اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

فلسفۂ بعثت

فلسفۂ بعثت

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث رسولامنھم یتلواعلیھم آیاتہ ویزکیھم ویعلم ھم الکتاب والحکمہ وان کانوا من قبل لفی ضلٰل مبین۔

روایات میں مقام عالم وطالب علم بھت عظیم بیان کیاگیاھے اوران جملہ خطابات میںجھاں مقام علم وعالم ذکرکیاگیاھے علماء اورطلبا ء کے فخرکیلئے یھی کافی ھے کہ "العلماء ورثة الانبیاء "علماء وارث انبیاء ھیں۔اگرچہ سب علماء ایک مرتبے اورایک درجے کے نھیں ھیں،  معصوم سے لیکر ایک معمولی طالب علم تک سب مصداق عالم ھیں لیکن مرتبہ ایک جیسا نھیں ھے،  ذات خدابھی عالم ھے اورانسان بھی لیکن مرتبھ علم ایک نھیں ھے جیسے علم ایک نھیں ھے ویسے ھی حفظ مراتب علم بھی ایک نھیں ھے۔ واضح ھے کہ میراث انبیاء مال و منال نھیں ھے اورتنھاچیز جوانبیاء کے پاس بھت کم نظرآتی ھے وہ یھی مال دنیاھے ۔مال دنیا میں سے ان کے پاس کچھ تھا ھی نھیں کہ کسی کے لئے چھوڑتے ۔ انبیاء کے پاس جو اختصاصی شیء  تھی وہ معارف دینی و دین الٰھی اورقانون الٰھی و آٓئین خداوندی ھے ۔ پس اگرانبیاء سے کوئی چیز بعنوان ورثہ ھم تک پھونچی ھے تو وہ دین ھے اورعلم ۔ علاوہ از ایں،   وارث بھی اس کو نھیں کھتے جوفقط ترکہ وصول کرلے بلکہ وارث  ایک امین کوکھتےھیں جو اگلی نسل کے لئے اس ترکہ کومحفوظ رکھتاھے ۔ اس لئے ایک اورحدیث میں منقول ھے"العلماء امناء الرسل "علماء انبیاء کے امانت دارھیں ۔انبیاء خداکے امین ھیں اورعلماء انبیاء کے امین ھیں یعنی اس امانت کے امین ھیں جو ذات حق تعالیٰ نے جیرئیل امین کے ذریعے انبیاء کے سپرد کی تھی ۔ خدا وند عالم نے ایک فرشتھ امین کے ذریعہ اپنی یہ امانت انسان کو عطا کی ھے ۔ جبرئیل امین اوررسول امین پریہ دین نازل ھوا۔ بعثت سے قبل رسول اللہ کوجس لقب سے یاد کیاجاتا تھا وہ علی الاطلاق محمد امین تھا،   مکہ میںاگرکوئی اس نام سے کسی کو پکارتاتھا توسب کاذھن حضرت  کی طرف منتقل ھوجاتاتھا یعنی محمدابن عبداللہ یادیگرالقابات کے بجائے اگر فقط امین کھہ دیاجاتا تھا
حضرت محمد _ص_

تو مکہ میں سب کو معلوم ھوجاتاتھاکہ مقصود کون ھے ۔پس امانت،   رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نمایاں وواضح صفت تھی ۔یہ امانت صرف یہ نھیںتھی کہ لوگ روزمرہ چیزیں یامال دنیاآپ کے پاس بطورامانت رکھتے تھے اور آپ لوٹادیتے تھے۔ اس سے کوئی امین نھیں بنتاچونکہ ساری دنیابھی اگرکسی کے پاس بطور امانت رکھدی جائے توبھی اس امانت عظمیٰ کا مصداق نھیں بن سکتی جس کیلئے خداوندتبارک وتعالیٰ نے بطورخصوصی انسان کو ممتاز قراردیاھے کہ ھم نے اپنی امانت پیش کی "علی السمٰوٰات والارض والجبال فابین ان یحملنٰھا""اناعرضناالامانة "ھم نے اپنی امانت پور ے عالم ھستی کو پیش کی ۔قرآن مجید میںجھاں بھی "سماوات والارض "ایک ساتھ آئے ھیں وھاں مقصود کل ھستی ھے فقط زمین وآسمان یاایک بلندی وپستی نھیں ھے۔ مادی ومجرد،  فرشتہ وجن،  نباتات وجمادات ا ورسب کچھ"ومافیھا" یعنی پورے جھان ھستی پرھم نے اپنی امانت پیش کی ۔خصوصیت کیساتھ جبل کاذکر کیاچونکہ جبل،   انسان کیلئے ایک الگ حیثیت رکھتاھے ۔ استقامت،  پائداری،  قدرت،  توانائی جیسے الفاظ و صفات پھاڑ سے اخذ کئے گئے ھیں حتیٰ کہ انسان نے ھر زبان میں پائداری واستقامت کا محاورہ اورمثل بھی جبل سے مشتق کی ھے پھاڑ کی طرح استوارصفت کو انسان کی جبلت کو اسی وجہ سے کھا جاتا ھے کہ  وہ راسخ ھوتی ھے ۔ راسخ وھی شئی ھوتی ھے جو نفس میں مانند کوہ راسخ ھو۔ فطری چیزوں کو جبلی کھا جاتا ھے، جبلی یعنی پھاڑ کی طرح راسخ ۔ پس پھاڑانسان کیلئے رسوخ،  استقامت،  پائداری،  مقاومت،  استقامت کا ایک مظھرھے، انسان کو شناختہ شدہ جھان میں پھاڑ سب سے زیادہ با عظمت لگتا ھے۔  درحالیکہ پھاڑ زمین کا جزء ھے پھربھی قرآن کریم نے بڑی خصوصیات کے ساتھ اس کا ذکر کیا ھے ۔ خدا وند تبارک و تعالیٰ فرماتا ھے کہ ھم نے اپنی امانت اس پر بھی پیش کی لیکن یہ امانت الٰھی کا متحمل نھیں ھو سکا "فابین ان یحملنٰھاواشفقن منھا"ھماری امانت سے ڈرگئے ۔امانت ایک مقام ایسا ھے جھاں انسان لرزہ براندام ھوجاتا ھے ۔  امانت کا منظر بھت وحشت ناک و دھشت آمیز منظرھوتا ھے، نھیں اٹھائی انھوں نے امانت "وحملھاالانسان "لیکن انسان نے امانت الٰھی کے اٹھانے کا وعدہ کرلیا لھذا قرآن کی رو سے انسان پورے عالم ھستی پر ممتاز ھے ۔

امانت

امانت کے کئی مراحل ھیں۔ علاوہ از ایں امانت کے مقابل ایک اور واضح مفھوم ھے بنام خیانت ۔ جسکو ھم متقابلین کی صورت میں استعمال کرتے ھیں۔ جتنے درجات امانت کے ھوتے ھیں اتنے ھی خیانت کے ۔ھم امانت کے بس ایک مرحلے اوررتبے سے آشناھیں اورکثرت سے اسکواستعمال بھی کرتے ھیں اور وہ یہ کہ اگرکوئی ھمیںکوئی چیز بعنوان ودیعہ وامانت سونپ دے اور اگرھم اسکونہ لوٹائیںتواسکوخیانت کھتے ھیں اوراگرلوٹادیں توامانت کھتے ھیں ۔

 امانت کے تین مرتبے ھیں:

(۱) حمل امانت

( ۲)حفظ امانت

( ۳)ادائے امانت
 
 
مرحلہ اول

مرحلھ دوم

مرحله سوم

 
حضرت محمد _ص_

مرحلہ اول

 

سب سے پھلاکام امانتیں اٹھانا ھیں۔ حمل امانت سب سے اھم مرتبہ ھے۔ امانت اس شئی کوکھتے ھیں کہ اگراسے حفظ نہ کیاجائے تو وہ ضائع ھوجا ئے۔ امانت کو امانت اسی وجہ سے کھتے ھیں کہ امنیت کے بغیر باقی نھیںرھتی اس کے لئے امن فراھم کرنا ضروری ھوتا ھے ۔ ایمان،  امانت،  امین سب ایک ھی مادہ سے ھیں یعنی امن۔ وھی امن جس کو قرآن نے قریش کیلئے ایک نعمت عظمیٰ کے طورپر ذکر کیاھے "لایلاف قریش ایلٰفھم رحلة الشتاء والصیف "ھم نے قریش کوجونعمتیں عطاکیں ان میںسے ایک" امن من الخوف"  خوف سے امنیت عطاکی ۔مومن کو مومن اسی وجہ سے کھاجاتاھے کہ مومن ایک ایسے اعتقاد اورایمان کا حامل ھوتا ھے جس کی بنا پر وہ عذاب الٰھی سے محفوظ ھوجاتا ھے۔ایمان بھی درحقیقت ایک دفاعی حصار ک انام ھے جسمیں داخل ھوجانے سے مومن محفوظ ھو جاتا ھے"کلمة لاالٰہ حصنی" ایمان حصن یعنی قلعہ ھے۔ اس کے اندر جو آجائے "امن من عذابی " وہ مومن ھوجاتاھے یعنی عذاب الٰھی سے محفوظ ھو جاتا ھے ۔ یا"ولایة علی ابن ابی طالب (ع) حصنی "ولایت علی ابن ابی طالب علیہ السلام حصن ھے قلعہ ھے جو اس ولایت میںداخل ھوجائے وہ مومن ھوجاتاھے ۔ بھرحال پھلا مرحلہ تحمل امانت ھے یعنی ایسی اشیاء کہ اگرانھیں امنیت نہ دی جائے تو ضائع ھو جائیں گی ۔  پھلا مرحلہ حمل امانت ھے یعنی اپنے ذ مے لینا ۔ انبیاء علیھم السلام کاسب سے بڑامقام اسی وجہ سے ھے کہ انھوں نے خود بڑہ کریہ امور اپنے ذمے لئے ۔"العلماء ورثة الانبیاء " واقعا دشوار ترین میراث بشریت میںیھی میراث انبیاء علیھم السلام ھے اور یھیں پر اس کے مقابلے میں مفھوم خیانت پایا جاتاھے ۔ اگرکوئی اس کائنات میں خدا وند عالم کی خلق کردہ اشیاء کو بکھرا ھوا اور غیر محفوظ دیکھے اور انھیں محفوظ نہ کرے تو وہ خائن ھے ۔ مفھوم اخص امانت میں خیانت کار،  انسان ھے اورخداکو خیانت کاروں کاعلم ھے "خائنة الدین " اور"خائنة القلوب "  خائنین کون ھیںخیانت کار کون ھےخائن وہ ھیں جنھوں نے اللہ کی امانتیں نھیں اٹھائیں۔ بسا اوقات ھم اپنے آپ کو یاھم جیسے اپنے آپ کو بری الذمہ سمجھتے ھیں کہ ھم نے تو کچھ ذمہ نھیں لیا تھا لھذا ھم ذمہ دار بھی نھیں ھیں ۔ یھیں سے یہ مفھوم بھی واضح ھوجاتاھے کہ اپنے ذ مے امانت خداکا لےلینا انسا ن کو امین  بناتا ھے اورغیرذ مہ دار بننا،  اپنے ذ مے کچھ نہ لینا، خیانت کا مصداق ھے۔ غیر ذ مہ دار انسان اسلا م کی روسے خیانت کار ھے جس نے اللہ کی امانتوں کو تحفظ نھیں دیا ھے خداکی امانتیں کیا کیا ھیں،   وہ کون سی چیزیں ھیں جو بغیر تحفظ کے ضائع ھوجاتی ھیں ھرچیز کوتحفظ کی ضرورت ھے، اعتقاد کو تحفظ کی ضرورت ھے ۔ تفکر کوتحفظ کی ضرورت ھے،  قرآن کوتحفظ کی ضرورت ھے،  اھلبیت (ع) کو تحفظ کی ضرورت ھے،  مراکز دینیہ کو تحفظ کی ضرورت ھے،  شخصیات  دینی کو تحفظ  کی ضرورت ھے، ھر چیز بنام دین محتاج تحفظ ھے۔  جب خداوند تبارک  و تعالیٰ  نے جناب موسیٰ (ع) کو فرعون کے پاس بھیجا کہ جاکر فرعون کو دعوت حق دو۔ آپ  نے جا کر فرمایا کہ "ارسل معی بنی اسرائیل " یعنی یہ  بنی اسرائیل جو تیرے غلام ھیں ان کو میرے حوالے کردے ۔ایک  دوسرے مقام پر ھے"ارسل معی عباداللہ "ان بندگان خداکومیرے سپرد کردے،  یعنی حتیٰ امت،  مومنین،  مسلمین امانت خدا ھیں ۔ فرعون جیسوں کے چنگل میں ھوں او ر ایک نبی بیٹہ کر تماشا دیکھتا رھے یہ ایک نبی کے شایان شایان نھیں ھے،  موسی (ع) کے شایان شان نھیں ھے کہ بنی اسرائیل کی بندگی برداشت کرسکیں ۔ لھذا جا کر امانت خداکی واپسی کا تقاضا کیا کہ یہ امانت میرے حوالے کردے،  میں امین خدا ھوں ۔ اس کو اقتدار پرستی نھیں کھتے،  ریاست طلبی نھیں کھتے بلکہ اس کوامانت داری کھتے ھیں۔ اسی وجہ سے خدا نے ان خائنین کو قرآن میں جابج ارسوا کیا ھے۔  مرتبھ اول امانت کے مقابلے میں جوخائن ھیں  بارھا  قرآن نے ان کے چھرے سے نقاب اتاری ھے اوروہ جو اس مرحلے میں امانت دارھیں قرآن نے ان کو بھت سراھا ھے مرحلہ اول کے امین قرآن کی زبان میں،  اللہ کی زبان میں وصف مردانگی وشجاعت کے حامل ھیں "ومن المونین رجال صدقوا" بھت ھی ظرافت ولطافت کے ساتھ مطلب بیان ھو رھا ھے۔"مومنین ومن الناس،  مومنون " لوگوں میں سے کچھ مومن ھیں"من" تبعیضیھھے یعنی کچھ مومن ھیں کچھ غیر مومن ھیں"ومن الناس مومنون "یعنی وہ مرحلہ آیت بیان نھیں کیاوہ محفوظ ھے،   تقدیر میں ھے۔  تقسیم در تقسیم ھے۔ لوگوں میں سے کچھ مومن ھیں کچھ کافر ھیں ۔ "ومن المومنین رجال"مومنوں میںسے کچھ مرد ھیں ۔ اس کا مطلب یہ نھیں کہ کچھ عورتیں ھیں، کچھ مومنات ھیں بلکہ انھیں مذکروں میں سے کچھ مرد ھیں ۔یہ مردانگی جسمانی مردانگی نھیں ھے بلکہ یہ روح کی مردانگی ھے۔ اس کو مرو ت کھتے ھیں ۔ کون ھیں یھ یہ وہ لو گ ھیں کھ "صدقوا" انھوں نے سچ کر دکھایا ھے،  اورتصدیق کردی ھے "ماعھد اللہ علیہ "اس عھد کی جوخداکے ساتھ کیا تھا یعنی یہ ایک متعھد طبقہ ھے ۔ عھد یعنی اپنے ذ مے کچھ لے لینا،  یعنی امانت۔
حضرت محمد _ص_

مرحلھ دوم

دوسرا مرحلہ حفظ امانت کاھے اب جبکہ امانت الٰھی اٹھالی اپنے ذ مے لے لی اورمتعھد بن گئے تو اب  اس عھد کو باقی رکھنا ھے۔ اس عھد کو حفظ کرنا ھے حفظ امانت  سنخ  امانت ھی سے ھے جس طرح امانت ھوگی  اسی طرح اس کا تحفظ۔ اگر امانت  ایک  مادی  چیز ھے مثلا پیسہ اس کی حفاظت یہ ھے کہ بینک میں رکھ دیں اگرآپ کے پاس کسی کے زیورات ھیں تو اس کی امانت  یہ ھے کہ کسی تجوری میںا س کو بند کردیں ۔ اگرآپ کے پاس امانت کسی کا راز ھے تو وہ بینک میں رکھنے کی چیز نھیں ھے۔ بعض امانتیں ایک خاص قسم کا تحفظ مانگتی ھیں ۔ ان کے تحفظ کیلئے انسان کوکچھ اوراھتمام کرنا پڑتا ھے ۔ دوسرا مرحلہ حفظ امانت ھے۔ مضمون کی طوالت سے بچنے کے لئے فقط اتنا ھی ۔

مرحلہ سوم

تیسرامرحلہ ادائے امانت ھے ۔ دین ھر نسل کے پاس ایک امانت خدا ھے ۔ جس طرح جبرئیل امین کے پاس ایک امانت الٰھی ھے، انبیاء علیھم السلام کے پاس ایک امانت الٰھی ھے اوراسی طرح معاصر نسلوں کے پاس بھی یہ دین ایک امانت ھے ۔  اول انھیں تینوں مرحلوں میں امین ھونا چاھیے تھا، حمل امانت بھی کرتے، حفظ امانت بھی ان کا فریضہ تھا، ادائے امانت بھی ان کی ذمہ داری تھی، ادائے امانت یعنی اگلی نسل کو یہ دین اسی طرح پھونچانا جس طرح جبرئیل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پھونچا یا ۔کس طرح تحفظ کیا جبرئیل نے حمل کیا، حفظ کیا اور ادا کیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حمل کیا، حفظ کیا اور اداکیا۔ آئمھ ھدیٰ (ع) بھی اسی طرح ۔ آج ھمارے پاس یہ مکتب تشیع،  اسلام حقیقی،   کیوں موجود ھے  یہ یہ اس لئے ھے کیونکہ کچھ امانتداروں نے،  حفظ امانت،  اور ادائے امانت کا لحاظ رکھا ۔ سوال یہ ھے کہ یہ کام کون کرے یہ کون لوگ ھیں ان کی علامت کیا ھے جو امین ھوتے ھیں، یا یہ کہ آخر انبیاء علیھم السلام  تمام  انسانوں میں سے کیوں حفظ امین قرارپائے اورکیوں علماء کو تمام  بشریت سے الگ  کرکے انتخاب کیا گیا ۔ دو خصوصیتیں ھیں ایک انبیاء میں ھے ایک علماء میں ۔ علماء کی خصوصیت قرآن مجید نے ذکر کی ھے"انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء " خوف خدا، یہ علامت ھے۔  اس کے معنی یہ نھیں ھیں کہ علماء خدا سے ڈرتے ھیں تا کہ جو بھی عالم کے لبادے میں ھو ھم کھیں کہ خوف خدا رکھتا ھے بلکہ برعکس ھے جو بھی خوف خدا رکھتا ھے وہ عالم ھے"العلم نور یخذفہ اللہ فی قلبہ من یشاء "روایت کی زبان میں علم نورھے اور نورانی دل میں اترتا ھے ۔ قرآن کی زبان میں عالم وہ ھے جس کے دل میں خوف خدا ھو اور انبیاء (ع) کیلئے جو صفت قرآن نے بیان کی ھے وہ یھی عنوان بعثت ھے ۔ خوف خدا کیا ھے خوف خدا کی کیا علامت ھے خوف خدا کی علامت یہ ھے کہ جس کے دل میں خوف خدا ھو وہ غیر اللہ سے نھیں ڈرتا "الذین یبلغون رسٰلٰت اللہ " وہ لوگ حامل  پیغام خدا و مبلغ  پیغام خداھیں ان کی خصوصیت  یہ ھے کہ وہ فقط خدا سے ڈرتے ھیں و غیر از خدا کسی سے نھیں ڈرتے "یخشونہ ولایخشون احداالااللّہ "فقط خداسے ڈرتے ھیں اورخداسے ڈرنے کی علامت یہ ھے کہ غیر اللہ سے نھیں ڈرتے چونکہ خوف خدا میں ھی موحّدانہ خوف ھے ۔خوف خدا توحیدی خوف ھے یعنی یوں نھیں ھوسکتا کہ دو چیزوں سے ڈریں خدا سے بھی اورغیر خداسے بھی ۔ اگرکوئی خدا سے ڈرتاھے تو غیر اللہ سے نھیں ڈرتا اور خصوصاً لوگوں سے ۔
حضرت محمد _ص_

 اس لئے انبیاء لوگوں سے نھیں ڈرتے تھے۔ لوگ سخت بیزار رھتے تھے لیکن انھوں نے لوگوں کی بیزاری کی پرواہ نھیں کی کیونکہ خوف خدا تھا، خوف خدا لوگوں سے ڈرنے کی گنجائش نھیں چھوڑتا ۔ جناب موسیٰ (ع) اسی لئے بھت شجاع تھے چونکہ خداسے ڈرتے تھے کسی اورسے نھیں، فرعون سے نھیںڈرے،  اس کے لشکر سے نھیں ڈرے۔ انبیاء (ع) کو نہ صر ف یہ کہ عوام نے دعوت نھیں دی،  استقبا ل نھیں کیا بلکہ بیزاری کا اعلان کیا،  اذیتیں دیں، ستایا اور طرح طرح  کی  مشکلات  اور مصائب  و آلام  میں مبتلاء کیا اس حد تک کہ بسا اوقات بھت ھی صابر انبیاء حتی حضرت نوح (ع) جیسے صابرنبی کو اس قدر ان کی امت نے ستایا کہ آخر کاربارگاہ خد امیں جا کر آرزو کر بیٹھے کہ مجھے اس قوم سے جدا کردے ۔ مرحلہ اول امانتداری میں انسان منتظر دعوت نھیں ھوتا ۔ جب  دیکھتا ھے کہ امانت خدا پڑی ھوئی ھے تو جا کر اٹھا لیتا ھے ۔ اگر آپ کو انبیاء کے واقعات  پڑھنا ھیں تو اس کے لئے قران میں قصے ھیں ، قصص الانبیاء ھیں، اگر آپ کو انبیاء سے متعلق آیات پڑھنا ھیں تو قران  میں ھیں، اگر تاریخ  انبیاء  پڑھنا ھے تو اس کے لئے تاریخ سے متعلق کتابیں تلاش کرنا ھون گی، اگر صفات انبیاء پھچاننا ھیں تو علم کلام میں جستجو کرنا ھوگی، اگر احکام انبیاء ملاحظہ فرمانا ھیں تو فقہ کے میدان میںداخل ھونا پڑے گا  اور اگر انبیاے کرام  کے صفات مجسم  شکل و صورت میں دیکھنا ھوں تو دورحاضر کی عظیم الشان شخصیت امام خمینی –رح-  کی جانب نظر اٹھانا پڑے گی ۔  امام خمینی –رح-  کو کس نے دعوت دی کہ آئیے آپ امانت خدا،  دین خداکا تحفظ کیجئے۔ پھلے یہ امانت اپنے ذمہ لیں پھرخدا، دین خدا، آئین الٰھی کی حفاظت کریں پھراس کو نافذ کریں اوراس کو اگلی نسلوں تک منتقل کریں۔کسی نے دعوت نھیں دی تھی بلکہ اپنے اور غیروں نے سخت بیزاری اور نفرت کا اظھار کیا تھا ۔ پھلے مرحلے میں امانتداری بھت اھم ھے یھی نکتہ ھے کہ کون سی چیز ان کو اکساتی ھے کہ یہ کسی کے کھے بغیر،  کسی کے اکسائے بغیر،   کسی کے ڈرائے بغیر میدان میں اترپڑتے ھیں ۔ یہ طبقھ انبیاء نھایت فوق العادہ طبقہ ھے۔ اس طبقے کی خصوصیات جو قرآن نے ذکر کیں ھیں انسان انھیں پڑہ کر حیران و سرگردان ھو جاتا ھے ۔ کیا لوگ تھے! کیا انسان  تھے یھ !!  کیا ھوا تھا انھیں! سب اپنے گھروں میں آرام سے رہ رھے ھیں کھا،  پی رھے ھیں لیکن یہ بازاروں میں پتھر کھارھے ھیں،   منبروں سے لعن وطعن سن رھے ھیں، معبدوں میں مورد نفرین واقع ھورھے ھیں، جلاوطن کئے جا رھے ھیں اور مختلف میادین میںشھید ھو رھے ھیں،  قتل ھو رھے ھیں۔کیا انھیں عام لوگوں کی طرح ایک آسودہ زندگی بسرکرنے کا ڈھنگ نھیں آتا تھا انھیں چین اورسکہ نھیں چاھئے تھا اپنی زندگی میں !! ان کو اھل وعیال کی آسائش نھیں چاھئے تھی  یا یہ لوگ اس روش زندگی  سے آشنا ھی  نھیں  تھے ۔  کیا مشکل  تھی ان لوگوں کے ساتھ مشکل یھی مسئلہ بعثت تھا ۔
حضرت محمد _ص_

جب ھمارے سامنے پوری  امت  ھو، ایک  بھت  بڑا ملک  ھو  فرض کریں پاکستان یا ھندوستان جیسا ایک ملک ھو اورجس میں اسلام و مسلمین اورتشیع کی موجودہ صورت حال ھو تو اس موجودہ صورت حال میں کون آئے اور آکراللہ کی یہ امانتیں اپنے ذمے لے۔ کیا چاھئے اس کیلئے آیا علم کافی ھے ممکن ھے ھم میں سے بعض خوش فھم افراد بصورت غلط فھمی یا  بد فھمی یہ سمجھ بیٹھیں کہ پڑہ  لکہ  کر انسان اس مقام تک رسائی حاصل کر لیتا ھے ۔ پڑھنے لکھنے سے انسان امین نھیں بن جاتا۔ کتنا ھی بڑا پڑہ  لکہ جائے، عالم دوراں بن جائے امین نھیںبنتا۔ امین الٰھی کب بنتا ھے وارث انبیاء (ع) کب بنتا ھے اس کیلئے ھمیں انبیاء کی ذاتی روش کو دکھنا ھوگا کہ آخر انبیاء نے اس سلسلے میں کیا کیا اقدامات کئے۔ انبیاء (ع) کوخداوند تبارک وتعالیٰ نے مبعوث کیا ھے ۔ بعث عربی زبان کا لفظ ھے۔ بعثت فرشتہ ھونے کو نھیں کھتے، رسالت ملنے کو بعثت نھیں کھتے، نبوت ملنے کو بھی بعثت نھیںکھتے ۔ بعثت کے لغوی معنی ٰ اکسانا،  ابھارنا،   بھڑکانا یا برانگیختہ کرنے کے ھیں اور یہ ایک ایسا فعل ھے کہ جس کو ھم اپنی روز مرہ زندگی میں عام طور پر انجام دیتے ھیں۔ مثلا کسی کو کسی مومن کے خلاف بھڑکانا یا اکسانا لیکن مذکورہ صورت میں اکسانا ایک برا فعل ھے ۔ علاوہ ازایں ھم کسی کو اکسانے یا بھڑکانے کے لئے ایسے موارد تلاش کرتے ھیں جن کے ذریعہ مفروضہ شخص کو بھڑکا سکیں یعنی جستجو کرتے ھیں کہ آخر وہ کون سی شی ھے جس سے متعلق وہ شخص حساس ھے اور اسی شی کے ذریعہ اس کو بھڑکا دیتے ھیں اور وہ کیونکہ اس شی کی نسبت حساس ھوتا ھے بھڑک جاتا ھے ۔ برانگیختہ لوگوں کی خصوصیت یہ ھوتی ھے کہ یہ مصلحت اندیشی چھوڑ دیتے ھیں۔ اکسائے ھوئے لوگوں کوکبھی کھتے سناھے کہ ابھی حالات مناسب نھیں ھیں ۔ آپ  کسی آدمی کو  بٹھائیں اور خوب بھڑکائیں، خوب اکسائیں اور اس کو عام زبان میں کھتے ھیں لال پیلا کردیں۔غصے میں بھڑکا ھوا یہ  انسان باھر جاکر کیا تقریریں کرے گا،  تالیفات کرے گا، تدریس کرے گا، غصے میںبھڑکا ھوا یہ انسان آخر کیا کرے گا ۔ بپھراھوا یہ ایک انسان سو آدمیوں سے بھی ٹکرا جاتا ھے اورھرگز زبان پر یہ کلمہ نھیں لاتاکہ ابھی حالات مناسب نھیں ھیں حالات کی طرف اس کی اصلاً توجہ ھی نھیں ھوتی ھے۔ حالات یعنی چھ اس کو کسی شی کی پرواہ نھیں ھوتی ھے ۔ کیوں اسلئے کہ یہ غلبھ، احساسات کا غلبہ ھے، برانگیختگی غالب آگئی ھے ۔ جتنے مصلحت کوش شعبہ تھے وہ سب بند کردیے گئے ھیں ۔ برانگیختگی ایک ایسی شی ھے جو بھت سے انسانی شعبے بند کردیتی ھے۔ بعض افراد ایسے ھوتے ھیں کہ جن کو بھوک لگی ھوتی ھے اور آپ ان کے سامنے بڑے لطیف انداز میں مثلا بریانی کا تذکرہ کر دیتے ھیں یعنی آپ ان کو بھڑکا دیتے،
حضرت محمد _ص_

آپ ان کی بھوک کو بھڑکا دیتے ھیں ۔ اب ایسے شخص چین سے نھیں بیٹہ سکتے آپ لاکہ سمجھائیے کہ مھمان بیٹھے ھوئے ھیں تھوڑا صبر کر لیجئے ۔ کیا مجال کہ وہ دو منٹ بھی سکون سے بیٹہ سکیں ایسے شخص بپھرے ھوئے اور بر انگیختہ ھو جاتے ھیں ۔ ایسے انسان آپے سے باھر ھو جاتے ھیں حتی غیرت سے باھر ھو جاتے ھیں ۔ ایسے اشخاص کو روکنا پڑتا ھے نہ کہ دشمن سے لڑنے کی ترغیب دی جاتی ھے ۔ کچھ لوگ جن کو ھزارجتن کرکے خدانے بھی دینداری  سکھائی ھے، خدا کو بھی  کئی  جتن  کرنے پڑے ۔ اس  قدر بے حس، بے غیرت ھوتے ھیں کہ خدا نے کبھی انھیں جنت کی لالچ دلائی کبھی باغات کی،  کبھی شھد کے بارے میں بیان فرمایا  تو کبھی  دودہ  کے بارے میں۔  آخر ان کو کچھ تو اچھا لگتا ھوگا ۔

خداکے ھاتھوں اگرکوئی بھڑک جائے تو خدا اس کی فطرت کو ابھار دیتا ھے۔ اس کے فطری  تقاضوں کو ابھار دیتا ھے۔ اس کی خداخواھی کو، اس کی محبت وحب ومودت وعشق کو بھڑکا دیتا ھے۔ کبھی بھڑکا ھوا عشق  دیکھا ھے ھم  نے بھڑکی ھوئی شھوتیں اور غیظ و غضب دیکھے ھیں لیکن بھڑکا ھو عشق نھیں دیکھا ۔ بپھرا ھو ا عشق دیکھا کبھی بپھرا ھوا عشق کربلا میں نظر آتا ھے، خدا کے بر انگیختہ افراد جن کو اللہ نے اکسادیا۔ ساری دنیا روکتی رھی نہ جاو۔سب کھتے رھے نہ جاو۔ شب عاشورا،  یہ واقعہ بھت اھم اور قابل غورواقعہ ھے۔ سید الشھدا علیہ السلام نے اپنے صحابیوں کو کربلا سے چلے جانے کا شرعی جوازدے دیا تھا لیکن ھم ھیں کہ ھمیں اپنی جان چھڑانے کے لئے فقط ایک فتوائے فقیہ کافی ھوتا ھے چاھے اصلاً فقیہ کی فقاھت ھی کیوں نہ مشکوک ھو ۔  لیکن ھم جان چھڑانے کیلئے ایک مشکوک فقیہ کا مشکوک فتوی بھی کافی سمجھتے ھیں کہ یہ ھمارا وظیفہ شرعیہ نھیں ھے،   یہ ھم پرعائد نھیں ھوتا،   چونکہ ھمارے فقیہ نے کھہ دیا لھذا یہ ھمارا شرعی وظیفہ نھیں ھے ۔ سید الشھداعلیہ السلام فقیہ نھیں تھے،   ایک مجتھد نھیں تھے بلکہ خود اصل منبع شرعیت تھے،   خود مقام  شارعیت اسلام پرتھے،   تشریع دین کا منبع تھے ۔خود تشریع دین تھے ۔ شریعت کھہ رھی ھے کہ آپ چلے جائیں ۔ ھمارے جیسے ایک فتوی کے جواز پر اپنی ذمہ داری سے پھلو تھی کرنے والے اگر کربلا میں ھوتے تو فتووں کا سھارا لے کر نہ جانے کتنی ذمہ داریوں کو خدا حافظ کھہ دیتے ۔ کربلا میں ھر صحابی نے اٹھکر کھا تھا کہ ھم جان بچانے نھیں بلکہ جان دینے آئے ھیں۔یہ کون لوگ تھے  انھیں کیا ھوگیا تھا  جب سب جان بچانے کی فکر میں تھے یہ جان دینے کی فکر میں تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو بپھرے ھوئے تھے،   برانگیختہ تھے ۔ کربلا میں ایسے واقعات ملتے ھیںجھاں سید الشھداء علیہ السلام نے بذات خود بعض صحابیوںکو برانگیختہ کیا تھا،   اکسایا تھا جنمیں سے ایک وھب کلبی بھی ھیں۔
حضرت محمد _ص_

انبیاء (ع) کوخدانے مبعوث کیاھے نہ کہ صرف ارسال کیاھے،   روانہ کیا ھے۔"ارسل" کامطلب اعزام نھیں ھے ۔مبعوث کیاھے یعنی خدانے ان کو دین اور معارف دینی پر ایسا برانگیختہ کیاھے کہ اب ان انبیاء (ع) کوکوئی روک نھیںسکتا۔یھاں دعوت کی ضرورت نھیںھے۔ بے شک لوگ نھیں مانتے نہ مانیں ۔ ایک برانگیختہ شخص کولوگوں کی پرواہ نھیںھوتی ۔ لوگوں کی پرواہ اسکو ھوتی ھے جسکو لوگوں نے دعوت دی ھو لیکن جسکو خدانے بر انگیختہ کیاھواس کوان چیزوں کی پرواہ قطعاً نھیںھوتی۔جیسا کہ گزر چکا ھے  برانگیختگی کی ایک علامت ھے کہ اسکو روکنا پڑتاھے " یا ایھاالمزمل قم اللیل الاقلیلا " ھمیں حدیثیں پڑہ پڑہ کے سنائی جاتی ھیں کہ نماز شب بھی پڑھاکرو،   مستحبات بھی اداکیا کرو،   نماز واجب اپنے وقت پر پڑھا کرو،   درس میںبھی آیاکرو،  ھمیںسدھارنے کیلئے تعلیم کے ساتھ ساتھ نہ جانے کتنے درس اخلاق رکھے جاتے ھیںلیکن کیا ھوتا ھے،   کچھ بھی نھیں ۔ خدا کا اکسایاھواانسان وہ ھے کہ اس قدر نمازی ھے کہ خود خدا کوروکنا پڑتاھے کہ "قم اللیل الا قلیلا " تھوڑی نمازپڑھو،  تھوڑی عبادت کرو ۔امانت خدایعنی بندگان خدا ۔اِن کو ھدایت کرناھے،   یہ بھی امانت ھے،  دین امانت خداھے مخلوق بھی امانت خدا ھیں۔یہ امانت ا س امانت تک پھونچانی ھے"لعلک باخع نفسک"اے رسول ! آپ نے توان لوگوں کی ھدایت کی خاطر اپنے نفس کوھی پریشانی میں ڈال دیا ھے ۔ھم نے یہ قرآن اس لئے آپ پرنازل نھیںکیاکہ آپ مشقت میں پڑجائیں۔دیکھئے خدا کو روکناپڑا۔کچھ لوگ ایسے ھوتے ھیںکہ ان کوروکناپڑتاھے کہ تھوڑاکام کرو۔کچھ ھم جیسے ھوتے ھیںجنکو ھزار زحمتوں سے اکسانا پڑتا ھے تب کھیں جاکر ایک دوکام کرتے ھیں،   پھراتراتے ھیںکہ واھ!کیادین کی خدمت کردی ! اگروارث نبی بنناھے تو سب سے پھلے بعثت کو سمجھنا ھوگا ۔ سب سے پھلے برانگیختگی پیداکرنی ھوگی اوریہ برانگیختگی !انسان اگرآئے اورتھوڑاسا قرآن سے آشناھوتو قرآن خود برانگیختہ کردیتاھے،  قرآن یہ شعلہ انسان کے اندر پیدا کر دیتاھے اوراھلبیت(ع) خصوصاکربلا،  کربلا بعثت ابدی کا نام ھے،  تما م انسانوں کومبعوث کرنے کیلئے عنصرکربلابھت اھم عنصرھے ۔ھمارے معاشرے محتاج بعثت ھیں ۔یقین کیجئے  ھماری یہ رسمی تعلیم اور مروجہ تعلیمی نظام ھمیں کھیں نھیں لے جا سکتا بلکہ اس سے تو ھماری حالت مغلوبہ قوم جیسی ھوگئی ھے ۔ بر صغیر بلکہ ساری دنیا میں ایسا ھی ھورھا ھے ھم اپنے معاشرے کی بات کریں کیونکہ ھم اس سے زیادہ قریب اور مانوس ھیں ۔ وقت معینہ پر آنا،   پڑھنا،   پڑہ کر چلے جانا،   کوئی عھدہ یا منصب سنبھال لینا،   یہ سب اس کے علاوہ اور کچھ نھیں ھے کہ ھم اپنے دل کو تسلی دے لیں کہ ھم بھی خدمت دین کر رھے ھیں ۔ دین کے اوپر بار بننا کچھ اور ھے اور برانگیختہ ھوکر دین کی،  مخلوق خدا و خلق کی خدمت کرناکچھ اور ھے ۔خصوصا اس معاشرے میں جھاں ضلال مبین ھو"ھوالذی بعث فی الامیین رسولا"ایسے معاشرے میںرسول پیداکیاکھ"وان کانوا من قبل لفی ضلال مبین " خصوصاجھاںکھلم کھلاوعینی وآشکارگمراھی ھو ۔ ھمارامعاشرہ سو فی صد اسی کامصداق ھے۔ عقیدتی گمراھیاں،   اخلاقی گمراھیاں،  تھذیبی گمراھیاں،  تاریخی گمراھیاں اور نہ جانے کون سی گمراھیاں ۔ان ساری گمراھیوں کو،   اس ضلال مبین کو،  اس کھلی ھوئی گمراھی کو فقط یھی مذکورہ بعثت قابو میںکرسکتی ھے،  ختم کرسکتی ھے ۔ نمونہ موجود ھے۔ مکہ سے زیادہ گمراھی اور کھاں تھی کہ جھاں کی گمراھی،   جھاں کی جھالت ساری دنیا میں ضرب المثل تھی۔ اگربعثت،   مکہ کی جھالت ختم کرکے اس کی جگہ آئین خدا نافذ کرسکتی ھے توھندوپاک کی سرزمین پربھی کیوں نھیں ! اگرمبعوث علماء آجائیں یعنی برانگیختہ علماء جو خدا کی طرف سے قرآن کریم اور اھلبیت علیھم السلام کی جانب برانگیختہ ھوں تو یقینا ھمارے یھاں بھی قرآنی اور اسلامی قوانین و احکام نافذ ھو سکتے ھیں ۔ انشاء اللہ تعالی

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

جنگى توازن
تہذيبي انقلاب کي اہميت
حدیث ثقلین شیعوں کی نظر میں
قرآن میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ(سوم)
اچھي عبادت سے خدا خوش ہوتا ہے
نبوت کي نشانياں
حضرت آدم علیه السلام وحوا کے کتنے فرزند تھے؟
عام الحزن
دعوت اسلام کا آغاز
کاتبان وحی

 
user comment