اردو
Friday 19th of April 2024
0
نفر 0

مسلمان اور سائنس

 

مسلمانوں کا شاندار ماضی ،روشن مستقبل کی دلیل ہے ۔ مسلمانوں کی ذہنی بیداری ہی سیاسی بیداری ہے اور جب سیاسی بیداری پیدا ہوجاتی ہے تو ذہنی بیداری اس کا لازمی نتیجہ ہے۔ ایک زمانہ تھا مسلمان ایک اللہ کی عبادت کرتے تھے ، ذوق عبادت اور عشق الٰہی کو وہ سرمایہ حیات سمجھتے تھے وہ اللہ کو یاد کرتے تھے تو وہ بھی ان کو فراموش نہ کرتا تھا ۔ ان میں جذبہ عمل تھا تو اللہ نے ان کو زمین کی وراثت سونپ دی تھی اور ہر نعمت سے نوازا تھا، وہ دُنیا کے جس کسی حصہ پر قدم رکھتے ،کامیابی ان کے پاﺅں چومتی ، روحانی ‘اخلاقی ‘سیاسی ‘ تمدنی ‘ثقافتی ‘معاشرتی میدان میں انہوں نے وہ کمال حاصل کیا تھا کہ اُس وقت کی دنیا انگشت بدندان رہ گئی اور اُن کو لوگ ساحر کے نام سے پکارنے لگے تھے ۔ دینی علوم کے علاوہ علم طب، فلسفہ ، ریاضیات ، فلکیات ، فن تعمیر ، صنعت،حرفت ، دستکاری ، خلافت ، سیاحت، جغرافیہ ، انجینئرنگ ، فنون لطیفہ ، علم طبیعات ، کلچر وغیرہ میں دنیا نے اُن کو مسلمہ امام مانا تھا ۔

دورِ جدید میں سائنس کو جو اہمیت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن تاریخ عالم شاہد ہے کہ وہ دیگر علوم کے ساتھ جدید علم سائنس کی بنیاد علماء اسلام کے مقدس ہاتھوں نے رکھی ہے اور آج یورپ اور دنیا کے بڑے بڑے ممالک سائنس کے میدان میں جو سرگرمیاں دکھا رہے ہیں ان کی نشاندہی مسلمانوں نے آٹھ سو برس پہلے کی تھی بلکہ بعض ایجادات ایسی بھی ہیں جن کے بنانے سے اس وقت بھی اہل دنیا عاجز ہیں ۔مسلمانوں نے اپنے عروج کے زمانے میں جو حیرت انگیز علمی ومادّی ترقیاں اور سائنسی ایجادات دنیا کے سامنے رکھیں وہ اس بات پر پورے شہادت ہے اور ان کے کارناموں کا بین ثبوت ہے جس کا اعتراف نہ صرف یورپی مورخین نے کیا بلکہ دیگر ممالک کے لوگوں نے بھی کیا ہے چنانچہ کمیونسٹ روس 10نومبر 1957ءکو ماسکو ریڈیو کے ایک نشریہ سے بھی اس کا انکشاف کیا کہ روس مصنوعی سیاروں اور دور مار راکٹوں کے نظریہ میں مسلمانوں سائنسدانوں  کا رہین منت ہے ۔

اسلا م اور سائنس میں عدم مغایرت

اِسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ دینِ فطرت بھی ہے جو اُن تمام اَحوال و تغیرات پر نظر رکھتا ہے جن کا تعلق اِنسان اور کائنات کے باطنی اور خارجی وجود کے ظہور سے ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اسلام نے یونانی فلسفے کے گرداب میں بھٹکنے والی اِنسانیت کو نورِ علم سے منور کرتے ہوئے جدید سائنس کی بنیادیں فراہم کیں۔ قرآن مجید کا بنیادی موضوع "اِنسان" ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالی کے عطا کردہ شعور اور قوت مشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہو سکیں۔                                                                                             قرآنِ مجید نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اَوصاف ذِکر کئے ہیں اُن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر، علمِ تخلیقیات (Cosmology) کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔

قرآ ن حکیم نے آئیڈیل مسلمان کے اَوصاف بیان کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:إِنَّ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ وَ اختِلَافِ الَّیلِ وَ النَّھَارِ لَاٰیَاتٍ لِّأُولِی الأَلبَابِ ۔ الَّذِینَ یَذکُرُونَ اللہَ قِیَامًا وَّ قُعُودًا وَّ عَلٰی جُنُوبِھِم وَ یَتَفَکَّرُونَ فِی خَلقِ السَّمٰوٰتِ وَ الأَرضِ رَبَّنَا مَا خَلَقتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔

(آل عمران، 3:190.191)

بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردِش میں عقلِ سلیم والوں کیلئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںO یہ وہ لوگ ہیں جو (سراپا نیاز بن کر) کھڑے اور (سراپا ادب بن کر) بیٹھے اور (ہجر میں تڑپتے ہوئے) اپنی کروٹوں پر (بھی) اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی تخلیق (میں کارفرما اُس کی عظمت اور حسن کے جلوؤں) میں فکر کرتے رہتے ہیں۔ (پھر اُس کی معرفت سے لذّت آشنا ہوکر پکار اُٹھتے ہیں) اے ہمارے رب! تو نے یہ (سب کچھ) بے حکمت اور بے تدبیر نہیں بنایا۔ تو (سب کوتاہیوں اور مجبوریوں سے) پاک ہے، ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچالے۔

اِن آیاتِ طیبات میں بندۂ مومن کی جو شرائط پیش کی گئی ہیں اُن میں جہاں کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے زِندگی کے ہر حال میں اپنے مولا کی یاد اور اُس کے حضور حاضری کے تصوّر کو جاگزیں کرنا مطلوب ہے، وہاں اِس برابر کی دُوسری شرط یہ رکھی گئی ہے کہ بندۂ مومن آسمانوں اور زمین کی خِلقت کے باب میں غور و فکر کرے اور یہ جاننے میں کوشاں ہو کہ اِس وُسعتِ اَفلاک کا نظام کن اُصول و ضوابط کے تحت کارفرما ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وُقعتی کا اَندازہ کرے۔ جب وہ اِس وسیع و عریض کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کرلے گا تو خود ہی پکار اُٹھے گا:"اے میرے ربّ! تو ہی میرا مولا ہے اور تو بے عیب ہے۔ حق یہی ہے کہ اِس وُسعتِ کائنات کو تیری ہی قوت وُجود بخشے ہوئے ہے ۔ اور تو نے یہ عالم بے تدبیر نہیں بنایا"۔

مذکورہ بالا آیتِ کریمہ کے پہلے حصہ میں خالق اور دوسرے حصے میں خلق کی بات کی گئی ہے، یعنی پہلے حصے کا تعلق مذہب سے ہے اور دُوسرے کا براہِ راست سائنس اور خاص طور پر علمِ تخلیقیات (cosmology) سے ہے ۔

قرآنی تعلیمات اور سائنسی علوم کی ترغیب

اِسلام کا فلسفۂ زندگی دیگر اَدیانِ باطلہ کی طرح ہرگز یہ نہیں کہ چند مفروضوں پر عقائد و نظریات کی بنیادیں اُٹھا کر اِنسان کی ذِہنی صلاحیتوں کو بوجھل اور  بے معنی فلسفیانہ مُوشگافیوں کی نذر کر دِیا جائے اور حقیقت کی تلاش کے سفر میں اِنسان کو  اِس طرح ذِہنی اُلجھاؤ  میں گرفتار کر دِیا جائے کہ اُس کی تمام تر  تخلیقی صلاحیتیں مفلوج  ہو کر رہ جائیں۔ اِسلام نے کسی مرحلہ پر بھی اِنتہاء پسندی کی حوصلہ اَفزائی نہیں کی، بلکہ اِس کے برعکس اِسلام کی فطری تعلیمات نے ہمیشہ ذہنِ اِنسانی میں شعور و آگہی کے اَن گنت چراغ روشن کرکے اُسے خیر و شر میں تمیز کا ہنر بخشا ہے ۔  اِسلام نے اپنے پیروکاروں کو سائنسی علوم کے حصول کا درس دیتے ہوئے ہمیشہ اِعتدال کی راہ دِکھائی ہے۔ اِسلام نے  اِس کارخانۂ قدرت میں اِنسانی فطرت اور نفسیات کے مطابق اِنسان کو اَحکامات اور ضابطوں کا ایک پورا نظام دِیا ہے اور اُس کے ظاہر و باطن کے تضادات کو مٹا کر اُسے اپنے نصبُ العین کی سچائی کا شعور عطا کیا ہے۔

تاریخِ علوم کا مطالعہ کریں تو یہ حقیقت اپنی جملہ توانائیوں کے ساتھ ہمارے ذِہن پر روشن اور واضح ہوتی ہے کہ آفاق (universe) اور اَنفس (human life) کی رہگزر فکر و نظر کے اَن گنت چراغوں سے منوّر ہے۔ غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔  مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذرِیعہ سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اورسائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی۔

یہاں ہم قرآنِ مجید کی چندایسی آیاتِ کریمہ پیش کر رہے ہیں جن کے مطالعہ سے قرونِ اُولیٰ کے مسلمان سائنسدانوں کو سائنسی تحقیقات کی طرف ترغیب ملی اور اُس کے نتیجے میں بنی نوعِ اِنسان نے تجرّبی توثیق کو حقیقت تک رسائی کی کسوٹی قرار دے کر تحقیق و جستجو کے نئے باب روشن کئے۔

آیاتِ ترغیبِ علم

إِنَّمَا يَخْشَی اللَّہ مِنْ عِبَادِہ الْعُلَمَاء (فاطر، 35:28) اللہ سے تو اُس کے بندوں میں سے علم والے ہی ڈرتے ہیں (جو صاحبِ بصیرت ہیں)۔

قُلْ ہلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ  لاَ يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُوْلُوا الْأَلْبَابِ

(الزمر، 39:9) آپ فرما دیجئے کہ علم والے اور بے علم کہیں برابر ہوتے ہیں! تحقیق سوچتے وُہی ہیں جو صاحبِ عقل ہیں

وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ

(المجادلۃ، 58:11) اور جنہیں علم عطا کیا گیا ہے (اﷲ) اُن لوگوں کے درجے بلند کرے گا۔

وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاہلِينَ

(الاعراف،7:199) اور جاہلوں سے کنارہ کشی اِختیار کر لیں  

وَمَا يَذَّكَّرُ إِلاَّ أُوْلُواْ الألْبَابِ

(آل عمران، 3:7) اور نصیحت صرف اہلِ دانش ہی کو نصیب ہوتی ہے

وَ قُل رَّبِّ زِدنِی عِلماً 

(طہٰ، 20:114) اور آپ (ربّ کے حضور یہ) عرض کریں کہ اَے میرے رب! مجھے علم میں اور بڑھا دے  

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ

(العلق، 96:1) (اے حبیب!) اپنے ربّ کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا

فَاسْأَلُواْ أَہلَ الذِّكْرِ إِن كُنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ

(النحل، 16:43) سو تم اہلِ ذِکر سے پوچھ لیا کرو اگر تمہیں خود (کچھ) معلوم نہ ہو   

کتاب کا نام :   اسلام اور جدید سائنس

تحریر :   ڈاکٹر پروفیسر طاہرالقادری

 

 


source : http://www.tebyan.net/index.aspx?pid=86009
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

توبہ کرنے والوں کے واقعات
خیر و فضیلت کی طرف میلان
قرآن دہشت گردی کی تعلیم نہیں دیتا
اذان میں أشھد أن علیًّا ولی اللّہ
کلمہ ٴ ”مو لیٰ“ کے معنی کے متعلق بحث
نھج البلاغہ خطبہ ۱(خلقت انسان)
ہماری زندگی میں صبر اور شکر کی اہمیت
۹ ربیع الاول امام زمانہ(ع) کی امامت کا یوم آغاز
امام جعفر صادق علیہ السلام کی فرمائشات
ماہ رمضان کی فضیلت

 
user comment