اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

سپاہ پاسداران، فاطمیون اور زینبیون کا شکریہ ادا کرتا ہوں/ جنرل سلیمانی اور سپاہ کا کردار اس فتح میں بہت بنیادی ہے

سید حسن نصر اللہ نے اپنے خطاب کے آغاز میں حالیہ زلزلے میں ایرانی شہریوں کے جانی نقصانات پر رہبر انقلاب اور ایران کے عوام اور حکومت کو تعزیت پیش کی اور زلزلے کے بعد کی امداد رسانی کو عوام اور حکومت کے درمیان اچھے تعلق کی علامت قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کے رابطے کی ضرورت ہے۔  

عراق میں داعش کی شکست
سید حسن نصراللہ نے عراق کے شہر راوہ میں داعش کی شکست کو اس دہشت گرد تکفیری ٹولے کا مکمل زوال قرار دیا۔  
انھوں نے کہا: داعش کے مکمل زوال کا اعلان عنقریب ہونے والا ہے۔ ہمارے خیال میں ایک مشن عراق میں مکمل ہوچکا ہے اور ہمیں اب عراقی حکومت کی طرف سے سرکاری اعلان کا انتظار ہے البتہ حکومت عراق نے اعلان کیا ہے کہ داعش مزید کسی بھی عراقی شہر پر قابض نہیں رہی ہے، راوہ پر عراقی فورسز کا کنٹرول ایک اہم کامیابی ہے۔ اور اس مسئلے کا دو روز قبل کے عرب لیگ کے اعلامیئے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے بہت سے عسکری ماہرین عراق بھجوائے اور ہمارے متعدد افراد وہاں شہید اور زخمی ہوئے۔ ہم ابتداء سے عراقی حکام کے ساتھ ہمآہنگ تھے اور اب بھی غور و فکر کے بعد فیصلہ کریں گے کہ اگر ضرورت ہو تو اپنے کمانڈروں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کریں۔ اس بات کا عرب لیگ کے اعلامئے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور سبب صرف یہ ہے کہ داعش مزید کوئی خاص وجود نہیں رکھتی۔  
البوکمال شہر کی آزادی داعش کی منہ بولی حکومت کا زوال ہے  
انھوں نے شام کے حالات اور حلب، المیادین اور دیرالزور میں میں داعش کی شکست کے بعد البوکمال شہر کی آزادی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہم شام کے شہر البوکمال میں بھی ایک مکمل فتح اور کامیابی حاصل کرچکے ہیں؛ اور شام میں داعش نابود ہوچکی ہے۔ البوکمال کی آزادی شام اور عراق کے درمیان فطری تعلق کی بحالی کے مترادف ہے اور یہ وہی واقعہ ہے جس کو روکنے کے لئے امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔  
سید حسن نصر اللہ نے کہا: البوکمال شہر کی آزادی شام میں قومی وحدت کو تقویت پہنچاتی ہے اور تقسیم کے منصوبے کو ناکام بنائے گی۔ البوکمال کی آزادی کے ساتھ ہی داعش کی نام نہاد حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا لیکن میں کہتا ہوں کہ یہ داعش کی انتہا نہیں ہے بلکہ اب یہ دہشت گرد دوسری شکلوں میں سرگرم ہونگے۔  
انھوں نے البوکمال کی اہمیت کے بارے میں کہا کہ یہ ایک سرحدی شہر ہے جو القائم کی گذرگاہ پر مسلط ہے جو عراق اور شام کو بہم متصل کرتی ہے؛ اور البوکمال کی آزآدی سے شام کی تقسیم کا امریکی منصوبہ ناکام ہوجاتا ہے اور شام کی ملکی سالمیت محفوظ رہے گی۔
انھوں نے کہا کہ شام کے بعض علاقوں میں داعش موجود لے لیکن اس کی تنظیم تباہ ہوچکی ہے اور جب شام اور عراق دونوں داعش پر اپنی فتح کا اعلان کریں گے تو پھر جشن منانا چاہئے وحشی پن پر انسانیت کی فتح کا۔  
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا: البوکمال کی آزادی کو تاریخ میں داعش کی حکومت کے زوال کی تاریخ کے طور پر ثبت کیا جاسکتا ہے۔  
انھوں نے کہا: علاقے کے تمام زعماء اور اقوام کو اپنے آپ سے پوچھ لینا چاہئے کہ داعش کو کون معرض وجود میں لایا اور کون اس کے خلاف لڑا اور کس نے اس پر فتح حاصل کی۔  
انھوں نے داعش کی حمایت میں امریکی کردار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: امریکیوں نے البوکمال میں داعش کی حمایت میں ہر وہ کام کیا جو وہ کرسکتا تھا۔ امریکہ نے البوکمال میں داعش کو فضائی حمایت فراہم کی اور سائبری جنگ کے ذریعے حملہ آور فورسز کے کام میں خلل اندازی کی۔ امریکہ نے فرات کے مشرق میں شامی اور روسی فضائیہ کے کام میں خلل اندازی کی اور ان کے طیاروں کو داعش کے ٹھکانوں پر بمباری سے روکا اور انہیں ہر قسم کی معلومات فراہم کیں اور آزادانہ نقل و حرکت کا امکان فراہم کیا۔ امریکہ کی پوری کوشش تھی کہ البوکمال میں داعش آخر تک ڈٹ جائے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ داعش کی حمایت میں کس حد تک آگے بڑھ سکتا ہے۔ جب داعش کی پسپائی کے سوا کوئی چارہ کار نظر نہ آیا تو امریکہ نے تمام تر سہولیات فراہم کرکے ان کی پرامن پسپائی کا انتظام کیا اور انہیں کرد ڈیموکریٹک فورسز کے زیر قبضہ علاقوں میں پہنچایا۔ امریکہ نے البوکمال میں صرف کاروائی کرنے والی فورسز پر گولی چلانے سے گریز کیا باقی جو کرسکا داعش کی مدد کے لئے کرچکا۔ امریکی ہیلی کاپٹروں نے داعش کے کمانڈروں کو دیگر علاقوں کی طرح مہلکے سے دور کردیا۔
ان کا کہناتھا کہ امریکہ نے البوکمال میں داعش کر اعلی کمانڈروں کو میدان جنگ سے بحفاظت نکال دیا۔ امریکی چاہتے تھے کہ داعش کو عشروں تک زندہ رکھے، وہ کہتے تھے کہ داعش کے خلاف جنگ 30 سال تک جاری رہس گی لیکن اسلامی محاذ مزاحمت نے اس کو چند ہی سالوں میں شکست دی اور یہ امریکیوں کے لئے بڑی رسوائی ہے۔ آج ہمیں امریکہ کی جانب سے نئے عناوین اور نئے ناموں سے داعش کے احیاء کے خطرے کا سامنا ہے تا کہ وہ امریکہ کے سونپے ہوئے سابقہ مشن کو جاری رکھیں۔
انھوں نے کہا: رجب طیب اردوگان، امریکہ کے حلیف ہیں اور انھوں نے کہا ہے کہ امریکہ داعش کی حمایت کررہا ہے لہذا ہم بھی ان ہی کے اس موقف پر اکتفا کرتے ہیں۔  

قاسم سلیمانی، سپاہ پاسداران، فاطمیون، زینبیون اور ایران کا شکریہ
سید حسن نصر اللہ نے سپاہ پاسداران کے قدس کور کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کا شکریہ ادا کیا اور کہا: جنرل سلیمانی البوکمال کے معرکے میں فرنٹ لائن کے مورچوں میں حاضر تھے اور ان جنگ کے تمام جزئیات کی نگرانی کررہے تھے۔  
انھوں نے کہا: ایران، عراق، شام اور لبنان کے ساتھ مل کر داعش کے خلاف لڑا۔ میں رہبر معظم امام خامنہ ای، ایرانی قوم اور جنرل سلیمانی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کا نام تاریخ میں محفوظ رہے گا۔  
انھوں نے اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ہم اسی حوصلے اور قوت سے داعش کے باقیات کی نابودی کے لئے تیار ہیں بالخصوص کہ ہم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ امریکی اسے زندہ رکھنے کے درپے ہیں۔  
انھوں نے تمام شامی مجاہدین اور عراقی مجاہد تنظیموں، فاطمیون ڈویژن اور زینبیون ڈویژن اور سپاہ پاسداران نیز حزب اللہ کے مجاہدین کا شکریہ ادا کیا۔  

ہم نے یمن کو ہتھیار نہیں دیئے ہیں / عرب وزرائے خارجہ کا الزام بے بنیاد، بےوقعت اور بے قدر و قیمت ہے
سید حسن نصراللہ نے اتوار کو قاہرہ میں منعقدہ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کے اجلاس اور اس کے اختتامی اعلامیئے میں حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیئے جانے اور اس کی طرف سے یمن کے لئے میزائل بھجوائے جانے کے الزام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ عرب لیگ کے وزرائے خارجہ کا الزام نیا نہیں ہے اور ان کے سابقہ اجلاسوں میں بھی اس طرح کے الزامات سامنے آئے ہیں جو افسوسناک ہیں اور ایسے وقت میں کہ ہم البوکمال میں داعش کی شکست کا اعلان کررہے ہیں عرب لیگ کے وزرائے خارجہ حزب اللہ کو دہشت گرد تنظیم قرار دے رہے ہیں!!!
انھوں نے کہا: سعودی وزیر خارجہ کہتا ہے کہ ہم داعش کی شکست میں کردار ادا کررہے ہیں، میں اس سے کہتا ہوں کہ صرف ایک کاروائی کا تذکرہ کریں جس سے سعودیوں نے کردار ادا کیا ہو؟
ان کا کہنا تھا حزب اللہ پر الزامات لگانے کا رجحان ایک امریکی رجحان ہے اور امریکہ اور عرب حکمران چاہتے ہیں کہ جن لوگوں نے داعش کو شکست دینے میں کردار ادا کیا ہے انہیں سزا ملے۔   
حزب اللہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا کہ سعودی عرب سمیت عرب حکمرانوں کے ساتھ تعلقات کے سلسلے میں صہیونی ریاست کے حکام کے خیالات ہی موجودہ حقائق کی شناخت کے لئے کافی ہیں۔  
انھوں نے کہا: عرب وزراء نے ہم پر علاقے میں دہشت گرد تنظیموں کی حمایت اور ان کے لئے بیلیسٹک میزائل بھجوانے کا الزام لگایا ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ یہ الزام کس بنیاد پر لگا رہے ہیں؟ عرب وزراء کا الزام بےبنیاد اور بےوقعت ہے۔ ہم نے یمن، بحرین، کویت، بحرین اور کسی بھی دوسرے عرب ملک کو ہتھیار نہیں بھجوائے ہیں۔  
سید حسن نصراللہ نے کہا: ہم نے صرف فلسطینی مزاحمت تحریک کے لئے ہتھیار بھجوائے ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ہم نے غاصبوں کے مقابلے میں فلسطینی مزاحمت کی حمایت کی ہے اور انہیں کارنٹ میزائل بھجوائے ہیں۔  
انھوں نے کہا: اسرائیل علاقے کے امن و سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور مزاحمت تحریک کے ہتھیار لبنان کے امن و استحکام کی ضمانت ہیں۔  
انھوں نے عرب لیگ کے اعلامیئے کے حامیوں سے طعنے کے انداز میں خطاب کرکے کہا: اگر تم واقعی لبنان کی مدد کرنا چاہتے ہو تو لبنان میں مداخلت نہ کرو جیسا کہ حال ہی میں مداخلت کرتے رہے ہو، اور دہشت گردوں کو لبنان مت بھیجو۔
انھوں نے کہا: اسرائیل کی تمام تر جارحیتیں عرب لیگ کے اجلاس کے انعقاد کا سبب نہ بنیں، لیکن ریاض پر ایک میزائل گرا تو عرب لیگ کے وزرائے خارجہ نے اجلاس منعقد کیا!
انھوں نے ایک بار پھر کہا کہ ریاض پر حال ہی میں گرنے والے حالیہ میزائل، اور ماضی میں سعودیوں پر گرنے والے میزائل نیز مستقبل میں آنے والے اس قسم کے میزائلوں کا کا حزب اللہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  
سیدحسن نصر اللہ نے کہا: جو ممالک اپنی تمام تر چھوٹی بڑی ضروریات دوسرے ملکوں سے برآمد کرتے ہیں وہ اس بات کا ادراک ہی کرنے سے قاصر ہیں کہ دوسرے ممالک اور اقوام خود ہتھیار اور میزائل بھی بنا سکتے ہیں۔ یمنی خود میزائل بناتے ہیں اور ہتھیار بناتے ہیں لیکن سعودیوں کے لئے شاید اس حقیقت کا ادراک ممکن نہیں ہے۔  
ان کا کہنا تھا کہ سعودی اتحاد کے طیارے یمن میں ہر مقام اور ہر چیز کو نشانہ بناتے ہیں اور اب تک ہزاروں افراد شہید اور لاکھوں زخمی ہوئے ہیں؛ تو کیا یمنی عرب نہیں ہیں؟ اگر وہ عرب ہیں تو پھر تم نے اپنے اعلامیئے میں یمن میں سعودی جرائم کے بارے میں ایک لفظ تک کیوں نہیں کہا؟ کیا تمہارا کوئی دین کوئی ضمیر نہیں ہے؟
انھوں نے تجویز دی کہ پہلے یمن میں سعودیوں کے ہاتھوں اجتماعی قتل عام اور بچوں اور عورتوں کے قتل کو روک دو اور پھر سیاسی راہ حل تلاش کرو۔ عرب ممالک اور عرب اقوام یمن کے قضیئے میں گونگے بہرے ہوچکے ہیں؛ جبکہ وہ سب جانتے ہیں کہ سعودی اپنے تمام تر منصوبوں میں ناکام ہوچکے ہیں۔  
انھوں نے عرب لیگ کی طرف سے حزب اللہ پر لگائے جانے والے دہشت گردی کے الزام پر فلسطینی جماعتوں کے شدید رد عمل کا شکریہ ادا کیا۔ انھوں نے لبنانی وزیر خارجہ اور عراقی حکام کا بھی شکریہ ادا کیا جنہوں نے عرب لیگ میں مستقل موقف اپنا کر اعلامیئے کی مخالفت کی تھی۔  
انھوں نے کہا: حال ہی میں سابق صہیونی وزیر جنگ موشے یعلون نے کہا ہے کہ "ہم جو کچھ عبرانی زبان میں بیان کرتے ہیں سعودی وزیر خارجہ وہی کچھ عربی زبان میں بیان کرتا ہے"، تو کیا یہ افسوسناک نہیں ہے اور یہ مسلمانوں اور عربوں کے لئے لمحۂ فکریہ نہیں ہے۔  
انھوں نے حال ہی میں سعودی ویب سائٹ ایلاف کے ساتھ صہیونی افواج کے چیف آف اسٹاف کے مکالمے کو صہیونی ریاست کے ساتھ سعودی عرب کے تعلقات کی بحالی کی غرض سے ایک نہایت خطرناک اقدام قرار دیا۔  
انھوں نے لبنان کے مسائل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ہماری ترجیح یہ ہے کہ وزیر اعظم سعد الحریری ملک واپس آجائیں۔  
انھوں نے لبنانیوں سے مخاطب ہوکر کہا: جو کچھ آپ نے عرب لیگ کے اجلاس میں سنا اسے بھول جائیں کیونکہ ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، اور اپنی حرکت آگے کی طرف جاری رکھیں۔ 

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

شیخ زکزاکی کو ان کی اہلیہ سمیت جیل سے نامعلوم جگہ ...
داعش نے اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا: ...
انصار اللہ کی جانب سے بحران یمن کے حل کے لیے ...
مكہ مكرمہ میں قرائت قرآن كے مقابلے كا انعقاد
ظلم و جارحیت سے جھٹکارے کا واحد راستہ، پیغمبر ...
نجران علاقے کو بچانے کے لیے آل سعود کی بڑھتی ...
گلگت بلتستان اسمبلی انتخابات کے نتائج کا اعلان
سعودی حملہ کو شیعہ و سنی ٹکراو کا رنگ و روپ دینے ...
ایران کے شہریزد میں قرآنی علوم کی نمائش کا افتتاح
یمن کے السبعین اسکوائر پر لاکھوں افراد کا ...

 
user comment