جواب: ایک انسانی رہبر کو زندگی کی تلخیوں کو چکھنا ، پریشانیوں کو ذاتی طور پر لمس کرنا ، اور اپنے سارے وجود کے ساتھ تلخیوں کا احساس کرنا چاہئیے، تاکہ معاشرے کے محروم طبقات کی صحیح طور پر قدر کرسکے، اور ایسے لوگوں کے حالات سے جو مصائب و آلام میں مبتلا ہیں باخبر ہو سکے۔ نہ صرف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بلکہ شاید تمام انبیاء مصائب اور محرومیوں کے پرور دہ تھے ، اور نہ صرف انبیاء بلکہ تمام سچے اور موفق رہبر ایسے ہی ہوئے ہیں اور انہیں ایسا ہی ہونا چاہیئے۔
پھر بچپن میں ہی باپ ( کی شفقت ) سے محروم ہوجائے، تاکہ اپنے یتیم بچوں کو مصیبت سے باخبرکرے، دن اس کے بھوک میں گزریں اور راتوں کو بھوکا سوئے تاکہ بھوکوں کو درد اور تکلیف کو اپنے سارے وجود کے ساتھ محسوس کرے۔
یہی وجہ ہے کہ جب آپ کسی یتیم کو دیکھتے تھے تو آپ کی آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جاتے تھے ۔ اسے اپنی گود میں بٹھاتے تھے، اس سے نوازش وشفقت کرتے تھے ، اور جان شریں کی طرح اپنی آغوش میں لے لیتے تھے۔
اورپھر اس نے معاشرے کے تمدن میں فقر کو اچھی طرح سے درک کیاہو، تاکہ جو لوگ علم و دانش کے حصول کے لئے اس کی خد مت میں آئیں ان کا احترام کرے، اور کھلی آغوش کے ساتھ ان کی پذیرائی کرے۔
جس شخص نے ناز و نعمت کے درمیان پرورش پائی ہو، شان و شوکت والے محلوں میں زندگی بسر کی ہو ، اس نے جب بھی کوئی خواہش کی ہو وہ پوری ہو گئی ہو، وہ محروم لوگوں کے درد و تکلیف کو کس طرح سے درک کرسکتا ہے، اور فقراء و مساکین کے کاشانوں اور یتیموں کے گھروں کا منظر اس کی نظروں میں کیسے مجسم ہو سکتا ہے اور وہ ان کی کمک اور مدد کے لئے بے تابی کے ساتھ کیسے آگے بڑھ سکتا ہے؟!
source : http://urdu.makarem.ir/maaref/?qid=2277&gro=2429