اردو
Saturday 20th of April 2024
0
نفر 0

کس طرح کائنات کی ہر شئی خداکی تسبیح کرتی ہے؟

 

قرآن مجید کی مختلف آیات میں بیان ہوا ہے کہ اس کائنات کی تمام موجودات خدا کی تسبیح کرتی ہیں ، ان میں سب سے زیادہ واضح آیت سورہ اسراء (بنی اسرائیل) آیت نمبر ۴۴ ہے کہ جہاں ارشاد ہوتا ہے:

< وَإِنْ مِنْ شَیْءٍ إِلاَّ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلَکِنْ لَاتَفْقَہُونَ تَسْبِیحَہُمْ>

”اور کوئی شئی ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہویہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے “۔

اس آیت کی بناپر کائنات کی تمام موجوات بغیر کسی استثنا کے خداوندعالم کی اس عام تسبیح میں شامل ہیں۔

اس حمد و تسبیح کی حقیقت کی تفسیر کے بارے میں علماو فلاسفہ کے درمیان بہت زیادہ بحث و گفتگو ہے۔

بعض افراد نے اس حمد و تسبیح کو ”حالی“ (یعنی زبان حال) مانا ہے، جبکہ بعض دوسرے افراد نے اس سے ”قولی“ تسبیح مراد لی ہے، ہم یہاں پر ان تمام نظریات کا خلاصہ اور اپنا نظریہ بیان کرتے ہیں:

۱۔بعض گروہ کا کہنا یہ ہے کہ اس کائنات کے تمام ذرات چاہے وہ جاندار اور عاقل ہوں یا بے جان اور غیر عاقل؛ سب کی سب ایک طرح کا شعور اور ادراک رکھتی ہیں، اور یہ سب چیزیں خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتی ہیں، اگرچہ ہم ان کی حمد و تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے، اور نہ ہی سن پاتے ہیں۔

قرآن مجید کی بہت سی آیات اس عقیدہ پر شاہد اور گواہ ہیں، نمونہ کے طور پر:

< وَإِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ >(1)

”اور بعض خوف خدا سے گر پڑتے ہیں“۔

<فَقَالَ لَہَا وَلِلْاٴَرْضِ اِئْتِیَا طَوْعًا اٴَوْ کَرْہًا قَالَتَا اٴَتَیْنَا طَائِعِینَ>(۲)

”اور اسے اور زمین کو حکم دیا کہ بخوشی یا بکراہت ہماری طرف آؤ تو دونوں نے عرض کی کہ ہم اطاعت گزار بن کر حاضر ہیں“۔

۲۔ بہت سے افراد کا عقیدہ ہے کہ یہ حمد و تسبیح وہی ہے جس کو ہم ”زبان حال“ کہتے ہیں، اور یہ حمد و تسبیح حقیقی طور پر ہے، مجازی طور پر نہیں، لیکن زبان حال سے ہے نہ کہ زبان قال سے۔ (غور کیجئے )

وضاحت: بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کے چہرے پر پریشانی اور ناراحتی یا درد و غم کے آثار پائے جاتے ہیں یا اس کی آنکھوں سے بیداری کے آثار واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں،چنانچہ ایسے موقع پر کہاجاتا ہے: اگرچہ تم اپنی زبان سے پریشانی اور مشکل نہیں بتارہے ہو، لیکن تمہارے چہرے سے پریشانی کے آثار دکھائی دے رہے ہیں، یا کہتے ہیں کہ تمہیں رات میں نیند نہیں آئی ہے!!

کبھی کبھی یہ ”زبان حال“ اس قدر واضح اورروشن ہوتی ہے کہ ”زبان قال“ کو موثر بنا دےتی ہے، اور زبان قال کو جھٹلادیتی ہے، جیسا کہ ایک شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

گفتم کہ با مکر و فسون پنہان کنم راز درون!

پنہان نمی گردد کہ خون از دیدگانم می رود!

”میں نے کہا کہ مکر و فریب سے اپنے اندرونی راز کو چھپالوں لیکن خون کبھی چھپائے سے نہیں چھپتا ، اور میری آنکھوں سے خون برستا دکھائی دیتا ہے“۔

اسی چیز کی طرف حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام نے اپنے مشہور و معروف قول میں اشارہ فرمایا ہے:

”مَا ضمَر اٴحد شیئًا اِلاَّ ظھر فی فلتاتِ لسانِہ وَصفحاتِ وَجھہِ“(3) 

”کوئی بھی راز دل میں چھپائے سے چھپ نہیں سکتا، اور ایک نہ ایک دن اس کی زبان یا چہرے پر ظاہر ہوہی جاتا ہے“۔

دوسری طرف کیا یہ ممکن ہے کہ ایک بہترین مصور کی بنائی ہوئی تصویر اس کی مہارت اور ذوق کی گواہی نہ دے اور اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟

کیا اس بات سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ایک مشہور و معروف شاعر کا کلام اس کے بہترین ذوق کی عکاسی نہ کرے اور ہمیشہ اس کی مدح و ثنا نہ کرے؟

کیا اس بات کا منکر ہوا جاسکتا ہے کہ ایک عظیم الشان عمارت اوربڑے بڑے کارخا نے وغیرہ اپنی بے زبانی سے اپنے بنانے والے کے خلاق ذہن اور ایجادات کرنے والے ذہن کی تعریف نہ کریں اور ان کی ذہنیت کی قصیدہ خوانی نہ کریں؟

لہٰذا ہم کو یہ بات مان لینا چاہئے کہ کائنات کایہ عجیب و غریب نظام اور چکاچوند کردینے والی چیزیں خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ کرتی ہیں۔

کیا ”تسبیح“ پاک و پاکیزہ ماننے کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے، اس کائنات کا نظام اپنے پورے وجود کے ساتھ یہ اعلان کررہا ہے کہ اس کا خالق ہر طرح کے نقص و عیب سے پاک و پاکیزہ ہے۔

کیا ”حمد“ صفاتِ کمال بیان کرنے کے علاوہ کسی اور چیز کو کہتے ہیں؟ یہ کائنات کا نظام خدا وندعالم کی صفات کمال( بے کراں علم و قدرت ،اور مکمل حکمت )کی گفتگو نہیں کررہا ہے۔

(قارئین کرام!) ”حمد و تسبیح “ کے یہ معنی تمام موجوات کے لئے قابل فہم ہیں اور اس بات کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ہم تمام مخلوقات کے ذروں کو صاحب عقل و شعور فرض کریں، کیونکہ کوئی قطعی دلیل ان کے بارے میں موجود نہیں ہے، اور مذکورہ آیات بھی قوی احتمال کی بنا پر ”زبان حال“ کو بیان کرتی ہیں۔

لیکن یہاں پر ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ اگر خداوندعالم کی ”حمد و تسبیح“ سے مراد نظام کائنات کا خدا کی عظمت اور اس کی پاکیزگی و عظمت کی حکایت کرنا ہے اور ”صفات سلبیہ“ و ”صفات ثبوتیہ“ اس کی وضاحت کرتی ہیں، تو پھر قرآن مجید میں کیوں ارشاد ہوا ہے کہ تم ان کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھتے؟ 

اگر بعض عوام الناس نہیں سمجھ سکتے تو کم سے کم دانشوروں کو تو سمجھنا چاہئے؟

اس سوال کے دو جواب دئے جاسکتے ہیں:

پہلا جواب: یہ ہے کہ قرآن مجید میں خطاب اکثر جاہلوں خصوصاً مشرکین سے ہے اور مومن دانشوروں کی اقلیت اس عموم سے مستثنیٰ ہے کیونکہ ہر عام کے لئے ایک استثنا ہوتا ہے۔

دوسرا جواب: یہ ہے کہ اس کائنات کے جن اسرار کو ہم جانتے ہیں وہ نامعلوم اسرارکے مقابل سمندر کے مقابل ایک قطرہ یا پہاڑ کے مقابلہ میں ایک ذرّہ کی حیثیت رکھتے ہیں کہ اگر صحیح غور و فکر کریں تو اس کو کسی علم و دانش کا نام تک نہیں دیا جاسکتا ۔

تا بدانجا رسید دانش من کہ بدانستمی کہ نادانم

”میری عقل آخر میں اس بات کو سمجھ پائی ہے کہ میں نادان اور جاہل ہوں“

لہٰذا حقیقت تو یہ ہے کہ اگرچہ ہم کتنے ہی بڑے عالم کیوں نہ ہوں اس کائنات کے ذروں کو نہیں سمجھ سکتے، کیونکہ جو کچھ ہم سنتے ہیں وہ کسی بڑی کتاب کا ایک لفظ ہے، اس بنا پر تمام عوام الناس کے لئے یہ اعلان عام کیا جاسکتا ہے کہ تم اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے کیونکہ وہ زبان حال سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں اور جو چیزیں ہم سمجھتے ہیں وہ اس قدر کم اور ناچیز ہیں کہ ان کا کوئی شمار ہی نہیں ہے۔

۳۔بعض مفسرین نے یہ بھی احتمال دیا ہے کہ اس کائنات کی موجودات کی حمد و تسبیح زبان ”حال“ اور زبان ”قال“ دونوں سے مرکب ہے یا دوسرے الفاظ میں ”تکوینی اور تشریعی تسبیح“ ہے، کیونکہ بہت سے انسان اور تمام ملائکہ اپنی عقل و شعور کے لحاظ سے خداوندعالم کی حمد و تسبیح کرتے ہیں لیکن اس کائنات کے تمام ذرے اپنی زبان بے زبانی سے خداوندعالم کی عظمت و کبریائی کی گواہی دے رہے ہیں۔

اگرچہ” حمد و تسبیح“کے دونوں معنی آپس میں مختلف ہیں لیکن ”ایک مشترک پہلو بھی رکھتے ہیں“ یعنی حمد و تسبیح کے عام اور وسیع معنی (یعنی اعلان پاکیزگی اور مدح و ثنا) میں مشترک ہیں۔

لیکن جیسا کہ ظاہر ہے کہ مذکورہ دوسری تفسیر سب سے بہتر ہے۔(4).

۱۵۔ کیا خداوندعالم کسی چیز میں حلول کرسکتا ہے؟

بعض عیسائیوں کا یہ عقیدہ ہے کہ خداوندعالم ”عیسیٰ مسیح“ میں حلول کئے ہوئے ہے، اور بعض صوفی لوگ بھی اپنے پیرو مرشد کے بارے میں یہی نظریہ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم ان میں حلول کئے ہوئے ہے۔

کتاب ”کشف المراد“ میں علامہ حلّی علیہ الرحمہ کے قول کے مطابق اس عقیدہ کے باطل و بے بنیاد ہونے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں ہے، کیونکہ حلول سے جو چیز تصور کی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ ایک موجود دوسرے موجود کے ذریعہ قائم ہو، (مثال کے طور پر کہاجا ئے کہ گلاب کے پھول میں خوشبو حلول کئے ہوئے ہے) ، مسلم طور پر خداوندعالم کے سلسلہ میں یہ معنی قابل تصور نہیںہیں، کیونکہ اس کا لازمہ مکان، نیاز اور ضرورت ہے جو ”واجب الوجود“کے لئے ”غیر ممکن“ ہے، اور جو لوگ خداوندعالم کے حلول کے معتقد ہیں آخر کار وہ شرک میں گرفتار ہوکر دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتے ہیں۔

تصوّف اور اتحاد و حلول کا مسئلہ

مرحوم علامہ حلّی علیہ الرحمہ اپنی کتاب ”نہج الحق“ میں فرماتے ہیں کہ کسی دوسری چیز میں خداوندعالم کااس طرح سے حلو ل کرنا کہ دونوں شئی ایک چیز بن جائیں، یہ عقیدہ باطل ہے،اور اس کا باطل و بے بنیاد ہونا بالکل واضح ہے، اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی مخالفت کی ہے، اور کہتے ہیں کہ خداوندعالم، عرفاء کے بدن میں حلول کرجاتا ہے!! یہاں تک کہ ان میں سے بعض لوگ کہتے ہیں: خداوندعالم عین موجودات ہے، اور ہر موجود خدا ہے، (وحدت مصداقی وجود کے مسئلہ کی طرف اشارہ ہے) ، اس کے بعد علامہ موصوف فرماتے ہیں: یہ عقیدہ عین کفر و دہریت ہے، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں اہل بیت علیہم السلام کی برکت سے اس باطل عقیدہ سے دور رکھا ہے“۔

علامہ موصوف ”حلول“ کی بحث میں فرماتے ہیں:”یہ ایک مسلّم مسئلہ ہے کہ اگر کوئی چیز کسی چیز میں حلول کرنا چاہے تو اس کو ”محل“ کی ضرورت ہوتی ہے اور چونکہ خداوندعالم واجب الوجود ہے اور اسے کسی چیز کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا اس کا کسی چیز میں حلول کرنا غیر ممکن ہے“ اس کے بعد فرماتے ہیں: ”اہل سنت کے صوفیہ فرقہ نے اس سلسلہ میں مخالفت کی ہے، اور خداوندعالم کے حلول کو، عرفاء کے بدن میں ممکن شمار کرتے ہیں“ اس کے بعد علامہ موصوف ان لوگوں کی بہت زیادہ مذمت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہم نے خود صوفیہ کے ایگ گروہ کو حضرت امام حسین علیہ السلام کے روضہٴ مبارک میں دیکھا ہے کہ ایک شخص کے علاوہ سب نے نماز مغرب پڑھی، اس کے بعدسبھی نے نماز عشاء پڑھی سوائے اسی ایک شخص کے، چنانچہ وہ یونہی بیٹھا رہا!! 

ہم نے سوال کیا کہ اس نے نمازکیوں نہیں پڑھی؟ تو جواب دیا کہ اس کو نماز کی کیا ضرورت ہے؟ وہ تو خدا سے پیوستہ ہے! کیا یہ بات جائز ہے کہ خدا اور اس کے درمیان کوئی چیز پردہ بن جائے، نماز ان کے اور خدا کے درمیان ایک پردہ ہے!5)

یہی معنی ”مثنوی “کی پانچویں جلد میں ایک دوسری طرح پیش کئے گئے ہیں: جب تم منزل مقصود پر پہنچ جاؤ تو وہی حقیقت ہے، اور اس کی وجہ یہ بتائی ہے:

”لَو ظَھرتْ الحقائقُ بَطَلَتِ الشّرائعُ“

”جب حقائق ظاہر ہوجاتے ہیں تو شریعتیں باطل ہوجاتی ہیں“۔

اس کے بعد شریعت کو علم کیمیا سے مشابہ قرار دیا ہے ( جس علم کے ذریعہ تانباکو سونے میں تبدیل کیا جاتا ہے) اور کہا ہے: جو چیز اصل میں ہی سونا ہے ، یا سونا بن چکا ہے تو اسے علم کیمیا کی کیا ضرورت ہے؟! جیسا کہ کہتے ہیں: ”طَلبُ الدَلیلِ بعدَ الوُصُولِ إلیٰ المدلولِ قبیحٌ!“(6) 

”منزل مقصود تک پہنچنے کے بعد دلیل طلب کرنا قبیح اور برا ہے“۔

کتاب ”دلائل الصدق“ شرح ”نہج الحق“ میں بھی ”صاحب مواقف“ سے نقل کیا گیا ہے کہ نفی ”حلول“ اور ”اتحاد“ کے سلسلہ میں مخالفوں کے تین گروپ ہیں، اس کے بعد دوسرے گروہ کے بعض صوفیوں کا نام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کی باتیں حلول و اتحاد کے بارے میں مردد ہیں، ( حلول سے مراد خداوندعالم کا کسی چیز میں نفوذ کرنا ہے، اور اتحاد و وحدت سے مراد خدا اور دوسری چیزوں کا ایک ہوجانا ہے)

اس کے بعد موصوف مزید فرماتے ہیں: ہم نے بعض ”صوفیہ وجودیہ“ کو دیکھا ہے جو حلول و اتحاد کا انکار کرتے ہیں، اور کہتے ہیں کہ یہ دونوں الفاظ خدا اور مخلوق میں مغایرت (جدائی) کی طرف اشارہ کرتے ہیں اور ہم اس چیز کے قائل نہیں ہیں! بلکہ ہماراکہنا یہ ہے :

”لَیسَ فِی دارِالوجودِ غیرہُ دیّار“، (وجود کی وادی میں اس کے علاوہ کوئی چیز موجود ہی نہیں ہے“!)

اس موقع پر صاحب مواقف کہتے ہیں کہ یہ عذر،گناہ سے بھی بدتر ہے۔(7)

البتہ اس سلسلہ میں صوفیوں کی بہت سی بے تُکی باتیں ہیں جو نہ اصول و منطق سے ہم آہنگ ہیں اور نہ ہی شریعت کے موافق۔ 

بہر حال دو چیزوں کے درمیان حقیقی ”اتحاد “ محال اور ناممکن ہے جیساکہ ”علامہ مرحوم“ نے بیان فرمایا ہے چونکہ یہ بات بالکل تضاد اورٹکراؤ پر مشتمل ہے، یہ کیسے ممکن ہے کہ دو چیزیں ایک ہوجائیں، اس کے علاوہ اگر کوئی خدا کا دوسری مخلوق بالخصوص عارفوں سے اتحاد کے عقیدہ کا قائل ہو، تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ خداوندعالم میں ممکنات کے صفات پائے جائیں جیسے زمان و مکان اور تغیر وغیرہ۔

اور اسی طرح خداوندعالم کا دوسری چیزوں میں ”حلول“ کا لازمہ بھی زمان و مکان ہے جبکہ یہ چیزیں خداوندعالم کے واجب الوجود ہونے سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔(8)

اصولی طور پر خود صوفی بھی اس بات کے قائل ہیں کہ اس طرح کی باتوں کو عقلی دلائل کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتا، اور غالباً اپنے راستہ کو عقلی راستہ سے الگ کرلیتے ہیں، اور اس سلسلہ میں اپنی مرضی جس کو ”راہ دل“ کہتے ہیں اس کے ذریعہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں، اور مسلّم طور پر اگر کوئی عقلی منطق کو نہ مانے تو اس سے اس طرح کی ضد و نقیض باتوں کے علاوہ اور کوئی امید بھی نہیں کی جاسکتی۔

یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ تاریخ میں بڑے بڑے علمائے کرام نے ان لوگوں سے دوری اختیار کی ہے، اور ان کو اپنے سے دور رکھا ہے۔

قرآن کریم نے بہت سی آیات میں عقل و برہان اور غور وخوض کے بارے میں توجہ دلائی ہے اور اسی کو ”معرفة اللہ“ کا راستہ بتایا ہے۔(9)

________________________________________

(1)سورہ بقرہ ، آیت ۷۴

 

(۲) سورہ فصلت ، آیت ۱۱

(3) نہج البلاغہ کلمات قصار نمبر ۲۶.

(4) تفسیر نمونہ ، جلد ۱۲، صفحہ ۱۳۴

 

(5) نہج الحق ، ص۵۸ و۵۹.

(6) دفترپنجم مثنوی ص۸۱۸،طبع سپہر ، تہران.

(7) دلائل الصدق ، جلد اول، صفحہ ۱۳۷.

(8) قابل توجہ بات یہ ہے کہ حلول واتحاد کے باطل ہونے کے سلسلہ میں علامہ حلی علیہ الرحمہ نے شرح تجرید الاعتقاد میں مفصل استدلال کے ساتھ بیان کیا ہے، (کشف المراد، صفحہ۲۲۷،باب انہ تعالیٰ لیس بحال فی غیرہ ونفی الاتحاد عنہ).

(9) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۴، صفحہ ۲۶۷ ، ۲۸۱

 

 


source : http://www.alhassanain.com
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

روزے کی تعریف اور اس کی قسمیں
کیا یا علی مدد کہنا جائز ہے
علوم قرآن سے کیا مرادہے؟
صحابہ کے عادل ہونے کے متعلق تحقیق
گھریلو کتے پالنے کے بارے میں آیت اللہ العظمی ...
کیا عصمت انبیاء جبری طور پر ہے؟
کیا ابوطالب ایمان کے ساتھ اس دنیا سے گئے ہیں کہ آپ ...
تقیہ کتاب و سنت کی روشنی میں
عالم ذرّ کا عہد و پیمان کیا ہے؟
کیا نماز جمعہ کو واجب تخییری ہونے کے عنوان سے ...

 
user comment