اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

پاکستان کا غزہ '' پارا چنار''

سید تصور حسین نقوی ایڈوکیٹ
 خون آشام سائے میں گرِا پاکستان کا غزہ اور سب سے بڑی مقتل گاہ کا نام ہے ''پارا چنار'' کہ جہاں کوئی بھی خاندان ایسا نہیں جہاں مقتول نہ ہو۔ جہاں دہشت اور وحشت کا سلسلہ رُکنے کا نام تک نہیں لے رہا۔ جہاں کئی دہائیوں سے مسلسل لوگ مارے جارہے ہیںاورمقتول کی شناخت بس ایک ہی ہے کہ وہ شیعہ ہے ۔ پارا چنار کے شہدا اور زخمیوں کے ناموں کی لسٹ میں شامل ہر ایک نام غور سے پڑھیں، شائد ہی کوئی نام ہو جس میں محمد، علی، حسن، حسین ، عباس نہ ہو،  لوگ کہتے ہیں کہ یہ شیعہ نسل کشی نہیں۔۔!  مارنے والوں کے نام بھی مخصوص ہیں ، کوئی ماننے کو تیار ہی نہیں کہ یہ قاتل ہیں۔ دھماکے کرنے والوں میںنہ تو کوئی ہری چند اوررنجیت سنگھ ہے اور نہ ہی  ٹونی یا ٹمسن۔ ہر ایک خود کُش حملہ آور ایک مخصوص مسلک سے تعلق رکھنے والے مدرسے کا مُلا یا طالبعلم ہے۔حیرانگی  ہوتی ہے جب کہتے ہیں قاتلوں کا پتہ نہیں، حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کربلا سے آج تک شہداء کا قبیلہ کون سا ہے اور قاتلوں کا کون سا۔۔! نعرہ ء تکبیر بلند کر کے معصوم لوگوں کے سر کاٹنے اور مساجد و امام بارگاہوں میں پھٹنے والے ظالم دہشت گرد کون ہیں اور درود و میلاد کی محافل سجانے والے  کو ن ہیں۔ ۔!بات جو سمجھ آتی ہے وہ بس اتنی سی ہے کہ جو منصف ہیں وہ بھی قاتلین کے قبیلے سے ہیں، اب وہ اپنوں کو کیسے پکڑیں گے۔ سانحات و حادثات میں پھنسے پارا چنار والے بے چارے تو یہی رونا رو رہے ہیں کہ دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ہمارے محافظ اور منصف بھی ہمارے قاتل ہیں، لیکن انہیں کوئی سننے کو تیار ہی نہیں ۔ناصبیت اپنا ننگا ناچ، ناچ رہی ہے ، کسی کو پرواہ تک نہیں۔بات تو بس ایک ہی ہے، جُرم کچھ اور نہیں ، صر ف اور صرف محبت ِ محمد و آلِ محمد علیھم السلام  ہے، جو نہ چودہ سو سال پہلے اِنکے اُموی اجداد برداشت کرسکے اورنہ آج انہیں برداشت ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن کڑوا سچ یہی ہے کہ مذہب پرستی، فرقہ پرستی ، نسل پرستی اور قبائل پرستی کوئی نئی بات نہیں، حق و باطل کی پہلی لڑائی حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹوں ہابیل اور قابیل سے شروع ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السلام  و  نمرود اور آنحضرت  ۖ  اور  ابو جہل سے ہوتے ہوئے کربلا پر ختم نہیں ہوئی بلکہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں دنیا کے کونے کونے میں لڑی جارہی ہے اور جب تک دنیا میں ظلم اور جہل باقی ہے یہ لڑائی جاری رہے گے۔ جنگ بدر سے شروع ہو کر کربلا میں عروج کی آخری حدوں کو چھونے والی لڑائی ایک نئی سمت اختیار کر گئی اور بنو ہاشم و بنو اُمیہ کی جنگ آج بھی  ''مسلمانوں ''کے درمیان کسی  نہ کسی شکل  میں شدت سے لڑی  جا رہی ہے۔ اُحد میں رسول اللہ ۖ  کے چچا امیر حمزہ  علیہ السلام  کا کلیجہ چبھانے والے آج بھی کلیجہ چبھانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے،  جس طرح یزید  ملعون نے  واقعہ کربلا کے بعد  دیگر ممالک کے سفیروں کے سامنے نواسہ ء رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے دندان مبارک چھڑی سے  ہلاتے ہوئے کہا تھا کہ آج اپنے آباو اجداد کے بدر میں قتل کا بدلہ لے لیا۔  خاندان بنو ہاشم اور اُنکے ماننے والوں سے وہی بدلہ آج بھی لیا جا رہا ہے۔ کربلا میں تنوں سے  سر جدا کرنے والے  آج بھی  چھریوں ، تلواروں اور کلہاڑوں سے گردن زنی کرتے نظر آتے ہیں جو پاکستان و افغانستان سے لیکر شام و عراق  اور سعودی عرب و بحرین سمیت دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔مسلسل چھ مہینوں میں ساتواں خود کُش حملہ اور سینکڑوں شہادتیں،گلہ تو بنتا ہے، شکوہ تو بجا ہے ۔ان وفا شعار لوگوں کو دشمن محب وطن ہونے کی سزا دے  اور ریاست صرف احتجاجی مظاہرہ کرنے کے جرم میں ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردے ، اور اس سے بڑی حیرت کہ ریاست اس قتل عام پر خاموش رہے۔ چاند رات کے بجائے شبِ شہیداں اور یوم ِ عید کو یوم احتجاج  منانے والے حق بجانب ہیں کہ ریاست اور اسکے اداروں سے پوچھیں کہ انہوں نے کبھی ریاست کے خلاف اسلحہ اُٹھایا ہو،کبھی مسجد میں نمازیوں کو قتل کیا ہو، کبھی خود کُش دھماکہ کیا ہو، کبھی ملک کے خلاف غداری کی ہو۔؟  یہ کیسے ایجنٹ اور غدار ہیں کہ کبھی ریاست کے خلاف کوئی قدم نہیں اُٹھایا،سینکڑوںلاشیں  رکھ کر بھی پُرامن احتجاج کرتے ہیں، کیا یہی قصور ہے کہ انہوں نے فوجیوں کی گردنیں نہیں کاٹیں ، ان کے سروں سے فٹبال نہیں کھیلی، لاشوں کی بے حُرمتی نہیں کی۔؟  وہ تو اپنے پیاروں کی لاشیں سامنے رکھ کرپاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیںاور پاکستان کے جھنڈے  جذباتی انداز میں لہراتے ہیں۔ وہ تو یہ کہتے ہیں کہ جب ہر ایجنسی میں پاکستان کا  سبز حلالی پرچم اُتارا جا رہا تھا تو اُس وقت  چاروں ا طراف سے دہشت گردوں سے گھیری ہوئی کرم ایجنسی میں سبزحلالی پرچم پوری آب و تاب سے لہرا رہا تھا۔ جب ہر ایجنسی میں شدت پسند پاک فوج پر حملے کر رہے تھے تو اس وقت پارا چناروالے  پاک فوج کو سینے سے لگائے ہوئے تھے۔جب  باقی سب ایجنسیوں میں سکول بموں سے اُڑائے جا رہے تھے تو پارا چنار میں مزید سکول اور کالج بنانے کے مطالبے ہو رہے تھے۔ جب بچیوں کو سکول جانے پر گولیاں ماری جارہی تھیں تو پارا چنار کی بچیاں بورڈز میں پوزیشنیں حاصل کر رہی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پارا چنار میں آج تک فوج کا کوئی سپاہی شہید یا لاپتہ نہیں ہوا۔ جب مختلف ایجنسیوں کے لوگ طالبان کے سامنے ہتھیار ڈال رہے تھے تو پارا چنار کے غیور لوگ ان انسانیت دشمنوں کو سینے کے زور پر روکے ہوئے تھے۔لوگ ایک جنازہ دیکھ کر پاکستان مخالف نعرے لگانے لگ جاتے ہیں جبکہ  پارا چنار والے ایک ایک وقت میں سینکڑوں جنازے اُٹھا کر بھی وطن دشمنوں سے نبر آزما  ہیں اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے ہیں۔اُنکا حق تو بنتا ہے کہ ریاست ِ پاکستان اور اُسکے اداروں سے پوچھیں کہ اُنکو مارنے والے کون ہیں  اور ریاست ِ خاموش کیوں ہے۔؟ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پاکستانی فوج کو  مُرتداور اِنکے جنازے پڑھنے کو حرام قرار دیا۔؟وہ کون لوگ ہیں  جنہوں نے پاک فوج کے جوانوں کے سروں کے ساتھ فٹ بال کھیلا  اور وہ کونسے لوگ ہیں جو پاک آرمی کے سروں سے فٹ بال کھیلنے والے دہشت گردوں کو شہید کہتے ہیں اور ریاست اُنکے خلاف ایکشن لینے سے کیوں قاصر ہے۔؟ان دہشت گرد وں کی سوچ و فکر کس سے ملتی ہے اور اُنکے مالی و فکری معاونت کار کون ہیں جو جی ایچ کیو پر حملے میں ملوث ہیں اور جن کے خلاف راہ نجات، راہ راست، ضرب عضب اور رد الفساد جیسے آپریشنز ہو رہے ہیں ۔۔؟وہ کون لوگ ہیں جو میلا  اور محرم کے جلوسوں  پر دہشت گردانہ حملے کرتے اور فخریہ انداز سے اس کی ذمہ داری  بھی قبول کرتے ہیں۔؟جی ایچ کیو، مہران ائیر بیس، کامرہ ائیر بیس، کراچی ڈاکیارڈ حملوں میں فوج کے اندرونی  مذہبی جنونیت کے حامل لوگوں کے ملوث ہونیکا سوال پوچھنے کا حق انہیں کیوں نہیں دیا جا رہا اور وہ ریاستِ پاکستان اور اسکے اداروں سے کیو ں نہ پوچھیں کہ  جی ایچ کیو پر حملہ کرنے والے لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق کو کس کے کہنے پر مذاکرات کے لئے اسلام آباد بُلایا گیا تھا۔۔؟اپنے ہی گھروں میں داخل ہونے سے پہلے قطار میں کھڑے ہوکے تلاشی دینے اور چاروں اطراف فوجی چھاونیوں ، خندقوں ، چوکیوں  اورسیکیورٹی حصار میں رہنے  والے ان لوگوں کا کیا اتنا بھی حق نہیں کہ وہ ریاست سے پوچھیں کہ ہمیں مارنے والے کون ہیں اور ہمیں کس جُرم کی سزا دی جارہی ہے اور یہ تکفیری خود کش بمبار کس کی اجازت  سے پارا چنار میں داخل ہو کر انکی معصوم جانوں سے کھیلتے ہیں۔۔؟کہتے ہیں کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب  اور مسلک نہیں ہوتا، البتہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والوں کی اکثریت کا تعلق شیعہ مسلک سے ہی ہوتا ہے جو ایک لمحہ فکریہ ہے۔۔!

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مسجد الاقصی پر صہیونیوں کا حملہ، فلسطینیوں کا ...
وہابی دعوت؛ حضرت زینب (س) کا حرم منہدم کیا جائے
صومالیہ کے دار الحکومت میں بم دھماکہ، درجنوں ...
موغادیشو میں وہابی دہشت گردوں کےخودکش حملہ میں 20 ...
عالم اسلام کو درپیش چیلنجز اور انکا راہ حل
قرآن كريم كا جديد پنجابی ترجمہ
دریائے اردن کے مغربی ساحل میں یہودیوں نے ایک مسجد ...
فلسطینی قوم کی حمایت عالم اسلام کی ترجیح
اقوام متحدہ كے سيكرٹری جنرل كی جانب سے امريكا میں ...
یمن میں اشیائے خوردنی کی شدید قلت

 
user comment