اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

قرآن مجید کی آیات میں سے ایک آیہ شریفہ میں آیا ہے کہ یہ قرآن اس سے پہلے والی آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہے، کیا یہ ممکن ہے؟

سورہ شعراء کی آیت نمبر ١۹، ١۹۵ اور ١۹٦ میں آیا ہے کہ: یہ﴿قرآن﴾ وحی ہے، خداوند متعال کی طرف سے، عربی میں اور یہ﴿قرآن﴾ اس سے پہلے والے پیغمبروں کی ﴿آسمانی﴾ کتابوب میں بھی موجود ہے۔” اب جبکہ انجیل اور توریت عبری اور یونانی زبانوں میں لکھی گئی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عربی کتاب ان غیر عربی کتابوں میں موجود ھو؟ اس کے علاوہ اگر یہ قرآن ان کتابوں میں موجود ہے، تو یہی سورہ شعراء کی آیت نمبر ١۹۲، ١۹۵ اور ١۹٦ بھی ان کتابوں میں موجود ھونی چاہئیے۔ اس بنا پر اس سے پہلے والی کتابوں میں یہی سورے ھونے چاہئیے
قرآن مجید کی آیات میں سے ایک آیہ شریفہ میں آیا ہے کہ یہ قرآن اس سے پہلے والی آسمانی کتابوں میں بھی موجود ہے، کیا یہ ممکن ہے؟

سورہ شعراء کی آیت نمبر ١۹، ١۹۵ اور ١۹٦ میں آیا ہے کہ: یہ﴿قرآن﴾ وحی ہے، خداوند متعال کی طرف سے، عربی میں اور یہ﴿قرآن﴾ اس سے پہلے والے پیغمبروں کی ﴿آسمانی﴾ کتابوب میں بھی موجود ہے۔” اب جبکہ انجیل اور توریت عبری اور یونانی زبانوں میں لکھی گئی ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک عربی کتاب ان غیر عربی کتابوں میں موجود ھو؟ اس کے علاوہ اگر یہ قرآن ان کتابوں میں موجود ہے، تو یہی سورہ شعراء کی آیت نمبر ١۹۲، ١۹۵ اور ١۹٦ بھی ان کتابوں میں موجود ھونی چاہئیے۔ اس بنا پر اس سے پہلے والی کتابوں میں یہی سورے ھونے چاہئیے اور اس طرح ہم ایک بے نہایت اور مسلسل دائرے میں پہنچ جائیں گے۔
ایک مختصر
آیہ شریفہ: و انہ لفی زبر الاولین”[1] میں لفظ “انہ” کے ضمیر“ہ” کے بارے میں کئی احتمال پائے جاتے ہیں کہ ہم ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:
١۔ شاید اس سے مراد، وہ خبر ہے، جس کے بارے میں اس آیت سے پہلے ذکر آیا ہے۔[2]
۲۔ ممکن ہے کہ اس ضمیر سے مراد قرآن مجید کی صفت ھو۔ یعنی اصل قرآن کے بارے میں دوسری آسمانی کتابوں میں ذکر کیا گیا ہے۔
۳۔ ممکن ہے کہ اس کا مراد حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ والہ وسلم ھو ۔ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی دوسری تحریف نہ شدہ آسمانی کتابوں میں پایا جاسکتا ہے۔
۴۔ شائد اس سے مراد مختلف قسم کے خوف اور ترس ھو۔
مذکورہ تمام احتمالات گزشت آیتوں میں ذکر ھوئے ہیں۔[3]
اس کے باوجود اگر ہم اس ضمیر کو خود قرآن مجید کی طرف پلٹا دیں، تو ہر عقل مند انسان اس آیہ شریفہ کا مشاہدہ کرکے آسانی کے ساتھ اس نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے کہ، گزشتہ کتابوں میں قرآن مجید کے موجود ھونے سے مراد اس معنی میں نہیں ہے قرآن مجید کی تمام آیات اسی زبان اور ان ہی الفاظ میں، جنگ بدر و حنین جیسی جزئیات کے ساتھ قدیمی کتابوں میں من عن موجود ہیں، بلکہ اس کے معنی مذکور احتمالات میں سے ایک احتمال ہے اور چونکہ تمام دینی تعلیمات کے کلیات قرآن مجید میں موجود ہیں، ان کو دوسری آسمانی کتابوں میں بھی پایا جاسکتا ہے۔
اس کے علاوہ، جو یہ بیان کیا گیا ہے کہ تسلسل لازم آتا ہے، اس سلسلہ میں قابل بیان ہے، فرضاً اس کو قبول کرنے کی صورت میں بھی، کسی قسم کا تسلسل لازم نہیں آتا ہے، بلکہ یہ دائرہ پہلی نازل شدہ آسمانی کتاب تک پہنچنے کے بعد ختم ھوتا ہے۔
 
[1] ۔ شعراء، ١۹٦
[2] ۔ شعراء، ١۹۲۔ ١۹۵۔
[3] ۔ فخرالدین رازی، مفاتیح الغیب، ج ۲۴، ص ۵۳۳دار احیاء التراث العربی، طبع سوم، بیروت، ١۴۲۰ق۔


source : islamquest
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...
ہم شب قدر میں قرآن سر پر کیوں رکھتے ہیں ؟
کیا حدیث" اما الحوادث الواقعہ" کی سند میں ...
پیغمبر اکرم {ص} جنسی خواہشات سے استفادہ کرنے میں ...
تقریظ
حجاب کیوں ضروری ہے؟
شیطان کی قید، ماہِ رمضان المبارک میں کیا حقیقت ...
امام حسین علیہ السلام کون ہیں؟

 
user comment