنبیہ کی گئی تھی ۔
کہ اگر انہوں نے اپنے رویے کو درست نہ کیا تو پھر انہیں خلافت کرنے کا حق حاصل ہوگا ۔ عمار نے وہ خط لیا اور حضرت عثمان کے سامنے پیش کیا ۔جب حضرت عثمان نے اسکی ایک سطر پڑھی تو انہیں بہت غصہ آیا اور عمار سے کہا :- تیری یہ جراءت کہ تو ان کا خط میرے سامنے لائے ؟
عمار نے کہا :- میں خط اس لئے لایا ہوں کہ میں آپ کا زیادہ خیر خواہ ہوں ۔حضرت عثمان نے کہا :- سمیہ کا فرزند تو جھوٹا ہے ۔
حضرت عمار نے کہا :- خدا کی قسم میں اسلام کی پہلی شہید خاتون سمیہ اور یاسر کا بیٹا ہوں ۔
حضرت عثمان نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ اسے پکڑ کر لٹائیں ۔ نوکروں نے انہیں پکڑکر لٹادیا ۔حضرت عثمان نے جناب عمار کو اپنے پاؤں سے ٹھوکریں ماریں ۔ضربات اتنی شدید تھیں کہ انہیں "فتق" کا عارضہ لاحق ہوگیا ۔ اور بے ہوش ہوگئے ۔"(1)
جب حضرت عثمان کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تویہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ ان کی مالیاتی اور حکومتی پالیسیوں کا مقصد امت اسلامیہ کے مقدر سے کھیلنا اور دین اسلام کے بہی خواہوں کو کمزور کرنا اور دشمنان اسلام بالخصوص بنی امیہ کے لئے مستقبل بنی امیہ کے لئے مستقبل کی حکومت کی راہ ہموار کرنا تھا ۔
حضرت عثمان کی پالیسی نہ یہ کہ قرآن وسنت سے علیحدہ تھی بلکہ بلکہ سیرت شیخین سے بھی جدا گانہ تھی ۔
واقدی بیان کرتے ہیں کہ :-
"جب حضرت عثمان نے سعید بن العاص کو ایک لاکھ درہم دئیے تو لوگوں نے اس پر تنقید کی اور اسے غلط قرار دیا ۔حضرت علی (ع) اور ان کے ساتھ دیگر صحابہ نے مل کر حضرت عثمان سے اس سلسلہ میں گفتگو کی تو حضرت عثمان نے کہا وہ
میرا قریبی رشتہ دار ہے ۔صحابہ نے کہا تو کیا ابو بکر وعمر کے اس جہان میں کوئی رشتہ دارنہیں تھے ؟
حضرت عثمان نے کہا کہ وہ اپنے رشتہ داروں کو محروم کرکے خوش ہوتے تھے جب کہ میں اپنے رشتہ داروں کو دے کر خوش ہوتا ہوں ۔"(2)
حضرت عثمان کی یہ روش کسی طرح سے بھی سیرت شیخین سے مطابقت نیں رکھتی تھی اور ان کی اس روش کاروح اسلام سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا ۔

عثمانی عمّال کی سیرت آئیے چند لمحات کے لئے عثمانی عمال پر بھی نظر ڈال لیں ۔ اس حقیقت میں کسی قسم کا شبہ نہیں ہے کہ حضرت عثمان نے امور سلطنت کے لئے اپنے اقرباء پر ہی انحصار کیا تھا ۔اور خدا گواہ ہے کہ ہم اتنے تنگ نظر نہیں ہیں کہ ہم صرف رشتہ داری کی وجہ سے کسی پر اعتراض کریں ۔ہم جانتے ہیں کہ سلاطین کا قدیم الایام س یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ اہم مناصب پر اپنے بااعتماد اور باصلاحیت رشتہ داروں کو فائز کرتے رہے ہیں ۔
اگر رشتہ دار با صلاحیت ہوں تو انحصار کیا تھا کیا وہ باصلاحیت اور صاحب سیرت افراد تھے ؟
حضرت عثمان نے اپنی قرابت کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے افراد کو بھی اہم عہدوں پر فائز کیا جن کے فسق وفجور اور نفاق وکذب کی اللہ نے قرآن میں گواہی دی تھی ۔
ذیل میں ہم بطور نمونہ اپنے قارئین کے لئے چند افراد کی سیرت کا تذکرہ
کرتے ہیں ۔لیکن ان واقعات کو "مشتے ازخردارے" کی حیثیت حاصل ہے ۔اگر ہم عمال عثمانی کی بد کرداریوں کی تفصیل بیان کرنے لگیں تو اس کے لئے علیحدہ کتاب کی ضرورت ہے ۔

ولید بن عقبہ
عثمان عمال کا حقیقی چہرہ دکھانے کے لئے ہم ولید بن عقبہ بن ابی معیط سے ابتدا کرتے ہیں ۔ حضرت عثمان نے انہیں کوفہ کا والی مقرر کیا تھا ۔
اس "اموی ستارہ " کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ حضرت رسول کریم (ص) نے اسے بنی مصطلق سے صدقات وصول کرنے کے لئے روانہ کیا ۔ یہ صاحب ان سے ملے بغیر واپس آگئے اور کہا کہ ان لوگوں نے مجھے قتل کرنا چاہا اور صدقات دینے سے انکار کردیا ۔ رسول خدا(ص) نے مذکورہ قبیلہ کے خلاف فوج کشی کا ارادہ کرلیا ۔ اس اثناء میں ان کا ایک وفد رسول خدا کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ ! ہم نے آپ کے قاصد کی آمد کا سنا تھا اس کی تعظیم وتکریم کے لئے باہر آئے لیکن آپ کا قاصد ہمیں دیکھ کر دور سے ہی واپس چلاگیا ۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی یہ آیت نازل فرمائی :- یا ایھا الذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنباء فتبینوا ان تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علی ما فعلتم نادمیین "(3)۔
"ایمان والو!اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو ۔ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو تکلیف پہنچاؤ اور بعد میں اپنے کیے پر تمہیں ندامت اٹھانی پڑے ۔"
ولید وہ "شخص "ہیں کہ ایک دفعہ اس کی بیوی رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اپنے شوہر کی شکایت کی کہ وہ اسے ناحق مارتا پیٹتا ہے ۔
رسول خدا (ص) نے اسے فرمایا کہ جا کر اپنے شوہر سےکہہ دو کہ مجھے رسول خدا(ص) نے امان دی ہے ۔ وہ بے چاری چلی گئی اور رسولخدا(ص) کا پیغام سنایا ۔
دوسرے دن عورت پھر حاضر ہوئی اور عرض کی :- یا رسول اللہ ! اس نے آپ کا پیغام سن کر مجھے مارا۔
رسول خدا(ص) نے اس کے کپڑے کا ایک حصہ پھاڑا اور کہا جاکر شوہر سے کہو کہ رسول خدا نے بطور نشانی اس کپڑے کو پھاڑا ہے ۔ لہذا مجھے مت مارو۔
وہ عورت چلی گئی ۔تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ روتی ہوئی رسول خدا (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی :- یا رسول اللہ ! میں نے آپ کا فرمان اسے سنا یا اور نشانی بھی دکھائی لیکن اس نے مجھے پہلے سے بھی زیادہ پیٹا (4)۔

کوفہ میں ولید شراب نوشی
حضرت عثمان نے اسی ولید کو کوفہ کا والی مقرر کیا اور یہ "بزرگوار" اپنے ہم پیالہ ساتھیوں کے ساتھ ساری ساری رات شراب پیا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ صبح کی آذان ہوئی تو یہ صاحب نشہ میں دھت تھے اور نماز پڑھانے کے لئے مسجد میں چلے گئے اور فجر کی نماز دورکعت کی بجائے چاررکعت پڑھائی ۔اور پھر مقتدیوں کی طرف منہ کرکے کہا :- اگر ارادہ ہوتو اور زیادہ پڑھادوں ؟
بعض راوی بیان کرتے ہیں کہ جب وہ سجدہ میں تھے توکہہ رکہے تھے کہ :- خود بھی پیو اور مجھے بھی جام پلاؤ ۔
پہلی صف میں کھڑے ہوئے ایک نمازی نے کہا:- مجھے تجھ پر کوئی حیرت نہیں ہے ۔مجھے تو اس پر تعجب آتا ہے جس نے تجھ جیسے شخص کو ہمارا والی بنا کر بھیجا ۔ولید نے ایک دفعہ خطبہ دیا تو لوگوں نے اس پر پتھراو کیا ۔
صاحب موصوف پتھراو سے گھبرا کر اپنے محلے میں چلے گئے ۔
ولید زانی تھا ۔ شراب پیا کرتا تھا ۔ ایک دفعہ شراب پی کر مسجد میں نماز پڑھانے آیا تو اس نے محراب میں قے کردی اور قے میں شراب کا رنگ نمایاں تھا قے کرنے کے بعد اس نے یہ شعر پڑھا ۔
علّق القلب الربابا ۔۔۔۔۔بعد ما شابت و شابا
"میرا دل رباب سے اٹک گیا ۔ جب وہ جوان ہوگئی اور میں بھی جوان ہوگیا ۔"
اہل کوفہ نے حضرت عثمان کے پاس اس کی شکایت کی اورحد شرعی کا مطالبہ کیا ۔ناچار حضرت عثمان نے ایک شخص کو حد جاری کرنے کے لئے کہ ۔ جب وہ شخص درہ اٹھا کرولید کے قریب گیا تو ولید نے حضرت عثمان سے کہا :- آپ کو اللہ اور اپنی قرابت کا واسطہ دیتا ہوں کہ کہ مجھے معاف کردیں ۔حضرت عثمان نے اسے چھوڑدیا اور پھر خیال کیا کہ دنیا یہ کہے گی کہ عثمان نے حد شرعی کو چھوڑ دیا ہے اس خیال کے تحت انہوں نے خود ہی اسے اپنے ہاتھ سے دوچار کوڑے مار کر چھوڑ دیا ۔
اہل کوفہ دوبارہ ولید کی شکایت لے کر حضرت عثمان کے پاس آئے تو حضرت عثمان اہل کوفہ پر سخت ناراض ہوئے اور کہا :- تم لوگ جب بھی کسی امیر پر ناراض ہوتے ہو تو اس پر تمہتیں تراشتے ہو ۔
ان لوگوں نے حضرت عائشہ کے پاس جاکر پناہ لی ۔جب حضرت عثمان نے دیکھا کہ ان لوگوں کو ام المومنین نے پناہ دے رکھی ہے تو کہا :- عراق کے فاسق اور بدمعاشوں کو عائشہ کا گھر ہی پناہ دیتا ہے ۔یہ الفاظ بی بی عائشہ نے سنے تو رسول خدا کی نعلین بلند کرکے کہا :- تو نے اس تعلین کے مالک کی سنت کو چھوڑ دیا ہے (5)۔

ولید کو والی کوفہ کیوں بنایا گیا
ولید کے والی کوفہ بننے کی داستان بھی عجیب ہے ۔
راوی کہتے ہیں کہ حضرت عثمان جس تخت پر بیٹھا کرتے تھے ۔اس پر ایک اور شخص بیٹھنے کی گنجائش بھی موجود تھی ۔
حضرت عثمان کے ساتھ صرف چار افرادہی بیٹھا کرتے تھے اور وہ عباس بن عبدالمطلب ،ابو سفیان بن حرب ،حکم بن ابی العاص اور ولید بن عقبہ تھے ۔
ایک دن ولید حضرت عثمان کے ساتھ تخت پر بیٹھا ہوا تھا کہ حکم بن ابی العاص آگیا تو حضرت عثمان نے ولید کو کھڑا ہونے کا اشارہ کیا تاکہ حکم کو بٹھایا جاسکے ۔جب کچھ دیر بعد حکم چلا گیا تو ولید نے کہا:- آپ نے چچا کو اپنے چچا زاد پر ترجیح دی ہے اور اس کی وجہ سے میں نے دو شعر تخلیق کئے ہیں ۔
واضح رہے کہ مروان کا باپ حکم حضرت عثمان کا چچا تھا اور بنی امیہ کا بزرگ تھا اور ولید حضرت عثمان کا مادری بھائی تھا ۔
حضرت عثمان نے کہا وہ شعر مجھے سناؤ ۔
رایت لعمّ المرء زلفی قرابۃ۔۔۔ دوین اخیہ حادثا لم یکن قدما
فاملت عمرا ان یشبّ وخالدا ۔۔۔ لکی یدعوانی یوم نائبۃ عمّا
"میں نے دیکھا لیا ہے کہ بھائی کی نسبت لوگ چچا کا زیادہ احترام کرتے ہیں ۔ پہلے یہ بات رائج نہ تھی ۔ آپ کے دونوں فرزندوں یعنی عمر اور خالد کی عمر دراز ہو تاکہ وہ بھی ایک دن مجھے چچا کہہ کر مخاطب کریں ۔"
یہ شعر سن کر حضرت عثمان نے کہاکہ تم بھی کیا یاد رکھو گے ۔میں نے تمہیں کوفہ کا گورنر بنایا ۔
جی ہاں ! یہ وہی ولید ہے جسے قرآن میں فاسق کہا گیا ۔یہی وہ ولید ہے
جس نے رسول خدا(ص) کے فرمان کو تسلیم نہیں کیا تھا ۔
گورنری کا پروانہ لے کر ولید کوفہ پہنچا اور والی کوفہ سعد سے ملاقات کی سعد نے پوچھا کہ تم یہاں سیروسیاحت کرنے آئے ہو یا یہاں کے حاکم بن کے آئے ہو؟
ولید نے کہا:- میں یہاں کا حاکم بن کر آیا ہوں ۔یہ سن کر سعد نے کہا خدا کی قسم مجھے علم نہیں ہورہا کہ میں پاگل ہوگیا ہوں یا تو دانا ہوگیا ہے ؟ ولید نے کہا :- نہ تو آپ پاگل ہوئے ہیں اور نہ ہی میں دانا ہوا ہوں ، جن کے ہاتھ میں زمام اقتدار ہے یہ انہی کا فیصلہ ہے ۔(6)
حضرت عثمان کے دیگر عمال کے متعلق بھی کتب تاریخ بھری ہوئی ہیں حضرت عثمان نے عبداللہ بن عامر کو بصرہ کا والی مقررکیا ۔اس وقت اس کی عمرپچیس برس تھی ۔ جب کہ اس وقت کبار صحابہ اور تجربہ کا ر افراد بھی موجود تھے ۔
عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر کا حاکم مقرر کیا گیا ۔یہ وہی شخص ہے جسے اللہ اور رسول خدا نے واجب القتل قرار دیا تھا اور فتح مکہ کے دن اعلان فرمایا تھا کہ ہر شخص کو امان ہے مگر عبداللہ بن ابی سرح کیلئے کوئی امان نہیں ہے ۔یہ شخص اگرغلاف کعبہ سے بھی چمٹا ہوا ہو تو بھی اسے قتل کردیا جائے ۔(7)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1):- بلاذری ۔انساب الاشراف ۔جلد پنجم ۔ص 25 ۔ 26
(2):- بلاذری ۔انساب الاشراف ۔بحوالہ واقدی جلد ص ۔ص 27۔
(3):- الحجرات ۔6۔
(4):- ابن ابی الحدید ۔شرح نہج البلاغہ ۔جلد چہارم ۔ص 195
(5):- المسعودی ۔مروج الذہب ۔جلد دوم ۔ص 224
(6):-ڈاکٹر طہ حسین مصری ۔الفتنتہ الکبری ۔عثمان بن عفان ص 187
(7):- عبدالفتاح عبد المقصود ۔الامام علی بن ابی طالب جلد دوم ص

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(اول)
آيت ولايت؛ خدا، رسول خدا اور علي (ع) ہي مؤمنين کے ...
امام حسن(ع) کی صلح اور امام حسین (ع)کے قیام کا فلسفہ
حدیث غدیر کی سندیت و دلالت
۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے ...
اسلام سے قبل جہالت کي حکمراني تھي
ایرانی پروازوں پر سعودی پابندی کے خلاف ردعمل
رسالت پر ایمان لانے کا تقاضا
الکافی
چھے لوگوں کی شوریٰ( اہل سنت کے مآخذ سے منطقی تحلیل ...

 
user comment