اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

اہلبیت رسول کی کیوں تقلید کی جائے؟



خداوند عالم قرآن مجید کے ۳۳ویں سورہ احزاب کی ۳۳ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے۔
”اے اہل بیت رسول اللہ تو بس یہ چاہتا ہے کہ تم لوگوں کو(تمام) برائیوں اور آلودگیوں سے دور رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ویسا پاک و پاکیزہ رکھے۔“
پیغمبر خدا حضرت محمد سے آپ(ص) کے صحابیوں نے دریافت کیا کہ آپ پر صلواة کس طرح بھیجی جائے؟ آپ نے فرمایا:
’اَللّٰهمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَدٍ وَ آلِ مُحَمَّد کما صلّیت علیٰ ابراهیمَ و آلِ ابراهیمَ۔‘
(صحیح البخاری، جلد ۴، کتاب ۵۵،نمبر ۹۸۵)

 
اہلبیت رسول کی کیوں تقلید کی جائے؟

شیعہ رسول خدا کی حدیث پر مکمّل یقین رکھتے ہیں۔ آپ نے امّت کے لئے دو گراں قدر چیزیں چھوڑیں ہیں۔ ایک قرآن حکیم اور دوسری اپنی اہل بیت(علیہم السلام) (آپ کے اپنے خاص اہل خاندان) یعنی اہل بیت رسول اللہ کی صحیح سنت کے نبع ہیں۔ صرف ان دونوں ذرایع سے منسلک رکھ کر ان ہی سے ہدایت حاصل کرکے ایک مسلمان صحیح ہدایت پاسکتا ہے۔

 
رسول خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیّت

”میں عنقریب موت کے بلاوے کو لبّیک کہنے والا ہوں۔ میں اپنے پیچھے دو بے بہا چیزیں تم لوگوں کے درمیان چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری اہل بیت(علیہم السلام)۔ بے شک یہ دونوں چیزیں کبھی علیٰحدہ نہیں ہوں گی۔ حتّٰی کے یہ دونوں میرے پاس حوض کوثر پر آئیں گی۔“
یہ مستند حدیثِ رسول حضرت محمد6کے تیس اصحاب سے زیادہ نے بیان کیا ہے۔ اور سنّی علماء کی بڑی تعداد نے اس کو لکھا ہے۔
کچھ مشہور ذرایع اس حدیث کے پہونچانے کے یہ ہیں۔

مسلم:
الصحیح (انگریزی ترجمہ) کتاب ۱۳ نمبر ۳-۰۲۹۵

الحکیم نیشا پوری:
المُسدک۔ الصحیحین (بیروت)، جلد۳، صفحہ ۰۱۱-۹۰۱، ۸۴۱ اور ۳۳۵ وہ خاس طور پر یہ بیان کرتے ہیں کہ حدیث الخباری اور مسلم الضحابی کے مطابق بالکل صحیح ہے۔

الترمذی:
الصححی، جلد ۵ صفحہ ۲-۱۳۶نمبر ۶۸۷۳ اور ۸۸۷۳، جلد ۲ صفحہ ۹۱۲

احمد بن حنبل:
المسند جلد۳، صفحہ ۴۱-۷۱، ۶۲، جلد ۳، صفحہ ۶۲، ۹۵
جلد ۴ صفحہ ۱۷۳ جلد ۵ صفحہ ۲، ۱۸۱، ۰۹-۹۸۱

ابن اثیر:
جامع الاصول جلد ۱ صفحہ ۷۷۲

ابن کثیر:
الابی وایہ انسایہ جلد ۵، صفحہ ۹۰۲، انھوں نے الضحابی کا حوالہ دیا ہے اور اس کا اعلان کیا ہے کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے۔

ابن کثیر:
تفسیر القرآن العظیم۔ جلد ۶، صفحہ ۹۹۱

نصیر الدین الالبافی:
سلسلة الاحادیث الضحیحہ، (کویت : الدار السلاخیہ) جلد۴، صفحہ ۵۵۳۰۸
انھوں نے ایک لمبی فہرست کا سلسلہ بیان کیاجو کہ وہ قابل اعتماد سمجھتے ہیں۔
اس حدیث کے ذرائع کی فہرست بہت لمبی ہے۔ جو کہ اس مختصر رسالے میں نہیں سما سکتی ہے۔
کیا رسول اکرم نے یہ فرمایا : کہ ’میں اللہ کی کتاب اور اپنی سنت چھوڑے جا رہا ہوں؟‘
یہ ایک معروف غلط فہمی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی کوئی حدیث سے نہ ہی ایسی کوئی روایت ہے۔ جس کا رسول خدا 6سے تعلق ہو۔ یہ صحائے ستّہ (چھ معتبر حدیث کی کتابوں میں) قطعی موجود نہیں ہے۔ یہ بیان ملک کے توتہ، ابن حیشم کی سیرتِ رسول اللہ اور ان سے الطبری کی تاریخ، ان سب میں بیچ بیچ سے درمیانی کڑیاں غائب ہیں اور ایک غیر سلسلہ کے بیان سے بھرا ہے۔ اور دوسری طرف ایک سلسلہ ہے جو مسلسل اسناد کے ساتھ ہے۔ جس میں تھوڑے لوگ ہیں۔ اور ان میں بھی ایسے لوگ ہیں جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ سب غیر معتبر مانے جاتے ہیں۔ سنّی علماء علم الرجال کی نظر میں۔
اس حقیقت کو وہ حضرات بآسانی کتابوں میں پاسکتے ہیں جنھیں ریسرچ اور گہرے مطالعے کا شوق ہے۔
بیشک یہ کوئی نہیں کہہ سکتا ہے کہ رسول اللہ کی حدیثوں پر عمل نہ کیا جائے۔ جیسے کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ رسول خدا کی خواہش تھی کہ امّت مُسلِمہ آپ6 کی صحیح، معتبر قابل اعتبار اور مصدّقہ ذرائع ہی سے حاصل کردہ حدیثوں پر ہی عمل کرے۔

 
آخر رسول خدا کے اہل بیت میں ایسی کون سی خاص بات ہے؟

اللہ متعال کاف فرمان سورئہ شوریٰ نمبر ۲۴ کی آیت نمبر ۳۲ کی صورت میں جب نازل آیا ہے۔
”(اے رسول) تم کہہ دو میں اس (تبلیغ رسالت) کا صلہ سوائے اپنے اہلبیت (قرابت داروں) کی محبت کے اور کچھ نہیں مانگتا۔“
آپ کے کون سے اہل خاندان کی محبت ہم پر فرض کی گئی ہے؟ آپ نے فرمایا:
”علی فاطمہ(علیہا السلام) اور ان کے دونوں نورعین علیہم السلام۔“
(الحکیم نیشا پوری، المستدرک الصحیحین، جلد ۲، صفحہ ۴۴۴)، ا(القسطلانی، ارشاد الساری صحیح البخاری، جلد ۷، صفحہ ۱۳۳)
(السیوطی، الدّر المثور، جلد ۶، صفحہ ۶-۷) ، (الالوسی البغدادی ، روح المعانی، جلد۵۲، صفحہ ۲-۱۳)
معتبر قابل اعتماد اور تقویٰ سے بھر پور حیثیت کی پختگی کو قرآن مجید مزید تقویت اور مستند کردیتا ہے۔ ان کے اور عیسائیوں کے ساتھ مباہلے میں۔ جب کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ سورہ آل عمران کی ۱۶ ویں آیت کہ
”جب تمہارے پاس علم (قرآن) آچکا۔ اس کے بعد بھی اگر تم سے کوئی (نصرانی) عیسیٰ کے بارے میں حجت کرے۔ تو کہو کہ اچھا (میدان میں) آؤ۔ ہم اپنے بیٹوں کو تم اپنے بیٹوں کو اور ہم اپنی عورتوں کو بلائیں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنی جانوں کو بلائیں اور تم اپنی جانوں کو۔“
حضرت رسول خدا نے علی ، فاطمہ ، حسن(علیہ السلام) اور حسین (علیہ السلام)کو بلایا اور فرمایا: ’اے اللہ یہ میرے اہلبیت(علیہم السلام) ہیں ۔(اہلی)
(مسلم الصحیح (انگریزی ترجمہ) کتاب ۱۳، نمبر ۵۱۹۵)، (الحکیم النیشاپوری، المستدرک علیٰالصحیحین، جلد ۳، صفحہ ۰۵۱ ، وہ کہتے ہیں کہ یہ البخاری اور مسلم کے معیار کے مطابق بالکل صحیح ہے۔) (ابن الحجر العسقلانی، فتح الباری، شرح صحیح الخاری، جلد ۷ صفحہ ۰۶)، (الترمذی، الصحیح، کتاب المناقب، جلد۵، صفحہ ۶۹۵) احمدبن حنبل، مسند، جدل۱، صفحہ ۵۸۱) (السیوی، تاریخ خلفاء و راشیدن، (لندن ۵۹۹۱، صفحہ ۶۷۱)

 
کیا یہ اہل بیت کا احترام کرنے کے لئے کافی نہیں ہے؟

کیا صرف قرآن مجید کا احترام ظاہر کرنا کافی ہے؟ بے شک مسلمانوں کے پاس اور کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ وہ خدا کی ہدایت کا ذریعہ مان کر اپنی تمام معاملات میں اس کی تقلید کریں۔ اللہ کے رسول نے اپنی وراثت کے طور پر دو گراں قدر چیزیں اپنی امّتِ مُسلِمہ کے لئے چھوڑیں۔ اور اس کا وعدہ کیااور یقین دلایا کہ یہ صبحِ قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گی۔ (قرآن مجید اور اہل بیتِ رسول (ص) ) قرآن مجید اور اہل بیت کو ایک دوسرے سے جوڑنے کا یہ پیغام دینا چاہا تھا۔
”سنو! میرے اہل بیت(علیہم السلام) مثل کشتئی نوح ہیں۔ جوان سے منسلک ہوا۔ نجات پایا اور جو ان سے الگ ہوا تباہ و برباد اور گمراہ ہوا۔“ (حدیث رسول مقبول)
(الحکیم النیشاپوری، المستدرک علیٰ الصحیحین، جلد ۳، صفحہ ۱۵۱ اور جلد ۲، صفحہ ۳۴۳ ۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ صحیح ہے مسلم کے معیار کے مطابق)، (السیوطی، الدّر الثور، جلد۱، صفحہ ۲۷-۱۷)، ( ابن حجر المکّی، السوائق المحرقہ، صفحہ ۰۴۱)

 
اہل بیت میں کون کون لوگ شامل ہیں؟

اوپر یہ صاف کردیاگیا ہے کہ اہل بیت رسول اکرم میں اہل بیت، عترت اور آل میں آپ کی صاحب زادی حضرت فاطمة الزہرہ(علیہا السلام)، ان کے شوہر نامدار حضرت امام علی اور ان دونوں کے صاحب زادگان الحسن اور الحسین (ص) شامل ہیں۔
یہ اہلبیت رسول کے پانچ افراد مع حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خاندان کے سردار اسی وقت زندہ و سلامت تھے جب قرآن حکیم نے ان پانچوں کی تطہیر کی گواہی دی آیتہ تطہیر کے ذریعے ۔
اس کے علاوہ نو اورائمہ امام حسین کی نسل سے بھی ان اہلبیت ِ پاک میں شامل ہیں۔ آخری امام اور اس سلسلے کی آخری کڑی امام مہدی 7 ہیں۔
رسول مقبول نے فرمایا تھا۔
”میں اور علی اور حسن اور حسین اور حسین کی نسل سے نو افراد پاک و پاکیزہ اور طاہرین میں سے ہیں۔“
(الجوینی، افراد المسمطین (بیروت ۸۷۹۱) صفحہ ۰۶۱)
(یہ نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ الجوینی کی عظمت اور قابلیت ایک عالِم حدیث کی حیثیت مانی ہوئی ہے او ر الضحابی نے التذکرة الحُفّاظ، جلد۴، صفحہ ۸۹۲ میں سند دی ہے۔ اس کے علاوہ الحجر العسقلانی اپنی کتاب الدوار الکمینہ، جلد۱، صفحہ ۷۶ میں سند دی ہے)
۰ میں سردار انبیاء ہوں اور علی ابن ابی طالب میری نسل کے افراد کے سردار ہوں گے۔ اور میرے بعد میری نسل کے ۲۱/امام ہوں گے ان میں آخری امام مہدی(ص) ہوں گے۔ (الجوینی، فرائد السمطین صفحہ ۰۶۱)
۰ المہدی، ہمارے اہل بیت سے ایک ہیں۔ اور المہدی ہمارے خاندان اور (حضرت) فاطمہ علیہ السلام کی نسل میں ہوں گے۔ (ابن ماجہ، السنّن جلد ۲ صفحہ ۹۱۵، نمبر ۶، ۵۸۰۴)

 
رسول اکرم کی بیویوں کے بارے میں کیا خیال ہے؟

آیة تطہیر جناب سَلمہ، ام المؤمنین 2کے گھر میں نازل ہوئی تھی۔ رسول اکرم نے حضرت امام حسن، حضرت امام حسین امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام اور جناب فاطمہ کو اپنی کسائے (ردا) یمانی میں آنے کی اجازت دی تھی۔ اور یہ فرمایا تھا۔
”اے اللہ یہی میرے اہلبیت ہیں لہٰذا تمام بُرائیوں اور آلودگیوں سے ان کو دور رکھتا، ان کو پاکیزہ بنا جیسا کہ پاک و پاکیزہ بنانے کا حق ہے۔“
ام سلمہ نے رسول خدا سے دریافت کیا کہ کیا میں ان میں سے ہوں؟ رسول اللہ نے فرمایا کہ تم اپنے مقام پر رہو۔ اگرچہ تم بھی پاکیزہ ہو۔“
(الترمذی، الصحیح، جلد ۵ صفحہ ۱۵۳ اور ۳۶۶) ، (الحکیم النیشاپوری،المستدرک، علی الصححین جلد ۲، صفحہ ۶۱۴، انھوں نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ البخاری کے اصول کے مطابق) السیوطی - الدّر المنثور، دجلد۵، صفحہ ۷۹۱)
سورہ احزاب کی آیت نمبر ۳۳ ابتدائی حصّہ اور اس کے بعد کا ٹکڑا امّہات المؤمنین کے بارے میں ہے۔ اس لئے کہ اس میں مؤنث کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ لیکن آیت تطہیر میں مذکر صفہ یا ملاجلا ہے۔ جو کہ ظاہر کرتا ہے یہ ٹکڑا دوسرا ہے اور دوسروں کے بارے میں ہے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article


 
user comment