اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

مجالس عزا کی عظمت امام خمینی(ع) کی نگاہ میں

امام مظلوم(ع) کی مجالس عزا کہ جو عقل کے جہل پر، عدل کے ظلم پر، امانت کے خیانت پر اور اسلامی حکومت کے طاغوتی حکومت پر غالب آنے کا ذریعہ ہیں کو حتی المقدور پورے ذوق شوق کے ساتھ منعقد کیا جائے۔ عاشورا کے خون سے رنگین پرچموں کو ظالم سے مظلوم کے انتقام کی علامت کے طور پر بلند کیا جائے۔

آئمہ اطہار علیھم السلام اور خاص کر کے امام مظلوم سید الشھداء (ع) کی عزاداری کے پرگراموں سے ہر گز غفلت نہیں کی جائے۔

مجالس عزا کو اسی طریقے سے جیسے اس سے پہلے انجام پاتی تھی برپا کیا جائے۔

مجالس عزا کو ، ماتمی دستوں کو جیسا سزاوار ہے محفوظ رکھا جائے۔

آئمہ اطہار (ع) کی مجالس عزا کی حفاظت کریں۔ یہ ہمارے مذہبی شعائر بھی ہیں اور سیاسی شعائر بھی، ان کو محفوظ رکھا جائے۔ یہ اہل قلم آپ کو بازیچہ نہ بنائیں۔ یہ لوگ آپ کو بازیچہ نبائیں اپنے مختلف انحرافی مقاصد کے ذریعے ، یہ لوگ چاہتے ہیں آپ سے ہر چیز کو چھین لیں۔

مجالس کو اپنی جگہ پر ہی برپا ہونا چاہیے۔ مجالس کو عمل میں لانا چاہیے اور اہل منبروں کو چاہیے کہ شہادت امام حسین (ع) کو زندہ رکھیں۔ قوم کو ان دینی شعائر کی قدر جاننا چاہیے۔ خاص کر کے عزاداری کو زندہ رکھیں عزاداری سے ہی اسلام زندہ ہے۔

ہمیں ان اسلامی سنتوں کی، ان اسلامی دستوں کی کہ جو روز عاشورا یا محرم اور صفر کے دوسرے دنوں میں سڑکوں پر نکل کر عزاداری کرتے ہیں حفاظت کرنا چاہیے۔ سید الشھداء کی فداکاری اور جانثاری ہے جس نے اسلام کو زندہ رکھا ہے۔ عاشورا کو زندہ رکھنا اسی پرانی اور سنتی روایتوں کے ساتھ، علماء اور خطباء کی تقاریر کے ساتھ، انہیں منظم دستوں کی عزاداری کے ساتھ بہت ضروری ہے۔ یہ جان لو کہ اگر چاہتے ہو کہ تمہاری تحریک باقی رہے روایتی عزاداری کو محفوظ رکھو۔

علماء کی ذمہ داری ہے کہ مجالس پڑھیں۔ لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ منظم دستوں میں گھروں سے باہر نکلیں۔ اور ماتم سید الشھدا کریں۔ البتہ جو چیزیں دین کے خلاف ہیں ان سے پرہیز کریں۔ لیکن ماتم کریں اپنے اجتماعات کی حفاظت کریں یہ اجتماعات ہیں کہ جو ہماری حفاظت کر رہے ہیں یہ آپسی اتحاد ہے جس نے ہمیں زندہ رکھا ہے۔

وہ لوگ ہمارے پاک دل جوانوں کو دھوکہ دیتے ہیں ان کے کانوں میں آکر کہتے ہیں اب رونے کا کیا فائدہ؟ اب گریہ کر کے کیا کریں گے؟

یہ جلوس جو ایام محرم میں سڑکوں پر نکلتے ہیں انہیں سیاسی مظاہروں میں تبدیل نہ کرنا۔ مظاہرے اپنی جگہ ہیں۔ لیکن دینی جلوس سیاسی جلوس نہیں ہیں بلکہ ان سے بالاتر ہیں، وہی ماتم، وہی نوحہ خوانی،وہی چیزیں ہماری کامیابی کی علامت ہیں۔

پورے ملک میں مجالس عزا برپا ہونا چاہیے، سب مجلسوں میں شریک ہوں سب گریہ کریں۔

انشاء اللہ روز عاشورا کو لوگ گھروں سے نکلیں گے امام حسین (ع) کے تعزیانے اٹھائیں اور جلوس میں صرف عزاداری کریں گے۔

خدا ہماری قوم کو کامیابی عطا کرے کہ وہ اپنی پرانی روایتوں کے ساتھ عاشورا میں عزاداری منائے۔ ماتمی دستے اپنے زور و شور کے ساتھ باہر نکلیں اور ماتم اور نوحہ خوانی بھی شوق و ذوق کے ساتھ ہو اور جان لو کہ اس قوم کی زندگی اسی عزاداری کے ساتھ ہے۔

منبع: قيام عاشورا در كلام و پيام امام خمينى، (تبيان، آثار موضوعى امام، دفتر سوم) تهران: مؤسسه تنظيم و نشر آثار امام خمينى، چاپ دوم، 1373.


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اخلاق کی لغوی اور اصطلاحی تعریف
بیت المقدس خطرے میں ہے/ فلسطین کی آزادی صرف ...
اعمال مشترکہ ماہ رجب
اسلامی قوانین کا امتیاز
رجب کے مہینے میں یہ دعا ہرروزپڑھاکرو
اسلام قبول کرنے والی ناورے کی ایک خاتون کی یادیں
اسلامی دنیا اور غیر مسلم طاقتیں
رہبر انقلاب اسلام حضرت آیت اللہ العظمی سید علی ...
تشیع کے اندر مختلف فرقے
نعت رسول پاک

 
user comment