اردو
Wednesday 24th of April 2024
0
نفر 0

فلسفہ کی تعلیمی موقعیت

 

احیائے اسلام اور امن عالم کا داعیرضویه دات نیت "رضویه اسلامک ریسرچ سینتر اپنے قارئین کو خوش آمدید کهتا هے . " بسم الله الرحمن الرحیم اللّهُمَّ کُنْ لِوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ صَلَواتُکَ عَلَیْهِ وَعَلى آبائِهِ فی هذِهِ السّاعَةِ وَفی کُلِّ ساعَةٍ وَلِیّاً وَحافِظاً وَقائِدا وَناصِراً وَدَلیلاً وَعَیْناً  حَتّى تُسْکِنَهُ أَرْضَک َطَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فیها طَویلاً آمین یا رب العالمین. یاد رهے:رضویه ڈات نیت کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں هے.

حوزہ علمیہ کے دروس میں فلسفہ کو خاص موقعیت حاصل  تھی،اس میں بہت سے کمزور پہلو قابل دید تھے جن میں سے مہم کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔

(۱)فلسفہ کے بارے میں بعض غلط فہمیوں کی بنا پر اکثر یہ درس حوزہ علمیہ میں قابل توجہ نہیں تھا،اس کی ضرورت و اہمیت واضح نہ ہونے کی وجہ سے علماءحضرات اس کے بارے میں مردد تھے۔لیکن حوزہ علمیہ قم میں حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ  اور حضرت علامہ طباطبائی رحمۃ اللہ علیہ کی کوششوں سے یہ وضعیت تبدیل ہوگئی ، ان کوششوں کی بنا پر بہت کم افراد اس بارے میں وسواس کا شکار تھے لیکن اس کے باوجود اس سے احتیاط کرتے تھے۔

(۲)دوسری طرف فلسفہ کے چاہنے والے فلسفہ کے مخالفین کی مخالفت کی وجہ سے دفاعی پوزیشن میں تھے لہذا یہ لوگ محتویات فلسفہ  کی نسبت خاص قسم کا تعصب ظاہر کرتے تھے،فلاسفہ کے تمام معتقدات سے دفاع گویا ان کا وظیفہ بن چکا تھا؛لہذاصدرالمتألہین کے نظریات جو گذشتہ فلاسفہ کے نظریات میں ناسخ کی حثیت رکھتے تھے ،ان کے بارے میں زیادہ شدت دیکھاتے تھے ،اسی وجہ سے فلسفہ تقلیدی صورت اختیار کرچکا تھا،نقد جوعلوم کی پشرفت میں مہم عنصر کی حیثیت رکھتا ہےماند پڑچکا تھا۔

(۳)تعلیم فلسفہ کا ہدف درسی کتابوں میں مشخص نہیں تھا اور نہ ہی درسی محافل میں اسے بیان کیا جاتا تھااسی بنا پرطلباء کے لیے چندین سال فلسفہ پڑھنے کے باوجودیہ ہدف روشن نہیں ہوتا تھا۔

(۴) فلسفہ کی مباحث اتنی منظم و منسجم بیان نہیں ہوتی تھیں کہ اُن کا آپس میں ارتباط واضح ہو یا اُن مباحث کا ایک حصہ پڑھنے سے دوسرے حصے کو پڑھنے کا اشتیاق پیدا ہو۔

(۵)فلسفی کتب مضطرب کنندہ اصطلاحات سے مملو تھیں جن کو درست سمجھنے کے لیے سالوں ممارست کی احتیاج تھی لہذا ابتدائی سالوں میں اکثر محصلین ان کے درست درک میں ناکام رہتے تھے۔

(۶)ان کتب میں غربی فلاسفہ کے نظریات نہیں پائے جاتے تھے مخصوصاً  عصر حاضر میں مطرح  ہونے والے شبہات کے جوابات  اس میں نہیں پائے جاتے تھے۔

متن حاضر کی خصوصیات

گذشتہ احتیاجات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب میں حتی الامکان یہ کوشش کی گئی ہے کہ اُن ضرورتوں کو پورا کیا جائے اور مفید نکات کی رعایت کی جائے۔

(۱)ابتداءًفلسفی تفکر کے سفر کی طرف اشارہ کیا اور مختلف فلسفی مکاتب کو بیان کیاتاکہ طالب علم دنیا میں فلسفہ کی وضعیت سے کچھ حد تک آشنائی پیدا کرلے،اس سلسلہ میں فلسفہ کی ابتداء سے ابھی تک کی تاریخ بیان کی تاکہ طالب علم کا تاریخ فلسفہ کی طرف رجحان بڑھے۔

(۲)مغربی ممالک میں تجربی علوم کی جھوٹی مقام و منزلت جو بن چکی ہےجس نے شرقی روشنفکروں کو کافی حد تک متاثر کررکھا ہے؛کی بررسی کی گئی ہے اور فلسفہ کی واقعی جایگاہ کو ان کے برابر و مقابل بیان کیا گیا ہے۔

(۳)فلسفہ اور دوسرے علوم میں  پائے جانے والےرابطے کی بررسی کی گئی اور یہ ثابت کیا گیا کہ دوسرے علوم کو فلسفہ کی ضرورت ہے۔

(۴)فلسفہ کو سیکھنے کی اہمیت کو بیان،اور اس کے متعلق جو شبہات ہیں انہیں رفع کیا گیا ہے۔

(۵)ہستی شناسی کے مسائل کو ذکر کرنے سے پہلے،خود شناخت شناسی کی بحث کو ذکر کیا گیا ہے جو منطقاً تقدم رکھتی ہے اور آج کی دنیا میں اس کے متعلق بہت زیادہ گفتگو ہورہی ہے۔

(۶)کوشش کی گئی ہے کہ مسائل کو اس طرح سے بیان کریں کہ ان کو بیان کرنے کا ہدف اور ان کے استفادہ کے مواقع طالب علم کے لیے روشن ہو جائیں،اور اس طرح سے بیان کیے گئے ہیں کہ اُن کے درمیان پایہ جانے والا رابطہ منطقی طور پر منظم ہونے کے علاوہ طالب علم میں انہیں پڑھنے کا شوق بڑھے۔

(۷)کوشش کی گئی ہے کہ مطالب کو اس طرح بیان کریں جو طالب علم کوتحجر کی طرف نہ لے جائیں بلکہ اسکے اندر نقدکی روح بیدار ہو۔

(۸)مطالب کو جداگانہ دروس کی شکل میں بیان کیاگیاہے تاکہ ہر مطلب ایک درس میں کامل ہو جائے۔

(۹)کوشش کی گئی ہے کہ دروس میں مہم نکات کو بعد والے دروس میں تاکیداً تکرار کیا جائے تاکہ طالب علم کے ذھن میں اپنی جگہ بنا لیں۔

(۱۰)ہر درس کے اختتام پر اس درس کےمطالب کا خلاصہ اوراس درس سے متعلق سوالات کوبھی ذکر کیا گیا ہے جویادگیری میں مہم کردار ادا کرتے ہیں۔

پہلا درس

فلسفی تفکر کی ابتداء

(ابتداء سے عصر اسلامی تک)

(۱)انسان جب سے زندہ ہے تفکر اس کی جدا نہ ہونے والی خاصیت ہمیشہ سےاس کے ساتھ ہےاور جہاں جہاں انسان نے قدم رکھا ہے تفکر و تعقل  اس کا ہمسفر رہا ہے۔

(۲)بشری تفکر کی دقیق تاریخ ہمارے پاس نہیں،البتہ کچھ معلومات آثار باستانی کی کھدائی سے حاصل ہوئیں ہیں لیکن مکتوب دستاویزات خط کی اختراع  کی تاخیر کی وجہ سےاس قافلہ سے پیچھے رہ گئیں ہیں۔

(۳)شناخت ہستی،آغاز و انجام سے متعلق بشری افکار ہمیشہ مذہبی اعتقادات کے ساتھ رہی ہیں اسی سلسلہ کے قدیمی ترین فلسفی نظریات و آراء کو شرق کے مذہبی افکار میں جستجو کرنا چاہیے۔

(۴)علوم عقلی و فلسفہ کے مورخین معتقد ہیں کہ قدیمی ترین افکار جوخالصتاً مذہبی ہوں یا جن میں مذہبی پہلو غالب ہو وہ یونان کے حکماء سے تعلق رکھتیں ہیں۔یعنی میلاد حضرت مسیح علیہ السلام سے چھ قرن پہلے  کےحکماء ہستی شناسی،آغاز و انجام کی تحقیقات کے بارے  میں مصروف تھے۔

(۵)اس زمانے کے یونان میں علمی مباحث ،تحقیقات،نقد و بحث کی آزادی فلسفی افکار کی رشد و شکوفائی کا باعث بنی البتہ ابتدائی افکار منظم و مرتب نہیں تھیں۔

(۶)تمام افکار معرفت ،علم و حکمت کے نام نامی سے پہچانی جاتی تھیں۔

سوفیسٹم و شکاکیت کی ابتداء

(۱) حضرت مسیح علیہ السلام  کی ولادت سے پانچ صدیاں  پہلے کچھ ایسے دانشمندوں کو  جنہیں یونانی زبان میں‘‘سوفیسٹ’’یعنی حکیم ودانشمند، جیسے ناموں سے یاد کیا جاتا تھایہ لوگ اپنے زمانے کے بارے میں بہت وسیع معلومات  اور ثابت حقائق پر یقین نہیں رکھتے تھے بلکہ یہ لوگ کسی بھی چیز کو جزمی و قطعی پہچان کےقابل نہیں جانتے تھے۔

(۲)فلسفہ کے تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ یہ ماہر اساتید کا ایک گروہ تھا جو ‘‘فن خطابت،مناظرہ ،جدل وغیرہ’’ کی تعلیم دیتا تھا۔ان کا کام عدلیہ کے لیے ماہر وکلاء کی تربیت کرنا تھا تاکہ وکیل ہر قسم کے کیس اور قضیہ کو ثابت کر سکے اور اپنے مخالف وکیل کے ادعا کو باطل قرار دے سکے۔یہی حق و حقیقت سے دوری انکی افکار میں تبدیلی کا باعث بنی اور رفتہ رفتہ انھیں یہ باور ہوگیاکہ انسانی افکار کے علاوہ کوئی چیز واقعیت و حقیقت نہیں رکھتی۔

(۳)داستان معروف ہے کہ ایک شخص نے بقصد مزاح کسی سےکہا کہ فلاں جگہ پر مفت حلوا تقسیم ہو رہا ہے،سادہ لوح عوام نے اس کی بات کا یقین کرتے ہوئے اس جگہ پر اجتماع کرلیا،لوگوں کے ازدھام کو دیکھ کر اس شخص کو خود بھی رفتہ رفتہ یہ یقین ہونے لگا کہ حلوے والا قضیہ حقیقت رکھتا ہے اور یہ خود بھی انہیں کے ساتھ جاملا۔

اسی طرح کے قضایا اکثراً حوزہ ھائے علمیہ میں شہریہ(وظیفے)کی غلط اطلاع کے مشہور ہونے پر دیکھنے میں ملتے ہیں۔

اونٹ کو اونٹنی بنادینے والا قضیہ بھی اسی طرح ہے جب امیر وقت نے چاہا کے غریب آدمی کا اونٹ چھین لے تو اسے گواہ کی ضرورت پڑی جو گواہی دیں کہ یہ اونٹ نہیں بلکہ اونٹی ہے تو امیر کے چالیس چمچے جمع ہوگئے جنہوں نے شہادت دی کہ یہ اونٹھ نہیں بلکہ اونٹنی ہے رفتہ رفتہ خود امیر کو بھی شک ہونے لگا یہ شاید ایسا ہی ہو۔

(۴)مغالطہ آمیز طریقوں کی تعلیم و تعلیم نے رفتہ رفتہ‘‘سوفیسٹوں’’ کے افکار میں اس فکر کو جنم دیا کہ اساساً حق و باطل انسانی افکار کے تابع ہیں اور ماوراء فکر کوئی حقیقت نہیں پائی جاتی۔

(۵)کلمہ‘‘سوفیسٹ’’ کا مطلب حکیم و دانشور تھالیکن یہ کلمہ اپنے اصلی معنی سے تبدیل ہوکر‘‘مغالطہ آمیز تفکر’’کی علامت و پہچان کے طور پر استعمال ہونے لگااور عربی زبان میں‘‘سوفسطی’’اسی کے اخذ کیا گیا ہےاور پھر کلمہ‘‘سفسطہ’’بھی اسی سےمآخذ ہے۔

فلسفہ کی شکوفائی کا دور

(۱)سقراط جیسے عظیم دانشمند نے اِن سوفسٹوں کے مقابلے میں قیام کیا اُس نے خود کو ‘‘فیلا    سوفوس’’ (یعنی علم و حکمت کو دوست رکھنے والے)  کے ٹائیٹل سے متعارف کروایا،یہی کلمہ عربی زبان میں فیلسوف ترجمہ ہوا اور اسی کلمہ سے فلسفہ لیا گیا ہے۔

(۲)سقراط کے اس لقب کو انتخاب کرنے کی دو وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں۔

پہلی یہ کہ سقراط  حکمت و دانش کی وراثت یعنی تقوی و تواضع کی بنا پر ہمیشہ اپنی کم علمی اور جہالت کا معترف تھا ۔دوسرا اُس نے اس نام سے سوفسٹوں کو تعریض کرنا چاہی کہ  تم لوگ جو مادی و سیاسی مقاصد کی خاطر بحث و مناظرہ،تعلیم و تعلم میں مصروف ہو اپنے کو حکیم کہلانے کے سزاور و مستحق نہیں ہو جبکہ میں جو تم لوگوں کے تمام مغالطات کا جواب دیتا ہوں اور انہیں رد کرتا ہوں اس کے باوجود اپنے کو سوفسٹ و حکیم نہیں کہلواتا تو تم لوگ ان باطل نظریات کے ہوتے ہوئے کیسے خود کو سوفسٹ کہلاتے ہو۔

سقراط کے بعد اس کا شاگرد افلاطون نے اس کے افکار کو استحکام بخشا اور پھر افلاطون کے بعد اُس کے شاگرد ارسطو نےتفکر واستدلال کے قواعد کو علم منطق کی شکل میں تدوین کرکے اپنے اساتید کی افکار کو شکوفائی کے کمال تک پہنچایا۔

(۳)جب سے سقراط نے خود کو فیلسوف کہلوانا شروع کیا تو کلمہ فلسفہ(جو تمام حقیقی علوم جیسے فزکس،کیمسٹری،میڈیکل،نجوم،ریاضیات،الہٰیات پر مشتمل تھااور تمام اعتباری و قراردادی علوم اس کے باہر تھے، جیسے لغت،صرف ،نحو     وغیرہ) کو سفسطہ کے مقابلے اور ضد کے طور پر پہچانا جانے لگا۔

پس علم فلسفہ کے مجموعہ میں تمام حقیقی علوم شامل تھے جو دو قسموں(۱)علوم نظری(۲)علوم عملی میں تقسیم ہوتے تھے

فلسفہ نظری

طبیعیات(جس میں اجسام کے متعلق کلی ابحاث کی جاتی ہیں یعنی نجوم شناسی، معدن شناسی، نبات شناسی، اور حیوان شناسی)

ریاضیات(جس میں حساب،ھندسہ،ھیئت،موسیقی سے متعلق بحث کی جاتی ہے)۔

الہٰیات(جس میں وجود کے کلی احکام اور خدا شناسی سے متعلق بحث کی جاتی ہے)۔

فلسفہ عملی

اخلاق(جو شخص سے متعلق ہے)

تدبیر منزل(جو خاندان سے متعلق ہے)

سیاست(جو معاشرے و اجتماع سے متعلق ہے)

نوٹ:ابھی بھی دنیا کے کچھ معتبر کتب خانوں میں فزکس و کمیسٹری جیسے علوم کو فلسفہ کے شعبہ میں شمار کیا جاتا ہے۔

یونانی فلسفہ کا انجام

(۱)افلاطون و ارسطو کے بعد اُن کے شاگردوں نے اپنے اساتید کے بیانات کی جمع آوری و تشریح سے فلسفہ کے بازار کو گرم رکھا لیکن بہت جلد یونان میں فلسفہ کی رونق ماند پڑگئی اوراس کے خریدار کم ہوگئے لہٰذا اہل علم نے حوزہ اسکندریہ کی  طرف مہاجرت اختیار کرکے اسے اپنی تحقیقات کا مرکز بنا لیا جو میلاد حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد چار صدیوں تک پر رونق رہا لیکن جب روم کے بادشاہوں نے آئین  مسیحیت اختیار کیااور کلیساوں کے عقائد کو رسمیت بخشی اور ان کی ترویج کا حکم جاری کیا اور فکری و علمی مباحث کوآزادی رائی دے دی ،لیکن ۵۲۹ میلادی میں اس وقت کے بادشاہ‘‘جَوسٹِی نِین’’نے (جو شرقی روم کابادشاہ  تھا)حکم دیا کہ اسکندریہ و آتن کی یونیورسٹیوں کو بند کردیا جائے، اسوقت کے دانشمند اپنی  جان بچانے کے لیے وہاں سے فرار ہوکر دوسرے شہروں اور ملکوں میں جابسے۔

اسلامی کا طلوع

(۱)اسی اثناء میں یعنی میلاد حضرت مسیح علیہ السلام کی چھٹی صدی میں جزیرۃ العرب میں ولادت و مبعث پیامبر اسلام ہوئی جنہوں نے ہدایت الہٰی کے پیغام کو دنیا میں پہنچایا اور سب سے پہلے لوگوں کو تحصیل علم کا دستور دیا،ابتدائی آیات بھی علم و دانش سے مربوط تھیں۔(اقرَا بِاسمِ رَبِّکَ الّذِی خَلَقَ ۔ خَلَقَ الاِنسَانَ مِن عَلَقٍ ۔ اقرَا وَ رَبُّکَ الأَکرَمُ ۔ الَّذِی عَلَّمَ بِالقَلَمِ ۔ عَلَّمَ الاِنسَانَ مَا لَم یَعلَم)  اورروایات میں بھی‘‘من المہد الی الحد’’اور‘‘ولوبالصین’’اور‘‘ضالۃ المؤمن’’جیسی تعابیر کے ذریعے تحصیل علم کی تشویق دلائی گئی ہے۔

(۲)تھوڑے ہی عرصے میں مسلمانوں نے حضرات معصومین کی تشویق سے مختلف علوم کو سیکھا اور یونان،روم،ایران کے علمی ذخائر کا عربی میں ترجمہ ہوا اُن علوم کے مفیدمطالب کو اپنی تحقیقات سے مکمل کیا۔

(۳)سیاست دوسرا عامل ہے جو فرہنگ اسلامی کی رشد کا باعث بنا یعنی عباسی ظالم حکمرانوں نے خلافت کی مسند کو غصب کرنے کے بعد لوگوں کو ان مناسب کے حقیقی وارثوں سے دور کرنے کے لیے دانشمندوں کی ھمت افزائی شروع کردی تاکہ وہ ان دانشمندوں کی مدد سے حضرات علیہم السلام کے مقابلے میں اپنی کرسی و مسند کو محکم کرسکیں؛ان دانشمندوں کی تشویق کی  کہ وہ یونانی،رومی،ابرانی علوم سے حضرات  علیہم السلام کے مقابل دکان کھولیں۔اس طرح فلسفی افکار دوست،دشمن کی مدد سے اسلامی ماحول میں داخل ہوگئی۔اور مسلمانوں نے ان علوم میں اپنی تحقیقات شروع کردیں۔

(۴)علماءعلم کلام نے بھی ان جدید علوم کے مقابلے کے لیے اپنے اعتراضات،و تنقید کا سلسلہ شروع کردیا۔بعض   نقد میں افراط کی حدود کو پار کرگئے لیکن یہی اعتراضات و شبہات موجب بنتے رہے کہ اسلامی فلاسفر زیادہ محنت سے تحقیقات کریں اور اپنی خامیوں کو حد اقل تک پہنچائیں۔

اسلامی اعصار میں فلسفہ کی ترقی

(۱)اسلامی سرزمینوں کی وسعت،مختلف اقوام کا آئین روح بخش اسلام میں جذب ہونا،دنیا کے بہت سے علمی مراکز کا اسلام میں جذب ہونا اور دانشمندوں میں علوم و کتب کی ردّ و بدل،کتب کا  ہندی،فارسی،یونانی،لاتینی،سریانی،عبری وغیرہ جیسی زبانوں سے عربی میں ترجمہ جو مسلمانوں کی انٹرنیشل زبان بن چکی تھی،یہ سب عوامل فلسفہ اسلامی  کی نشوونما میں مفید واقع ہوا۔

(۲)ابتدائی مراحل میں مترجمین کا اصطلاحات کے ترجمہ پر عدم اتفاق۔شرقی و غربی فلسفی بنیادوں میں اختلاف، فلسفہ کی تحصیل و تحقیق میں مشکلات کا باعث بنا لیکن ابو نصر فارابی اورابن سینا جیسے ماہرین نے تمام فلسفی مکاتب کا مطالعہ اور اپنی خدادادی استعداد و توانائیوں کو بروئے کار لاتے ہوئے منظم فلسفی نظام کو متعارف کروایا جس میں افلاطونی،ارسطوئی افکار کے علاوہ نو افلاطونیوں اور مشرقی عرفا کے نظریات بھی شامل تھے۔یہ نظام جدید شرقی و غربی افکار کی نسبت متفاوت اور ان سے برتر تھا لیکن چونکہ اس میں زیادہ تر ارسطو کی افکار شامل تھیں اسی لیے اس کی نہج ارسوئی اور مشائی تھی۔

(۳)پھر یہ جدید فلسفی نظام ایک طرف تو غزالی،ابوالبرکات بغدادی،فخررازی جیسے دانشمندوں کی  ذرہ بین نگاہوں میں تنقید سے روبرو ہوا تو دوسری طرف سُہروردی نے حکماء ایران کے آثار کو افکار افلاطون،رواقیوں اور نو افلاطونیوں کے افکار سے منطبق کرتے ہوئے ایک جدید فلسفی مکتب‘‘مکتب اشراق’’کی بنیاد رکھی جس میں افلاطونی رنگت نمایاں تھی۔

(۴)کچھ صدیاں گذرنے کے بعد خواجہ نصیر الدین طوسی،محقق دوانی،سید صدرالدین دشتکی،شیخ بہائی،میرداماد جیسے فیلسوفان نے اپنے افکار سے فلسفۂ اسلامی کو نئی حیات بخشی۔پھر صدرالدین شیرازی کو فرصت ملی تو انہوں نے بھی اپنے نبوغ و ابتکار سے ایک جدید فلسفی نظام کو پیش کیا جس میں مشائی، اشراقی فلسفہ کو عرفانی مکاشفات سے خوبصورت علمی انداز میں ترکیب دے کر قیمتی اطلاعات کا اضافہ کیا اوراس جدید نظام کا نام ‘‘حکمت متعالیہ’’رکھا۔

درس کا نچوڑ

(۱)۔قدیمی ترین فلسفی افکار کو مذہبی عقائد کے درمیان تلاش کرنا چاہیے۔

(۲)۔فلسفہ کے تاریخ نویسوں نے،فلسفہ کی ابتداء کو حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت سے چھ صدیاں پہلے ذکر کیا ہے۔

(۳)۔سوفسٹم،یونانی دانشمندوں کا ایک ایسا گروہ ہے جوحقایق کو انسانی افکار کےتابع جانتے ہیں،در حقیقت یہ لوگ شکاکیت کے بانی ہیں۔

(۴)۔کلمہ سفسطہ مغالطہ کے معنی میں(سوفسٹ)سے اخذ کیا گیا ہے۔

(۵)۔کلمہ فلسفہ کی یونانی اصل(فیلسوف)ہے جسے سقراط نے سوفسٹوں کے مقابلے میں اپنے لیے استعمال کیا تھا۔

(۶)۔یونانی فلسفہ ،افلاطون اورارسطو کی کوششوں سے کمال کی بلندیوں تک پہنچالیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد بے رونق ہوگیا اور دانشمند حضرات اسکندریہ میں جمع ہوگئے۔

(۷)۔ظہورِِ اسلام کے ساتھ علم و حکمت کی شمع خاورمیانہ میں روشن ہوئی اورمسلمانوں نے دنیا کے علوم و فنون کو سیکھنے کے لیے کمر ہمت باندھ لی۔

(۸)۔خلفاء غاصب نے اپنی خلافت کورونق بخشنے کے لیےغیر مسلم دانشمندوں کی خدمات حاصل کیں۔

(۹)۔علم کلام کے ماہرین نے جہان اسلام کی حدود میں داخل ہونے والے علوم پر اعتراضات کرلے فلسفہ اسلامی کی ترقی کی راہیں ہموار کیں۔

(۱۰)۔عصر اسلامی میں پہلافلسفی مکتب فارابی کی محنتوں سے قائم ہوااور پھر ابن سینا کی کاوشوں سےباثمر ہوا۔

(۱۱)۔یہ فلسفی نظام جو ارسطوئی رنگت کا حامل تھا غزالی جیسے منتقدین کی تنقید اور دوسری طرف سہروردی جیسے حکماء کی کاوشوں سے ‘‘مکتب اشراق’’میں تبدیل ہوگیا۔

(۱۲)۔اسلامی عصر کا مہم ترین فلسفی مکتب صدرالمألھین شیرازی کی محنتوں سے معرض وجود میں آیاجو مشائی،اشراقی،الہٰی فلاسفہ اور عرفا کے بنیادی نظریات پر مشتمل تھا جسے‘‘حکمت متعالیہ’’کا نام دیا گیا۔

دوسرا درس

فلسفی تفکر کا سفر

(قرون وسطیٰ سے اٹھارویں میلادی صدی تک)

اسکولاسٹیک فلسفہ

یورپ میں مسیحیت کے رواج اور چرچوں کی قدرت بڑھنے پر روم کیبادشاہت نے علمی مراکز کو اپنے اختیار میں لے لیایہاں تک کہ چھٹی صدی میں اسکندریہ اور اتن کے مدارس اور یونیورسٹیوں کو بند کردیا گیا اس دورانیہ کو جو تقریباً ایک ہزار سال تک جاری رہا قرون وسطیٰ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔اس دورانیہ کی سب سے بڑی خصوصیت یہی چرچوں کا علمی مراکز  اور ان کے درسی شیڈول پر تسلط ہے۔

اس زمانے کی برجستہ شخصیات میں سے‘‘سَن اگُوستِین’’ہیں جنہوں نے کوشش کی کے مسیحی تفکرات و اعتقادات کو فلسفی مبانی  مخصوصاً افلاطون اور نو افلاطونیوں کی روش پر بیان کریں۔لہذااس کے بعدفلسفی مباحث کا کچھ حصہ مدارس کے درسی پروگرام میں شامل کیا گیا لیکن ارسطو کی افکار کو کم اہمیت دی جاتی تھی چونکہ افکار ارسطو کو عقائد مذہبی کے مخالف جانا جاتا تھااسی لیے انہیں پڑھنے  یا پڑھانے کی اجازت نہیں دی جاتی تھی۔پھر جب مسلمانوں نے اندلس پر قبضہ کیا اور اسلامی فرہنگ و تمدن غربی یورپ میں پہنچی تو  اسلامی ابن سینااورابن رشد جیسے اسلامی  فلاسفہ کی افکار و نظریات پر بحث و مباحثہ ہونا شروع ہوگیا ، اس وقت مسیحی دانشمند اِن  دو بزرگ دانشمندوں کی کتب کے ذریعے ارسطو کے نظریات سے باخبر ہوئے۔

چرچوں میں اس فلسفی تفکر کے مقابلے کی طاقت باقی نہ رہی تو بالآخر‘‘سن توماس آگوینی’’نے ارسطو کے فلسفی نظریات کو قبول کرلیا اور انہیں اپنے کتابوں میں منعکس کرنا شروع کردیا اس طرح فلسفہ ارسطو سے مخالفت رفتہ رفتہ کم ہوگئی اور بعض علمی مراکز میں وسیع پیمانے پر رائج ہوگئیں۔

بحر حال قرون وسطیٰ میںنہ صرف یہ کہ فلسفہ مغرب زمین میں کوئی ترقی نہ کرسکا بلکہ تنزولی کی طرف جانے لگا بالکل اسلامی دنیا کے برعکس جہان علوم و معارف شکوفائی اختیار کرتی گئی۔

یورپ میں فقط وہ مباحث جو عقائد کو مسیحی تحریف سے پاک ہوں فلسفہ اسکولاستیک(مدرسی)کے نام سے چرچوں سے وابستہ مدارس میں تدریس ہوتے تھے۔واضح سی بات ہے کہ اس طرح کافلسفہ مرگ و نابودی کےسوا اور کوئی سرنوشت نہیں رکھتا تھا۔

فلسفہاسکولاستیک میں منطق،الہیات،اخلاق،سیاست کے علاوہ طبعیات،فلکیات جو چرچوں کے نزدیک قابل قبول ہوں اوران کے ساتھ زبان،معانی و بیان کے قواعد کو بھی شامل کردیا گیا تھا،پس اس وقت فلسفہ ایک وسیع  مفہوم رکھتا تھا۔

رنسانس اور وسیع فکری تحول

رِینَائیسنس (کسی کلچر کو سیکھنا،کسی کلچر کو سیکھنے کے کام کی بحالی کرنا)

چودہویں صدی میلادی سےایک اجتماعی تحول کا راستہ ہموار ہواتو دوسری طرف برطانیہ اور فرانس میں‘‘نومینالیسم’’ یعنی انکار کلیات کا  رواج اوج پکڑ گیا۔ایسا تفکر جو فلسفے کی بنیادوں کو کمزوراور کھوکھلا کرنے میں مؤثر کردار ادا کرتا ہے۔اور دوسری طرف پیرس کی یونیورسٹی میں ارسطو کی طبیعیات تنازعات کا شکار ہونے لگی، ایک طرف فلسفے کی مسیحی عقائد سےعدم مطابقت یعنی عقل و دین کی عدم مطابقت کی چہمگوئیاں شروع ہو گئیں۔اور ایک جانب حکمرانوں کے چرچوں کے لیڈروں سے اختلافات ظاہر ہونے لگے،اور خود مذہبی سرکردگاں میں بھی اختلافات ابھرنے لگے جو‘‘پروتستانتیسم’’(پروٹسٹنٹیزم)کی پیدائش کا باعث بنے۔ایک جانب ھیومنسٹ کی طرف تمایل یعنی ماوراء طبیعت اورالہیت کو چھوڑتے ہوتے انسانی زندگی کے مسائل کو حل و فصل کرنے کا رواج بڑھنے لگا،بالآخرہ پندرھویں صدی کے وسط میں امپائر اف بیزانس کے سرنگوں ہونے کے بعد سیاسی،فلسفی،ادبی،مذہبی تحول تمام یورپ میں نمایاں ہوا اور پاپ کی مشینریز وادارہ جات پر ہر طرف سے اعتراضات  کی بوچھاڑ ہونے لگی۔

انہی قضایا  کے دوران اسکولاسٹیک فلسفہ جو بے رمق اور ناتوان ہوچکا تھا اپنی انتہائی سرنوشت تک پہنچ گیا۔

سولہویں صدی میں علوم طبیعی اور تجربی کی طرف رجحان شدت اختیار کرگیا اور‘‘کُپرنیک،کِپلر،گالیلہ،فلکیات بطلمیوس اور ارسطو کی طبیعات)جدید اکتشافات کے متزلزل ہوگئیں۔پاپ مشینریز عرصہ دراز سے دانشمندوں کو دینی عقائد(یعنی طبیعی اور کیھانی نظریات جنہیں انہوں نے کتاب مقدس کی تفسیر اور مذہبی عقائد کے عنوان سے مطرح کیا ہوا تھا)کی مخالفت کی بنا پر مقدمات میں گرفتار کردیا تھا بالآخرہ شکست کھا کر میدان چھوڑنے پر مجبور ہو گئی۔

کاٹولیک چرچوں کے سربراہوں کی بدرفتار اور تعصب کی وجہ سےلوگوں میں ان کے لیے اور مذہب سے لیےتنفر  پھیل گیا اور اس زمانے میں رائج اسکولاسٹیک فلسفہ کی سرنگونی کے بعد فکری بحران اور شکاکیت کی طرف رجحان بڑھنے لگا،ھیومنسٹ  اور آزادی خواہی کی طرف رجحان بڑھنے لگا۔

شکاکیت کا دوسرا مرحلہ

صدیوں سے چرچ بعض فلسفیوں کے افکار کو مذہبی عقائد کے عنوان سے ترویچ کرتے آئے تھے جو امور یقینی و مقدسات کی حیثیت اختیار کر چکے تھے جیسے ارسطو کا کیہانی نظریہ،بطلمیوسی وغیرہ جنہیں کُپرنیک نے باطل قرار دے دیا تو سب دانشمندوں کو جب ان کے بطلان کی حقیقت معلوم ہوگئی تواس کا برعکس نتیجہ یہ نکلا کہ تمام فکری ،فلسفی نظریات روانی بحران کا شکار ہو گئے اور اکثر دانشمندوں کے اذہان میں یہی فکررہتی تھی کہ کہیں ہمارے باقی نظریات بھی انہی نظریات کی طرح باطل نہ ہوں اور ہمیں کسی نہ کسی دن ان کے بطلان کا علم ہو جائے گااور پھر جدید نظریات بھی کسی دن باطل ہو جائیں گے۔اسی دوران‘‘مونٹونی’’نامی دانشمند کے واضح  طور پر علم و دانش کا منکر ہوگیا اور کہنے لگا کہ کیا معلوم کل کو نظریہ (کُپرنیک)بھی باطل نہ ہو جائے لہذا اس نے سوفسٹوں کے شبہات کو دوبارہ بیان کرنا شروع کردیا اور شکاکیت کا دفاع کرنے لگا۔

شکاکیت سےخطرہ

شک و تردید روانی آفت ہونے کے علاوہ معاشرے کے لیے بہت بڑےمادی و معنوی خطرے کا باعث بھی بنتی ہے۔شناخت کی اہمیت کے انکار کے بعد علوم و معارف کی ترقی رک جاتی ہے،اخلاقی اقدار کی انسانی زندگی میں اہمیت ختم ہوجاتی ہے۔دین اپنی عقلانی بیس کو کھو بیٹھتا ہے جس سے مذہبی عقائد کو بہت بڑا صدمہ پہنچتا ہے،جب لوگوں کے لوگوں میں شک کا سیلاب جاری ہوجائے تو ماوراء طبیعت سے متعلق عقائدسب سے زیادہ متأثر ہوں گے۔

اسی وجہ سے شکاکیت کا مقابلہ کرنا ہر دانشمند ،فیلسوف،مذہبی رہبر،سیاستمدار کا وظیفہ ہوتا ہے۔

سترہویں صدی میلادی میں رِینَائیسنس کی ان ویرانیوں کا جبران کرنے کے لیے مختلف اقدامات ہوئے ،چرچوں نے مسیحیت کی عقل سے وابستگی کو ختم کرتے ہوئے مذہبی عقائد کو دل و ایمان کے ذریعے تقویت کرنا شروع کردیا جبکہ فلاسفہ نے علم و دانش کے لیے مضبوط بنیادوں کو تلاش کرنا شروع کردیا جنہیں ہلانا آستان نہ ہو۔

جدید فلسفہ

دکارت جو فرانسوی فیلسوف تھے انہوں نے شکاکیت سے نجات اور فلسفہ کی دوبارہ حیات کے لیے مہمترین کوششیں کیں جس بنا پر انہیں فلسفہ جدید کا باپ کہا جاتا ہے۔انہوں  نے تأملات کے بعد فلسفی اندیشوں کو  مضبوط بنیادوں پر استوار کردیا۔اور وہ بنیاد اُن کے اس معروف جملہ میں خلاصہ ہوتی ہے۔

شک کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں ہوں،فکر کرتا ہوں تو اس کا مطلب ہے کہ میں ہوں،یعنی اگر ہر چیز میں شک گھس جائے تو کبھی بھی اپنے اندر شک نہیں ہوگاچونکہ شک و تردید شک کرنے والے کے بغیر بے معنی ہے۔لہذا اس نے کوشش کی کے تفکر کے لیے خاص قواعد کو ریاضی کے قواعد کی مانند بنانے اور پھر فلسفی مسائل کو ان کے میعار پر حل کرے۔

دکارت کے افکار اس زمانے میں دانشمندوں کے لیےسہارا بنے دوسرے دانشمندوں نے بھی کمک کی لیکن اس کے باوجود یہ جدید فلسفی نظام بھی مستحکم و متقن مبانی پر استوار نہ ہوسکا۔اور دوسری طرف اکثر دانشمند علوم تجربی کی طرف مائل ہوچکے تھے لہذا ماوراء طبیعت پر توجہ کم ہوچکی تھی لہذا یورپ میں قدرتمند فلسفی نظام تشکیل نہیں پاسکا۔

تجربہ کی اصلیت اور جدید شکاکیت

جب یورپ میں فلسفہ دوبارہ جنم لے رہا تھا تو دوسری طرف برطانیہ میںحس و تجربہ کی اصالت (فلسفہ آمپریسم)کے نام سے رشد کررہا تھا

اس حرکت کی ابتداء قرون وسطی کے اواخر میں(ویلیام اُ کامی جو برطانوی فیلسوف ہیں)سے شروع ہوتی ہےجو اصالت تعقل کے منکر تھے اور سولہویں صدی میں (فرانسیس بیکن)اور سترہویں صدی میں(ہابز)یہ دونوں بھی برطانوی تھے اور حس و تجربہ کی اصالت کے قائل تھے۔البتہوہ افراد جو فلاسفہ آمپریسٹ کے نام سے معروف ہیں وہ تین شخصیات(جان لاک،جارج بارکلی اور ڈیوڈ ہیوم)ہیں جو سترہویں صدی کے اواخر ایک صدی بعد تک مسائل شناخت کے بارے میں بحث و تحقیقات میں مشغول تھے انہوں نے دکارٹ کے نظریہ(فطری شناخت)پر اعتراض کرتے ہوئے حسی اور تجربی شناخت کو تمام شناختوں کو سرچشمے کے طور پر متعارف کروایا۔

ان تینوں شخصیات میں جان لاک معتدل تر اور عقل گرایان کے زیادہ نزدیک تھے جبکہ جارج بارکلی (نومینالیسٹ) کے طرفدار تھےاور ان کے دوسرے بھی نظریات تھے جو اصالت حس و تجربہ سے زیادہ موافق نہ تھے لیکن ھیوم بطور کامل اصالت حس و تجربہ کے معتقد تھےاور ماوراء طبیعت میں شک  کرتے تھے اس طرح شکاکیت کا تیسرا مرحلہ مغرب زمین کے فلسفہ کی تاریخ میں شروع ہوگیا۔

کانٹ کا تنقیدی فلسفہ

ھیوم کے افکار کانٹ کی فلسفی بنیادوں کو تشکیل دیتے تھے۔خود کانٹ اس بارے میں کہتا ہے کہ ‘‘ھیوم نے مجھے  جزم گرائی خواب سے بیدار کیا’’خصوصاًھیوم کی اصل علیت کے بارے میں توضیح کہ ‘‘علت و معلول کے درمیان رابطے کی ضرورت کو تجربہ سے اثبات نہیں کیا جاسکتا’’کانٹ کو بہت پسند تھی۔

کانٹ نے سالھاسال فلسفی مسائل میں غوروفکر کی متعدد کتب و رسالے تحریر کیےجو مکاتب مشابہ کی نسبت پائیدار و مقبول تر واقع ہوئے لیکن وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ عقل نظری مسائل میتافیزکس کو حل کرنے کی توانائی نہیں رکھتی۔

اس نے تصریح کی کے،وجود خدا،روح کی جاودانگی،جیسے مسائل کو برہان عقلی کے ذریعہ ثابت نہیں کیا جاسکتالیکن انہیں قبول کرنااخلاقی نظام کو قبول کرنے کے لیے لازم ہے۔یہ اخلاق ہی ہے جو ہمیںمبداء و معاد پر ایمان لانے کی طرف وادار کرتا ہے۔اسی بنا پر کانٹ کو اخلاقی اقدار کو زندہ کرنے والے کے عنوان سے متعارف کروانا چاہیے لیکن اس کے باوجود اسے فلسفہ متافیزیک کو ویران کرنے والوں میں سے شمار کیا جاتا ہے۔

درس کانچوڑ

(۱)۔قرون وسطی میں چرچوں سے وابستہ مدارس میں پڑھائے جانے والے علوم کے مجموعے جن میں ادبیات اور زبان کے قواعد بھی شامل ہیں ان سب کو فلسفہ اسکولاسٹیک کا نام دیا جاتا ہے۔

(۲)۔ان مدرسوں میں عقلی مسائل کی تعلیم عقائد کی توجیہ کی خاطر تھی جنہیں چرچ مسیحیت کے عقائد کے نام پر متعارف کروانا تھا اگرچہ وہ تحریف شدہ  اور حضرت مسیح علیہ السلام  کے عقائد کے بالکل برعکس تھے۔

(۳)۔فلسفی مباحث کا انتخاب چرچوں کے سربراہوں کے سلیقے پر ہوتا تھااسی لیے غالباً افلاطون اور نو افلاطونیوں کے نظریات تائید و تدریس ہوتے تھے،اس دورے کے اواخر میں ارسطو کے نظریات کوکم و بیش معتبر جانا جانے لگا اور انکی تدریس ہونے لگی۔

(۴)۔چودہویں صدی میلادی سے یورپ میں دوسرے عصر کی ابتداء ہوئی جو فرہنگی تحول ،اقدار اور بنیادوں میں تحول کا دور تھااسی جہت سے اُسے رُنسانس(رِینَائیسنس) یا جدید تولد کا نام دیا گیا ہے۔

(۵)۔اس دور کا نامطلوب عنصر،غیب پر ایمان کا کمزور ہونا،عقلی اور متافیزیک (ماوراء طبیعت) مباحث سے تنفرہے جیسے دوسرے الفاظ میں دین اور فلسفہ کے انحطاط سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔

(۶)۔فکری و عقیدتی بنیادوں کے ماند پڑنےسے،دینی،فلسفی بحرانوں نے جنم لیا جس سے شکاکیت خطرناک حد تک بڑھ گئی۔

(۷)۔اس خطرے سے مقابلے کے لیے چرچوں نے دین کو عقل  و علم کی وابستگیوں سے دور کرتے ہوئے دال کے راستے پر تاکید کے،جبکہ فلسفہ نے اپنے لیے مضبوط و مستحکم بیس کی جستجو شروع کردی۔

(۸)۔سترہویں صدی میلادی میں ڈکارٹ نے فلسفہ کی بنیادوں کی تعمیر نو شروع کردی اور شک کو سب سے پہلی یقینی واقعیت کے طور پر متعارف کروایاجس کا لازمہ شک کرنے والے کا وجود ہے اور پھر اسے کو دوسری واقعیات کے اثبات کے  زمینہ ساز قرار دیا۔

(۹)۔اسی صدی کے اواخر میں برطانیہ میں مکتب تجربہ نے رواج پکڑااور ایک صدی تک اپنے تکامل کا راستہ طے کیا اور اٹھارویں صدی کے اواخر میں اپنی انتہائی منزل یعنی شکاکیت پر منتہی ہوگیا۔

(۱۰)۔اٹھارویں صدی کے دورے حصے میں جرمنی میں ایک جدید فلسفی مکتب نے جنم لیا جس کا بانی کانٹ تھاجس نے ریاضی اور طبیعی کو قطعی اور علم کے طور پرمتعارف کروایا جبکہ مسائل متافیزیک(ماوراء طبیعت)کو غیر تجربی وناقابل حل جانا۔

 

 

 


source : http://rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام حسن ؑ کی شخصیت
ام ابیھا کے معنی میں مختصر وضاحت
حضرت آیت اللہ بہجت (رح) کا یادنامہ شائع ہوا
مکروفریب
تقدیرات الہی ، سچّے اعتقاد اور صحیح خود باوری کا ...
امام کی شناخت کا فلسفہ(پھلا حصہ)
حضرت عباس علیہ السلام کا شہادت نامہ
ولادة أمير المؤمنين علي ( عليه السلام )
ناصرہ ولایت حضرت زھراء سلام اللہ علیہا
حدیث غدیر

 
user comment