اردو
Friday 29th of March 2024
0
نفر 0

تقلید

شیعہ کہتے ہیں کہ فروع دین شریعت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جو عبادت میں جیسے : نماز ، روزہ ، زکات اور حج وغیرہ ۔ ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل واجب ہے :- الف:- یا تو آدمی خود اجتہاد کرے اور احکام کے دلائل پر غور کرے (بشرطیکہ اس کا اہل ہو)۔ ب:- یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ احتیاط کی گنجائش ہو ۔
تقلید

شیعہ کہتے ہیں کہ فروع دین شریعت کے وہ احکام ہیں جن کا تعلق ان اعمال سے ہے جو عبادت میں جیسے : نماز ، روزہ ، زکات اور حج وغیرہ ۔ ان کے بارے میں مندرجہ ذیل تین صورتوں میں سے کسی ایک پر عمل واجب ہے :-
الف:- یا تو آدمی خود اجتہاد کرے اور احکام کے دلائل پر غور کرے (بشرطیکہ اس کا اہل ہو)۔
ب:- یا احتیاط پر عمل کرے بشرطیکہ  احتیاط کی گنجائش ہو ۔
ج:- یا پھر کسی جامع الشرائط مجتھد کی تقلید کرے ۔
جس کی تقلید کی جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ زندہ ، عاقل ، عادل  پر ہیز گار اور دین پر عامل ہو۔ اپنی خواہشات نفسانی پر نہ چلتا ہو بلکہ احکامات الہی  کی پیروی کرتا ہو۔
فرعی احکام میں اجتہاد (1) تمام مسلمانوں پر واجب کفائی ہے ،اگر کوئی ایک بھی مسلمان جس میں اس کا م کی علمی لیاقت اور استعداد ہے ، اس کام کو کرلے تو باقی مسلمانوں سےیہ فریضہ ساقط ہوجاتا ہے ۔
شیعہ ان علماء کا اجتہاد کافی سمجھتے ہیں جنھوں نے اپنی زندگی اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنے میں صرف کی ہو ۔ مسلمانوں کے لیے ایسے مجتہد کی تقلید کرنا اور فروع دین میں اس کی طرف رجوع کرنا جائز ہے ۔لیکن اجتہاد کا رتبہ حاصل کرنا کوئی آسان کام نہیں اور نہ اس کا حصول سب کے لیے ممکن ہے ۔ اس کے لیے بہت وقت اور بہت وسیع علمی  معلومات کی ضرورت ہوتی ہے ، اوریہ سعادت صرف اسے ہی میسّر آتی ہے جو سخت محنت  اور کوشش کرتا اور اپنی عمر تحقیق وتعلم میں کھپاتا ہے ۔ ان میں بھی اجتہاد  کا رتبہ صرف خاص خاص خوش نصیبوں ہی کو حاصل ہوتا ۔
رسو ل اللہ صلی اللہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :
"من  أراد الله به خيرا يفقّهه فی الدين"
اللہ جس کے ساتھ نیکی کا ارادہ کرتا ہے اس کو دین کی سمجھ عطاکردیتا ہے ۔
اس سلسلے میں شیعوں کا  یہ قول اہل سنت کے ایسے ہی قول سے مختلف  نہیں ۔ صرف بارے میں اختلا  ہے کہ تقلید کے لیے مجتہد کا زندہ ہونا ضروری ہے یا نہیں ۔
لیکن شیعوں اور سنیوں میں واضح اختلاف اس میں  ہے کہ تقلید پر عمل کیسے کیا جائے۔ شیعوں کا اعتقاد ہے کہ وہ مجتہد  جس میں مندرجہ ذیل بالا سب شرائط پائی جاتی ہوں امام علیہ السلام کا نائب ہے اور غیبت امام کے زمانے میں وہ حاکم اور سربراہ ہے اور مقدمات کا فیصلہ کرنے اور لوگوں پر حکومت کرنے کے اسے وہی اختیارات حاصل ہیں جو امام کوہیں ۔ مجتہد کے احکام کا انکار خود امام کا انکار ہے ۔
شیعوں کے نزدیک جامع الشرائط مجتہد کی طرف صرف فتوے کے لیے ہی رجوع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے اپنے مقلدین پر ولایت عامہ بھی حاصل ہوئی ہے ۔ اس لیے مقلدین اپنے مقدمات کے تصفیہ کے لیے بھی اپنے مجتہد ہی سے رجوع کرتے ہیں ، جو خمس اور زکات میں امام زمانہ کے نائب کی حیثیت سے شریعت کے مطابق تصرف کرتا ہے ۔ لیکن اہل سنت والجماعت کے نزدیک مجتہد کا یہ مرتبہ نہیں ۔ وہ یہ نہیں مانتے کہ امام نائب رسول ہوتا ہے ۔ فقہی مسائل میں البتہ  وہ صاحب مذاہب اربعہ میں کسی ایک کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔ ان ائمہ اربعہ کے نام یہ ہیں :
(1):-ابو حنیفہ نعمان بن ثابت بن زوطی (سنہ 80 ھ تا سنہ 150ھ)۔(2):-مالک بن انس بن مالک بن ابی عامر اصبحی (سنہ 93 ھ تا سنہ 179 ھ)۔(3):- محمد بن ادریس بن عباس بن عثمان شافع(سنہ 150 ھ تا سنہ 198ھ)۔(4):- احمد بن محمد بن جنبل بن ہلال (سنہ 164 ھ تا سنہ 241ھ)
موجودہ  دور کے بعض اہل سنت ان میں کسی ایک معین امام کی تقلید نہیں کرتے ، بلکہ اپنی مصلحت کے مطابق بعض مسائل میں کسی ایک امام کی تقلید کرتے ہیں اور کچھ دوسرے مسائل میں کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کرتے ہیں ۔ سید سابق جنہوں نے چاروں اماموں کے فقہ سے ماخود ایک کتاب مرتب کی ہے ، ایسا ہی کیا ہے  کیونکہ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ اصحاب مذاہب کا اختلاف رحمت ہے ۔ اس لیے اگر کسی مالکی کو  اپنی مشکل کا حل اپنے امام کے یہاں نہ ملے اور امام ابو حنیفہ کے یہاں مل جائے تو وہ امام ابو حنیفہ کے قول پر عمل کرلے ۔میں اس کی ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ مطلب واضح ہوجائے : ہمارے یہاں تیونس میں ایک بالغ لڑکی تھی ، یہ اس زمانے کی بات ہے
جب یہاں قاضی کو رٹس ہوا کرتی تھیں ۔ اس لڑکی کو ایک شخص سے محبّت ہوگئی ۔ یہ اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر اس کا باپ اللہ جانے کیوں اس سے اس کے نکاح پر راضی نہیں تھا ۔ آخر باپ کے گھر سے بھاگ گئی اور اس نے اس نوجوان سے باپ  کی اجازت  کے بغیر نکاح کرلیا ۔ باپ نے شوہر کے خلاف دعوی دائر کردیا ۔ جب لڑکی اپنے شوہر  کے ساتھ عدالت میں پیش ہوئی تو قاضی نے اس سے گھر سے بھاگنے اور ولی سے اجازت کے بغیر نکاح کرنے کی وجہ سے پوچھی تو اس نے کہا : "جناب عالی ! میری عمر 25 سال ہے ۔ میں  اسے شخص سے اللہ رسول  کے بتلائے ہوئے طریقے کے مطابق شادی کرنا چاہتی تھی ، لیکن میرا باپ میرا بیاہ ایسے شخص سے کرنا چاہتا تھا جو مجھے بالکل پسند نہیں تھا ۔میں نے امام ابو حنیفہ کے مذہب کے مطابق شادی کرلی کیونکہ امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق مجھے بالغ ہونے کی وجہ سے حق ہے کہ میں جس سے چاہوں شادی کرلوں"۔
اللہ بخشے قاضی صاحب جنھوں نے یہ قصہ مجھے خود سنایا تھا ، کہنے لگے : جب ہم نے اس مسئلہ کی تحقیق کی تو معلوم ہواکہ لڑکی ٹھیک کہتی تھی۔ میرا خیال ہے شاید کسی جاننے والے عالم نے سکھایا تھا کہ عدالت میں جاکر کیا بیان دے ۔
قاضی صاحب کہتے تھے کہ میں باپ کادعوی خارج کردیا اور نکاح کو باقی رکھا ۔باپ غصہ میں بھرا ہوا عدالت سے باہر نکلا ۔وہ ہاتھ مل رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ کتیا حنفی ہوگئی "یعنی امام مالک کو چھوڑ کر امام ابو حنیفہ کا مذہب اختیار کرلیا ۔ بعد میں وہ شخص کہتا تھا کہ میں اس کتیا کو عاق کردوں گا ۔
یہ مسئلہ اجتہادی اختلاف کا ہے :-
امام مالک کی رائے ہے کہ کنواری باکرہ لڑکی کا نکاح سرپرست کی اجازت کے بغیر نہیں ہوسکتا ۔بلکہ اگر مطلقہ یا بیوہ ہو تب بھی ولی کی اجازت ضروری ہے  ۔ابو حنیفہ کہتے ہیں کہ بالغہ چاہے باکرہ ہویا مطلقہ و بیوہ اسے خود اپنا شوہر  پسند کرنے اور عقد کرنے کااختیار ہے ۔ تو اس فقہی مسئلے نے باپ بیٹی میں جدائی ڈال دی ۔ یہاں تک کہ باپ نے بیٹی کو عاق کردیا ۔
پہلے زمانے میں تیونس میں اکثر باپ مختلف وجوہ سے بیٹیوں کو عاق کردیا کرتے تھے ،جن میں سے ایک وجہ یہ ہوتی تھی کہ لڑکی جس سے شادی کرناچاہتی تھی اس کے ساتھ بھاگ گئی ۔ عاق کرنے کا انجام بڑا خراب ہوتا ہے کیونکہ جب باپ بیٹی کو میراث سے محروم کردیتا ہے تو لڑکی اپنے بھائیوں کی دشمن بن جاتی ہے اور بھائی خود  بھی بہن کوچھوڑ دیتے ہیں ، کیونکہ بہن کے بھاگنے کو بھائی اپنے لیے کلنک کا ٹیکہ سمجھتے ہیں ۔  اس طرح معاملہ ویسا نہیں ہے جیسا کہ اہل  سنت  سمجھتے ہیں کہ اصحاب مذاہب فقہاء کا اختلاف  ہمیشہ رحمت ہوتا ہے ۔ کم از کم یہ اختلاف ہر مسئلے میں رحمت  نہیں ہے ، کیونکہ ہمارے  لیے معاشرتی اور قبائلی اختلاف اور روایات کو بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے ۔
ایک ایسے معاشرے میں جس کی نشوونما مالکی افکار پر ہوئی ہو اس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ عورت کو یہ حق ہو کہ گھر سے بھاگ جائے اور باپ کی اجازت  کے بغیر کسی سے نکاح کر لے ۔ جو عورت ایسا کرے گی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا  کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کرلے ۔ جو عورت ایسا کرےگی اس کے متعلق یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے گویا اسلام کا انکار کیا یا ایک ناقابل معافی گناہ کا ارتکاب کیا ۔ جبکہ دوسرے مذہب کی رو سے اس نے ایسا کا م کیا جو نہ صرف جائز ہے بلکہ اسے اس  کا حق بھی ہے ۔ اسی لیے مالکی معاشرے کو ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے حنفی معاشرے میں نسبتا جنسی آزادی اور آوارگی ہے ۔ ان مذہبی اختلاف  کے نتیجے میں عورت اپنے بہت سے حقوق سے محروم ہے اور وہ اس صورت حال کا الزام دین اسلام کےو دیتی ہے ۔ اسی لیے ہم ان بعض نوجوان عورتوں کو الزام نہیں دے سکتے جو اپنے مذہب کا اس لیے انکار کرنے لگتی ہیں کیونکہ ان کے بڑے ان کے ساتھ خلاف شریعت ظالمانہ سلوک کرتے ہیں ۔
اس مثال کے بعد ہم پھر اصل موضوع کی طرف آتے ہیں :-
اہل سنت کے نزدیک جس امام کی تقلید  کی جائے اس تقلید سے وہ درجہ حاصل نہیں ہوجاتا جس کے شیعہ قائل ہیں یعنی نیابت رسول کا درجہ ۔ اس  کی وجہ شوری اور "خلیفہ یا امام کے انتخاب کا نظریہ ہے ۔ اہل سنت نے خود اپنے
آپ کو یہ حق دے دیا ہے کہ وہ جس کو چاہیں خلیفہ یا بہتر الفاظ میں امام بنادیں ۔ اسی طرح ان کے خیال میں انھیں یہ بھی حق ہے کہ وہ چاہیں تو امام کو معزول کردیں  یا اس کے بجائے جس اپنی دانست میں بہتر سمجھیں اسے مقرر کردیں ، اس طرح درحقیقت وہ امام کے بھی امام ہوگئے ۔یہ صورت شیعہ عقیدہ کے بالکل برعکس ہے اگر ہم اہل سنت کے پہلے امام یعنی ابو بکر صدیق پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ انھوں نے امت سے اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا :
" أيّهاالنّاس لقد ولّيت عليكم ولست بخيركم فإن أطعتُ فأعينوني وإن عصيتُ فقوّموني......."
لوگو! مجھے تمھارا والی چن لیا گیا ہے اگر چہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں ۔چنانچہ جب تک میں صحیح راستے پر چلوں  میرے ساتھ تعاون کرو اور جب میں بھٹک جاؤں ، تو مجھے صحیح راہ پر چلادو۔۔۔۔۔"۔
اس طرح ابو بکر خود اعتراف کرتے ہیں کہ جن لوگوں نے ان کو پسند کیا ہے اور ان کی بیعت  کی  ہے انھیں یہ بھی حق ہے کہ معصیت اورخطا کی صورت میں وہ ان کے مقابلے میں ڈٹ جائیں ۔
اس کے برعکس  ، جب ہم شیعوں کے پہلے امام یعنی علی بن ابی طالب ع پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ جو لوگ ان کی امامت کے قائل ہیں ان کا عقیدہ یہ ہے کہ وہ ان کو امام مان کر  دراصل  حکم خداوندی کی تعمیل کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک امام علی ع کو ایسی ہی ولایت مطلقہ کیا ہو بھلا اس کے لیے یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ کوئی خطا کرے کیس معصیت کا مرتکب ہو ؟اسی طرح امت  کے لیے بھی یہ ہرگز جائز نہیں کہ وہ اس کے کسی حکم کی  مخالفت کرے یا اس کا مقابلہ کرے کیونکہ ارشادباری تعالی ہے :
"وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمْراً أَنْ يَكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ وَمَنْ يَعْصِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالاً مُبِيناً "
چونکہ حضرت علی ع کو مسلمانوں کا امام اللہ اور اس کے رسول ص نے مقرر کیا تھا: اس لیے ان کی حکم عدولی نہیں کی جاسکتی  تھی نہ یہ ممکن تھا کہ حضرت علی  ع کسی معصیت کا ارتکاب کریں اسی لیے رسول اللہ  ص نے فرمایا تھا :
"عليٌّ مع الحقّ والحقّ مع عليّ ٍ ولن يفرقا حتّى يردا عليّ الحوض ."
علی حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے ۔ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے جب تک میرے پاس حوض پر نہ آجائیں"(2)۔
تقلید کے بارے میں فریقین کا استدلال ان کے دو مختلف نظریوں کی بنیاد پر آسانی سے سجمھ میں آسکتا ہے ۔ مطلب ہے سنیوں کا شوری کا نظریہ  اور شیعوں کا نص کا نظریہ۔
اس کے بعد تقلید  کے متعلق شیعوں  اور سنیوں میں صرف ایک اور اختلافی مسئلہ باقی رہ جاتا ہے اور وہ ہے "تقلید میت کا مسئلہ "۔
اہل سنت جس ائمہ کی تقلید کرتے ہیں انھیں فوت ہوئے صدیاں گزرچکی ہیں ۔ اسی زمانے کے بعد سے اہل سنت کے یہاں  اجتہاد  کا دروازہ بند ہے ۔ ان ائمہ  کےبعد جو علماء ہوئے ان کی ساری توجہ صرف اگلی کتابوں کی شرحیں لکھنے اور مذاہب اربعہ کے مطابق فقہی مسائل کے نظم اور نثر میں مجموعے مرتب کرنے پر مرکوز رہی ۔ اب چونکہ بہت سے ایسے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جن کا ائمہ کے زمانے میں وجود بھی نہیں تھا ۔ اس لیے بعض معاصرین آواز اٹھارہے ہیں کہ زمانے کی مصلحت کا  تقاضا یہ ہے کہ اجتہاد کا دروازہ پھر سے کھول دیا جائے ۔
اس کے برعکس ، شیعہ میت کی تقلید جائز نہیں سمجھتے اور اپنے تمام احکام کے بارے میں ایسے زندہ مجتہد  کی طرف رجوع کرتے ہیں جس  میں وہ سب شرائط پائی جاتی ہون جن کا ہم نے گزشتہ اوراق میں ذکر کیا ہے یہ صورت امام معصوم کی غیبت کے زمانے میں ہے ۔ جب تک امام معصوم دوبارہ ظاہر نہیں ہوتے ، شیعہ قابل اعتماد علماء ہی سے رجوع کرتے رہیں گے ۔
آج بھی ایک سنّی مالکی مثلا کہتا ہے کہ امام مالک قول کے مطابق یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے ۔ حالانکہ امام مالک  کو فوت  ہوئے چودہ صدیاں گزرچکی ہیں ۔یہی صورت امام ابو حنیفہ ، امام شافعی اور امام احمد بن جنبل کے پیرو کاروں کے ساتھ ہے  کیونکہ یہ سب مذاہب اور ائمہ ایک ہی  زمانے میں تھے اور ان کا ایک دوسرے سے  استاد شاگرد کا تعلق تھا ۔ اہل سنت اپنے ائمہ  کے معصوم ہونے کے بھی قائل نہیں ۔ نہ خود ان ائمہ نے کبھی عصمت کا دعوی کیا ۔ اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ ائمہ جو اجتہاد کرتے ہیں اس  میں خطا اور صواب دونوں کا احتمال ہے ۔ صواب کی صورت میں انھیں دو اجر ملتے ہیں اور خطا کی صورت میں ایک اجر ۔ بہر کیف اجر ہر اجتہاد پر ملتا ہے ۔
شیعوں کے نزدیک تقلید کے دو دور ہیں :
۔ پہلا دورائمہ اثناعشر کا دور ہے ۔ یہ مرحلہ تقریبا ساڑھے تین سوسال پر محیط ہے ۔ اس دور میں ہر شیعہ امام معصوم کی تقلید کرتا تھا اور امام کوئی بات اپنی رائے یا اپنے اجتہاد  سے بیان نہیں کرتے تھے ۔ وہ جو کچھ کہتے تھے اسی علم اور ان روایات  کی بنیاد پر کہتے تھے جو انھیں ابا عن جد رسول اللہ ص سے پہنچی تھیں ۔ مثلا وہ کسی سوال کے جواب میں اس طرح کہتے تھے :"روایت بیان کی میرے والد نے ، انھوں یہ روایت سنی اپنے نانا سے ، انھوں نے جبریل سے انھوں نے اللہ عزوجل  سے "(3)

۔ دوسرا دور زمانہ غیبت کا دور ہے جو ابھی تک چل رہا ہے ۔ اب شیعہ یہ کہتا ہے کہ یہ چیز آیت اللہ خوئی کی رائے کے مطابق  یا آیت اللہ خمینی کی رائے کے مطابق حلال یا حرام ہے ۔یہ دونوں (4) مجتہد زندہ ہیں ۔ ان کی رائے سے مراد ہے  قرآن اور ائمہ اہل بیت ع کی روایات کے مطابق سنت سے احکام کے استبناط  میں ان کا اجتہاد  ،ائمہ  اہل بیت  ع کی روایات کےبعد دوسرے درجے میں صحابہ عدول یعنی معتبر صحابہ کی روایات ہیں ۔ ائمہ اہل بیت ع کو ترجیح اس لیے ہے کہ وہ شریعت کے بارے میں اپنی رائے سے قطعی احتراز کرتے ہیں اور اس کے قائل ہیں کہ :
"مامن شئ ٍإلّا ولله فيه حكمٌ"
   یعنی کوئی ایسی چیز نہیں جس کے بارےمیں اللہ کا حکم نہ ہو ۔
اگر کسی مسئلہ کے بارے میں ہمیں یہ حکم دستیاب نہ ہو تو اس کے یہ معنی نہیں کہ اللہ تعالی نے اس مسئلہ کو نظر انداز کردیا ہے ۔ بلکہ یہ  ہمارا قصور ناواقفیت ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس حکم کا علم نہیں ہوسکا ۔کسی چیز کا علم نہ ہونا اس کی دلیل نہیں کہ اس کا وجود ہی نہیں ۔ اللہ سبحانہ کا قول ہے :
"مَّا فَرَّطْنَا فِي الكِتَابِ مِن شَيْءٍ"
اس کتاب میں ہم نے کوئی چیز نظر انداز نہیں کی۔(سورہ انعام ۔آیت 38)
--------------------
(1):-اجتہاد کی اصطلاح  شیعوں کے ہاں بھی موجود ہے لیکن اس کے اس کے وہ معنی جو سنیوں نے عملی طور پر اسے دے دیے ہیں ۔ سنیوں کے ہاں عملا اجتہاد میں "ذاتی رائےکے اظہار" کا عنصر بھی موجود ہے جبکہ  شیعوں میں اجتہاد فقط احکام الہی کو سمجھنے  کی کوشش کا نام ہے اور مجتہد کسی طور پر بھی اپنی ذاتی رائے کا اظہار نہیں کرتا۔ البتہ اصطلاح کی تعریف کرتے وقت دونوں مکاتب کی اصولی کتابوں میں ایک ہی جملہ استعمال ہوتا ہے لیکن جہاں تک عمل کا تعلق ہے سنیوں  میں فقیہ یا غیر معصوم  صحابی کی رائے   کا احکام میں دخل ہے ۔جبکہ شیعوں کا مکتب صرف خدا اور رسول کے احکامات وارشادات کو معتبر گردانتا ہے ۔مثلا امام محمد باقر ع یا امام جعفر صادق  ع یہ نہیں کہتے تھے کہ انا اقول :(میں کہتا ہوں ) کہ انا احرّم (میں حرام کرتاہوں ) بلکہ یہی کہتے تھے کہ رسول اللہ نے یوں فرمایا ہے : یا خدانے یوں فرمایا ہے ۔یہ مکتب اہل بیت ع کا امتیاز ہے ۔
مکتب اہل بیت ع کے اصول تفکر کے نمونے کے طورپر ہم آپ کے لیے ایک بزرگ عالم  عثمان بن سعید عمری کا قول ہے نقل کرتے ہیں جو حضرت ولی عصر ارواحنا لہ الفداء کے نائب خاص تھے جب انھوں نے ایک شیعہ کے سوال کے جواب میں ایک عمل کی حرمت کا فیصلہ دیا تو ان الفاظ کا اضافہ کیا :
"میں یہ فیصلہ اپنی طرف سے نہیں دے رہا ۔ میرے لیے کسی صورت میں روا نہیں کہ کسی چیز کو حلال یا حرام قراردوں "(یعنی میں فقط امام علیہ السلام کا قول نقل کررہا ہوں )اصول کافی جلد 1 ۔وسائل الشیعہ جلد 18 صفحہ 100)(ناشر)
(2):- محمد بن عیسی ترمذی جامع ترمذی جلد 5 صفحہ 297 ۔علاء الدین شقی ہندی کنزالعمال جلد 5 صفحہ 30 ۔محمد بن عبداللہ  حاکم نیشاپوری مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 124۔ جار اللہ زمخشری ربیع الابرار ۔ ابن حجر ہیثمی مکی صواعق محرقہ  صفحہ 122 ۔ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد 2 صفحہ 572۔حافظ ابو بکر خطیب بغدادی تاریخ بغداد جلد 14 صفحہ 321 ۔ حافظ ابن عساکر تاریخ دمشق جلد 3 صفحہ 119 ۔ ابن قتیبہ دینوری الامامۃ والسیاسۃ جلد 1 صفحہ 73۔
(3):- ہشام بن سالم اورحمّاد بن عیسی سے روایت ہے  کہ انھوں نے کہا کہ ہم نے امام جعفر صادق ع کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ :
"میرے حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور میرے والد کی حدیث میرے دادا کی حدیث ہے اور میرے داداکی حدیث  حسین کی حدیث ہے اور  حسین  کی حدیث حسن کی حدیث ہے اور حسن  کی حدیث امیر المومنین علیھم السلام کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے اور رسول اللہ ص کی حدیث ارشاد الہی ہے "۔(اصول کافی جلد 1 صفحہ 35)
عنبسہ روایت کرتے ہیں کہ
"ایک شخص امام جعفر صادق علیہ السلام سے کوئی مسئلہ پوچھا تو آپ نے جواب دیا ۔ اس  پر اس شخص نے کہا کہ اگر ایسا اور ایسا ہوتا تو اس میں دوسرا قول نہ ہوتا ۔ آپ نے فرمایا ۔" جب کبھی ہم کسی مسئلے کاجواب دیں تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہے  اورہم کوئی جاوب اپنی رائے سے نہیں دیتے "۔(بصائر الدرجات صفحہ 300-301)
(4):- جن دنوں مصنف نے یہ کتاب لکھی تھی ، آیت اللہ خمینی حیات تھے ۔


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کچھ انوکھا سا گفٹ
صحیح بخاری پر ایک اجمالی نظر
اجنبی سیٹلائت چینلز سے متعلق آیت اللہ سیستانی کا ...
تقلید
مبطلاتِ روزہ
اسلام کانظام حج
علم عرفان میں عام حجاب اور خاص حجاب سے کیا مراد ...
کیوں شیعہ ظہرین ومغربین ملا کر پڑھتےہیں ؟
فقہی یکسانیت، اتحاد بین المسلمین کی بنیادی حکمت ...
گھر کو کیسے جنت بنائیں؟ دوسرا حصہ

 
user comment