اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

عراق اور شام میں آٹھ ہزار امریکی فوجی محاذ مزاحمت کی زد میں/ امریکہ اور اسرائیل کردوں کو بطور اوزار استعمال کرنا چاہتا ہے

امریکہ اور اسرائیل شام کو تقسیم اور کردوں کو ایران، ترکی اور عراق کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں جبکہ عراق اور شام میں آٹھ ہزار امریکی سپاہی اسلامی محاذ مزاحمت کی زد میں ہیں۔

اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ اخبار رأی الیوم کے چیف ایڈیٹر عبدالباری عطوان نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: شام کی تقسیم اور کردوں کو استعمال کرکے ایران، ترکی اور عراق پر دباؤ بڑھانے کا امریکی ـ اسرائیلی منصوبہ ایسے حال میں منظر عام پر آیا ہے کہ علاقے میں ایک نہایت شدید قسم کی مزاحمت تشکیل پا رہی ہے جو کہ امریکی فوجیوں کی گھات میں ہے اور امریکی فوجی ان کے لئے بہت اچھا شکار تصور کئے جاتے ہیں۔

شام میں امریکہ کے جنگی جرائم

اس اثناء میں یہ شامی وزارت خارجہ کا مسلمہ حق ہے کہ دیرالزور میں شام کی مسلح افواج کے دستوں پر امریکی فضائی حملوں اور 150 افراد کے جاں بحق ہونے کو "جنگی جرم War Crime" قرار دے کیونکہ امریکی افواج دہشت گردی ـ اور بالخصوص داعش ـ کے خلاف جنگ کے لئے عراق اور شام میں داخل ہوگئی تھیں، لہذا اب پوچھنا چاہئے کہ اب جبکہ یہ بہانہ ختم ہوچکا ہے،امریکہ ان ممالک کو چھوڑ کیوں نہیں دیتا اور ان فضائی حملوں سے اس کا مقصد کیا ہے؟

شام میں کردوں کی خودمختار موجودگی کی امریکی کوشش

مذکورہ سوال سادہ سا ہے لیکن اس کا جواب یہ ہے کہ امریکہ شام کی تقسیم کے سلسلے میں اپنے منصوبے پر عملدرآمد کرنا چاہتا ہے، فرات کے مشرق میں دائمی فوجی اڈے قائم کرنا چاہتا ہے اور فرات کے مشرق کو مغرب سے جدا کرنا چاہتا ہے یہاں تک کہ یہ اڈے امریکہ کے انجرلیک فوجی اڈے کا متبادل بن سکیں۔ کیونکہ [ترکی کا] انجرلیک فوجی اڈہ مزید امریکی طیاروں کو خیر مقدم نہیں کہتا؛ اور پھر یہاں مستقل کردی ریاست کے قیام کا امکان فراہم ہوسکے جس کے لئے امریکہ ماحول فراہم کررہا ہے۔

امریکی کی قیادت میں قائم [نام نہاد انسداد دہشت گردی] اتحاد نے جمعرات کے دن اعتراف کیا کہ انھوں نے شام کے حامی فوجی دستوں کو فضائی حملوں کا نشانہ بنایا ہے اور یہ حملے اس وقت عمل میں لائے گئے جب ان دستوں نے فرات کے مشرق میں واقع شام کی ڈیموکریٹک فورسز کے مرکز پر حملہ کیا تھا۔ یہ علاقہ صوبہ دیرالزور میں عراقی سرحد کے قریب واقع ہے، امریکی اتحاد کے حملوں کا مقصد سیرین ڈیموکریٹک فورسز کی حمایت کرنا تھا جس کی اکثریت کردوں پر مشتمل ہے۔

امریکیوں کا یہ اقدام فرات کے مشرق میں ایک مستقل اور خودمختار کردی ریاست کی خواہش کا اظہار ہے تاکہ اس علاقے کو شام سے الگ کردے، اسی مقصد کے لئے کُردوں کو حمایتی چھتر فراہم کریں اور تیس ہزار سپاہیوں پر مشتمل کرد فوج تیار کرکے اس کو عسکری تربیت دے کر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس کریں۔

امریکہ کے مد مقابل ترکی، عراق، ایران اور شام کا اتحاد

یقینا یہ منصوبہ شام، ایران، ترکی اور عراق کے لئے قابل قبول نہیں ہوگا چنانچہ امریکہ اور اس کے حلیفوں کو ان ممالک کا سامنا کرنا پڑے گا جو متحد ہوچکے ہیں اور بعید از قیاس نہیں ہے کہ یہ امریکی منصوبہ سربراہی کانفرنس کے ایجنڈے میں سر فہرست قرار پائے جو ایران، روس اور ترکی کے سربراہوں کی موجودگی میں اگلے چند ہفتوں میں استنبول میں منعقدہ ہورہی ہے۔

دوسری طرف سے شام کو ان دنوں امریکہ اور اسرائیل کے حملوں کا سامنا ہے جن کا مقصد شام کو نقصان پہنچاکر ان نقصانات کا ازالہ کرنا چاہتے ہیں جو انہیں شام اور لبنان میں اٹھانا پڑے ہیں جبکہ ان کوششوں کے دوران بھی انہیں مزید نقصانات اٹھانا پڑے ہیں اور اسرائیل کے ایک ایف سولہ طیارے اور ایک آپاچی ہیلی کاپٹر کو مار اور بےشمار میزائلوں کو مار گرایا گیا ہے۔

چنانچہ امریکہ اور اسرائیل کے موقف کی شدت کو ذیل کے نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے:

1۔ چند روز قبل اسرائیل نے لبنان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرکے لبنان کی سرحد سے شام کے دارالحکومت دمشق کو پانچ میزائلوں کا نشانہ بنایا جن میں سے چار میزائل شامی افواج نے مار گرائے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ گویا شام کی سرزمین اسرائیلی طیاروں کے لئے زيادہ پرامن نہیں ہے اور پھر آج ایک ناکام کوشش کے دوران اس کے طیارے اور ایک ہیلی کاپٹر نے شام کی حدود کی خلاف ورزی کی لیکن شام کے ایس 200 اینٹی میزائل و ایئرکرافٹ سسٹم نے مارا گرایا جبکہ ان کے داغے گئے میزائلوں کو بھی مار گرایا گیا اور یوں صہیونیوں کا خدشہ درست ثابت ہوا۔

اور معلوم ہوا کہ سات سالہ جنگ کے باوجود شام نے اپنے فضائی دفاعی نظام کو بہتر بنایا ہے اور اب وہ صہیونی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں اور حتی کہ میزائلوں کو بآسانی تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

شام پر امریکی بہتان تراشی کے پس پردہ محرکات

2۔ امریکیوں نے شام کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کا کیس ایک بار پھر چھیڑ رکھا ہے اور شامی حکام پر الزامات لگائے ہیں اور کسی قسم کا کوئی ثبوت پیش کئے بغیر دعوی کیا ہے کہ شام کی سرکاری فورسز نے غوطہ الشرقی میں کلورین گیس استعمال کی ہے۔ ان بہتانوں اور الزامات کا مقصد شام کے خلاف جارحیت کے لئے اسباب فراہم کرنا ہیں جیسا کہ چند ماہ قبل بھی امریکیوں نے شعیرات ہوائی اڈے پر 50 میزائل داغے اور دعوی کیا کہ انھوں نے یہ حملہ ادلب کے نواح میں خان شیخون پر شامی افواج کے مبینہ کیمیاوی حملے کا بدلہ لیا ہے!!!

3۔ دہشت گرد ٹولے توپوں، راکٹوں اور مارٹر گنوں سے دمشق اور نواح پر مسلسل حملے کررہے ہیں جن کا مقصد ان علاقوں میں عدم استحکام اور بدامنی پھیلانا ہے۔

روسی طیارہ مار گرائے جانے کا پیغام کیا تھا؟

4۔ جبہۃ النصرہ [جو القاعدہ کی شاخ ہے اور امریکہ نے اس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا ہے] کو کندھے سے داغے جانے والے اسٹینگر میزائلوں سے لیس کیا ہے۔ جبہۃ النصرہ نے ادلب کے نواحی علاقے سراقب کے اوپر روس کا ایک ایس یو (سوخو) 25 طیارہ امریکہ ساختہ اسٹینگر میزائل کے ذریعے مار گرایا اور یوں امریکہ نے روس اور شام کو پیغام دیا کہ حتی شام کی سرزمین ان کے طیاروں کی آزادانہ اڑان کے لئے پرامن نہیں ہے۔

5۔ اسرائیل نے بھی لبنان کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے اور لبنان کے ساتھ فلسطین کی سرحد پر حائل دیوار تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے اور وہ یوں اپنے وسعت پسندانہ مقاصد حاصل کرنے کے درپے ہے اور لبنان کے گیس فیلڈ فیز 9 پر قابض ہونے کے درپے ہے۔

 
ایران، ترکی، عراق اور شام کے خلاف کردوں کو بطور اوزار استعمال کرنے کا منصوبہ

واضح ہے کہ امریکہ نے ـ علاقائی حلیف کے طور پر ـ کردوں کا سہارا لیا ہے اور انہیں ایران، ترکی، عراق اور شام پر دباؤ کے لئے استعمال کرنا چاہتا ہے لیکن سابقہ تمام امریکی ـ اسرائیلی منصوبوں کی طرح اس منصوبے کی کامیابی کا امکان بھی تقریبا صِفر ہے؛ کیونکہ کرد واشنگٹن کی توقعات پر پورا نہیں اترسکتے اور امریکہ انہیں دیوار سے لگائے گا، جیسا کہ اس نے قبل ازیں اپنے دوسرے متحدین کو المناک انجام سے دچار کرکے تنہا چھوڑا ہے۔

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ امریکی شام، عراق ـ بالخصوص شام کے شہر منبج ـ میں موجود ہیں جو بہت جلد ایران، ترکی، عراق اور شام کے لئے جائز نشانے کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔ اور بعید از قیاس نہیں ہے کہ ان غاصب و قابض امریکی افواج کے دانت کھٹے کرنے کے لئے مسلحانہ مزاحمتی حلقے معرض وجود میں آجائیں، بالکل اسی طرح، جس طرح کہ 2003 میں پر امریکی قبضے کے بعد ایسے ہی حلقے تشکیل پائے اور آخر کار وہائٹ ہاؤس کو اپنی افواج عراق سے نکالنا پڑا تا کہ مزید جانی اور مالی نقصانات کو ٹال سکے۔ اس بار بھی ممکن ہے کہ امریکی فوجی بھاگ جانے میں ہی اپنی عافیت سمجھیں۔

اس وقت چھ ہزار امریکی فوجی عراق میں اور دو ہزار شام میں تعینات ہیں جو نئی مزاحمتی تنظیموں کے لئے نہایت مناسب شکار کی حیثیت رکھتے ہیں اور اب بھی وہی اسی مقصد سے سرگرم عمل ہیں۔ اگر عراق کی الحشدالشعبی کی رضاکار افواج نیز شام میں بعض ترک نواز تنظیمیں بھی ان نئی تنظیموں کا ساتھ دینا چاہیں ـ بالخصوص الحشد الشعبی جسے موصل کی فتح کے بعد کسی نئے مشن کی تلاش ہے اور شام میں ترک نواز تنظیمیں جن کے اہداف و مقاصد ترکی کے مسلسل نئے احکامات کی وجہ سے بدل چکے ہیں ـ تو امریکہ کو غیر متوقعہ صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا؛ بہرحال حالات بدل رہے ہیں۔

علاقے میں امریکہ کی تنہائی

دریں اثناء کہنا چاہئے کہ کچھ کردوں کے سوا علاقے میں امریکہ کا کوئی دوست نظر نہیں آتا؛ بایں معنی کہ ترکی، شام، عراق اور ایران تو اس کے ہاتھ سے نکلے چکے ہیں، اور اگر وہ سمجھتا ہے کہ شام کو نئے افغانستان میں بدل سکتا ہے اور ان چار ممالک نیز روس کو کرد عسکریت پسندوں اور اسٹینگر میزائلوں کے ذریعے شکس دے سکے گا؛ تو کہنا پڑے گا کہ وہ شدید غلطی پر ہے کیونکہ مذکورہ چار ممالک اس علاقے کی اصلی طاقتیں ہیں اور شام بھی اس علاقائی نظام کا حصہ اور ایک طاقتور ملک ہے، یعنی یہ کہ شام افغانستان کے کمیونسٹ نظام کی طرح کمزور نہیں ہے جس کو علاقائی اور بین الاقوامی مقاطعے [بائیکاٹ] کا سامنا تھا۔

بہر حال اگلے چند ہفتوں یا چند مہینوں میں امریکی افواج ـ داعش کی بجائے ـ علاقے میں شدید مزاحمت کا نشانہ بنیں گی اور عین ممکن ہے کہ کالا جادو جادوگر ہی کے دامنگیر ہوجائے۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

پردے كے بارے میں "حجاب" نامی دستاويزی فلم متحدہ ...
دینی مدارس کو در پیش مشکلات اور اُن کا حل
بلجیئم میں قبول اسلام کا بڑھتا ہوا رجحان
شیخ زکزاکی کو ان کی اہلیہ سمیت جیل سے نامعلوم جگہ ...
داعش نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا: ...
انصار اللہ کی جانب سے بحران یمن کے حل کے لیے ...
مكہ مكرمہ میں قرائت قرآن كے مقابلے كا انعقاد
ظلم و جارحیت سے جھٹکارے کا واحد راستہ، پیغمبر ...
نجران علاقے کو بچانے کے لیے آل سعود کی بڑھتی ...
گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان

 
user comment