اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

اسلامی جہاد اور عوامی جہاد میں فرق

اہلبیت(ع) نیوز ایجنسی ۔ابنا۔ جہاد کا نعرہ لگانے والے دھشتگرد گروپوں جیسے طالبان اور القاعدہ کے نظریات کو قریب سے بھانپنے کے بعد یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے شدت پسندانہ کارناموں کی توجیہ کے لیے اسلامی جہاد کے مفہوم سے متمسک ہوتے ہیں لہذا ضروری ہے کہ اسلام میں جہاد کے واقعی معنی اور مفہوم کو پہچانیں اور اس کے بعد یہ دیکھیں کہ کیا فریضہ جہاد اس طرح کے دہشت گردانہ اور تشدد پسندانہ اقدامات انجام دینے کا جواز فراہم کرتا ہے یا نہیں؟

ہم اس مقالے میں کوشش کریں گے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں شیعہ و سنی علماء کے نظریات کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاد کے واقعی معنی اور مفہوم کو پہچانیں اور دھشتگرد گروپوں کے جہادی دعووں کی صحت یا عدم صحت کی علمی تحقیق کریں۔

الف: جہاد کے معنی

جہاد لغت میں مادہ " جھد" سے مشتق ہے کہ جس کے معنی "نہایت مشقت اور کوشش کرنا" کے ہیں۔ فقہ کی اصطلاح میں اس کی یوں تعریف ہوئی ہے:" کلمہ اسلام کی سر بلندی اور شعائر ایمان کی سرفرازی کے راستے میں جان و مال قربان کر دینا"۔

مجاہد اسے کہتے ہیں جو اپنی تمام تر طاقت، توانائی اور قدرت کو آخری لمحہ تک اپنے مقصد کے حصول کے لیے صرف کر دے۔ 

بطور کلی جہاد کی دو صورتیں ہیں:

پہلی صورت: تمام امکانات اور سہولیات کو حاصل کرنے کے لیے اپنی جان اور مال و ثروت کو صرف کرنے کے تلاش و کوشش کرنا۔ 

دوسری صورت: کسی مقصد کو حاصل کرنے کی راہ میں مشکلات کا تحمل کرنا اور  اپنی طاقت و توانائی کو صرف کرنا۔

لیکن ہر صورت میں شرعی لحاظ سے جہاد یہ ہے کہ انسان اپنی جان و ثروت کو قربان کرنے کےساتھ کلمہ توحید اور اسلام کی سر بلندی اور اسلامی رسالت اور شریعت کے نفاذ کی راہ میں ممکنہ تلاش و کوشش کرے۔ 

ب: جہاد کی اقسام

کلی طور پر جہاد کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے: جہاد اکبر اور جہاد اصغر۔ اسلام کی سربلندی اور کلمہ حق کی سرفرازی کی خاطر کفار و مشرکین کے ساتھ جہاد کرنے کو جہاد اصغر کہتے ہیں جبکہ معنوی درجات کی بلندی کے لیے اپنے نفس امارہ اور لوامہ کے ساتھ جہاد کرنے کو جہاد اکبر کہا جاتا ہے۔ پیغمبر اکرم (صلّي الله عليه و آله و سلّم) سے مروی اس روایت کے مطابق جو آپ نے ایک غزوہ سے کامیابی کے ساتھ واپس آئے بعض اصحاب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمائی: “ رجعتم من الجهاد الاصغر عليكم بالجهاد الاكبر”. قاہرہ یونیورسٹی کے سابقہ چانسلر علامہ شیخ محمود شلتوت ان قرآنی آیات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے جو جہاد کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جنگ کو دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں: ایک مسلمانوں کی مسلمانوں سے جنگ اور دوسری مسلمانوں کی غیر مسلمانوں سے جنگ۔

ان کی نظر میں مسلمانوں کی مسلمانوں کے ساتھ جنگ امت کے داخلی اور حیاتی امور میں سے ہے اور قرآن نے طغیان اور سر کشی کے وقت سزا معین کی ہے تا کہ سماج میں نظم و انتظام باقی رہے اور ملک کی طاقت کمزور نہ ہو اور ظلم و ستم کا سد باب کیا جائے۔ قرآن میں سورہ حجرات کی نویں اور دسویں آیتوں میں آیا ہے کہ اگر مومنین کے دو گروہ آپس میں جنگ کے لیے اٹھ کھڑے ہوں تو انہیں صلح کی طرف دعوت دو اور اگر ان میں سے ایک ظلم کی جانب بڑھے اور قتل و غارت سے باز نہ آئے تو اس کے ساتھ جنگ کرو جب تک کہ صلح کے طرف نہ لوٹ آئیں۔ واضح ہے کہ اس جنگ کا فلسفہ مطلقہ عدالت کی برقراری، آزادی اور حریت کو پامال ہونے سے بچانا اور ظلم و سرکشی سے روکنا اور سماج میں نظم و نسق قائم کرنا ہے۔

انہوں نے جنگ کی دوسری قسم یعنی مسلمانوں کی غیر مسلمانوں سے جنگ کے بارے میں، مکہ میں مسلمانوں کی سختیوں اور ظالم حکمرانوں کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے مصائب و آلام کا تذکرہ کرنے اور پیغمبر اکرم (ص) کے صبر و بردباری سے کام لینے کے بارے میں سفارشات بیان کرنے اور جنگ کے سلسلے میں سورہ حج کی ۴۰ ویں اور ۴۱ ویں آیات میں خدا کی طرف سے بیان شدہ سب سے پہلے حکم جنگ کے ذیل میں لکھا ہے کہ یہ آیتیں جنگ کو جائز قرار دینے پر دلالت کرتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھایا، انہیں جلا وطنی کیا گیا اور انہیں اپنا عقیدہ بدلنے پر مجبور کیا گیا۔ یہ جوازیت دفاعی سنت اور ظالم حکمرانوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ سازگار ہے۔ اس جنگ کا مقصد یہ ہے کہ اجتماعی توازن برقرار رہے اور سرکش افراد کو سرنگوں کیا جائے اور لوگوں کو عقیدے اور ایمان کے اعتبار سے آزاد رہنے کا حق دیا جائے۔ انہوں نے قرآن کریم کی کچھ دوسری آیتوں سے جنگ کے بارے میں مثالیں پیش کر کے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ یہ آیات اس کے باوجود کہ ان میں جنگی اصول، جنگی وجوہات اور اغراض و مقاصد کا تذکرہ ہوا ہے لیکن ہر گز  جنگ کے ذریعے دین کو زبردستی قبول کرنے کی دعوت نہیں دی رہی ہیں اور جنگ کی جوازیت کا عمدہ سبب مسلمانوں پر کیے جانے والا ظلم و ستم کا دفاع ہے۔

انہوں نے جنگ اور جہاد کو قرآن اور اسلام کی نگاہ سے بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل نکات اور نتائج  اخذ کئے ہیں: قرآن کریم میں ایک آیت بھی تلاش نہیں کی جا سکتی جو یہ کہتی ہو کہ جنگ کے لیے اٹھ  کھڑے ہو جاؤ اور لوگوں کا قتل عام کر کے انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کرو۔ اسلام میں جنگ کی جوازیت صرف ظلم و ستم کا مقابلہ کرتے ہوئے دفاعی حیثیت رکھتی ہے ۔جہاں کہیں بھی اسلام نے جنگ کو جائز قرار دیا ہے صرف مستضعفین کی حمایت میں استعمار اور استکبار کا مقابلہ کرنے کی وجہ سے جائز قرار دیا ہے اور جنگ کے دوران بھی ضعیف افراد کو دبانے سے منع کیا ہے اور تاکید کی ہے کہ آپس میں صلح کو ترجیح دی جائے اور کافروں سے ان کے خون کے بدلے جزیہ  اسی وجہ سے قرار دیا گیا ہے تا کہ اسلامی سماج میں کوئی ان کی طرف انگلی نہ اٹھائے اور انہیں اذیت و آزار نہ پہنچائے۔ یہ اسلامی حکومت کا اصول ہے کہ سماج میں رہنے والے کسی طبقہ کو کسی قسم کی اذیت نہ دی جائے۔ ہر انسان عقیدہ کے اعتبار سے آزاد رہے۔

ایک اور اعتبار سے جہاد کو نیز دو قسموں میں تقسیم کرتے ہیں؛ ۱: دفاعی جہاد: یعنی جب اسلامی معاشرہ دشمنوں کی طرف سے تہدید یا حملے کا نشانہ بنے تو اس صورت میں اپنا دفاع کرنا واجب ہے اسے دفاعی جہاد کہتے ہیں۔ ۲: ابتدائی جہاد : یعنی جہاد میں پہل کرنا بغیر اس کے کہ دشمن کی طرف سے کوئی خطرہ لاحق ہو۔  اسلام کو وسعت دینے، مذہبی شعائر کو دنیا میں پھیلانے اور بشریت کو ضلالت اور گمراہی سے نجات دینے کی غرض سے جنگ کی جائے۔ جہاد کی صورت صرف حکم نبی یا امام معصوم(ع) سے لازم الاجرا ہے ان کے علاوہ کوئی دوسرا ابتدائی جہاد کرنے کا حکم نہیں دے سکتا۔

استاد شہید مطہری جہاد کی حقیقت اور ماہیت کو دفاعی صورت میں سمجھتے ہیں۔ آپ معتقد ہیں کہ محققین کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جہاد کی ماہیت دفاعی ہے۔ یعنی اسلام میں کسی عنوان سے جنگ و جدال، مد مقابل کا مال و ثروت چھیننے یا دشمن پر حکومت کرنے کی غرض سے ہر گز جائز نہیں ہے۔ اس طرح کی جنگ اسلام کی نظر میں تشدد اور جارحیت کہلاتی ہے۔ وہ جہاد جو صرف دفاع کے عنوان سے ہو اور تجاوز کا مقابلہ کرنے کی خاطر ہو اسلام میں مشروعیت رکھتا ہے۔ آپ اس کے باوجود کہ دفاع کو ایک مقدس امر سمجھتے ہیں لیکن تقدس کا ملاک حق و حقاینت کا دفاع اور انسانی حقوق اور انسانی آزادی کا دفاع قرار دیتے ہیں۔

شہید مطہری سورہ بقرہ کی ۱۹۰ ویں آیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ استدلال کرتے ہیں کہ تجاوز کرنے والوں اور شر پھیلانے والوں سے جنگ کرو اس سے پہلے کہ ان کا شر ہم تک پہنچے لیکن اگر غیر متجاوز افراد کے ساتھ جنگ کی جائے تو یہ خود تجاوز اور غیر شرعی عمل اور ظلم ہے۔ آپ اس بات پر تاکید کرتے ہیں کہ قرآن جہاد کو دفاعی صورت میں منحصر کرتا ہے اور کسی پر بھی جارحیت  کی اجازت نہیں دیتا۔ البتہ ان کی نظر میں تجاوز اور جارحیت ایک عام معنی رکھتا ہے اور جان و مال عزت و آبرو، زمین اور آزادی میں محدود نہیں ہے۔ اگر انسانی اقدار کو پامال کیا جائے، انسانی قدروں کو روندا جائے تو اسے بھی تجاوز کہاجائے گا۔

شیخ محمود شلتوت بھی صدر اسلام کی جنگوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ استدلال کرتے ہیں کہ صدر اسلام میں مسلمانوں نے کبھی ابتداً کسی پر حملہ نہیں کیا اور اپنی آزادی اور استقلال کا دفاع کرنے کے علاوہ انہوں نے کبھی قیام نہیں کیا۔

ج: اسلام اور صلح

اسلام امن و شانتی کا دین ہے اور اسلام نے ہمیشہ صلح اور سلامتی کو جنگ وجدال پر برتری دی ہے۔ اور پیغمبر اسلام (ص) اور امیر المومنین (ع) نے ہمیشہ جنگ شروع ہونے سے پہلے دشمنوں کو صلح کی دعوت دی ہے قرآن کریم میں بھی صلح قبول کرنے پر واضح دستورات موجود ہیں:

ان جنحوا للسلم فاجنح لها و توكل علي الله انه هوالسميع العليم و ان يريد و ان يخدعوك فان حسبك الله هو الذي ايدك بنصره و بالمومنين(سورہ انفال،۶۱،۶۲)

اور اگر یہ لوگ صلح کرنے کی طرف مائل ہوں آپ بھی صلح کی طرف مائل ہو جائیں اور خدا پر توکل کریں بیشک وہ سننے والا اور جاننے والا ہے اور اگر یہ آپ کو دھوکہ و فریب دینا چاہیں تو خدا آپ کے لیے کافی ہے وہ وہی خدا ہے جس نے اپنی اور مومنین کی مدد سے آپ کو تقویت بخشی۔

سورہ نساء، آیت ۹۰ میں بھی آیا ہے کہ اگر " کافر اور ظالم جنگ سے کنارہ کشی اختیار کر لیں اور آپ کے ساتھ صلح کی  پیشکش کریں تو ان کی طرف جنگ کے لیے ہاتھ نہ بڑھانا ۔۔۔

شیخ محمود شلتوت بھی اس سلسلے میں سورہ انفال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب بھی دشمن جنگ سے ہاتھ کھینچ لے اور قتل و غارت سے پرہیز کرے اور صلح کی پیشکش کرے اور اس پیشکش میں کوئی دھوکا اور فریب نہ ہو تو ان کی پیشکش کو قبول کرنا چاہیے بغیر کسی وجہ کے ان پر حملہ نہیں کرنا چاہیے۔

ان کی نظر میں جنگ صرف اس لیے ہے کہ ظلم اور تجاوز کا دفاع کیا جائے اور در حقیقت جنگ کا مقصد صلح اور عدالت قائم کرنا ہوتا ہے انہوں نے سورہ انفال کی ۶۴ ویں آیت کی تفسیر میں لکھا ہے" اور ان کے لیے جتنی طاقت جمع کر سکتے ہیں کریں" جنگ کا ساز و سامان مہیا کرنا صرف ظلم کا مقابلہ کرنے اور صلح اور عدالت برقرار کرنے کی خاطر درست ہے۔ انہوں نے آیت کے لفظ "سلم" کو تاکید  کے طور پر پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کلمہ کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں صلح کا بیج بوئیں تاکہ سماج میں امن و شانتی برقرار رہے۔

متفکر اسلام شہید مطہری نیز آیات صلح کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ منجملہ آیات" والصلح خیر (نساء ۱۲۸) یا “يا ايها الذين آمنوا و ادخلو في المسلم كافه (بقره، 208) اس بات پر تاکید کرتی ہیں کہ اسلام میں صلح، جنگ سے کئی گناہ زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ 

البتہ آپ ظلم و جور کے نیچے دھبنے کو صلح نہیں کہتے لہذا اسی وجہ سے آپ کا یہ کہنا ہے کہ اسلام کبھی بھی ذلت کو تحمل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ 

د: جنگ و جہاد میں انسانی اقدار کا لحاظ

اسلام صلح کی تاکید کرنے اور ہر طرح کے تجاوز سے روکنے کے ساتھ ساتھ دفاعی جنگوں میں بھی انسانی اقدار اور حرمتوں کی رعایت کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ انسانی اقدار اور حرمتوں سے مراد وہ اخلاقی اصول اور قواعد ہیں جن کی ہر مذہب و ملت کے افراد کے ساتھ جنگ میں رعایت کرنا ضروری ہے اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ اصول انسانی فطرت سے وجود پاتے ہیں اور دین اسلام بھی ان قواعد اور اصول کو محترم سمجھتا ہے۔ اور جنگ میں بھی ان کی رعایت کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل موارد کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے:

جنگ سے پہلے اسلام کی طرف دعوت

چونکہ اسلامی جہاد کا مقصد انسانوں کو توحید کی دعوت دینا ہے لہذا جہاد میں سب سے پہلے مشرکوں کو اسلام کی طرف دعوت دی جاتی ہے اگر وہ مسلمان ہو جائیں تو جنگ در کار نہیں ہوتی۔ امیر المومنین (ع) نے پیغمبر اسلام سے ایک روایت میں نقل کیا ہے کہ جب آپ(ع) کو یمن میں جنگ کے لیے بھیجا تو فرمایا کہ جب تک انہیں اسلام کی دعوت نہ کر لو ان کے ساتھ جنگ مت کرنا اور اگر خدا تمہارے ذریعے ایک شخص کو بھی ہدایت کر لے تو یہ تمہارے لیے ہر اس چیز سے بہتر ہے جس پر سورج چمکتا ہے۔ لہذا اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں صلح اور مذاکرات کی دعوت جنگ پر مقدم ہے۔

پناہ مانگنے والوں کو پناہ دینا

اگر کوئی کافر کسی مسلمان یا اسلامی حاکم سے پناہ کا تقاضا کرے اور امان چاہے تو اسے امان دینا ضروری ہے اس سلسلے میں ہر مسلمان کچھ شرائط کے ساتھ اسے پناہ دینے کا حق رکھتا ہے اور کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے کہ امان دی گئی مدت میں امان حاصل کردہ افراد کے ساتھ کسی قسم کی چھیڑ چھاڑ کرے۔ 

جنگ میں خواتین، بچوں اور بوڑھوں وغیرہ کی حفاظت

مذکورہ افراد کی اسلامی جہاد میں حفاظت کرنا اور انہیں کسی قسم کا نقصان نہ پہچانا اسلام کے اندر منجملہ انسانی اقدار میں سے ہے۔ اسلامی فوج کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ان افراد کو نشانہ بنائیں۔

پیمان شکنی ممنوع 

اسلام کا حکم ہے کہ اگر دشمن کے ساتھ کوئی عہد و پیمان باندھا جائے تو جب تک وہ خود خیانت نہ کرےاور اسے نہ توڑے آپ کو توڑنے کا حق نہیں ہے۔ پیغمبر اکرم (ص) اور علی علیہ السلام بہت سختی سے اس قانون کے پابند تھے۔

خلاف انسانیت اعمال انجام دینا ممنوع

اسلام دشمن کو مثلہ کرنے ( یعنی اس کے کان، ناک وغیرہ کاٹنے ) سے سخت منع کرتا ہے اور پیغمبر اکرم (ص) جنگ پر بھیجنے سے پہلے یہ تاکید کرتے تھے کہ کوئی بھی ایسا اقدام کرنے کی جرات نہ کرے۔ اسلام اس طریقے کے غیر انسانی اعمال انجام دینے سے منع کرتا ہے۔

قیدیوں کے ساتھ انسانی سلوک

قیدی بنانے کا مقصد دشمن کی طاقت کو کمزور بنانا اور اسیروں کو اسلام سے آشنا کرنا ہے۔ اسلام اسیروں کے ساتھ انسانی سلوک روا رکھ کر ان کی آزادی کے راستے فراہم کرنے کی سفارش کرتا ہے۔

ہ: جہاد اور دہشت گردی

اسلام میں جہاد کے معنی اور مفہوم کو جاننے کے بعد یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ دہشت گردی کو ہر گز جہاد کا عنوان نہیں دیا جا سکتا۔ اس لیے کہ اولا: جہاد اسلام میں سب سے پہلے ایک دفاعی امر ہے یعنی دشمن کی جارحیت کے مقابلے میں مسلمان اور اسلامی ملک اپنی عزت و آبرو  کا دفاع کر سکتے ہیں۔ ثانیا: پیغمبر اکرم (ص) کی سیرت یہ بتاتی ہے کہ آپ ابتدائی صورت میں جنگ حتی دفاع کرنے سے بھی منع کرتے تھے جب تک کہ دفاع کے لیے بھی خدا کا حکم نازل نہ ہو جائے آپ دفاع کے لیے بھی نہیں نکلتے تھے۔ آپ ہمیشہ یہ کوشش کرتے تھے کہ دشمنوں کو صلح اور گفتگو کی دعوت دیں۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ظاہری دشمن کے ساتھ جہاد سے پہلے باطنی دشمن کے ساتھ جہاد کرنا اسلام کی نگاہ میں زیارہ قابل اہمیت ہے اس جہاد میں انسان کو پہل کرنے کا حق حاصل ہے اور ہر انسان اس جنگ میں دشمن پر پہلا وار کر سکتا ہے۔ جہاں انتظار کرنے کی ضرورت نہیں کہ پہلے دشمن حملہ آور ہو پھر ہم اس کا مقابلہ کریں اور اپنا دفاع کریں بلکہ یہاں ابتدائی جہاد ہی زیادہ سودمند ثابت ہوتا ہے  اسلیے کہ باطنی دشمن کے حملے کے بعد انسان کے ایمان کا گلہ کٹ جائے گا پھر اس دشمن پر حملہ کرنے کے لیے حوصلہ افزائی کرنے والا کوئی نہ ہو گا اور پھر جب ایمان کا گلہ کٹ گیا تو دفاع کس بات کا ہوگا؟ اسی وجہ سے اس جہاد کا جہاد اکبر کہا گیا ہے۔

اور دوسری طرف سے اسلام دین صلح و سلامتی ہے اور سماج میں صلح اور سالمیت قائم رکھنے پر بہت زیادہ تاکید کرتا ہے اور جنگ کے دوران بھی جیسا کہ ذکر کیا گیا انسانی قدروں کی رعایت کرنے کی تاکید کرتا ہے۔ اسلام کی نظر میں بے گناہ افراد کو قتل کرنا خواتین، بچوں بوڑھوں کو نقصان پہنچانا قطعا جائز نہیں ہے۔

 لہذا کیسے بعض لوگ جہاد کے نام پر دہشت گردانہ اقدامات انجام دے کر بچوں، عورتوں اور بے گناہ لوگوں کے قتل کا سامان فراہم کرتے ہیں اور اسے بعد بڑی آسانی سے اسے ’’جہاد اسلامی‘‘ کا عنوان دے دیتے ہیں؟! واضح ہے کہ یہ کام کسی بھی صورت میں اسلام کی نظر میں جائز نہیں ہے اور کسی بھی عنوان سے انسانی قتل عام ، بے گناہ لوگوں کو خون میں رنگین کرنا اور بچوں عورتوں کو دھماکہ خیز مواد سے اڑانا  ’’اسلامی جہاد‘‘ نہیں کہلاتا۔ اور از خود ایسے حملے کرکے انہیں جہاد کی طرف نسبت دے دینا بالکل شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔ 

قرآن کریم سورہ تحریم کی آیت میں پیغمبر اکرم (ص) کو خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے: “ يا ايها النبي جاهد الكفار و المنافقين و اغلظ عليهم “:  اے رسول کفار اور منافقین کے ساتھ جہاد کرو اور ان پر سختی کرو۔ دوسری طرف پیغمبر اکرم (ص) سے منقول ہے کہ آپ فرمایا کرتے تھے: میں مامور ہوا ہوں کہ اس وقت تک مشرکین کے ساتھ جنگ کروں جب تک کہ وہ توحید کا اقرار نہ کر لیں کہ خدائے واحد و لاشریک کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔

اس آیت اور روایت دونوں کا مضمون بظاہر ابتدائی جہاد پر دلالت کرتا ہے لیکن ابتدائی جہاد کا اختیار ہرگز مسلمانوں کو نہیں دیا گیا ہے بلکہ یہ خطاب پیغمبر اکرم (ص) کی ذات سے مخصوص ہے کہ جو معصوم ہیں جو ہر طرح کی خطا اور اشتباہ سے محفوظ ہیں۔ چونکہ پیغمبر اکرم (ص) انسانی اور اخلاقی کمالات کے بلند ترین مراتب پر فائز ہیں اس لحاظ سے کچھ اوامر اور تکالیف ان کی ذات سے مخصوص ہیں کوئی دوسرا ان میں شریک نہیں ہے۔ اسی وجہ سے ہم یہ کہتے ہیں ابتدائی جہاد کا اختیار صرف امام معصوم(ع) کو حاصل ہے غیر معصوم ابتدائی طور پر جنگ کا حکم نہیں دے سکتا۔ لہذا جب ابتدائی جہاد کی اسلام ہر انسان کو اجازت نہیں دیتا تو ٹروریزم اور دہشت گردی کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ جس سے بے گناہ لوگوں کی بوٹیاں اڑائی جائیں اور انسانی حرمتوں کو پامال کیا جائے۔ یقینا جو لوگ اس قسم کے اقدامات کرتے ہیں جن کی نظر میں انسانی کی کوئی قدر نہیں ہے ان کا تعلق دین اسلام سے نہیں ہے چاہے وہ خود کو کسی بھی فرقے سے منسوب کرتے رہیں چاہے وہ خود کو بظاہر کتنے بھی مقدس و چوکدس پیش کرتے ہیں۔ ایسے افراد اسلام مخالف ایجنسیوں کی طرف سے اسلام کو بدنام کرنے کے لیے مسلمانوں کی صفوں میں لا کر کھڑے کئے گئے ہیں ورنہ دین مقدس اسلام سے ایسے افراد اور ان کے شرپسندانہ اقدامات کا دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔


source : http://www.abna.ir
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام قبول کرنے والی ناورے کی ایک خاتون کی یادیں
اسلامی دنیا اور غیر مسلم طاقتیں
رہبر انقلاب اسلام حضرت آیت اللہ العظمی سید علی ...
تشیع کے اندر مختلف فرقے
نعت رسول پاک
اسراف : مسلم معاشرے کا ناسور
تمباکو نوشی کے احکام
تا روں بھري رات
تلمود ( یہودیوں کی وحشتناک کتاب)
امام خمینی کی شخصیت کو خراج عقیدت

 
user comment