اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

حالات حاضرہ پر علامہ جواد نقوی کا خطبہ

حجۃ الاسلام و المسلمین سید جواد نقوی کا حالات حاضرہ پر خطبہ جمعہ جو ۲۹ جنوری کو بمقام مسجد مفتی جعفر حسین جامعہ جعفریہ گجرانوالہ میں دیا گیا۔ عِبَادَ اللّہِ اُوصِیکُم وَ نَفسِی بِتَقوَی
حالات حاضرہ پر علامہ جواد نقوی کا خطبہ

عِبَادَ اللّہِ اُوصِیکُم وَ نَفسِی بِتَقوَی اللّہِ فَاِنَّ خَیرَ الزَّادِ التَّقوَی

 تقویٰ محفوظ طرز زندگی

بندگان خداآپ سب کو اور اپنے نفس کوتقویٰ الٰہی کی وصیت کرتا ہوں کہ اپنی زندگی کے تمام امورمیں تقویٰ اختیار کریں ، فردی زندگی ،عائلی و خاندانی زندگی ،تعلیمی زندگی،سماجی زندگی ،تجارتی و کاروباری زندگی اور معاشرتی زندگی میں تقویٰ کو بنیاد قرار دیں ۔ تقویٰ محفوظ انداز زندگی کا نام ہے جو اللہ نے انسان کے لئے مقرر فرمایا ہے ،جس زندگی میں انسان ہر طرح کی بلا اور آفت دنیوی و اخروی سے محفوظ رہتا ہے۔

 اس وقت تمام انسانیت اور بالخصوص مسلمین کو جو مصائب اور خطرات درپیش ہیں وہ سب تقویٰ نہ ہونے کی وجہ سے ہیں ،جو لوگ سیاست اور تعلیم میں ہیں یا جولوگ ملکی اور عالمی امور کو چلا رہے ہیں سب بے تقویٰ افراد ہیں ۔ہر طرف سے بے تقوائیت نے انسانی زندگی کوخطرے میں ڈال دیا ہے ، کسی کو کوئی تحفظ نہیں ہے اور تحفظ کے لئے جو چارہ جوئی کرتے ہیں وہ مزید خطرات کو جنم دیتی ہے ،ابھی تک جتنے بھی لوگوں نے تحفظ کے لئے چارہ جوئی کی ہے اس نے مزید خطرات کو جنم دیا ہے۔

 انسانی زندگی کو تحفظ دینے کے لئے ہر پہلو سے خوراک کا انتظام کرتے ہیں تاکہ لوگ فقر، افلاس اور بھوک سے نہ مریں لیکن اتنی ملاوٹ والی خوراک تیار ہوتی ہے کہ انسان کا بھوکا رہنا، اس سے ہزار درجہ بہتر ہوتا ہے، جتنی آلودہ چیزیں کارخانوں ، فیکٹریوں اور انڈسٹریوں میں بنا کر باہر بازاروں میں بیچتے ہیں اس سے ہزار درجہ بھوک بہتر ہے کتنی آلودگی بازاروں اور مارکیٹوں میں موجود ہے تمام غلاظتیں اپنے ذاتی نفع اور مالی فائدے کے لئے لوگوں کو کھلارہے ہیں ۔

معاشرے میں فساد و تباہی کی بنیادی وجہ

 آج منڈیاں ،انڈسٹریز اور تعلیمی ادارے بے تقویٰ لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور جو لوگ ان تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ان کے پورے وجود پر فسادطاری ہوجاتا ہے اور وہ تعلیمی ادارے گویا فساد کی فیکٹریاں بنتے جا رہے ہیں اور فساد وہاں سے نکل کر خاندانوں کے اندر اور معاشرے کے دیگر طبقات کے اندر سرایت کر رہا ہے اور اسی طرح زندگی کا ہر شعبہ بالخصوص سیاست بے تقویٰ لوگوں کے ہاتھ میں ہے، دین کے امور بے تقویٰ لوگوں کے ہاتھ میں ہیں جیسے آپ نے قرآن کی آیت سنی ہے کہ مساجد کا انتظام بے تقویٰ لوگوں کے ہاتھ میں ہے ،دینی امور اور دینی جماعتیں بے تقویٰ لوگوں کے ہاتھ میں ہیں کہ جس سے بہت بڑا خطرہ ہے ۔تقویٰ تنہا نجات کا ذریعہ ہے وہ بھی قرآنی تقویٰ ہو، نہ وہ تقویٰ کہ جو ہم نے خود گھڑ لیا ہے اور ہمارے ذہنوں میں بیٹھا ہوا ہے کہ ہم ایک انفرادی حالت بنالیں ، وہ تقویٰ نہیں ہے ۔جب تک سیاست، حکومت اورنظام کی بنیاد میں تقویٰ نہیں ہوگا اس وقت تک امن و آسودگی نہیں مل سکتی، آج دنیا بے تقویٰ لوگوں کے ہاتھوں سے آگ میں جل رہی ہے، آگ لگانے والے سب بے دین ہیں لیکن جو ایندھن استعمال کرتے ہیں وہ سارا مذہبی ایندھن ہے ۔ عالمی ادارے ،ایجنسیاں اورمفاد پرست سیاست بازوں نے مذہبی نادانوں اور مذہبی بے تقویٰ لوگوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کیاہے اور اس سے پوری دنیا کے اندر آگ لگا دی ہے اور آج اسی آگ میں ہر قوم ہر مملکت اور مسلمانوں کا ہر حصہ جل رہا ہے ،اسی آگ میں عراق بھی جل رہا ہے، شام اور لبنان بھی جل رہے ہیں ، اسی آگ میں یمن جل رہا ہے ، بحرین جل رہا ہے اور اسی طرح پاکستان اورافغانستان جل رہے ہیں اور جتنے بے تقویٰ ہوتے جارہے ہیں یہ آگ مزید پھیلتی جارہی ہے۔

 دہشت گردی کے خاتمے کا طریقہ کار

 اس وقت ساری دنیا اوردنیائے اسلام کی حالت خطرات میں ہے اور اب یہ خطرہ اپنے مقررہ نقطے سے کئی گنا زیادہ آگے بڑھ گیا ہے کہ جس کا ایک اثر پاکستان میں ہے۔ پاکستان میں حالیہ دنوں میں جو صورتحال سامنے آئی ہے کہ درندوں کے خوف کی وجہ سے پورے پاکستان میں اسکول بند کردیئے گئے ہیں کیونکہ تعلیمی اداروں کو دھمکی ملی ہے، اس سے بچنے کے لئے امتحانات کے موقع پر تعلیمی ادارے بند کر دئیے گئے ہیں ۔ ابھی ان کے امتحانات کے ایام ہیں ، اگلے مہینے ان کے امتحانات شروع ہونے والے ہیں اور اس سے پہلے یہ ادارے بند کر دیئے گئے ہیں ، اگر چہ اس کی تاریخ مقرر کی گئی ہے کہ اس تاریخ تک بند ہیں لیکن ظاہر ہے خطرات کی تاریخ نہیں ہوتی ہے بعد میں کہیں گے کہ ابھی بھی خطرہ موجود ہے اور جو تعلیمی ادارے پہلے سے ہی مشکلات کا شکار ہیں اگر یہ دہشت گردی کا بھی شکار ہوگئے تو ان کی کیا حالت ہوجائے گی، اسی طرح پورے پاکستان کے اندرجتنے اسکو ل فوج کے اداروں کے ساتھ منسوب چل رہے تھے وہ سارے بند کر دیئے گئے ہیں کہ دہشت گردی کا خطرہ ہے اور ایک عرصے سے دہشت گردی کے خلاف مبارزہ بھی ہو رہا ہے ،ایکشن پلان بھی بنایا گیا ہے، تمام ملکی اور ریاستی توانائیاں بھی دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے استعمال کی جارہی ہیں پھر بھی دہشت گردی کا خطر اتنا ہے کہ ملکی ادارے بند کرنا پڑے ہیں ، اب ظاہر ہے کہ یہ آگے بڑھے گا ابھی تو کالج اور یونیورسٹی بند کردی ہیں ، معلوم نہیں کہ آگے جاکر مارکیٹیں بند کر دیں گے، ٹریفک بند کردیں گے ۔

لوگوں کی زندگیاں بندکرنے سے خطرہ نہیں ٹلتا ہے۔ اس المیہ کو بنیاد سے سمجھنے کی ضرورت ہے اور اگر دہشت گردی کے خاتمہ کے اندر سنجیدگی ہے تو اس کو بنیاد سے سمجھیں ۔ پہلے اشارہ کیا تھا کہ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے پہلے اس کی جڑوں تک پہنچیں ،جن کو پکڑ لیا جاتا ہے یہ عوامل نہیں ہیں یا جن کے نام سامنے آتے ہیں مثلاً یہ لوگ جنہوں نے باچاخان یونیورسٹی پر حملہ کیا ،یہ دہشت گردی کے بانیان اور جڑیں نہیں ہیں ،یہ شاخیں اور اس شجرۂ خبیثہ کے پتے ہیں اور اگر ان کی جڑوں کا خاتمہ کردیا جائے اوران کے اڈے تباہ کردیئے جائیں تو یہ پتّے خود ہی جھڑ جائیں گے ۔ابھی تودرخت اپنی جگہ قائم ہے ،ہم پتے جھڑنے سے اپنے آپ کو تسلی نہ دیں کہ دہشت گردی کم ہوگی ہے ۔

پہلے انہیں خطبات میں اشارہ کیا تھا کہ وقفے میں آپ لوگ خوش نہ ہوں ، وفقہ ہوا ہے اور وقفہ اس لئے نہیں ہوتا کہ آپ پر رحم آگیا ہے بلکہ وہ وقفے کے ذریعے خود اپنی توانائی بحال کرنا چاہتے ہیں اور موجودہ حالات کے مطابق نئے سرے سے تیاری کرکے آتے ہیں اور شدت کے ساتھ آتے ہیں ۔

اس وقفے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خاتمہ ہوگیا بلکہ پہلے سے زیادہ خطرہ ہے جس نے اتنا شدت سے دہشت گردی کے خلاف مقابلہ ہوا تھا اور اسی وجہ سے پورا ملک بندکردیا جائے، اسکول بند کر دیئے جائیں اور یونیورسٹیاں سِیل کر دی جائیں ، ابھی کتنی یونیورسٹیاں سِیل کردی گئی ہیں ،بہاؤالدین زکریایونیورسٹی ملتا ن کی سِیل کردی گئی ہے اسی طرح دو تین اور یونیورسٹیاں اورہاسٹل سے سب کو طلبہ و طالبات کو نکال کر پورے پورے سِیل کر دیئے ہیں کہ یہاں حفاظتی انتظامات درست نہیں ہیں ،اس وجہ سے یہاں کوئی بھی نہ آئے ،تعلیمی ادارے مفلوج ہیں ،اب ظاہر ہے کہ دہشت گردی کا یہ خبیث عنصراتنا پھیلا ہوا ہے کہ تمام ملکی توانائیاں اس کے خلاف صرف ہورہی ہیں پھر بھی اس حد تک خطر ہ پڑا ہوا ہے، ایکشن پلان کے دوران اداروں نے احساس کیا گیا کہ بچوں اور اپنی قوم کو بچانے کے لئے تنہا ذریعہ یہی ہے کہ ادارے بند کردیئے جائیں ، ان دہشت گردی اداروں کو ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ان کی جڑوں تک پہنچیں ،ہشت گردی کے لشکر،دہشت گردی کے تمام سلسلوں کی جڑوں تک رسائی ضروری ہے ان کی جڑوں میں سے ایک جڑ پاکستان سے باہر ہے۔

دہشت گردی کے حقیقی بانی

 اس وقت متأسفانہ جتنے ممالک پاکستان میں اور باقی اسلامی دنیا میں دہشت گردی کے بانی ہیں وہ سب پاکستان کے دوست ہیں ، آل سعود دہشت گردی کی ماں ہے جس نے پوری دنیا کے اندر دہشت گردی جنم دی ہے اور پھیلائی ہے اور یہ کام انھوں نے دن دہاڑے کیا ہے، کسی سے چھپ کر بھی نہیں کیا ہے ،فقط پاکستانی میڈیا فضلہ خوری کی وجہ سے آل سعود کے سامنے شرمندہ ہے اورباقی ساری دنیا دیکھ رہی ہے کہ انہوں نے یہ کام کیا ہے، سارا کام ان کے پیسے سے ہوا ہے ان کے اندر شدت پسندانہ نظریے وجود میں آئے ہیں ،انہوں نے تمام ملکوں میں خصوصاً پاکستان میں آکر اس کو فروغ دیا ہے اور اس کی ترویج کی ہے۔

ترکی کا رول

وہ ملک جس نے اپنے آپ کواسلامی دنیا سے کاٹ لیا تھا اور اپنا اسلامی چہرہ ختم کرچکا تھااور اپنی پہنچان ایک سیکولر اور لائیک ملک کے طور پر کروا چکا تھا وہ ملک(ترکی) اس وقت دہشت گردی کا امام بناہوا ہے اور پاکستان کا قریبی اور شدید دوست ہے۔ اس وقت ترکی ،آل سعود سے بھی زیادہ پاکستان کا بڑا دوست بناہوا ہے۔ اس وقت دہشت گردی کی سب سے خطرناک جماعت داعش ہے۔ یہ دہشت ناک ووحشت ناک لشکر ترکی نے بنایا ہے اور ترکی ہی اس کی تقویت کر رہا ہے دوسرے بھی اس کے ساتھ شامل ہیں لیکن قطر،امارات،بحرین،سعودی عرب اور ترکی یہ ہراول گروہ ہے ،باقی تمام اس کے پیچھے رہ کر سپلائی کرنے والے ہیں ، اس وقت داعش کے پاس جتنا اسلحہ ہے وہ سوائے سعودی عرب کے دنیا میں کوئی بھی ان کے لئے خرید نہیں سکتا ہے اور انہوں نے یہ اسلحہ دیا ہے ،ان کواتنی گاڑیاں خرید کر دی ہیں کہ کوئی بھی حکومت نہیں خرید سکتی ہے ، ٹویٹا کمپنی کی بالکل نیو برانڈ گاڑیاں ،جنگی مقاصد والی گاڑیاں جو آڈر پر بنتی ہیں ،عام شوروموں میں نہیں ملتیں یہ گاڑیاں ،ان کو خرید کر دی ہیں ،ان کو ماڈرن اسلحہ خرید کردیا ہے اور ان کی تقویت کے لئے انہوں نے تیل اور پٹرولیم چوری کیا ہے عراق اور سوریہ کے،پٹرولیم والے علاقے پر داعش نے قبضہ کیا ہے اور قبضہ کرکے پیڑول وہاں سے نکالاہے اور ٹینکر بھر بھر کے ترکی بھیجے ہیں اور ترکی نے داعش کا تیل بیچا ہے اسی لئے اوپک کا باقی سارا تیل سستا ہوا اور بازار میں نہیں بکا، اسی طرح ایران کا تیل بکنا اور خریدنا بند ہوگیا اور داعش کا تیل ساری مارکیٹوں میں اور ترکی میں بکنا شروع ہوا ،ترکی نے خود بھی کھایا اورکمایا ہے اور خاصکر ترکی کے حکمران بالخصوص اردوگان نے ۔ اوراس طرح اس کی اولاد اور سارا خاندان اس سیاہ کارنامے کے اندر ملوث ہے۔

پاکستان کو ناامن کرنے کا منصوبہ

 پاکستان کا سب سے قریبی دوست ترکی ہے ، اور اسی طرح امارات اور بحرین پاکستان کے دوست ہیں ۔ یہ شکار بھی پاکستان آکر کھیلتے ہیں پاکستان سے شکار لے بھی جاتے ہیں جو جی میں آئے کرتے ہیں ، عورتیں پاکستان سے لے جاتے ہیں ،مرد پاکستان سے لے جاتے ہیں ،ہر طبقہ یہاں سے خرید کر لے جاتے ہیں جیسے پاکستان ان کی اپنی سرزمین ہے، اسی طرح سے ان کو یہاں آزادی ہے اورپاکستان کا دوسرا بڑا دوست امریکہ ہے جس نے کھل کر بیان دیا ہے ابھی پچھلے ہفتہ اوباما کا بیان تھا کہ پاکستان کئی دھایوں تک نا امن اور ناپائیدار رہے گا ،اسکی طرف اشارہ کیا تھا کہ یہ کوئی پیشن گوئی نہیں تھی بلکہ پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی کا اعلان تھا کہ ہمیں پاکستان کو کئی دھایاں اور ناامن رکھنا ہے اور اس کے لیٔے ان کے پاس منصوبہ ہے۔نا امن رکھنے کے لئے ابھی اس ہفتہ کا جوبیان امریکی صدر کا تھاوہ یہ کہ پاکستان میں دہشت گردی کے اڈے ہیں پاکستان ان کو ختم کرے۔ ا ومابا نے یہ بیان یوم جمہوریہ پر دیا ۔امریکہ ،بھارت کے ساتھ کھڑا ہے اورکہا کہ پٹھان کوٹ میں جو کچھ ہو اہے پاکستان اس کا جو اب دے اور اس کی تلافی کرے ، یہ کرے وہ کرے،پاکستان کو یہ ساری دھمکیاں سننا پڑی، اتنا کچھ کرنے کے بعد ان کی ایما پر اپنا ملک تباہ کرنے کے بعداب یہ جملے ان کو سننے پڑھ رہے ہیں وہ جن کو مطبوعات(میڈیا)کی زبان میں کہتے ہیں :ـــــــــــ do mor مزید آگے آؤ ،مزید کچھ کرواور یہ سلسلہ جاری ہے۔

دہشت گردی کے خلاف حکومت کی غلط پالیسیاں

 اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے توسب سے پہلے ان ممالک کا راستہ بند کیا جائے اور ان کے ساتھ دوستی ختم کی جائے ۔حکمرانوں کو ،جماعتوں کو ،سیاست دانوں کو،مذہبیوں کو، عوام کویہ مطالبہ کرنا چاہیے ۔یہ دہشت گردی کی جڑیں ہیں ،یہ دہشت گردی کے روٹس ہیں ،یہ پوری دنیا میں دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں اورہمارے دوست بنے ہوئے ہیں ۔

 ایسے ملک میں کیسے امن ہوگا جس کی تمام توانائیاں ملک سے دہشت گردی ختم کرنے کے لئے صرف ہورہی ہیں ۔اور آج ہمیں اسکول بند کرنے پڑے کیونکہ جب تک یہ آل سعود ہمارے دوست ہیں ، جب تک ترکی ہمارا دوست ہے ،جب تک امارات و قطر ہمارے دوست ہیں پاکستان میں امن نہیں ہوگا اور اوباما نے اس پالیسی کا اعلان کیاہے کئی دھایوں تک یہاں پر امن نہیں ہوگا کیونکہ تمہارے ملک نے جو راہیں اپنائی ہیں ان کا یہی نتیجہ نکلے گا، اگر دہشت گردی کی جڑیں ختم کرنی ہیں تو سب کو مل جل کر کرنی ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ یہ کام صرف فوج کا ہے کہ وہ تنہا دہشت گردی کے خلاف مبارزہ کرے ،جب تک پوری قوم کا ارادہ نہیں بنتا دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہوگا۔

 پاکستان کے اندر دہشت گردی کی حمایت بقدر کافی موجود ہے۔ جب آپ کے مطبوعات (میڈیا) میں لال مسجد کا امام آتا ہے اور میڈیا اور چینل پر لا کر اس کا انٹرویو لیتے ہیں اور اس کے نظریات پوچھتے ہیں پھر کہتے ہیں کہ جو بھی دہشت گردی کو فروغ دے گا ہم اس کے خلاف کاروائی کریں گے۔ لال مسجد کے پیش نماز کویہ حق کیوں دیا گیا ہے جوکھل کر دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے اور ان کو حق پر سمجھتا ہے اوردہشت گردی کے خلاف مارے جانے والوں کو ہلاک قرار دتیا ہے ،اسکی نظر میں جو فوجی شہید ہوتے ہیں وہ شہید نہیں ہیں لیکن جو دہشت گرد مارے جاتے ہیں وہ شہید ہیں اور اسلام آباد میں کئی ہفتوں سے یہ کھیل چل رہا ہے کہ جمعہ کے دن تمام ٹیلیفون سروس اس ایک شخص کے لئے بندکی جاتی ہے ،موبائل سروس بندکردی جاتی ہے کیونکہ وہ موبائل پر خطبہ دینا چاہتا ہے ۔لال مسجد میں فزیکلی اس کا آنا ممنوع ہوتا ہے، وہ اپنے گھر میں بیٹھا ہے وہیں پر ،اسی محلہ میں رہتا ہے اور وہاں سے وہ موبائل پر خطبہ جمعہ دینا چاہتا ہے ،وہ اسلام آباد میں بیٹھا ہوا ہے اسے نہیں پکڑتے موبائل سروس بند کردیتے ہیں ،یہ کیا پالیسی ہے؟ یہ کون عقلمند بیٹھا ہوا ہے؟ایک مولوی نہیں پکڑتے ہو اور تمام موبائل سروس بند کردیتے ہو،تین چار موبائل کمپنیاں دو تین گھنٹے کے لئے موبائل سروس بند کردیتی ہیں ۔

اس پالیسی سے دہشت گردی کامقابلہ کیا جا رہاہے؟ معلوم ہے کہ پیچھے کوئی طاقت ہے جس کے سامنے بے بس ہیں ، موبائل سروس بند کرنا افورڈکر لیتے ہیں اوراسلام آباد ریجن میں موجود تین چار ملکی کمپنیاں بند کردیتے ہیں لیکن ایک مولوی کو جاکر نہیں پکڑ سکتے ۔

غلط پالیسیوں کے نقصانات

یہی حال اسکول بند کرنے میں ہے ملک کے اسکول بند کرنے سے جو نقصان ہوگا، کسی دانا اور اہم شعبے نے اندازہ لگایا ہے ؟ایک دن اسکول بند کرنے سے ملک و مملکت کا کتنا علمی نقصان ہوتا ہے، ایک دن اسکول بند کرنے سے ایک نسل پر کتنا اثر پڑتا ہے، چونکہ ہم زیادہ سیریس اورجِدی لوگ نہیں ہیں اس لئے ان اعداد وشمار سے کوئی سروکار نہیں رکھتے ہیں ۔ بعض اوقات میں طلاب کو کہتا ہوں کہ سروکار رکھا کریں حساب کیا کریں اگر ایک استاد چھٹی کرتا ہے ایک دن میں پانچ پیریڈ پڑھاتا ہے اگر ہر کلاس کے اندر بیس اسٹوڈنٹس فرض کریں اورایک ٹیچرایک دن اسکول نہ آئے تو گویا اس نے پانچ پیریڈ چھوڑ دیئے ہیں ،ہر پیریڈ میں بیس اسٹودنٹس ہیں اور پانچ گھنٹے کو بیس سے ضرب کریں تو اس ٹیچر نے قوم کے سو گھنٹے ضائع کردیئے ہیں ، سوگھنٹے کوئی کم وقت نہیں ہے ،سو گھنٹے میں بڑے بڑے پروجیکٹ انجام پاتے ہیں ، بڑے بڑے کام کتنے گھنٹوں میں انجام پائے ہیں دس اور بیس گھنٹے میں لوگوں نے بڑے بڑے کام کرکے دکھائے ہیں اور ہم سو گھنٹے اس طرح سے ضائع کردیتے ہیں ، طبیعت خراب تھی بارش ہورہی تھی، زکام لگ گیا تھا ،بیمار ہوگئے تھے یا بچہ بیمار ہوگیا تھا۔ ہم اس قسم کے چھوٹے چھوٹے بہانوں سے ہزاروں گھنٹے ضائع کردیتے ہیں اور پھر جب دہشت گردی کا خطرہ ہو تو کہتے ہیں کہ ملک بند کردو، اس کانقصان کتنا ہے اور کون اس نقصان کو تحمل کرے گا؟ ابھی امتحان کے موقع پر اسکول بند کردیں اورپھر سال کے ضائع ہونے کے ڈر سے بچوں کو نقل کے ذریعے یا پیسے دے کر پاس کروادیں ۔

ترکی پاکستان کا دوست ملک ہے ،خداوند اس قسم کے دوستوں سے بچائے اوران سے نجات دے ۔جس کا ایسا دوست ہو اس کو دشمن کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ دوستوں کا تحفہ ہے جو ملک کے اندر یہ اثر دکھا رہا ہے دوسرا یہ کہ کچھ افکار ایسے ہیں اور سب کو ان کا پتہ ہے پھر بھی ان تک رسائی نہیں ہے، معلوم ہے کہ یہ فکر کہاں سے نکلتی ہے ،پاکستان کے اندر کونسا فکری منبع ہے جو ان چیزوں کو فروغ دیتا ہے اورجو ان کی ترویج کرتا ہے اور ان کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جب پلان بنائیں گے تو سب کو اکٹھاخشک و تر کے لئے پلان بنائیں گے ،دھواں کس کا ہے خشک انجن کا ہے یا ترانجن کا ہے،دھواں کس سے نکلتا ہے، ترسے نکلتا ہے لیکن جب ہم دھواں کنٹرول کرنے کے لئے پلان بناتے ہیں توکہتے ہیں خشک بھی اٹھا کر پھینک دو اور تربھی اٹھا کر پھینک دو، تاکہ کوئی اعتراض نہ کرے اور بیلنس ہوجائے۔ اسی سے سوسائٹی ان بیلنس ہوتی ہے اسی سے مشکلات بڑھ جاتی ہیں جب آپ کو پتہ ہے کہ اسلام آباد میں فلاں شخص ،فلاں مسجد میں شر کا منبع ہے تو موبائل سروس کو چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے اس کو جاکر پکڑو،جب ہمیں معلوم ہے کہ ملک کے اندر دہشت گردی کے افکار کہاں سے جنم لیتے ہیں اور کہاں سے پھوٹتے ہیں یہ تفکر اور مکتب کون رکھتا ہے یہ کس کی سوچ ہے یہ سب کو پتہ ہے تو وہاں کیوں نہیں جاتے؟

 اگرشروع کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ مثلاً تمام مساجد ،امام بارگاہوں اور مدارس کے فارم بھرو،یہ کرواور وہ کرو،فلاں کروفلاں کرو، کیا کرنا چاہتے ہو؟۔ دہشت گردی ختم کرنا چاہتے ہیں ،دہشت گردی کہاں ہے؟ جہاں ہے وہاں کیوں نہیں جاتے اس کا پکڑنا مشکل نہیں ہے اس کو سِیل کردیں سارے ملک کے اسکول سِیل کرنے کے بجائے اگر چند ادارے سِیل کردیئے جائیں تو پاکستان میں امن ہوجائے گا پاکستان میں چند سفارت خانہ سِیل کردیں ،آل سعود کا سفارت خانہ سِیل کردیں توپاکستان میں امن ہوجائے گا بجائے اپنے کالج اوریونیورسٹیاں سِیل کرنے کے یہ شر کے مراکز کو سِیل کریں اگر پاکستان میں چند مسجدیں سِیل کردیں تو سارے پاکستان میں امن ہوجائے گا اگر چند جگہیں اور دفتر سِیل کردیں تو مکمل امن ہوجائے گا ان کو جڑوں کا پتہ ہے جڑوں کی طرف جائیں یہ جو افراد ہیں یہ پتے ہیں شجرۂ خبیثہ دہشت گردی کے پتے ہیں پتے جھاڑنے سے دہشت گردی ختم نہیں ہوتی ہے ۔

 عوام کی ذمہ داری

 دہشت گردی کے حوالے سے ایک اور نقطہ ہے وہ یہ کہ عوام صرف نظارہ گرہیں ، عوام فقط دہشت گردی کا نظارہ کررہے ہیں ،خبریں دیکھتے ہیں ،اخبار پڑھتے ہیں اورایک دوسرے کو میسج کرتے ہیں ، اگر زیادہ نقصان ہو تو زیادہ سے زیادہ اظہار افسوس کرتے ہیں ۔ کیا آپ عوام کا یہی فریضہ بنتا ہے؟ عملی طور پر لا تعلق ہیں ،جب تک پوری قوم اس ناسور کو ملک سے ختم کرنے کا ارادہ نہیں کرتی ،ایک ادارہ کافی نہیں ہے ،چند روز پہلے فوج کے ترجمان نے کہاں بھی ہے کہ ایک ادارہ یہ کام نہیں کرسکتا،ایک ادارے کے بس میں نہیں ہے بے شک فوج ہی کیوں نہ ہو،جب تک پوری مشینری اور قوم مل کر ارادہ نہیں کریں گے یہ شجرۂ خبیثہ ختم نہیں ہوسکتا۔

اس ایک ملعون ضیاء الحق نے اس شجرہ خبیثہ کا بیج بویا تھااور ایساہی ہوتا ہے۔ایک احمق کنویں میں پتھر پھینک دیتا ہے لیکن پوری قوم اسے نکالنے سے عاجز ہو جاتی ہے۔ابھی ہماری یہی حالت ہوگئی ہے ۔پوری قوم اب عاجز ہے پتھر نکالنے سے جو اس احمق نے پھینکا تھا۔ یہ شجرہ خبیثہ اس نے گاڑھا تھا،سب مل کے ساری توانائیاں لگا رہے ہیں لیکن پھر بھی خطرات ہیں قومی ارادہ ہونا بہت ضروری ہے۔

میڈیا کا رول

میڈیا کا سب سے اہم رول یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف قوم کا ارادہ بنائے،یہ میڈیا کی اخلاقی ذمہ داری ہے،اس کی قومی و دینی ذمہ داری ہے کہ رائے سازی کرے ،ارادہ سازی کرے،جبکہ میڈیا فقط تماشا و ڈرامہ کرتاہے اور دہشتگردی کو مزید فروغ دے رہا ہے،پروموٹ کرتا ہے اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لئے کہ ہمارے چینل نے سب سے پہلے فلاں دہشت گرد کا انٹرویو لیا ۔دہشتگردوں میں جاکر انٹرویو لیتے ہیں دو دن پہلے ایک دہشت گرد کا انٹرویو ایک نیوز ایجنسی نے نقل کیا ہوا تھا کہ کتنے خطرات مول لے کر یہی شخص داعش کے ایک رکن کے پاس افغانستان میں پہنچا ہے اور پھر پہنچنے کے اور واپسی کے خطرات لکھے،یعنی موت کے منہ میں جاکر انٹرویو لے کر آیاپھر اس نے اسی داعشی کے افکار آکر اپنے چینل پہ پیش کئے اپنی سائٹ پر لکھے، اور ساری دنیا کو مطلع کیا کہ داعش کا ایک دہشت گرد یہ کہہ رہا ہے۔کیا یہ تمہارا وظیفہ ہے کہ ایک دہشتگرد کو تہہ خانہ سے نکال کر اس سے انٹرویو لے کے اس کے افکار سے قو م کو آشنا کرو؟

آپ بیت المال سے چینل چلاتے ہو،قومی سبسڈی لیتے ہو ،ملکی وسائل سے استفادہ کرتے ہو ، قوم کا وقت ضایع کرتے ہو،اتنا کچھ کر کے اور آخر میں داعش کے کسی دہشت گردسے انٹرویو لے کر بتاتے ہیں کہ ہمارا چینل آگے ہے اور ہمارا چینل دہشتگردوں تک پہنچ گیا ہے، یہ لوگوں کا ماینڈ سیٹ بنا رہے ہیں ، ان کے افکار لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں ۔ان سے کہیں کہ یہ کام کیوں کرتے ہو تو دلائل دیتے ہیں کہ اس لئے یہ امریکہ کے حامی ہیں اوران کو مارنا ضروری ہے۔ ظاہر ہے اسی کو اگر ایک سادہ آدمی سنتا ہے تو وہ قانع ہو جاتا ہے کہ یہ تو غلط لوگوں کے خلاف اقدامات کر رہے ہیں ۔اس انٹرویو میں خبر نگار نے اس سے ایک سوال یہ پوچھا کہ آپ مسلمانوں کو کیوں مارتے ہو؟ بے گناہ لوگوں کے سر قلم کردیتے ہو؟ تواس نے دلائل نقل کئے کہ یہ بھی ٹھیک ہے ضروری ہے یہ لوگ بے گناہ نہیں ہیں ،گناہ کار ہیں ۔ جیسے ابھی باچا خان میں اسٹوڈنٹ کو شہید کیا ،اس کے بعد دلائل دیئے کہ انہوں نے بعد میں یہ یہ بننا تھا اس لئے ہم ان کو یہیں پہ ختم کررہے ہیں ،یہ ان کے دلائل ہیں ! بے وقوف و بے شعوور واحمق آدمی تو ان دلائل سے قانع ہوجاتا ہے ۔کیوں میڈیا کو اتنی کھلی آزادی کیوں حاصل ہے؟ ایک طرف سے ایکشن پلان ہے اور اس میں دہشتگردی کی ترویج میں کھلی آزادی ہے جس سے مرضی ہے انٹرویو لے سکتے ہیں اورجس کو مرضی ہے نشر کریں ؟ خود ہی اپنے کام پر پانی پھیر دیتے ہیں ،قومی کام پر پانی پھیر دیتے ہیں ۔

 قومی ارادہ کے احیاء میں علماء کی ذمہ داری

دوسرے نمبر پہ علماء کی ذمہ داری ہے کہ قوم کا ارادہ بنائیں اور ایسے علماء انہوں نے رکھے ہوئے ہیں جو منافق علماء ہیں ،جو در پردہ دہشتگردی کے حامی ہیں ،ٹی وی پر آکر امن کی باتیں کرتے ہیں ۔قوم کا ارادہ بنانا علماء کا کام ہے ان کے پاس ایسے علماء ہیں جو منافق ،نشئی اور شراب خوارہیں اور پشت ِپردہ دہشتگردی کے حامی ہیں جبکہ ٹی وی پر آکر امن کی باتیں کرتے ہیں اور قوم کو امن کی راہیں دکھاتے ہیں !!جب ایسے افراد کو لے آتے ہیں تو علماء سے تو نفرت ہی ہونی ہے۔آپ عالم لاکر بیٹھائیں ۔امن کی بات علماء کریں ،خطبہ جمعہ میں امن کی بات کریں ،مدرسوں میں امن کی بات کریں ، نماز جماعت میں امن کی بات کریں ،کتابیں امن پر لکھیں ، سیمینار کریں ۔قومی ارادہ بنانا ان دو طبقوں کا کام ہے۔میڈیا اور علماء قومی ارادہ بنا سکتے ہیں ۔ میڈیا ریٹینگ) (Ratingمیں مصروف ہے،دہشتگردوں کے انٹرویو لے کر مشوش و ہراساں اورکنفیوز کرنے میں لگا ہوا ہے۔ جو علماء در پردہ دہشتگردوں کے حامی ہیں اُن کو لا کر امن کی باتیں کرواتے ہیں ، معاشرے میں اس طرح سے آفت پھیلتی ہے،منافقت کی ترویج ہوتی ہے ۔قومی ارادہ بننا بہت ضروری ہے ۔ساری دنیا کو معلوم ہے کہ پاکستان کے اند ر دہشتگردی کا اصل ہدف بھی شیعہ اور آغاز بھی شیعہ ہے۔شکار سب ہوتے ہیں کسی کو معاف نہیں کرتے لیکن پہلا نشانہ شیعہ کو بناتے ہیں ۔کوئی شیعہ پررحم نہیں کھاتا حتی جو امن کی باتیں کرتے ہیں ان کے پاس بھی شیعہ کے لئے رحم موجود نہیں ہے، نقصان پورے عالم اسلام کا ہوا ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان شیعہ کو ہوا ہے، ہم اس طرح تماشائی بننے سے اس نقصان سے نہیں نکل پائیں گے۔ اگر قومی ارادہ بنانے میں دوسرے پہل نہیں کرتے تو مومنین آگے بڑھیں ،علمائے شیعہ پہل کریں تاکہ دہشتگردی کے خلاف قومی ارادہ تشکیل پائے ۔او رقومی ارادوں میں اتنی طاقت ہے کہ یہ سارے لشکر ختم کیے جاسکتے ہیں ، انکی جڑیں بند کی جاسکتی ہیں ،انکے منابع ختم کئے جاسکتے ہیں ،انکے روٹ کاٹے جاسکتے ہیں اور قومی ارادوں سے ہی ممالک کی مشکلات حل ہوتی ہیں ، بیرونی امدادسے مشکلات حل نہیں ہوتیں ۔

سعودی عرب کی نگاہ میں پاکستان کی حیثیت

 حال میں ہی ہمارے فوجی چیف اور وزیر اعظم سعودی عرب اور ایران گئے ہیں تاکہ ان دو ممالک کے درمیان ثالثی کریں لیکن سعودی عرب نے رد کردیا ہے کہ پاکستان کی ثالثی ہمیں قبول نہیں ہے، ان کو غیرت آگئی ہے کہ پاکستان ہمارے درمیان ثالثی کرے!!یہ توہین آمیز طریقہ ہے، جیسے کوئی چھوٹا کسی بڑے کونصیحت کرے تو اسے بری لگ جائے کہ تو کیوں مجھے نصیحت کررہا ہے۔ جیسے کوئی نوکراپنے آقا کو نصیحت کرے تو وہ اسے لات مار دیتا ہے کہ تو کون ہوتا ہے مجھے نصیحت کرنے والا۔ پاکستان ہمارے درمیان صلح کروانے آیا ہے؟ پاکستان ہمیں ثالثی کے طور پر نہیں چاہیے ،یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہمیں امیدیں ہیں جن سے ہم نے اپنی دم باندھی ہوئی ہے۔ عزیزان ! ایک مرتبہ کھل کر، سب ملکر یہ کہہ دیں کہ اگر کوئی بھی ملک ، فرق نہیں پڑتا وہ شرقی ملک ہو ،غربی ہو،اسلامی ملک ہو ،غیر اسلامی ہو،کوئی ملک بھی ہواگر پاکستان کے امور میں مداخلت کرے گاتواسکا سفارت خانہ بند کرادیا جائیگا۔ انکو کہہ دینا چاہیئے کہ آپ کو حق نہیں بنتا کہ آپ مداخلت کریں ۔قومی ارادے سے یہ کام کریں ،سیاست دانوں میں یہ ارادے کمزور ہوتے ہیں ، قوموں میں یہ ارادے مضبوط ہوتے ہیں ۔ اس وقت خطرات ہیں ، شدید خطرات ہیں آپ اپنی حفاظت کا بھی بندوبست کریں ،اپنے مراکز کی حفاظت کا بھی بندوبست کریں ،اپنے مقدسات کی حفاظت کا بھی انتظام کریں ، حالات کا رخ ٹھیک سمت میں نہیں ہے اور سب سے پہلا ان کا شکار بھی تشیع ہی ہوتا ہے ۔انشاء اللہ خدا وند متعال فتنہ گروں ، ظالموں اور دہشتگروں کوا ن کے بانیوں سمیت نیست و نابود فرمائے اور پوری امت کو ان ظالمین کے شر سے محفوظ فرمائے۔امین


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اعتدال اور میانہ روی
حدیث ثقلین پر ایک نظر
امام کي شخصيت اور جذبہ
25 شوال المکرم؛ رئیس مذہب حضرت امام جعفر صادق علیہ ...
حضرت علی علیہ السلام کا جمع کردہ قرآن
مسئلہ تحریف قرآن
اسلام نے زمانے کو عزت بخشي
علم آیات و احادیث کی روشنی میں
ماں باپ کے حقوق
ثوبان کی شخصیت کیسی تھی؟ ان کی شخصیت اور روایتوں ...

 
user comment