اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

روزہ احادیث کے آئینے میں

تحفیق و ترجمہ: ف.ح.مہدوی

 

1. قال الامام الصادق علیه السلام: يؤدب الصبي على الصوم ما بين خمس عشرة سنة الى ست عشرة سنة۔
البحار: 103 / 162

بچے کو 15 سے سولہ سال کی عمر تک روزے کی تربیت دینی چاہئے..

2. قال الامام الباقر علیه السلام: بني الاسلام على خمس:على الصلاة، والزكاة، والصوم، و الحج، والولاية.

الكافي: 2 / 18 / 3.

اسلام پانچ چیزوں پر استوار ہے: نماز، زکوٰة، حج، روزہ، اور ولایت (ولایت سے مراد مودت اہل بیت اور خاندان رسالت کی پیروی ہے)۔

3. قال الامام الصادق علیه السلام: نحن اصل كل خير، ومن فروعنا كل بر، فمن البر: التوحيد، والصلاة،والصيام، وكظم الغيظ، والعفو عن المسيئ و رحمة الفقير، و تعهد الجار، والاقرار بالفضل لاهله.

الكافي: 8/24/336.

ہم تمام خوبیوں کی جڑ ہیں اور ہر نیکی ہماری ٹہنیوں کا پهل ہے اور نیکیوں میں توحید (یکتاپرستی)، نماز، روزہ، غصہ پی جانا، بدی کرنے والے سے درگذر کرنا، غریب پر رحم و شفقت کرنا، پڑوسیوں کے مسائل حل کرنا اور بافضیلت لوگوں کی فضیلت کا اعتراف کرنا، شامل ہیں.

4. قال الامام الصادق علیه السلام: إِنّ السّنّةَ لَا تُقَاسُ أَ لَا تَرَى أَنّ امْرَأَةً تَقْضِي صَوْمَهَا وَ لَا تَقْضِي صَلَاتَهَا يَا أَبَانُ إِنّ السّنّةَ إِذَا قِيسَتْ مُحِقَ الدّينُ.

اصول كافى جلد 1 ص :74 رواية 15.

امام صادق علیہ السلام (ابان کے سوال کے جواب میں) فرماتے ہیں: سنت (اسلام کے احکام) میں قیاس کی گنجائش نہیں ہے؛ کیا تم نہیں دیکھتے کہ حائض عورت روزہ قضا رکھتی ہے مگر نماز کی قضا بجا نہیں لاتی!‌ اگر سنت میں قیاس رائج ہوجائے تو دین نیست و نابود ہوجائے گا.

5. قال الامام عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ علیه السلام: إِنَّ الْمُنَافِقَ يَنْهَى وَ لَا يَنْتَهِى وَ يَأْمُرُ بِمَا لَا يَأْتِى وَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ اعْتَرَضَ قُلْتُ يَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ وَ مَا الِاعْتِرَاضُ قَالَ الِالْتِفَاتُ وَ إِذَا رَكَعَ رَبَضَ يُمْسِى وَ هَمُّهُ الْعَشَاءُ وَ هُوَ مُفْطِرٌ وَ يُصْبِحُ وَ هَمُّهُ النَّوْمُ وَ لَمْ يَسْهَرْ إِنْ حَدَّثَكَ كَذَبَكَ وَ إِنِ ائْتَمَنْتَهُ خَانَكَ وَ إِنْ غِبْتَ اغْتَابَكَ وَ إِنْ وَعَدَكَ أَخْلَفَكَ.

اصول كافى جلد 4 صفحہ : 111 رواية 3.

بے شک منافق وہ ہے جو (لوگوں کو کسی کام سے نہی کرتا اور روکتا ہے اور وہ خود (اس کام سے) پرہیز نہیں کرتا؛ اور ایسے اعمال کا حکم دیتا ہے جو خود انجام نہیں دیتا؛ جب نماز کے لئے کهڑا ہوجائے اعتراض کرتا ہے. (راوی کہتا ہے: میں نے سوال کیا) اے فرزند رسول خدا (ص)! اعتراض کیا ہے؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: حالت نماز میں منہ دائیں اور بائیں موڑنا اور جب رکوع کرتا ہے تو بهیڑ دنبے کی مانند اپنے آپ کو زمین پر گرا دیتا ہے (اور رکوع کے بعد قیام ـ قیام متصل برکوع ـ بجا نہیں لاتا)‌، اپنا دن گذار دیتا ہے اور اسے رات کے کھانے سے کے سوا کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی؛ حالانکہ اس نے روزہ بھی نہیں رکھا تها؛ اور جب صبح ہوجائے تو اسے سونے کے سوا کسی چیز کا غم نہیں ہوتا حالانکہ وہ رات کو جاگتا بھی نہیں رہا تها؛ اگر وہ آپ کو کوئی خبر سناتا ہے تو جهوٹ بولتا ہے اور اگر آپ اس کے پاس کوئی چیز امانت رکھتے ہیں تو اس میں خیانت کرتا ہے؛ اگر آپ اس کی نظروں سے اوجهل ہوں تو وہ آپ کی غیبت اور برائی کرتا ہے اور جب وہ آپ سے وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.

6. قال الامام الصادق علیه السلام: أُمِرَ النَّاسُ بِمَعْرِفَتِنَا وَ الرَّدِّ إِلَيْنَا وَ التَّسْلِيمِ لَنَا ثُمَّ قَالَ وَ إِنْ صَامُوا وَ صَلَّوْا وَ شَهِدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَ جَعَلُوا فِى أَنْفُسِهِمْ أَنْ لَا يَرُدُّوا إِلَيْنَا كَانُوا بِذَلِكَ مُشْرِكِينَ

اصول كافى جلد 4 صفحه :114 رواية 5.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: لوگ ہماری شناخت و معرفت حاصل کرنے، ہم سے رجوع کرنے اور ہمارے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مأمور ہیں اور پھر فرمایا: وہ خواہ روزہ بھی رکھیں، نماز بھی بجالائیں اور گواہی بھی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ہے اور اپنے ساته طے کرلیں کہ امور میں ہم سے رجوع نہیں کریں گے، اسی سبب سے وہ مشرکین میں شمار ہونگے.

7. عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم أَرْبَعَةٌ لَا تُرَدُّ لَهُمْ دَعْوَةٌ حَتَّى تُفَتَّحَ لَهُمْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ وَ تَصِيرَ إِلَى الْعَرْشِ الْوَالِدُ لِوَلَدِهِ وَ الْمَظْلُومُ عَلَى مَنْ ظَلَمَهُ وَ الْمُعْتَمِرُ حَتَّى يَرْجِعَ وَ الصَّائِمُ حَتَّى يُفْطِرَ

اصول كافى جلد 4 صفحه : 273 رواية 6.

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: چار افراد ایسے ہیں جن کی دعا رد نہیں ہوتی؛ آسمان کے دروازے ان کے لئے کھل جاتے ہیں اور ان کی دعا عرش تک پہنچتی ہے:

ـ باپ کی دعا فرزند کے لئے؛

ـ مظلوم کی بد دعا اس پر ظلم کرنے والے کے خلاف؛

ـ عمرہ کرنے والے کی دعا وطن لوٹنے تک؛

ـ‌ روزہ دار کی دعا اس وقت تک جب افطار کردے.

8. عَنْ أَبِي بَصِيرٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ عليه السلام يقول: إِنَّ الْكَذِبَةَ لَتُفَطِّرُ الصَّائِمَ قُلْتُ وَ أَيُّنَا لَا يَكُونُ ذَلِكَ مِنْهُ قَالَ لَيْسَ حَيْثُ ذَهَبْتَ إِنَّمَا ذَلِكَ الْكَذِبُ عَلَى اللَّهِ وَ عَلَى رَسُولِهِ وَ عَلَى الْأَئِمَّةِ ص

اصول كافى جلد 4 صفحه :37 رواية 9.

ابو بصیر کہتے ہیں: میں نے امام صادق علیہ السلام کو فرماتے ہوئے سنا: ایک ہی جھوٹ روزہ دار کا روزہ توڑ دیتا ہے. میں نے عرض کیا: ہم سے کون ایسا ہوگا جو دن میں ایک مرتبہ اس عمل کا ارتکاب نہ کرے (اور ایک بار بھی جھوٹ ـ مصلحتی یا غیر مصلحتی ـ نہ بولے)؟ امام (ع) نے فرمایا: یہ وہ جھوٹ نہیں ہے جو تم گمان کرتے ہو بلکہ یہ جھوٹ وہ ہے جو اللہ، اس کے رسول (ص) اور ائمہ (ع) پر باندها جائے. (گو کہ عام جھوٹ بھی حرام ہے اور گناہان کبیرہ کے زمرے میں آتا ہے اور روزے میں جھوٹ بولنے کا گناہ بھی عام دنوں سے زیادہ ہے) .

9. عن جابر عَنْ أَبِى جَعْفَرٍ علیه السلام قَالَ قَالَ يَا جَابِرُ أَ يَكْتَفِى مَنِ انْتَحَلَ التَّشَيُّعَ أَنْ يَقُولَ بِحُبِّنَا أَهْلَ الْبَيْتِ فَوَ اللَّهِ مَا شِيعَتُنَا إِلَّا مَنِ اتَّقَى اللَّهَ وَ أَطَاعَهُ وَ مَا كَانُوا يُعْرَفُونَ يَا جَابِرُ إِلَّا بِالتَّوَاضُعِ وَ التَّخَشُّعِ وَ الْأَمَانَةِ وَ كَثْرَةِ ذِكْرِ اللَّهِ وَ الصَّوْمِ وَ الصَّلَاةِ وَ الْبِرِّ بِالْوَالِدَيْنِ وَ التَّعَاهُدِ لِلْجِيرَانِ مِنَ الْفُقَرَاءِ وَ أَهْلِ الْمَسْكَنَةِ وَ الْغَارِمِينَ وَ الْأَيْتَامِ وَ صِدْقِ الْحَدِيثِ وَ تِلَاوَةِ الْقُرْآنِ وَ كَفِّ الْأَلْسُنِ عَنِ النَّاسِ إِلَّا مِنْ خَيْرٍ وَ كَانُوا أُمَنَاءَ عَشَائِرِهِمْ فِى الْأَشْيَاءِ

اصول كافى ج : 3 ص : 118 رواية 3.

جابر بن عبداللہ انصاری امام باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے جابر!‌ کیا تشیع کا دعوی کرنے والے کے لئے یہی کافی ہے کہ ہم اہل بیت (ع) کی محبت کا نعرہ ہی لگاتا رہے؟ خدا کی قسم ہمارا شیعہ نہیں ہے جب تک وہ خدا کا خوف اور پرہیزگاری اختیار نہ کرے اور خدا کی اطاعت نہ کرے. یا جابر! وہ (شیعیان اہل بیت علیہم السلام) صرف اور صرف منکسر المزاجی، خشوع و خضوع، امانتداری، یاد و ذکر خدا کی کثرت، روزہ، نماز، والدین کے ساتھ نیکی کرنے، غریب پڑوسیوں، قرضداروں اور یتیموں کی مراعات کرنے اور خیال رکھنے، صدق گفتار اور سچائی، تلاوت قرآن، خیر و نیکی پر مبنی گفتار کے سوا، اپنی زبان لوگوں سے باز رکهنے (اور کسی کو زبان سے اذیت و آزار نہ پہنچانے) کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں. اور وہ اشیاء اور مال دنیا میں اپنے خاندانوں کے امانت دار ہیں.

10. قَالَ رَجُلٌ لِأَبِى جَعْفَرٍ علیه السلام إِنِّى ضَعِيفُ الْعَمَلِ قَلِيلُ الصِّيَامِ وَ لَكِنِّى أَرْجُو أَنْ لَا آكُلَ إِلَّا حَلَالًا قَالَ فَقَالَ لَهُ أَيُّ الِاجْتِهَادِ أَفْضَلُ مِنْ عِفَّةِ بَطْنٍ وَ فَرْجٍ.

اصول كافى ج : 3 ص : 125 رواية 4.

ایک آدمی نے امام باقر علیہ السلام سے عرض کیا: میرا عمل ضعیف اور میری روزے کم ہیں. (اور واجب اعمال ہی انجام دیتا ہوں) مگر امید رکھتا ہوں کہ حلال کے سوا کچھ نہ کھاؤں.

امام علیہ السلام نے فرمایا: کونسا عمل شکم کی عفت اور پاکدامنی سے بہتر ہے!.

11. عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ علیه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم الطَّاعِمُ الشَّاكِرُ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ كَأَجْرِ الصَّائِمِ الْمُحْتَسِبِ وَ الْمُعَافَى الشَّاكِرُ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ كَأَجْرِ الْمُبْتَلَى الصَّابِرِ وَ الْمُعْطَى الشَّاكِرُ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ كَأَجْرِ الْمَحْرُومِ الْقَانِعِ

اصول كافى ج : 3 ص : 148 رواية 1.

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

ـ شکرگزار طعام کھانے والے کا اجر خدا پرست روزہ دار کے اجر کے برابر ہے؛

ـ شکر گزار صحتمند انسان کا اجر مصائب میں گرفتار صبر کرنے والے شخص کے اجر کے برابر ہے اور

ـ شکرگزار عطا کرنے والے (سخی) شخص کا اجر قناعت پیشہ نادار انسان کے اجر کے برابر ہے.

12. قال الامام الصادق علیه السلام: إِنَّ حُسْنَ الْخُلُقِ يَبْلُغُ بِصَاحِبِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ

اصول كافى ج : 3 ص : 161 رواية 18.

حسن خلق اپنے مالک کو شب زندہ دار روزہ دار کے درجے پر فائز کردیتا ہے.

13. عَنْ الصادق علیه السلام قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم لِأَصْحَابِهِ أَيُّ عُرَى الْإِيمَانِ أَوْثَقُ فَقَالُوا اللَّهُ وَ رَسُولُهُ أَعْلَمُ وَ قَالَ بَعْضُهُمُ الصَّلَاةُ وَ قَالَ بَعْضُهُمُ الزَّكَاةُ وَ قَالَ بَعْضُهُمُ الصِّيَامُ وَ قَالَ بَعْضُهُمُ الْحَجُّ وَ الْعُمْرَةُ وَ قَالَ بَعْضُهُمُ الْجِهَادُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صلي الله عليه و آله و سلم لِكُلِّ مَا قُلْتُمْ فَضْلٌ وَ لَيْسَ بِهِ وَ لَكِنْ أَوْثَقُ عُرَى الْإِيمَانِ الْحُبُّ فِى اللَّهِ وَ الْبُغْضُ فِى اللَّهِ وَ تَوَالِى أَوْلِيَاءِ اللَّهِ وَ التَّبَرِّى مِنْ أَعْدَاءِ اللَّهِ

اصول كافى ج : 3 ص : 190 رواية 6.

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول خدا صلى اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے ارشاد فرمایا: ایمان کی کونسی دستاویز سب سے زیادہ محکم اور مضبوط ہے؟ بعض صحابیوں نے عرض کیا: خدا اور اس کے رسول (ص) ہی بہتر جانتے ہیں؛ اور بعض نے کہا: نماز، بعض نے کہا روزہ، بعض نے کہا زکوٰة، بعض نے کہا: حج اور عمرہ، اور بعض نے کہا: جہاد۔

رسول خدا (ص) نے فرمایا: جو کچھ تم نے کہا یہ سب فضلیتیں ہیں مگر یہ میرے سوال کا جواب نہیں؛ بلکہ ایمان کی سب سے محکم دستاویز خدا کے لئے دوستی، خدا کے لئے دشمنی، اولیاء الہی کی متابعت اور خدا کے دشمنوں سے برائت و بیزاری ہے.

14. قال الامام الصادق علیه السلام: إِذَا هَمَّ أَحَدُكُمْ بِخَيْرٍ فَلَا يُؤَخِّرْهُ فَإِنَّ الْعَبْدَ رُبَّمَا صَلَّى الصَّلَاةَ أَوْ صَامَ الْيَوْمَ فَيُقَالُ لَهُ اعْمَلْ مَا شِئْتَ بَعْدَهَا فَقَدْ غَفَرَ اللَّهُ لَكَ.

اصول كافى ج : 3 ص : 211 رواية 1.

ہر گاہ تم میں سے کوئی کسی نیک کام کا ارادہ کرے اس میں ہرگز تأخیر نہیں کرنی چاہئے. کیونکہ بعض اوقات آدمی نماز پڑھتا یا روزہ رکھتا ہے اور (اس کا یہ عمل اسی خاص وقت میں قبول ہوجاتا ہے) اس سے کہا جاتا ہے: اب جو چاہو کرو خدا نے تیرے گناہ بخش دیئے (یعنی اس عمل کے عوض تمہارے گذشتہ گناہ بخش دیئے گئے اور اب آئندہ کے لئے احتیاط کرو اور دیکھو کہ کیا کرتے ہو).

15. قال الامام الصادق علیه السلام: إِذَا أَرَدْتَ شَيْئاً مِنَ الْخَيْرِ فَلَا تُؤَخِّرْهُ فَإِنَّ الْعَبْدَ يَصُومُ الْيَوْمَ الْحَارَّ يُرِيدُ مَا عِنْدَ اللَّهِ فَيُعْتِقُهُ اللَّهُ بِهِ مِنَ النَّارِ وَ لَا تَسْتَقِلَّ مَا يُتَقَرَّبُ بِهِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ وَ لَوْ شِقَّ تَمْرَةٍ۔

اصول كافى ج : 3 ص : 212 رواية 5.

جب تم کسی نیک کام کا ارادہ کرو تو اس میں تاخیر مت کرو، کیونکہ بندہ ثواب الہی کمانے کی نیت سے گرم دن میں روزہ رکھتا ہے اور وہ سبب ہوا ہے کہ خدا اس کو دوزخ کی آگ سے نجات دیتا ہے اور جو چیز خدا کی قربت کا باعث بنتی ہے اسی کو چهوٹا مت سمجھو خواہ وہ کهجور کا ایک ٹکڑا ہی کیوں نہ ہو.

تشريح:

اس روايت كا مقصد يہ ہے كہ بندوں سے امر پوشیدہ ہے كہ كون سا عمل اس كے گناہوں كی بخشش اور خدا كی قربت كاملہ كا باعث بنتا ہے اور انہیں یہ نہیں معلوم كہ وہ كس طرح كا عمل ہے. اسی بنا پر جب بهی كسی كار خیر كا ارادہ كرتے ہیں اس میں تأخیر برتنا درست نہیں ہے. كیونكہ عین ممكن ہے كہ وہی عمل اس كی مغفرت اور قربت كا باعث ہو مگر تاخیر كی وجہ سے وہ عمل اور وہ موقع ضائع ہوجائے. چنانچہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں: ان لربكم في ايام دهركم نفحات ، الا فتعرضوا لها (تمہاری زندگی كے ایام میں خداوند متعال كی طرف سے رحمت كے جهونكے آتے ہیں ہوشیار رہو اور اپنے آپ كو ان جهونكوں كے سامنے پیش كرو. یا دوسری جگہ ہے كہ فترصدوا لها یعنی ان جهونكوں سے استفادہ کرنے كے لئے گھات لگاكر بیٹھو اور پہنچتے ہی ان سے فائدہ اٹھاؤ.

16. قال الامام الصادق علیه السلام: مَنْ مَشَى فِى حَاجَةِ أَخِيهِ الْمُؤْمِنِ يَطْلُبُ بِذَلِكَ مَا عِنْدَ اللَّهِ حَتَّى تُقْضَى لَهُ كَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَهُ بِذَلِكَ مِثْلَ أَجْرِ حَجَّةٍ وَ عُمْرَةٍ مَبْرُورَتَيْنِ وَ صَوْمِ شَهْرَيْنِ مِنْ أَشْهُرِ الْحُرُمِ وَ اعْتِكَافِهِمَا فِى الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ مَنْ مَشَى فِيهَا بِنِيَّةٍ وَ لَمْ تُقْضَ كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِذَلِكَ مِثْلَ حَجَّةٍ مَبْرُورَةٍ فَارْغَبُوا فِى الْخَيْرِ.

اصول كافى ج : 3 ص : 279 رواية :9

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: جو بھی اپنے مؤمن بهائی کی ضرورت پوری کرنے کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور اس کا مقصد ثواب الہی کمانا ہو خداوند متعال اس کے لئے ایک قبول حج و عمرہ اور دو حرام مہینوں کے روزوں کا ثواب لکھ دیتا ہے جو گویا اس نے مسجدالحرام میں حالت اعتکاف میں گذارے ہیں. اور ہر کوئی کسی کی حاجت پوری کرنے کی غرض سے قدم اٹھائے مگر وہ حاجت پوری نہ ہو خداوند متعال اس کے لئے ایک قبول حج لکھ دیتا ہے پس کار خیر کی طرف راغب رہو

 


source : www.almonji.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article


 
user comment