اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

علی(ع) نے نواصب کے آباء و اجداد کو قتل کیا صرف اسی وجہ سے نواصب کے لئے بغض علی(ع) جائز ہے؟

.ابن حجر فرماتے ہیں انسانی طبیعت کا تقاضا یہ ہے کہ جس سے فائدہ پہونچتا ہے اس سے محبت ہوجاتی ہے اور جس سے نقصان پہنچتا ہے اس سے دشمنی ہوجاتی ہے.
لیکن میرا یہ کہنا ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے علی(ع) نے نواصب کے آباء و اجداد کو قتل کیوں کیا؟ کیا انہوں نے حکم الہی کی پیروی میں قتل کیا یا اس لئے کہ وہ سب کے سب خدا کے دشمن اور حکم خدا پر خروج کے مرتکب ہوتے تھے ارشاد ہوتا ہے جو لوگ خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں انہیں تم ایسے لوگوں سے محبت کرتا ہوا ہرگز پائو گے جو خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرتے رہتے ہیں ان (مومنین) کے باپ دادا ہوں یا بیٹے بھائی ہوں یا قبیلے والے، ان پر واجب ہے کہ وہ امیرالمومنین سے محبت کریں اس لئے کہ آپ نے حکم خدا کو نافذ فرمایا.(۲)
اگر وہ علی(ع) سے محبت نہیں کرتے تو وہ کھلے ہوئے منافق قرار پائیں گے جیسے وہ لوگ جو رسول خدا(ص) سے صرف اس لئے بغض رکھتے تھے کہ رسول نے ان کے محبوب افراد کو قتل کرایا اس لئے کہ قتل ہونے والے ان سے دوستی کا دم بھرتے تھے جو خدا سے جنگ کررہے تھے اور وہ محبوب خدا کے دشمن تھے اور اس کے دشمن تھے جو حکم خدا کو نافذ کرنے والا ہے لہذا ناصبیوں کا امیرالمومنین(ع) سے بغض رکھنا اس اعتبار سے ان کے نفاق میں تاکید ہوجاتی ہے.
مذکورہ حدیث کا مخصوص کرنا اس کے ظاہری معنی سے خروج نہیں لازم آتا
ابن حجر نے فرمایا:
۲.دوسری بات یہ ہے کہ حدیث«علی(ع) کی محبت ایمان اور ان سے بغض نفاق ہے» عموم پر دلالت نہیں کرتی اس لئے کہ دیکھا گیا ہے کہ غلو کرنے والے دشمن خدا اور رسول بھی علی(ع) سے محبت کرتے ہیں.


۱.اس کا پہلا جواب یہ ہے کہ حدیث شریف سے مراد مخصوص وہ لوگ ہیں جو اسلام کا دعوی کرتے ہیں اس لئے کہ ایمان اور نفاق کا تعلق انھیں لوگ سے ہے نیز انھیں میں مومن، منافق اور فاسق کی تقسیم ہوتی نہ کافر کی.
۲. دوسری بات اگر آپ کے کہنے کے مطابق عموم مان بھی لیا جائے تو عموم کا دائرہ مسلمانوں کو بھی سمیٹ لے گا اس لئے کہ عموم کا مزاج ہی یہ ہے کہ وہ سب کو سمیٹ لیتا ہے لیکن حدیث کی دلالت التزامی کافروں سے خطاب ہونے کی باوجود تضمنی طور پر مسلمانوں کو بھی شامل ہوگی اس لئے کہ حدیث میں ایمان و نفاق کی قید کا تقاضہ ہے کہ مسلمان بھی مخاطب قرار پائیں تو اب حدیث کی دلالت تضمنی بتائے گی کہ علی(ع) کا چاہنے والا مومن اور ان کا دشمن منافق ہے لہذا اس اعتبار سے بھی یہ حدیث نواصب کے نفاق پر دلالت کرتی ہے اور ہم یہی ثابت کرنا چاہتے ہیں.


انصار کی فضیلت اپنی جگہ اور اس حدیث کی حجیت اپنی جگہ
۳.ابن حجر کہتے ہیں کہ اس حدیث میں کیا خاص بات ہے اس طرح کی حدیث تو انصار کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہے.
جوابا عرض ہے کہ اس طرح کی حدیث اگر انصار کے بارے میں بھی وارد ہوتی ہے تو مان لینے میں کیا حرج ہے؟ مان لیا کہ انصار سے بعض رکھنے والا منافق ہے چاہے جس سے بغض رکھتا ہو، ابھی آپ کے چوتھے سوال کے جواب میں میں نے امیر کائنات(ع) کے حوالے سے عرض کیا ہے کہ سقیفہ میں کیا ہوا تھا، قریش کے اکثر لوگ منافق تھے اور انصار کو سرعام برا بھلا کہتے تھے انصار سے کھلم کھلا دشمنی، انصار کی اذیت رسانی، انصار سے بے توجہی اور ان کی توہین تو منافقین قریش کا شعار بن چکی تھی. عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابوسفیان جیسے لوگ تو انصار کے ستانے کا موقع ڈھونڈتے تھے البتہ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ حدیث کے عنوان میں وہ حضرات ہیں جو من جملہ انصار شمار کئے جاتے تھے شاذ و نادر نہیں کہا جاسکتا اس لئے کہ تاریخ شاہد ہے کہ انصار میں بھی منافقین بہر حال پائے جاتے تھے ظاہر ہے کہ ان سے محبت اور دشمنی ایمان اور نفاق کا معیار نہیں بن سکتی، اسی مضمون کی حدیث انصارکے لئے بھی اور امیرالمومنین(ع) کے لئے بھی ہے تو اس حدیث کی فضیلت میں انصار کے ساتھ امیرالمومنین(ع) کی شرکت سے کیا حدیث باطل ہو جائے گی.
دوسری بات یہ ہے کہ انصار کا دشمن منافق ہے اس سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ نواصب کے لئے علت نفاق بغض انصار ہے. یہ جملہ اسی طرح کا ہے جیسے ہم عام طور پر کہتے ہیں کہ جو مومنین سے محبت کرے گا وہ ان کے ساتھ محشور ہوگا یا جو کفار سے بغض رکھے گا وہ قیامت میں کفار کی طرح عریان ہونے سے محفوظ رہے گا بر خلاف اس حدیث کے جو امیرالمومنین(ع) کے لئے وارد ہوئی ہے اس میں ایک فرد واحد کو ہر عنوان سے مجرد کر کے صرف اسی فرد کی فضیلت بیان کی گئی ہے اس کا مطلب ہے کہ خاص ذات علی(ع) سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے.
۳. تیسری بات یہ ہے کہ اگر بادی النظر میں یہ مان بھی لیا جائے کہ انصار کے بارے میں آپ نے جو تاویل کی ہے وہ صحیح ہے تو اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ وہی تاویل مولا علی(ع) کی فضیلت والی حدیث میں صحیح ہوگی جب کہ میں نے ابھی یہ ثابت کیا کہ آپ کی تاویل حدیث کے خصوص کو عموم میں بدلنے سے قاصر ہے.


منافق دیندار سچے مگر شیعہ...نہیں
آپ فرماتے ہیں یعنی ابن حجر کہ نواصب اکثر دین دار اور سچے ہوتے ہیں بر خلاف شیعوں کے کہ ان میں زیادہ تر جھوٹے اور حدیثوں کے نقل کے سلسلہ میں غیر محتاط ہیں.
ابن حجر کا یہ احتمال دو باتوں کی وجہ سے ہے
۱. پہلی بات یہ ہے کہ انھوں نے جب حدیث کو اس کے معنائے ظاہری کے خلاف محمول کیا تو اس قرینے سے یہ بات ان کی سمجھ میں آگئی کہ ناصبی سچا اور شیعہ جھوٹا ہے اس لئے کہ جب حدیث کے معنی اپنے ظاہری الفاظ کے مطابق نہیں ہیں تو اب حدیث کا مفہوم اپنے ظاہر معنی سے نکل جاتا ہے اور ابن حجر اس کو اپنی تاویل کی روشنی میں سمجھنے پر مجبور ہیں کہ نفاق کی، حدیث پیغمبر(ص) کی روشنی میں ایک ہی علامت ہے اور نہ علی(ع) سے بغض رکھنا ہے ابن حجر نے تاویل کر کے حدیث کے معنی ہی بدل دیئے، اب ظاہر ہے نواصب میں بغض علی(ع) پایا تو جاتا ہے لیکن ابن حجر کی نظر میں وہ منافق نہیں ہیں اس لئے کہ وہ بڑے پرہیزگار، دیانتدار ہیں بس ثابت ہوا کہ وہ اپنے دعوای اسلام میں جھوٹے نہیں ہیں اگر چہ عقیدے میں غلط ہیں.


ناصبی کے نفاق کی وضاحت
اگر ابن حجر نے نفاق اور ایمان کا مطلب وہ لیا ہے جو ابھی مندرجہ بالا سطروں میں عرض کیا گیا ہے تو میں جواب میں عرض کروں گا کہ پہلے ابن حجر یہ بتائیں کہ دینداری کیا ہے، میری نظر میں تو دینداری کا مطلب یہ ہے کہ ان تمام باتوں پر ایمان لانا جو اللہ نے نازل کیا ہے اور جو کچھ اللہ نے ان پر فرض کیا ہے اس پر ایمان کے لئے دل کو آمادہ کرنا اور صدق دل سے اللہ کی طرف سے نازل شدہ فرائض کی انجام دہی ہے اور ایسا ایمان اس وقت تک حاصل نہیں ہوگا جب تک دل کی فضا ک تعصب اور جذبات کی آلودگییوں سے پاک نہ کرلی جائے نیز ان تمام دلیلوں پر غور نہ کر لیا جائے جنہیں اللہ نے اپنے بندوں کے لئے قائم کی ہیں تا کہ بندہ حقیقتوں کا ادراک کر سکے اور اپنی ذمہ داریوں کو سمجھ کر اللہ کی رضا کا طالب ہو جائے. اس بات کو ایک مثال سے سمجھئے جب کوئی سمجھدار انسان کسی خطرناک مرض میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ اپنے علاج کے لئے شفا کی خاطر اچھے سے اچھے ڈاکٹروں کی تلاش، کافی محتاط انداز میں کرتا ہے، تعویذ گنڈا اور غیر عقلی طریقوں کی طرف متوحہ نہیں ہوتا معالجہ اور دوا کی تلاش کے وقت جذبات اور تعصبات سے کام نہیں لیتا بلکہ اس کی بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ وہ شفاء کامل حاصل کرے حضور والا جسم کی شفا اور بدن کی سلامتی سے زیادہ روح کی سلامتی، دین کی سلامتی اور رضائے پروردگار کا حصول ضروری ہے اس لئے ایمان اور دیانت داری کہاں رہی؟
بہر حال اگر تمام انسان خلوص و توجہ کے ساتھ حقیقت پانا چاہیں تو ضرور پہونچ جائیں گے اس لئے کہ خداوند عالم نے حجتوں کی وضاحت کردی اور حقتک پہونچنے پہونچانے کے لئے دلیلیں قائم کر رکھی ہے ارشاد ہوتا ہے کہ،( خدا اس وقت تک کسی قوم کو گمراہ نہیں چھوڑتا جب تک یہ نہ بتا دے کہ ان کو کن باتوں سے پرہیز کرنا چاہئے) (قراآن)


اس حقیقت کی وضاحت آپ کے لئے چھٹے سوال کے جواب میں بخوبی ذکر کردی گئی ہے.
اور اگر بادی النطر میں یہ مان بھی لیا جائے کہ کچھ ایسے حقایق ہیں کہ جس کے ذریعہ ایمان اور نفاق کو پہچانا جاسکتا ہے جب ناصبیوں کےعقیدے کے باطل ہونے میں کسی شک کی گنجائش نہیں صرف تھوڑا تدبر کی ضرورت ہے مثلا ۱. یہ دیکھیں کہ یہ عقیدہ کس ماحول کی پیداوار ہے. ۲. یہ دیکھیں کہ اس عقیدے کی حوصلہ افزائی اور ترویج کن لوگوں‌نے کی؟ ۳. اس عقیدے کی ترویج کے لئے جو وسیلے اور اپنائے گئے ان پر غور کریں. ۴. یہ دیکھیں کہ اس عقیدے کے کس طرح کے حامل افراد ہیں؟ اس طرح کی بے شمار دلیلیں ہیپ جو اس عقیدے کو باطل ٹھہراتی ہیں اور ان دلیلوں کو حاصل کر لینا کوئی مشکل نہیں ہے خصوصا صاحبان علم اور حاملان حدیث کے لئے.
لیکن افسوس! عشق اور دل کا میلان اس کا کوئی علاج نہیں ہے جب انسان کا دل کسی چیز کی محبت میں گرفتار ہوتا  ہے تو انسان عقل سے زیادہ جذبات کا شکار ہوجاتا ہے یہاں تک کہ دین میں کاٹ چھانٹ شروع کرتا ہے دین کو بھی دہ ایک حد تک مانتا ہے جب تک دین اس کی خواش کو نقصان نہیں پہونچاتا اور اس کے جذبات کو فائدہ پہونچاتا ہے وہ دین کو مانتا ہے، لیکن جہاں سے دین اس کے دل کے معاملات میں دخل دینے لگتا ہے ہیں سے انسان تعصب اور لڑائی جھگڑے کا راستہ اپنا لیتا ہے اور حق کو چھپانے کے لئے کبھی تکذیب کا سہار لیتا ہے تو کبھی تسخیر اور خاطر خواہ تاویلوں پر تکیہ کرتا ہے اور اسی کا نام نفاق ہے یاد رکھئے ! صرف ایمان کے فقدان اور دین کے اصلا انکار کرنے کا نہیں ہے بلکہ منافق ہونے کے لئے اتناہی کافی ہے کہ انسان دین کی ان چیزوں سے ایمان اٹھالے جو ہیں تو دین ہی کی باتیں لیکن اس کو عقلی نہیں لگتی اور صرف ایسی چیزوں پر ایمان لائے جو اس کے خواہشات نفس کو نقصان نہ پہونچاتی ہوں یا اس کے جذبات کے مطابق ہوں.
اہل سنت کے ایک قدر آور عالم دین اما احمد بن حنبل نے اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے عبد اللہ احمد بن حنبل کہتے ہیں :میں نے اپنے والد احمد بن حنبل سے پوچھا! بابا ! علی(ع) اور معاویہ کا کیا قصہ ہے؟ کہنے لگے بیٹا! پہلے یہ بات سمجھ لو کہ علی(ع) کے کثیر دشمن تھے انھوں نے علی(ع) کے اندر خامیاں تلاش کرنے کی بھر پور کوششیں کیں لیکن نا کام رہے تو پھر وہ ایسے شخص کے پاس گئے جو علی(ع) سے جنگ و جدال کرتا رہتا تھا اور انہوں نے اسی کی آڑ میں اپنے دل کا بخار نکالا.(3)
ان باپ  بیٹے کی گفتگو سے ایک بات و ضرور سمجھ میں آتی ہے کہ دشمنان علی(ع) کے پاس علی(ع) سے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں تھی اور نہ ہی کوئی ایسی دلیل تھی جس پر تکیہ کر کے وہ بغض علی(ع) کو صحیح قرار دیتے جز خواہشات نفس کے جو نفاق کی علامت ہے.
یہیں پر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ صرف صدق لہجہ اور دین میں ظاہرداری کرنا نواصب کو منافق حدیثیں اپنے مفاد سے الگ ہوجائیں گی جن میں امیرالمومنین(ع) کو ناحق حق و باطل قرار دیا ہے اور آپ ہی کی ذات اقدس ایمان و نفاق نیز ہدایت و ضلالت میں حد فاصل کھینچتی ہے.

یہ بھی ایک حیرت انگیز ہے کہ ناصبی افراد ان حدیثوں کو زور و شور کے ساتھ روایت بھی کرتے ہیں جس میں حضرت علی(ع) کو فارق حق و باطل قرار دیا گیا ہے اور پھر آپ سے اعلانیہ اظہار دشمنی کا بیان بھی دیتے ہیں. وجہ یہ بتاتے ہیں کہ علی(ع) نے ان کے آبا و اجداد  نیز ان کے گھر والوں کو قتل کیا ہے اور ان ناصبیوں کے حمایتی ان کے صاحب دین و صادق اللہجہ ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ کر یہ اعلان کرتے ہیں کہ ایسے لوگ منافق تو ہو ہی نہیں سکتے ہیں میں پوچھتا ہوں کہ حدیث پیغمبر(ص) سے مقام عمل میں صرف اس وجہ سے اختلاف کرنا کہ وہ حدیثیں کسی ذات یا ان کی خواہشات کے خلاف وارد ہوئی ہیں کیا اس سے بھی بڑا نفاق کچھ ہوسکتا ہے؟
بہر حال ابن حجر عسقلانی کے نواصب کی مدح سرائی کی دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ اس نے شیعوں اور ناصبیوں کے درمیان اہل سنت کے غیر متوازن نظریہ کی توجیہ کی ہے کہ منافق بغض علی(ع) کو دین سمجھتے ہیں اور اس معاملے میں وہ بہت سخت ہیں لہذا وہ دیانتدار ہیں این حجر نے عمدا ان حدیثوں سے چشم پوشی کی ہے جن میں امیرالمومنین(ع) کو مومن و منافق کے درمیان علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اس سلسلے میں دو باتوں پر توجہ دیں.

 

.................................................
۱.تفسیر طبری، ج۱۳، ص۱۰۸، تفسیر ابن کثیر، ج۲، ص۵۰۳، فتح الباری، ج۸، ص۳۷۶، روح المعانی، ج۱۳، ص۱۰۸، الدر المنثور،ج۴، ص۶۰۸.
۲.سورہ مجادلہ، آیت۲۲.
3.تاریخ الخلفاء، ج۱، ص۱۹۹، معاویہ ابن ابی سفیان کی سوانح حیات کے ضمن میں. فتح الباری، ج۷، ص۱۰۴، تحفتہ الا حوذی، ج

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسين(ع) کا وصيت نامه
قرآن کی نظر میں جوان
حضرت محمد بن الحسن (عج)
امام حسین علیہ السلام کے مصائب
شہادت امیرالمومنین حضرت علی مرتضی علیہ السلام
روزہ کی اہمیت کے متعلق نبی اکرم (ص) کی چند احادیث
حضرت علی بن ابی طالب (ع) کے بارے میں ابن ابی الحدید ...
آیت تطہیر کا نزول بیت ام سلمہ (ع) میں
ادب و سنت
زیارت حضرت فاطمہ معصومہ قم (ع)

 
user comment