اردو
Thursday 28th of March 2024
0
نفر 0

اسلام کی انسان دوستی . عبادت کاحْسن خدمتِ خلق

انسانوں  کی بے لوث خدمت دلوں کو فتح کرنے کا موثر ترین ذریعہ  ہی نہیں ، ایک مقدس فریضہ بھی ہے جس کی ادائیگی کو اسلام نے اپنے ماننے والوں  پر لازم قرار دیا ہے۔ تالیف قلب کے جذبے سے جو پروگرام روبہ عمل لا ئے جا تے ہیں ،ان میں بسااوقات خلل اور اضطراب واقع ہو جا تا ہے کیونکہ مخاطب افراد اور قوموں  کی ہٹ دھرمی ، ضد اور بے جا خود سری کی بدولت خدمت کر نے والے مایوس اور شکستہ خاطر ہو جا تے ہیں ، ان کا حوصلہ جواب دینے لگتا ہے اور ان کی ہمتیں  پست ہو نے لگتی ہے۔ خد مت کے پیچھے اگر رضائے الٰہی کے حصول کا متحرک کازکار فرما ہو اور خدمت کو عین عبادت سمجھ کر اجر ا?خرت پر انسان کی نگاہ ہو تو رفاہی کاموں  میں پائیداری اور ثبات وتسلسل کی ضمانت ہو تی ہے۔ اسی لئے قرا?ن کریم میں عبادت کے سا تھ ہی خیر کا تذکرہ مو جو د ہے۔

''اے ایمان والو !رکوع اور سجد ہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کر تے رہو اور بھلا ئی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پا سکو ''۔

اس ا?یت میں پہلے رکوع اور سجود کا حکم ہوا جو دراصل نماز کی تعبیر ہے۔مسلمانوں  کو حکم دیا جا رہا ہے کہ وہ پنج وقتہ نماز وں  کا اہتمام کریں  اور نماز کے باب میں  اپنے اندر شغف ، انہماک اور خصوصی دلچسپی پیداکریں ۔ اس کے بعد کہا گیا کہ عبادت کرتے رہو۔ یہ خاص کے بعد عام کے ذکر کا ادبی اسلوب ہے۔ اس عبادت میں  اطاعت بھی شامل ہے یعنی زند گی کے سارے گوشوں  میں خدا ہی کی بندگی اور اسی کی فرماں برداری کرو۔ اس کے بعد ارشاد ہوا کہ بھلائی کے کا م کرو۔ یہ عام بھلائیوں  اور رفاہی خدمات کا تذکرہ ہے جو فضائل ومکارم میں داخل ہیں ۔ حضرت عبداللہ بن عباس ? سے روایت ہے کہ اس ا?یت میں خیر سے مراد صلہ? رحمی اور اعلیٰ اخلاق ہے۔ ا?یت میں رکوع وسجود ، عبادات اور فعل الخیرات کے تینوں  فرائض میں منطقی ترتیب ہے۔ رکوع و سجود یعنی نماز دین کا ستون ہے۔اسی پر دین کی پوری عمارت استوار ہو تی ہے۔ اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ''نماز دین کا ستون ہے ، جس نے اسے قائم کیا اس نے دین کو قائم کیا، اور جس نے اسے منہدم کیا، اس نے دین کو منہدم کیا ''۔ یہ حقیقت پوری طرح واضح رہے کہ دین نماز میں محدود نہیں ہے۔ زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ کی فرماں  برداری مطلوب ہے۔ بانی? تبلیغی جماعت مولانا محمد الیاس ( ٥٨٨١۔٤٤٩١ئ )نے ایک باراپنے عزیز مولوی ظہیرالحسن ایم اے علیگ سے فرمایا 'ظہیر الحسن !میرامدعا کوئی پاتا نہیں ۔ لو گ سمجھتے ہیں  کہ یہ تحریکِ صلوٰ? ہے۔ میں قسم سے کہتا ہوں  کہ ہر گز تحریک صلوٰ? نہیں ہے''۔ (مولانا سیدابوالحسن علی ندوی? ،مولانا الیاس ? اوران کی دینی دعوت ، لکھنو? ص ٦٢٢) ایک صحبت میں ا?پ نے فرمایا :

''ہماری اس تحریک کا اصل مقصد ہے مسلمانوں  کو جمیع ماجا ئ  بہہ? اللنبی صلی اللہ علیہ وسلم سکھانا (یعنی اسلام کے پورے علمی و عملی نظام سے امت مسلمہ کو وابستہ کرنا ) یہ تو ہے ہمارا مقصد ، رہی قافلوں  کی چلت پھرت اور تبلیغی گشت ، سو یہ سعی مقصد کے لئے ابتدائی ذریعہ ہے اور کلمہ و نماز کی تعلیم و تلقین گویا ہمارے نصاب کی الف، ب ، ت، ہے ''۔

(مولانا محمد منظور نعمانی ، ملفوظات حضرت مولانا الیاس? ، لکھنو? ص: ١٢، قسط نمبر ٣)

اپنے ایک دوست کو ،جو مسلمان اہل حرفت وصنعت کی دینی ترقی کے خواہشمند تھے ، سمجھا تے ہو ئے مولا نا محمد الیاس ? نے صاف صاف تحریر فرمایا کہ ہم نظام اسلام کے ذریعے صنعت و حرفت کی اصلاح بھی چاہتے ہے ،فرمایا :

''اس بند ہ? نا چیز کے اند ر وہ تبلیغ جس کے لئے ا?پ کو بلایا تھا اور خود بھی کو شاں  ہے ، اس کا منشا ئ  دنیا کے مسلمانوں  میں صنعت و حرفت ، و زراعت و تجارت کو شریعت کے ماتحت اور شریعت کے مطابق کرنا ہے۔ تبلیغ کی ابجد اور الف ، ب ،ت عبادات سے ہیں  اور عبادات کے کمال کے بغیر ہر گز معاشرت اور معالا ت تک اسلامی امور کی پابندی نہیں پہنچ سکتی۔سو مخلصین کی صحیح اسکیم یہ ہو نی چاہیے کہ تبلیغ کی ابجد الف ، ب ، ت یعنی عبادات کو دنیا میں پھیلانے کی اسکیم شروع کر کے اس کے منشا ئ  پر پہنچانے میں لگ جا ئیں ۔ معاملات و معاشرت اور باہمی اخلاقی اصلاح و درستی کے ذریعہ سیاست نامہ تک رسائی ہو گی۔ اس کے سوا کسی جزئیات میں پڑھ جا نا اپنے سرمایہ ?درد کو کسی شیطان کے حوالے کر دینے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے ''۔ (مولانا محمد الیاس ? او ر ان کی دینی دعوت۔ ص ٩٩٢۔٠٠٣)

دین کے اس جامع تصور کو سورہ الحج ا?یت ٧٧میں رکوع و سجود کے بعد عبادت کا حکم دیا گیا تاکہ کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہوکہ رکوع و سجود اور نماز کی اقامت میں پورادین محصور ہو گیا بلکہ یہ صراحت کی گئی کہ زندگی کے تما م معاملا ت میں اللہ کی اطاعت اور اس کی مخلصانہ پیروی مطلوب ہے۔ اس کی مزید وضاحت ا?یت کے اگلے حکم ''وافعلوالخیر''سے ہو گی۔ فعل الخیرات کا اصل تعلق بندگان خدا کے حقوق کی ادائیگی سے ہے۔ان سے مرحمت و مواسات کا سلوک کرنے ، ان کی خوشی غمی میں بھر پور شرکت کرنے اور مظلومین و محرومین کی امداد واعانت کرنے کا فریضہ حقوق العبادات سے براہ راست متحرک ہے۔ سور? انبیائ  میں قرا?ن نے اس جا مع تصور کو اور زیادہ خوبصورتی کے سا تھ بیان کیا ہے۔ حضرات انبیائ  کرام ابرا ہیم ، لوط ، اسحٰق، یعقوب علیہم السلام کا تذکرہ کرنے کے بعد فرما یا ''اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا جو ہماری ہدایت کے مطابق لوگوں  کی رہنمائی کر تے تھے ،اور ہم نے ان کو بھلائی کے کام ، نما ز کے اہتما م اور زکوٰ? کے ادا کر نے کی ہدا یت کی اور وہ ہماری ہی بندگی کرنے والے تھے ''۔ یہاں  قرآن نے فعل الخیرات کا پہلے تذکرہ کیا جس کا مطلب ہے کہ بندگا ن خدا سے مواسات کی اہمیت اقامت صلوٰ? سے کم نہیں ہے۔ نبیوں  کی صفت بتائی گئی کہ وہ عابد تھے اور ان کی عبادت نماز میں محدود نہیں تھی بلکہ زکوٰ?کی ادائیگی کا وہ اہتمام کرتے تھے اور خیر کے تمام کاموں  میں بھر پور دلچسپی لیتے تھے۔ رسول عربی ? کی زندگی کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ماہ ذی قعدہ میں  عمر کے سولہویں  سال میں حلف الفضول معاہدے میں آپ ?کی شرکت دنیا بھر کے مظلوموں  اور محروموں  کے لئے پیام امید اور مسلمانوں کے لیے پیام انقلاب ہے۔

حلف الفضول کی مثال:۔

قریش کے چند قبائل بنو ہاشم ، بنواسد بن عبد العزیٰ ، بنو زہرہ بن کلاب اور بنو تمیم بن مرّہ کے چند اشراف اور نیک دل انسان عبد اللہ بن جدعان تیمی کے مکان میں جمع ہو ئے اور ا?پس میں عہدوپیماں  کیا کہ مکہّ میں جو بھی مظلوم نظرا?ئے گا  خواہ وہ مکے کا باشندہ ہو یا باہر کا ، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے اور اس کا حق اسے واپس دلائیں گے۔ اس اجتماع میں  رسول اکرم ? بھی تشریف فرما تھے۔ ا? پ کو اس معاہد ہ کے انعقاد پر اتنی خوشی تھی کہ نبوت سے سرفراز ہونے کے بعد بھی ا?پ فرمایا کرتے تھے ''میں عبداللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا کہ اگر مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی دئے جا ئیں تو وہ پسند نہ ہوں  گے اور اگر دوراسلام میں اس طرح کے عہد وپیمان میں شرکت کی دعوت د ی جا ئے تو میں لبیک کہوں گا''(ابن ہشام ،السیر? النبویہ، مصر ٥٧٣١ھ، ج اول ، ص ٣٣١۔ ٥٣١)

اس معاہدے کی روح جاہلی عصبیت اور ظلمِ صریح کے خلاف اعلان بغاوت تھی۔ معاہدے کی وجہ یہ بتائی جا تی ہے کہ زبید کا ایک ا?دمی تجارتی سامان لے کر مکہ ا?یا اورعاث بن واعل نے ا س کا سامان خریدا مگر قیمت ادا نہ کی۔ اس نے حلیف قبائل عبدالدار ، مخزوم ، جمع ، سہم اور عدی سے فریاد کی مگر اس کی مظلومیت پر کسی نے توجہ نہ دی۔ اس نے کوہ ابوقْبیث پر چڑھ کر بلند ا?واز سے چند مظلومانہ اشعار پڑھے ،اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھو پ کی۔ لو گوں  کی غیرت کو للکارا اور ا?خر میں چند قبائل جمع ہو ئے اور انہوں نے حلف الفضول کا معاہد ہ کیا۔پھر عاص بن وائل سے اس مظلوم کا حق دلایا۔

مظلوموں کی نبوی? اعانت :۔

نبوت سے سرفراز ہو نے کے بعد مکہ میں کئی ایسے واقعات پیش ا?ئے اور رسول اکرم ? نے اپنے اخلاقی عظمت اور اثرپذیری سے کام لے کر مظلوم کی اعانت کی اور ظالم سے اس کا حق واپس دلایا۔علامہ بلا زری(انصاب الاشراف، جلد اول  ٩٢١۔٨٢١)کابیان ہے کہ اراش کا ایک شخص کچھ اونٹ لے کر مکہ ا?یا۔ ابوجہل نے اس کے اونٹ خرید لئے اور جب اس نے قیمت طلب کی تو ٹال مٹول کرنے لگا۔ اراشی نے تنگ ا?کر ایک روز حرم کعبہ میں قریش کے سرداروں  کو جاپکڑااور مجمع عام میں فریاد شروع کر د ی۔ دوسری طرف حرم کے ایک گوشہ میں نبی? تشریف فرماتھے۔ سرداران قریش نے اس شخص سے کہا ''ہم کچھ نہیں کرسکتے ، دیکھو ، وہ صاحب جو اس کونے میں بیٹھے ہیں  ان سے جا کر کہو ، وہ تم کو تمہاری قیمت دلادیں گے''۔ اراشی نبی کریم ? کی طرف چلا،قریش کے سرداروں  نے ا?پس میں کہا '' ا?ج لطف ا?ئے گا''۔ اراشی نے جاکر رسول اللہ ? سے اپنی شکایت بیان کی۔ ا?پ اسی وقت اٹھ کھڑے ہو ئے اور اسے ساتھ لے کر ابوجہل کے مکان کی طرف روانہ ہو گئے۔ سرداروں نے پیچھے ایک ا?دمی لگا دیا کہ جو کچھ گزرے ا س کی خبر لاکر دے۔ نبی? ابوجہل کے دروازے پر پہنچے اور کنڈی کھٹکھٹائی ، اس نے پوچھا''کون''؟ا?پ ? نے جواب دیا ''محمد''وہ حیران ہو کر باہر نکل ا?یا۔ ا?پ? نے اس سے کہا ''اس شخص کا حق ادا کردو''۔ اس نے جواب میں کوئی چوں وچراں  نہ کی ، سیدھا اندر گیا اور اس کے اونٹوں  کی قیمت لا کر اس کے ہاتھ میں دے دی۔ قریش کا مخبر یہ حال دیکھ کرحرم کی طرف دوڑا اور سرداروں  کو سارا ماجرہ سنایا اور کہنے لگا واللہ ا?ج وہ عجیب معاملہ دیکھا جو کبھی نہ دیکھا تھا۔ حکم بن ہشا م (ابوجہل) جب نکلا تو محمد صلعم کو دیکھتے ہی اْس کا رنگ فق ہو گیااور جب محمدصلعم نے اس سے کہا کہ اس کا حق ادا کردو تو یہ معلوم ہو تا تھا کہ جیسے اس کے جسم میں جان ہی نہیں ہے۔ سید ابو الاعلیٰ مودودی ? نے اپنی معروف تصنیف سیرت سرورعالم جلد دوم (لاہور ، دسمبر ٠٨٩١ئ ؛ص ٧٠٥۔ ٠١٥)میں اس طرح کے دواور دلچسپ واقعات نقل کئے ہیں جبکہ اللہ کے رسول اللہ صلعم نے ابوجہل سے ایک یتیم بچے کا حق دلایا اور بنی زبید کے ایک ا?دمی کی مدد کی۔ ا?خر الذکر ایک واقع میں ابوجہل نے زبیدکے تین اونٹ خریدنے کی خواہش ظاہر کی تھی اوران کی قیمت بہت کم لگائی تھی، اب اس کے مقابلہ میں کوئی شخص زیادہ قیمت لگانے کی ہمت نہ کرسکتا تھا۔ فریاد سننے کے بعد ا?پ صلعم نے مناسب قیمت پر اس کے تینوں  اونٹ خریدے اور ابوجہل کو ڈانٹ پلائی ''خبردار جو تم نے پھر کسی کے سا تھ ایسی حرکت کی جو اس غریب بدو کے سا تھ کی ہے ، ورنہ میں بْری طرح پیش ا?و?ں گا۔ وہ کہنے لگا ا?ئندہ میں کبھی ایسا نہ کروں گا ، اس پر امیہ بن خلف اور دوسرے مشرکین ،جو وہاں  موجود تھے ،ابوجہل کو شرم دلانے لگے کہ تم نے محمد صلعم کے سامنے ایسی کمزوری دکھائی کہ شبہ ہو تاہے شاید تم نے ان کی پیروی اختیار کرنے والے ہو ، اس نے کہا بخدا میں ان کی کبھی پیروی نہ کروں گا،مگر میں نے دیکھا کہ ان کے دائیں اوربائیں کچھ نیزہ بردار کھڑے ہیں  اور میں ڈراکہ میں نے محمدصلعم کے حکم کی ذرا سرتابی کی تو وہ مجھ پر ٹوٹ پڑیں گے۔

خدمت اور عبادت کے باہمی لزوم کی ایک خوبصورت تصویر میں نے بارہمولہ کشمیر میں دیکھی۔ ادارہ فلاح الدارین کی دعوت پر ٢١۔٥١جون ٠١٠٢ئ  مجھے وہاں  قیام کرنے اور ان کی سرگرمیوں  کو براہ راست دیکھنے کا موقعہ ملا۔ یہ ایک رجسٹرڈ سوسائٹی ہے جو پچھلے دس سالوں سے بلاتفریق مذہب وملت ، دین کی دعوت اور اسلام کی خدمت کررہی ہے، ہر ماہ تقریباً ٥٥ درس قرا?ن کے حلقے مختلف مساجد میں عوا م الناس کی دینی واصلاحی تربیت کے لئے چلاتی ہے۔ ہسپتال میں مریضوں کی عیادت ، مریضوں  میں دوائیاں تقسیم کرنا ، خون کے عطیہ کے کیمپوں کا اہتمام کرنا، نا مساعدحالات میں راشن اور دوسری ضروریات تقسیم کرنا، سردیوں میں کمبل اور لحافوں کی تقسیم ، صبائی اور مسائی اسکولوں کی تنظیم تاکہ بچے اور بچیاں  دینیات کی تعلیم حاصل کرسکیں  ، تعلیم بالغان کے مراکز کا اہتما م ، نوجوانوں میں منشیات اور دوسرے جرائم کی روک تھام ، غیر مسلم ا?بادی کے تعاون سے سماجی برائیوں کے مقاطع کی مہم ان کی نمایاں خدمات ہے ، معلوم ہواکہ ٠٥٢گھرانوں کی مستقل کفالت اس کے ذمہ ہے ، ان میں ہندو ، مسلم ، سکھ وغیرہ گھرانے شامل ہیں ۔ ٢٠٠٩۔٢٠١٠  میں ان کا بجٹ ٥٣لاکھ روپے تھا، امدادباہمی اور رفاعی خدمات کے لئے ان نوجوانوں نے شعبہ المعاونین قائم کررکھی ہے۔ عبادت اور خدمت کا کام کرنے والے یہ سب نو خیز عمر کے ہیں ۔ تعلیم کے ساتھ صالحت ان کی نمایاں صفت ہے۔کرنے کاکام یہی ہے۔ بے لوث خدمت دلوں کو موہ لیتی ہے اور مخالفتوں کے ہجوم میں سے اپنے راستے نکال لیتی ہے۔ مسلمان بحیثیت امت اس خدمت کو اپنا شعار بنالیں تو انہیں فاتح زمانہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا مگر خدمت اور عبادت کو مشن بنانا آسان نہیں ہے۔ بڑے جوکھوں کا کام ہے ،اس میں نہ سیاست کی چمک دھمک ہے نہ جلسہ جلوس کے طنطنے۔ دنیاوی اقتدار کی کشش ہے نہ انّا کی تسکین کے سامان۔ بس خاموش خدمت اور اجر ا?خرت کی امید ، یہی توشہ ہے اور یہی منزل بھی۔ مگر کامیابی کا راستہ یہی ہے۔ مولانامجیب الرحمن کی بہترین تصنیف ہے ''خدمت عبادت ہے ''مولانا سید جلال الدین عمری نے ''خدمت خلق اور اسلام ''میں قران وحدیث کے حوالے سے اسی تصویر کو پیش کیا ہے۔  (یو این این)

(فاضل مقالہ نگار ممتاز اسلامی اسکالر اور عالمی تحریکات اسلامی پرخصوصی علمی دسترس رکھتے ہیں ۔ ان کی تحریریں  تدبر و تفکر، تجزیہ و عصریت اور اصلاح و احیائ  کی عکاسی کرتی ہیں ۔پیس ٹی وی اْردو پر موصوف کے فکرانگیز لیکچرہفتہ وار ٹیلی کاسٹ ہوتے ہیں )


source : http://www.shianet.in
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اہم شیعہ تفاسیر کا تعارف
اردو زبان میں مجلہ ’’نوائے علم‘‘ کا نیا شمارہ ...
آٹھ شوال اہل بیت(ع) کی مصیبت اور تاریخ اسلام کا ...
انسان، صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں
نجف اشرف
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
انقلاب حسینی کے اثرات وبرکات
اذان ومؤذن کی فضیلت
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
نیکی اور بدی کی تعریف

 
user comment